الیزابت بومیہ کی رپورٹ کے مطابق، بیلجیم، نیدرلینڈز، اسپین اور اٹلی کی جامعات اسرائیلی علمی اداروں کے بائیکاٹ کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ ان اداروں نے باضابطہ طور پر اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر خاموشی اب ناقابلِ قبول ہے۔  اسلام ٹائمز۔ امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز نے صحافی الیزابت بومیہ کی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں تئیس (23) اسرائیلی محققین کو ایک یورپی سائنسی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، تاہم بعد میں اُن سے کہا گیا کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ شناخت ظاہر نہ کریں۔ رپورٹ کے مطابق اس اقدام نے گی دی استیبل جو اسرائیلی آثارِ قدیمہ کونسل کے سربراہ ہیں، انہیں سخت برہم کر دیا۔ انہوں نے اس طرزِ عمل کو یورپی ضمیر کی تطہیر (European moral whitewashing) قرار دیا۔ اگرچہ کانفرنس کی منتظم انجمن نے بعد میں اپنے فیصلے سے پسپائی اختیار کر لی۔ تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں غزہ جنگ کے بعد یورپی یونیورسٹیوں کے رویّے میں اسرائیل کے بارے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ الیزابت بومیہ کی رپورٹ کے مطابق، بیلجیم، نیدرلینڈز، اسپین اور اٹلی کی جامعات اسرائیلی علمی اداروں کے بائیکاٹ کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ ان اداروں نے باضابطہ طور پر اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر خاموشی اب ناقابلِ قبول ہے۔ 

اس کے باوجود بعض یورپی جامعات اب بھی آزاد اسرائیلی محققین سے محدود سطح پر روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی محققین ان پابندیوں کو اسرائیل کی علمی حیثیت کو غیر معتبر بنانے کا حربہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیاں حکومت سے آزاد ہیں، اور ان کے بہت سے اساتذہ نے غزہ میں نتن یاہو کی فوجی پالیسیوں پر کھل کر تنقید بھی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اب تک تقریباً پچاس (50) یورپی یونیورسٹیوں نے اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات مکمل یا جزوی طور پر منقطع کر دیے ہیں، جبکہ اسرائیلی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ہزار سے زائد علمی پابندیوں جن میں تبادلۂ پروگراموں کی منسوخی اور وظائف کی معطلی شامل ہے، ان کا اندراج کیا جا چکا ہے۔ امریکہ میں، یورپ کے برعکس، ابھی تک ایسے ادارہ جاتی بائیکاٹ نہیں دیکھے گئے۔ تاہم 2024 میں وہاں غزہ جنگ کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجات دیکھنے میں آئے۔ دوسری جانب، ٹرمپ انتظامیہ کے تحت یہود مخالف رویّے کے الزامات کے خلاف سخت پالیسیوں نے کئی امریکی یونیورسٹیوں کو اسرائیل پر براہِ راست تنقید سے اجتناب پر مجبور کیا۔ اسرائیلی یونیورسٹی بن گوریون کے صدر نے ان اقدامات کو دردناک اور اجتماعی سزا کی ایک شکل قرار دیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسرائیلی محققین رپورٹ کے مطابق میں اسرائیل اداروں کے

پڑھیں:

ترکیہ نے نیتن یاہو سمیت 37 اسرائیلی عہدیداروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انقرہ: ترکیہ نے فلسطینی عوام پر جاری اسرائیلی مظالم کے خلاف تاریخ ساز اقدام اٹھاتے ہوئے اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو، وزیر دفاع یوآف گیلنٹ، نیشنل سیکورٹی کے وزیر ایتمار بین گوویر اور دیگر سینتیس اعلیٰ اسرائیلی عہدیداروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کردیے ہیں۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق یہ اقدام استنبول کے چیف پراسیکیوٹر کے دفتر کی جانب سے کیا گیا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ان افراد نے غزہ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

الجزیرہ کے مطابق پراسیکیوٹر کے دفتر سے جاری بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت اور فوج نے اکتوبر 2023 سے غزہ میں وحشیانہ بمباری کے ذریعے ہزاروں بے گناہ شہریوں کو شہید کیا، جن میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ بیان میں 6 سالہ بچی ہند رجب کی شہادت کا خصوصی ذکر کیا گیا، جسے اسرائیلی فضائی حملوں کے دوران نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے اسپتالوں، اسکولوں اور دیگر شہری انفرا اسٹرکچر کو بھی منظم طور پر تباہ کیا۔

ترک استغاثہ نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ اسرائیل نے 2010 میں ’’گلوبل صمود فلوٹیلا‘‘ پر حملہ کرکے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی تھی، جو غزہ کے محصور عوام تک امداد پہنچانے کی ایک انسانی کوشش تھی۔ پراسیکیوٹر کے مطابق اسرائیل کے ان اقدامات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف فلسطینیوں بلکہ بین الاقوامی انسانی ضابطوں کے بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے۔

یہ وارنٹ گرفتاری ایسے وقت میں جاری کیے گئے ہیں جب عالمی عدالت انصاف کے نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے کا ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ ترکیہ کی عدالت نے اپنے فیصلے میں اس امر پر زور دیا کہ اسرائیلی قیادت کو بین الاقوامی انصاف کے کٹہرے میں لانا وقت کی ضرورت ہے، تاکہ فلسطین میں جاری ظلم و بربریت کا خاتمہ ممکن ہو۔

واضح رہے کہ ترکیہ گزشتہ ایک سال سے اسرائیل کے خلاف سب سے مؤثر اور جرات مندانہ آواز کے طور پر ابھرا ہے۔ ترک حکومت نے نہ صرف اسرائیل کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات اور سفارتی روابط منقطع کیے بلکہ عالمی سطح پر فلسطین کے حق میں مسلسل مہم جاری رکھی ہے۔ یہ عدالتی فیصلہ ترکیہ کے اس غیر متزلزل مؤقف کا تسلسل ہے کہ دنیا کو غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف متحد ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھارت سے ہتھیاروں کا معاہدہ
  • آئر لینڈ فٹبال ایسوسی ایشن نے اسرائیلی ٹیم پر پابندی کی قرارداد منظور کرلی
  • غزہ پر حملے کی قانونی حیثیت کیا ہے، اسرائیلی فوج کے وکلا سر پکڑ کے بیٹھ گئے
  • آئرلینڈ فٹبال ایسوسی ایشن کی اسرائیلی فٹبال ٹیم پر پابندی کی قرارداد منظور
  • غزہ نسلی کشی، ترکیہ نے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے
  • ایک اور یرغمالی کی لاش اسرائیل کے حوالے،صہیونی فوج کو غزہ میں تمام سرنگیں فوری تباہ کرنے کا حکم
  • غزہ نسل کشی: ترکیہ نے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے
  • اسرائیل نے امریکی عوام میں اعتماد بحال کرنے کیلئے لاکھوں ڈالرز خرچ کر ڈالے
  • ترکیہ نے نیتن یاہو سمیت 37 اسرائیلی عہدیداروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے