WE News:
2025-11-17@05:54:10 GMT

کیا یکم جنوری سے پاکستان کے کرنسی نوٹ تبدیل ہورہے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, November 2025 GMT

اسٹیٹ بینک آف پاکستان دنیا کے دیگر مرکزی بینکوں کی طرح جدید سیکیورٹی فیچرز کے ساتھ کرنسی نوٹوں کی ایک نئی سیریز متعارف کرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس کا اظہار گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کچھ عرصہ قبل میڈیا سے بات چیت میں کیا تھا۔

اس کے بعد اسٹیٹ بینک نے نئے ڈیزائنز کے لیے ایک مقابلے کا انعقاد بھی کیا تھا جس میں 10 روپے سے لے کر 5 ہزار روپے تک کے نئے نوٹوں کے 10 ڈیزائنز کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: نئے کرنسی نوٹ کب جاری ہوں گے؟ گورنر اسٹیٹ بینک نے بتا دیا

شارٹ لسٹ کیے گئے ڈیزائنز میں 20، 50، 100، اور ایک ہزار روپے کے نوٹ کا ایک ایک ڈیزائن شامل تھا، جبکہ 10، 500، اور 5 ہزار روپے کے نوٹوں کے 2،2 ڈیزائن شامل تھے۔

اس حوالے سے ملنے والی مزید معلومات کے مطابق شارٹ لسٹ کیے گئے ڈیزائنز کو مزید حتمی شکل دینے کے لیے بین الاقوامی ڈیزائنرز کے پاس بھیجا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی کمپنیاں رواں سال دسمبر تک اپنے نئے بینک نوٹوں کے ڈیزائن پیش کریں گی، ان ڈیزائنز کو پہلے اسٹیٹ بینک بورڈ کی منظوری ملے گی اور پھر آئندہ سال جنوری تک وفاقی حکومت کی حتمی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

حکومت کی منظوری کے بعد نئے بینک نوٹوں کی نئی سیریز کی چھپائی کا عمل شروع ہوگا۔ اب تک ان ڈیزائنوں کو حتمی شکل دینے کا عمل جاری ہے اور نئے کرنسی نوٹوں کی سیریز کی حتمی اشاعت میں ابھی وقت لگے گا۔

’کرنسی نوٹوں کی تبدیلی سے قبل عوام کو آگاہ کیا جائےگا‘

اس حوالے سے سینیئر صحافی تنویر ملک نے ’وی نیوز‘ کو بتایا کہ نئے کرنسی نوٹوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک بحث چل رہی ہے اس کی وجہ اسٹیٹ بنک کے گورنر جمیل احمد کا وہ بیان ہے جو انہوں نے مانیٹری پالیسی پیش کرنے کے دوران دیا تھا جس میں انہوں نے نئے کرنسی نوٹ لانے کی طرف اشارہ دیا تھا۔

’گورنر اسٹیٹ بینک نے یہ قدم اٹھانے کی ایک وجہ یہ بتائی تھی کہ جعلی نوٹوں کی روک تھام ہو سکے گی اور نئے کرنسی نوٹوں میں سیکیوریٹی فیچرز ہوں گے۔‘

تنویر ملک کا کہنا ہے کہ اب تک اس حوالے سے کوئی ڈیولپمنٹ نہیں ہوئی ہے نہ ہی اس کے بعد کوئی وضاحت آئی۔

انہوں نے کہاکہ یہ بہت بڑی ڈیولپمنٹ ہوگی اگر نئے کرنسی نوٹ جاری کیے جاتے ہیں لیکن اس سے قبل عوام کو آگاہ کیا جائے گا کہ وہ پرانے نوٹ بینکوں میں جمع کرائیں۔

کرنسی نوٹوں کو چھاپنے کے مراحل

نئے کرنسی نوٹ چھاپنے کے لیے مرکزی بینک سب سے پہلے یہ اندازہ لگاتا ہے کہ ایک سال میں ملک کو کس مالیت کے کتنے نوٹوں کی ضرورت ہو گی؟ یہ اندازہ عوامی ضروریات میں متوقع اضافہ، بوسیدہ اور پھٹے ہوئے نوٹوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت اور زیرِ گردش کرنسی کے حجم کو مدنظر رکھ کر لگایا جاتا ہے۔

نئے کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے لیے دوسرا اہم مرحلہ ڈیزائن کا انتخاب کرنا ہے اور یہ کام مرکزی بینک کرتا ہے یا بین الاقوامی ماہرین کی خدمات لیتا ہے۔ ڈیزائن میں ملک کی ثقافت، تاریخ اور اہم شخصیات کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

کرنسی نوٹ کی سب سے بڑی حفاظت اس کے سیکیورٹی فیچرز ہوتے ہیں تاکہ جعل سازی کو روکا جا سکے۔ جیسے کہ واٹر مارک کاغذ میں چھپی ہوئی تصویر یا خاکہ جو روشنی کے سامنے لانے پر نظر آتا ہے۔

نوٹ کے اندر دھنسا ہوا ایک خصوصی دھاگہ، سیاہی جو مختلف زاویوں سے دیکھنے پر اپنا رنگ بدلتی ہے۔ ابھری ہوئی چھپائی جسے ہاتھ سے چھو کر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بہت چھوٹے سائز کے الفاظ جو عام آنکھ سے پڑھنا مشکل ہوتے ہیں۔

کرنسی نوٹوں کے لیے ایک خاص قسم کا کاغذ استعمال کیا جاتا ہے جو عام طور پر 100 فیصد کپاس پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ کاغذ عام کاغذ سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتا ہے اور اس میں سیکیورٹی فیچرز جیسے واٹر مارک اور سیکیورٹی تھریڈ پہلے ہی شامل کر دیے جاتے ہیں۔ یہ کاغذ مخصوص اور محفوظ پرنٹنگ پریس میں تیار ہوتا ہے۔

’نوٹوں کی چھپائی ایک یا زیادہ مخصوص سرکاری پرنٹنگ پریس میں ہوتی ہے‘

نوٹوں کی چھپائی ایک یا زیادہ مخصوص سرکاری پرنٹنگ پریس میں ہوتی ہے۔ پاکستان میں سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن نوٹوں کی چھپائی کرتا ہے اور یہ کام انتہائی رازداری سے کیا جاتا ہے تاکہ جعل سازوں سے اسے چھپانا ممکن بنایا جا سکے۔

مزید پڑھیں: 20 روپے مالیت کے نئے کرنسی نوٹ میں قابل اعتراض کیا ہے؟

آفسیٹ پرنٹنگ نوٹ کے بنیادی اور پس منظر کے رنگوں کی چھپائی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ انٹگلیو پرنٹنگ سب سے اہم چھپائی ہے جس سے نوٹ پر موجود تصویر، قائداعظم کی تصویر اور اہم تحریریں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔

یہی وہ عمل ہے جو نوٹ کو ہاتھ سے چھونے پر محسوس ہوتا ہے، سیریل نمبر پرنٹنگ ہر نوٹ کو ایک منفرد سیریل نمبر دیتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسٹیٹ بینک جدید سیکیورٹی فیچر نئے کرنسی نوٹ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسٹیٹ بینک جدید سیکیورٹی فیچر نئے کرنسی نوٹ وی نیوز نئے کرنسی نوٹوں کرنسی نوٹوں کی نئے کرنسی نوٹ اسٹیٹ بینک حوالے سے نوٹوں کے ہوتا ہے جاتا ہے کے لیے کیا جا ہے اور

پڑھیں:

نئی ملوں کا قیام، کاٹن زون میں سرفہرست رحیم یار خان شوگر زون میں تبدیل

کراچی:

کاٹن زونز میں گنے کی کاشت اور نئی شوگر ملوں کے قیام سے متعلق قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے سے ماضی کے سرفہرست رحیم یار خان کا کاٹن زون اب شوگر زون میں تبدیل ہوگیا ہے۔

جہاں پہلے سے قائم شوگر ملز کی بڑھتی ہوئی پیداواری صلاحیت کے ساتھ رحیم یارخان سے ملحقہ سندھ بارڈر پر بھی نئی شوگر ملوں کا قیام تسلسل سے جاری ہے۔

ملک کی شوگر ملوں کی مجموعی میں پیداواری صلاحیت کاتقریبا 40 فیصد پیداوارصرف رحیم یار خان اور اس سے ملحقہ بارڈرمیں قائم شوگر ملوں کا حصہ ہے۔ 

یہ بات چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہی، انہوں نے کہا کہ گنے کی کاشت میں غیر معمولی اضافے سے لاکھوں ملین ایکڑ پانی کے ضیاع اور زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے سے لاکھوں ایکڑزمینیں بھی بنجر ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

احسان الحق نے بتایا کہ چند سال قبل تک عالمی سطح پرکپاس کی پیداوار میں پاکستان چوتھا سرفہرست ملک کے طور پر ہوتا تھا لیکن کراپ زوننگ قوانین پر عمل درآمد کے فقدان سے مقامی کاٹن زونز میں نئی شوگر ملوں کے قیام اور پہلے سے قائم شوگر ملزکی پیداواری صلاحیت میں ریکارڈ اضافے کے رحجان سے گنے کی کاشت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیاہے۔

جس سے پاکستان میں کپاس کی مجموعی پیداور جو سال 2014-15 میں ایک کروڑ 50لاکھ گانٹھوں پر مشتمل تھی، اب سال 2024-25 میں گھٹ کر صرف 55 لاکھ گانٹھ تک محدود ہوگئی ہے،جبکہ گنے کی بڑھتی ہوئی پیداواری سرگرمیوں سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کے باعث کپاس کامعیار بھی متاثر ہوگیاہے۔

جس سے ٹیکسٹائل ملوں کو اپنے برآمدی معاہدوں کی تکمیل کیلیے معیاری روئی کیلیے درآمدات پر انحصار کرناپڑ رہاہے۔

انہوں نے بتایا کہ ضلع رحیم یار خان میں اس وقت 6 شوگر ملز قائم ہیں، جن کی یومیہ پیداواری صلاحیت ایک لاکھ 35ہزار ٹن میٹرک ٹن ہے جو کسی بھی ایک ضلع میں سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت ہے۔

انہوں نے بتایاکہ رحیم یار خان میں پہلے سے قائم دو بڑے شوگر ملوں کے گروپ کوضلع میں مزید شوگر ملز قائم کرنے کی اجازت نہ ملنے پر انہوں نے ملحقہ سندھ پنجاب بارڈر پر 2  نئی شوگر ملز قائم کرلیں، جن کی یومیہ پیداواری صلاحیت باالترتیب 16 ہزار اور 19ہزار ٹن ہے۔

ان عوامل کے باعث رحیم یار خان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں کپاس کی کاشت میں مزید کمی کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • نئی ملوں کا قیام، کاٹن زون میں سرفہرست رحیم یار خان شوگر زون میں تبدیل
  • کراچی، غیرقانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث دو ملزمان گرفتار
  • کراچی، حوالہ ہنڈی وغیرقانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث2 ملزمان گرفتار
  • حکومت قیدی 804کا نمبر تبدیل کر کے 420کر دے، احسن اقبال
  • پاکستان کی پہلی مارکیٹ جہاں نقد رقم کی بجائے ڈیجیٹل کرنسی چلے گی
  • بینکوں کے اثاثے 10 سال میں بڑھے ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک
  • حکومت نے مالیاتی ہدف عبور کرلیا، قرض کی ضرورت کم ہونے کا امکان ہے، گورنر اسٹیٹ بینک
  • حج آپریشنز کیلئے تمام نامزد برانچوں کی ہفتے کی چھٹی بند
  • سرکاری عازمین حج 2026 متوجہ ہوں، حج واجبات کی دوسری قسط جمع کرانے کی آخری تاریخ 15 نومبر ہے