UrduPoint:
2025-11-11@18:34:48 GMT

ایران نے تین یورپی ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا

اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT

ایران نے تین یورپی ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا

لبنان: حسن نصراللہ کی پہلی برسی، حزب اللہ کا اجتماع اور تناؤ میں اضافہ ایران نے تین یورپی ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا لبنان: حسن نصراللہ کی پہلی برسی، حزب اللہ کا اجتماع اور تناؤ میں اضافہ

لبنانی تنظیم حزب اللہ آج ستائیس ستمبر بروز ہفتہ اپنے سابق سربراہ حسن نصراللہ کی پہلی برسی منا رہی ہے، جنہیں 27 ستمبر 2024 کو ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

یہ وہ حملہ تھا، جس نے ایک ایسی جنگ کو جنم دیا، جس میں حزب اللہ کو شدید نقصان پہنچا اور لبنان کے بڑے حصے کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔

حسن نصراللہ تین دہائیوں سے زائد عرصے تک اس ایران نواز تنظیم کے روح رواں رہے تھے۔ ان کے بعد ان کے جانشین ہاشم صفی الدین بھی چند ہفتوں بعد ہلاک ہو گئے جبکہ دسمبر تک شام میں حزب اللہ کے حلیف بشار الاسد کی حکومت بھی گر گئی تھی۔

(جاری ہے)

اب حزب اللہ پر ہتھیار ڈالنے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں، تاہم اس تنظیم نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔

حسن نصراللہ 1992 میں محض 35 برس کی عمر میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بنے تھے۔ وہ 2000 میں اسرائیلی فوج کے انخلا اور 2006 کی 34 روزہ جنگ کے بعد ’’الہامی فتح‘‘ کے اعلان کے ساتھ عرب دنیا میں مقبول ہو گئے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حزب اللہ لبنان کی سب سے طاقتور سیاسی اور عسکری قوت اور ایران کے ’’محورِ مزاحمت‘‘ کا مرکزی حصہ بن گئی تھی۔

سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں حماس کے حملے کے بعد حزب اللہ نے بھی اسرائیل پر گولہ باری شروع کر دی تھی، جس کے نتیجے میں تقریباً ایک سال تک مسلح جھڑپیں جاری رہیں۔ اسرائیل نے پھر بڑے پیمانے پر فضائی اور زمینی کارروائی کی، جس میں چار ہزار سے زائد افراد مارے گئے، جن میں 300 سے زیادہ بچے بھی شامل تھے۔

حسن نصراللہ کی تدفین طویل عرصے تک ممکن نہ ہو سکی تھی، تاہم اب ان کی قبر پر بڑی تعداد میں ان کے پیروکار دعا کے لیے آتے ہیں۔

ہفتے کو بیروت کے جنوبی مضافات، جنوبی لبنان اور ملک کے مشرقی حصوں میں اجتماعات منعقد ہو رہے ہیں، جہاں حاضرین سے حزب اللہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل نعیم قاسم خطاب کریں گے۔

اس برسی سے قبل لبنان میں سیاسی تناؤ میں اضافہ ہو گیا ہے، خاص طور پر اس وقت جب حزب اللہ نے بیروت کے ساحل پر واقع مشہور چٹانوں پر نصراللہ اور صفی الدین کی تصاویر آویزاں کیں، حالانکہ لبنانی وزیر اعظم نواز سلام اور بیروت کے گورنر نے اس عمل کی اجازت نہیں دی تھی۔

حزب اللہ کے مخالفین نے اس تنظیم کے اس اقدام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔


ایران نے تین یورپی ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا

ایران نے اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ نافذ کرنے کے فیصلے پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں تعینات اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ نے خبر رساں ایجنسی اسنا کے ذریعے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ان تینوں یورپی ممالک، جنہیں اجتماعی طور پر ای تھری کہا جاتا ہے، کے ’’غیر ذمہ دارانہ فیصلے‘‘ کے بعد برلن، پیرس اور لندن میں موجود ایرانی سفیروں کو مشاورت کے لیے تہران طلب کر لیا گیا ہے۔

ای تھری کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو دوبارہ فعال کرنے کا فیصلہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام سے متعلق سفارتی کوششوں کی ناکامی کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یورپی ممالک کا بنیادی مطالبہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کی جانب سے نگرانی کی اجازت دینا تھا، جسے ایران نے مسترد کر دیا تھا۔

رواں ہفتے ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سےخطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کا جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان کا یہ بیان بدھ کے روز ایک ایسے وقت پر سامنے آیا تھا، جب تہران کے جوہری پروگرام پر خدشات کے باعث ایران پر بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کیے جانے کا امکان تھا۔

انہوں نے کہا، ’’میں اس باوقار اسمبلی کے روبرو ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں کہ ایران نے کبھی جوہری بم بنانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ایسا کرے گا۔

ہم جوہری ہتھیار نہیں چاہتے۔‘‘

یاد رہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے 28 اگست کو اقوام متحدہ کی پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے لیے 30 روزہ عمل کا آغاز کیا تھا، جو 27 ستمبر کو مکمل ہو رہا ہے۔ ان یورپی طاقتوں کا موقف ہے کہ ایران 2015 کے اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جس کا مقصد تہران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔
ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کی حسن نصراللہ کی یورپی ممالک حزب اللہ کے ایران نے کے بعد

پڑھیں:

یورپی علمی اداروں میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ میں اضافہ، اسرائیلی محققین دباؤ کا شکار

الیزابت بومیہ کی رپورٹ کے مطابق، بیلجیم، نیدرلینڈز، اسپین اور اٹلی کی جامعات اسرائیلی علمی اداروں کے بائیکاٹ کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ ان اداروں نے باضابطہ طور پر اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر خاموشی اب ناقابلِ قبول ہے۔  اسلام ٹائمز۔ امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز نے صحافی الیزابت بومیہ کی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں تئیس (23) اسرائیلی محققین کو ایک یورپی سائنسی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، تاہم بعد میں اُن سے کہا گیا کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ شناخت ظاہر نہ کریں۔ رپورٹ کے مطابق اس اقدام نے گی دی استیبل جو اسرائیلی آثارِ قدیمہ کونسل کے سربراہ ہیں، انہیں سخت برہم کر دیا۔ انہوں نے اس طرزِ عمل کو یورپی ضمیر کی تطہیر (European moral whitewashing) قرار دیا۔ اگرچہ کانفرنس کی منتظم انجمن نے بعد میں اپنے فیصلے سے پسپائی اختیار کر لی۔ تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں غزہ جنگ کے بعد یورپی یونیورسٹیوں کے رویّے میں اسرائیل کے بارے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ الیزابت بومیہ کی رپورٹ کے مطابق، بیلجیم، نیدرلینڈز، اسپین اور اٹلی کی جامعات اسرائیلی علمی اداروں کے بائیکاٹ کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ ان اداروں نے باضابطہ طور پر اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر خاموشی اب ناقابلِ قبول ہے۔ 

اس کے باوجود بعض یورپی جامعات اب بھی آزاد اسرائیلی محققین سے محدود سطح پر روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی محققین ان پابندیوں کو اسرائیل کی علمی حیثیت کو غیر معتبر بنانے کا حربہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیاں حکومت سے آزاد ہیں، اور ان کے بہت سے اساتذہ نے غزہ میں نتن یاہو کی فوجی پالیسیوں پر کھل کر تنقید بھی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اب تک تقریباً پچاس (50) یورپی یونیورسٹیوں نے اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات مکمل یا جزوی طور پر منقطع کر دیے ہیں، جبکہ اسرائیلی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ہزار سے زائد علمی پابندیوں جن میں تبادلۂ پروگراموں کی منسوخی اور وظائف کی معطلی شامل ہے، ان کا اندراج کیا جا چکا ہے۔ امریکہ میں، یورپ کے برعکس، ابھی تک ایسے ادارہ جاتی بائیکاٹ نہیں دیکھے گئے۔ تاہم 2024 میں وہاں غزہ جنگ کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجات دیکھنے میں آئے۔ دوسری جانب، ٹرمپ انتظامیہ کے تحت یہود مخالف رویّے کے الزامات کے خلاف سخت پالیسیوں نے کئی امریکی یونیورسٹیوں کو اسرائیل پر براہِ راست تنقید سے اجتناب پر مجبور کیا۔ اسرائیلی یونیورسٹی بن گوریون کے صدر نے ان اقدامات کو دردناک اور اجتماعی سزا کی ایک شکل قرار دیا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا، چین، ترکیے، برطانیہ، یورپی یونین اور قطر کی اسلام آباد میں دھماکےکی مذمت
  • ایران کے جوہری پروگرام پر خطرناک تعطل، اسرائیل کو خدشات
  • مغربی ایشیاء کو درپیش صیہونی خطرات پر حزب‌ الله کا انتباہ
  • مغربی ایشیا میں مذموم اسرائیلی منصوبوں کے بارے حزب اللہ کا انتباہ
  • ہم نے ایران کے میزائل اور جوہری خطرے کا خاتمہ کر دیا ہے، نیتن یاہو کا دعوی
  • ہم نے جوہری توانائی کیلئے جدوجہد کی، ہم اس سے دستبردار نہیں ہونگے، سید عباس عراقچی
  • یورپی علمی اداروں میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ میں اضافہ، اسرائیلی محققین دباؤ کا شکار
  • پی ٹی آئی کا اپنے 2 سینیٹرز سے رابطہ منقطع
  • ایران کی پاکستان اور افغانستان کے درمیاں ثالثی کی پیشکش
  • مجوزہ آئینی ترمیم میں وزیراعظم کو استثنیٰ فی الفور واپس لیا جائے، شہباز شریف کی اپنے سینیٹرز کو ہدایت