ایران اور روس کے درمیان 25 ارب ڈالر کا ایٹمی بجلی گھروں کا معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
ایران اور روس نے توانائی کے شعبے میں بڑی شراکت داری کرتے ہوئے 25 ارب ڈالر مالیت کے ایک اہم معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے تحت ایران میں چار نئے ایٹمی بجلی گھر تعمیر کیے جائیں گے۔
یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران پر اقوام متحدہ کی ممکنہ پابندیوں کی بحالی کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
معاہدے کی تفصیلات
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق، معاہدہ ایران کی توانائی کمپنی “ہرمز” اور روس کی ریاستی جوہری توانائی کارپوریشن “روساٹم” کے درمیان طے پایا ہے۔ یہ نئے ایٹمی پلانٹس ایران کے سیریک اور ہرمزگان کے علاقوں میں تعمیر کیے جائیں گے، اور ہر ایک کی پیداواری گنجائش 1,255 میگاواٹ ہو گی۔
فی الحال ایران کے پاس صرف ایک فعال ایٹمی بجلی گھر موجود ہے، جو بوشہر میں واقع ہے اور صرف 1,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے — جو کہ ملک کی توانائی کی مجموعی ضروریات کا ایک معمولی حصہ ہے۔
منصوبے کی ٹائم لائن اور تناظر
معاہدے میں فی الحال ان بجلی گھروں کی تعمیر کی مدت یا تکمیل کی تاریخ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ البتہ یہ پیش رفت ایک حساس وقت پر ہوئی ہے، کیونکہ مغربی ممالک — خاص طور پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی — کا کہنا ہے کہ ایران 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) کی شرائط پر عمل نہیں کر رہا۔
ان ممالک نے گزشتہ ماہ ایران پر دوبارہ پابندیاں نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا، جن میں سے کچھ پابندیاں آئندہ چند دنوں میں نافذ العمل ہو سکتی ہیں۔
مغربی خدشات، ایرانی مؤقف
مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر ایٹم بم بنانے کی خفیہ کوششوں کا الزام عائد کرتے رہے ہیں، تاہم ایران ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتا آیا ہے اور اپنے ایٹمی پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے ضروری قرار دیتا ہے۔
ایران کا مؤقف ہے کہ وہ توانائی بحران سے نمٹنے اور صنعتی ترقی کے لیے جوہری توانائی کو ایک اہم ذریعہ سمجھتا ہے، اور یہ معاہدہ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
امریکا کی علیحدگی اور حالیہ کشیدگی
یاد رہے کہ امریکا نے 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی تھی، جس کے بعد ایران نے بھی مرحلہ وار اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا تھا۔
2025 کے وسط میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدہ صورت حال کے نتیجے میں ایک 12 روزہ جنگ بھی چھڑ چکی ہے، جس میں امریکا نے بھی کچھ وقت کے لیے شمولیت اختیار کی، اور اس دوران تہران اور واشنگٹن کے درمیان جاری مذاکرات بھی معطل ہو گئے۔ اس سے قبل 1993 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت بوشہر ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر ممکن ہوئی تھی، جو اب ملک کا واحد فعال ایٹمی پلانٹ ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایٹمی بجلی کے درمیان
پڑھیں:
بجلی کے شعبہ کے 1225 ارب روپے گردشی قرضہ کاحل بڑی پیش رفت ہے، حکومت مالی استحکام اور توانائی کے شعبے کی اصلاحات کے درمیان توازن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وفاقی وزیرخزانہ محمداورنگزیب
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 ستمبر2025ء) وفاقی وزیرخزانہ ومحصولات سینیٹرمحمداورنگزیب نے کہاہے کہ بجلی کے شعبہ کے 1225 ارب روپے گردشی قرضہ کاحل مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانے اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے توانائی شعبے کے دیرینہ ترین مسائل میں سے ایک کے حل میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ جمعرات کویہاں جاری بیان میں وزارتِ خزانہ نے 1225 ارب روپے کے گردشی قرضہ کے کامیاب حل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم کی ٹاسک فورس برائے پاور کی تاریخی مشترکہ کاوش کے ذریعے اور وزارتِ توانائی، سٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان بینکس ایسوسی ایشن اور 18 شراکتی بینکوں کے تعاون سے اسے ممکن بنایا گیا۔ اس تاریخی ری سٹرکچرنگ سے پاکستان میں توانائی کے شعبے کے دیرینہ ترین مسائل میں سے ایک کے حل میں ایک بڑی پیش رفت کی نمائندگی وعکاسی ہورہی ہے۔(جاری ہے)
بیان میں کہاگیاہے کہ اس کامیابی سے توانائی کے شعبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے یکجا ہونے والے اداروں کے باہمی مربوط اندازمیں کام کرنے اور ٹیم ورک کی طاقت کی عکاسی بھی ہورہی ہے ۔ اس کوشش کی قیادت وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری کی سربراہی میں وزیرِ اعظم کی ٹاسک فورس نے کی جسے وزیرِ خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی ، نیشنل کوآرڈینیٹر لیفٹیننٹ جنرل محمد ظفر اقبال، گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد، سیکرٹری خزانہ امداداللہ بوسال اور ٹاسک فورس کے تمام مخلص اراکین کی بھرپور حمایت حاصل رہی جبکہ پی بی اے اور 18 بینکوں نے مضبوط ومربوط تعاون فراہم کیا۔
بیان میں کہاگیاہے کہ یہ تاریخی ری سٹرکچرنگ موثر اشتراکِ عمل کے ذریعے ممکن ہوئی جہاں ٹاسک فورس اور سرکاری اداروں نے پالیسی قیادت ورہنمائی اور عملدرآمد فراہم کیا جبکہ بینکاری کے شعبے نے پی بی اے کے ذریعے اور سٹیٹ بینک کی فعال معاونت کے ساتھ، توانائی کے شعبے کے مستقبل پر اعتماد کے تحت مالی تعاون کو منظم اور متحرک کیا۔ بیان کے مطابق بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو واجب الادا ادائیگیاں کرنے کیلئے معاہدے میں 660 ارب روپے کے موجودہ قرضوں کی ری سٹرکچرنگ اور 565 ارب روپے کی نئی فنانسنگ شامل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس قرض کے حل سے صارفین پر کوئی نیا بوجھ نہیں ڈالا گیاکیونکہ ادائیگی پہلے سے عائد کردہ فی یونٹ 3.23 روپے سرچارج کے ذریعے کی جائے گی۔ اس ڈھانچے کے تحت 660 ارب روپے کی ساورن گارنٹی دی جائے گی جس سے زرعی شعبے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، رہائش، تعلیم اور صحت کے شعبوں کی جانب کیش کو منتقل کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے تاریخی پیش رفت پراپنے تبصرے میں کہاہے کہ یہ تاریخی حل مالی نظم و ضبط کی بحالی، سرمایہ کاروں کے اعتماد اور توانائی کے شعبے کی پائیداری کی جانب ایک فیصلہ کن قدم ہے۔ وزیرِ خزانہ نے کہا کہ یہ سنگِ میل اجتماعی قیادت اور موثر ٹیم ورک کی ایک مثال ہےجس کی بنیاد تکنیکی مہارت، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور عوامی و نجی تعاون پر رکھی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کامیابی اس بات کی نظیر قائم کرتی ہے کہ پاکستان کے ڈھانچہ جاتی مسائل کو جدت، اتحاد اور عزم کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ کامیابی توانائی شعبہ کے دیرینہ رکاوٹوں کو حل کرنے کے حکومت کے غیر متزلزل عزم کی عکاسی کرتی ہے حکومت مالی استحکام اور توانائی کے شعبے کی اصلاحات کے درمیان توازن قائم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس انتظام کے ذریعے 660 ارب روپے کے ساورن گارنٹی ترجیحی شعبوں زراعت ، رہائش، تعلیم اور صحت جیسے ترجیحی شعبوں میں انتہائی مطلوبہ لیکویڈٹی کے بہاؤ کو یقینی بنائے گی۔\932