Express News:
2025-07-04@04:02:54 GMT

پی ٹی آئی اور مفاہمت کا سیاسی ایجنڈا

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

پی ٹی آئی بنیادی طورپر اس وقت ایک سیاسی راستے کی تلاش میں ہے تاکہ وہ دوبارہ سرگرم ہوکر اپنی سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کو یقینی بناسکے اور دوسری طرف جیلوں میں قید بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر راہنماؤں کی رہائی کو بھی ممکن بنایا جاسکے۔لیکن فی الحال ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے سیاسی اور قانونی ریلیف کے امکانات محدود ہیں ۔

جولوگ پس پردہ بات چیت کی مدد سے اسٹیبلیشمنٹ،پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت پر مبنی کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے ان کو بھی تاحال ناکامی یا مشکلات کا سامنا ہے۔ جو لوگ پی ٹی آئی کے اندر رہتے ہوئے اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے آگے بڑھنے کی سیاسی حکمت عملی رکھتے ہیں وہ بھی بانی پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف نہیں دلوا سکے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنے اندر اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنے والوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔پارٹی کی سطح پر ایک مضبوط گروپ اسٹیبلیشمنٹ سمیت حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کا حامی ہے اور اس طبقہ کے بقول ہمیں دونوں سطحوں پر مذاکرات کرنے ہوں گے اور دروازہ کسی بھی سطح پر بند نہیں کرنا چاہیے۔جب کہ اس کے برعکس بانی پی ٹی آئی کا موقف یہ ہے کہ مذاکرات اسی سے ہوں گے جو طاقت اور فیصلہ کا اختیار رکھتے ہیں یعنی اسٹیبلیشمنٹ کے سوا کسی اور یا حکومت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ بے اختیار لوگ ہیں ۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے پرانے اور نظریاتی ساتھیوں جو اس وقت جیلوں میں ہیں ان میں مخدوم شاہ محمود قریشی،ڈاکٹر یاسمین راشد،میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ نے ایک خط کی مدد سے حالیہ سیاسی بحران اور پی ٹی آئی کو درپیش مشکلات کے حل میں مذاکرات ہی کے راستے کو واحد سیاسی آپشن قرار دیا ہے اور ان کے بقول مذاکرات کے راستے سے جتنا سیاسی فرار اختیار کیا جائے گا سیاسی بحران کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھے گا۔ان راہنماؤں نے بھی اسی نقطہ پر زور دیا ہے کہ ہمیں سیاسی دروازے بند کرنے کے بجائے اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت دونوں کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر بات چیت یا مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور اس تاثر کی نفی کرنی چاہیے کہ ہم حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کے ان راہنماؤں نے اپنے خط میں یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان کی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقات بھی کروائی جائے تاکہ ہم ان کی مدد سے مذاکرات کا ایک بڑے سیاسی فریم ورک کو حتمی شکل دے سکیں اور وہ خود بھی ان مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کے خواہش مند ہیں۔

ان راہنماؤں کی حکمت عملی بانی پی ٹی آئی کی حکمت عملی یا محض اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات کی سوچ کے برعکس ہے ۔دیکھنا ہوگا کہ بانی پی ٹی آئی اپنے ان اہم راہنماؤں کی حکمت عملی سے کس حد تک متفق ہوتے ہیں اور حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے ان راہنماؤں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ حکومت جو بھی پی ٹی آئی کو سیاسی یا قانونی سطح پر ریلیف ممکن بنائے گی اس میں اول وہ حکومتی شرائط پر مبنی ہوگی اور دوئم ان کو بھی حتمی فیصلہ کرنے سے قبل اسٹیلشمنٹ ہی کی طرف دیکھنا ہوگا۔لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کو حکومت سے اپنی شرائط پر بات چیت ضرور کرنا چاہیے تاکہ اس تاثر کی پی ٹی آئی نفی کرے کہ وہ حکومت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ۔پی ٹی آئی راہنماؤں کو یقینی طور پر بانی پی ٹی آئی کی مشاورت کے ساتھ اپنے مذاکرات اور ان کی اپنی شرائط یا نکات کا فریم ورک بنا کر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں سے بات چیت کرنی چاہیے۔ حکومت کے ساتھ بات چیت فرنٹ لائن اور اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ یقینی طور پر پس پردہ ہوگی۔

سیاست میں سیاسی جماعت اور قیادت کا کام ہی مشکل وقت پر یا دروازوں کے بند ہونے کی صورت میں دروازوں کے کھولنے اور نئے مفاہمت کے امکانات کو پید ا کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے سیاسی لچک پیدا کرنا اور توازن پر مبنی حکمت عملی کی بھی بڑی سیاسی اہمیت ہوتی ہے۔پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سینئر قیادت اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مشاورت کا عمل بند ہے اور اگر واقعی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ مفاہمت چاہتی ہے تو اسے اس بند دروازے کو کھولنا ہوگا۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہوگا کہ مذاکرات اور ڈکٹیشن یا مسلط کردہ ایجنڈے میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے اور اگر دونوں اطراف سے مفاہمت کے لیے کھلے ذہن اور کھلے دل کے ساتھ مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھے گا تو کچھ بھی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ڈکٹیشن ، دباؤ اور ڈرا کر مذاکرات کے مصنوعی عمل سے استحکام کی سیاست کی طرف بڑھا جاسکتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ اسی طرح جب تک ہم ایک جماعت کے سیاسی وجود کو قبول نہیں کریں گے اور اسے طاقت کی بنیاد پر ختم کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کریں گے تو یہ حکمت عملی نہ تو کسی کو ماضی میں کوئی مثبت نتیجہ دے سکی اور نہ ہی آج اورنہ ہی مستقبل میںدے سکے گی۔

اس لیے اگر پی ٹی آئی کی جیل میں موجود قیادت نے اپنے خط کی مدد سے ایک سیاسی راستہ نکالنے کی بات کی ہے تو پی ٹی آئی ،بانی پی ٹی آئی سمیت خود حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو اس پیش کش کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ایک طرف اگر بانی پی ٹی آئی کو اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرنی ہے تو دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرکے تعاون کے امکانات پیدا کرنے ہوں گے۔ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو اسے اس کے لیے یقینی طور پر سازگار حالات بھی پیدا کرکے ماحول میں موجود سیاسی تلخیوں کو کم کرنا ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی سطح پر قیادت جو پارلیمنٹ کے اندر یا پارلیمنٹ سے باہر ہے اس نے اپنی سیاسی حکمت عملیوں میں کافی مایوس کیا ہے اور ان ہی کی داخلی شخصی لڑائیوں کی وجہ سے پارٹی کمزور بھی ہوئی اور تقسیم بھی ۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی سیاست اچھی بھلی عددی تعداد کے باوجود پارلیمانی سیاست میں کوئی بڑے سیاسی دباؤ کی سیاست پیدا نہیں کرسکی۔

ملک کے سیاسی ،سماجی، معاشی، انتظامی، گورننس، دہشت گردی یا سیکیورٹی کے سنگین مسائل کا ہمیں سامنا ہے اس کا ہمیں دیانت داری سے ادراک کرناچاہیے اور ان مسائل کے حل کے لیے سب ہی فریقوں کو سر جوڑ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ مسئلہ کا یہ حل نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف سیاسی لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑیں ۔ہمیں ایک دوسرے کی اہمیت کو قبول کرکے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہے ۔ایسے موقع پر جب داخلی کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کے مسائل بالخصوص بھارت کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کی موجودگی میں ہمیں اپنے داخلی سیاسی اور معاشی استحکام پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

کیونکہ اگر ہم نے اس وقت کی موجودہ صورتحال میں اپنے گھر کے معاملات میںدرستگی نہیں کی اور پہلے سے موجود سیاسی تلخیوں یا سیاسی دشمنیوں کو کم نہیں کیا تو اس کا جہاں نقصان ہمیں داخلی محاذ پر ہوگا وہیں دشمن ہماری داخلی کمزوریوں یا داخلی خلیج،ٹکراؤ اورتقسیم کا فائدہ اٹھا کر ہمیں مختلف حکمت عملیوں ہی کے تحت کمزور کرسکتا ہے یا اپنی جارحیت دکھا سکتا ہے۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کا ریاستی،حکومتی اور سیاسی نظام ماضی کے دائرے کار سے باہر نکل کر موجودہ حقایق کو تسلیم کرکے نئی مضبوط حکمت عملیوں کو اختیار کرے جو ریاست کے مفاد میں ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور اسٹیبلیشمنٹ بانی پی ٹی آئی کی حکمت عملی ان راہنماو ں پی ٹی آئی کی پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی کے کرنا چاہیے مذاکرات کا سے مذاکرات آگے بڑھنے حکومت اور کی مدد سے حکومت سے کا راستہ بات چیت کے ساتھ کے لیے اور ان اور اس ہے اور کو بھی

پڑھیں:

نواز شریف دوبارہ سیاسی مکالمے کے حق میں، عمران خان سے اڈیالہ جا کر ملنے کو بھی تیار، بڑا دعویٰ سامنے آگیا

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف ایک بار پھر ملک میں سیاسی کشیدگی کے خاتمے اور جمہوری عمل کے استحکام کے لیے بین الجماعتی مذاکرات کے حامی نظر آتے ہیں۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف نے حالیہ دنوں میں پارٹی رہنماؤں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے دروازے بند کرنے کے قائل نہیں، اور اگر جمہوریت کو آگے بڑھانا ہے تو تمام سیاسی قوتوں کو ڈائیلاگ کا راستہ اپنانا ہوگا۔

نیوز ویب سائٹ (we  news)کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی سمیت پارٹی کے 5 رہنماؤں نے جیل سے ایک خط لکھا ہے جس میں پی ٹی آئی قیادت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کیے جائیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر بھی حالیہ بیانات میں مذاکرات کی آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔ن لیگی رہنما کے مطابق، نواز شریف کی سوچ یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر آ جائیں تو ریاستی ادارے مداخلت کا جواز تلاش نہیں کر سکیں گے۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ مذاکرات میں کامیابی اس وقت ممکن ہے جب فریقین سخت مؤقف میں لچک دکھائیں۔ اگر عمران خان اس بار سنجیدہ ہیں تو انہیں بھی کچھ سیاسی نرمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور حکومت کی جانب سے بھی مثبت پیش قدمی کی جائے گی۔

’’ڈار ڈپلومیسی‘‘ ۔۔۔خارجہ پالیسی میں  خاموش انقلاب

رہنما کے مطابق نواز شریف اس حد تک مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اڈیالہ جیل جا کر عمران خان سے ملنے کو بھی تیار ہیں جیسا کہ وہ ماضی میں بنی گالہ جا چکے ہیں جب عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔رہنما کا کہنا تھا کہ نواز شریف اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نفرت اور تلخی کی سیاست ملک و قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔ اُن کے نزدیک، ماضی کی طرح آج بھی ’میثاقِ جمہوریت‘ جیسی جامع سیاسی مفاہمت وقت کی اہم ضرورت ہے۔وزیراعظم شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ متعدد بار اپنے بیانات میں مذاکرات کی اہمیت پر زور دے چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر طے کرنا ہوگا کہ ملک کو کس سمت لے کر جانا ہے۔ اگر دشمن ممالک آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں تو پاکستانی جماعتیں کیوں نہیں؟ اسی طرح رانا ثنا اللہ بھی کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ اگر نواز شریف کو عمران خان سے ملنے کے لیے جیل جانا پڑا تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔

وزیرِ اعظم ای سی او سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے آذربائیجان پہنچ گئے

نواز شریف کی اس سوچ کو پارٹی کے اندر مثبت پذیرائی مل رہی ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن مذاکرات کی بحالی کے لیے باضابطہ اقدامات اٹھا سکتی ہے، بشرطیکہ تحریک انصاف کی جانب سے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔نواز شریف کے قریبی ذرائع کے مطابق، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر نفرت کی سیاست جاری رہی تو کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی کا آلہ کار بنتا رہے گا اور اس کا نقصان صرف ایک جماعت کو نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کو ہوگا۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟ علی محمد خان نے بتادیا
  • نواز شریف دوبارہ سیاسی مکالمے کے حق میں، عمران خان سے اڈیالہ جا کر ملنے کو بھی تیار، بڑا دعویٰ سامنے آگیا
  • عمران خان سے لاکھ سیاسی اختلافات لیکن اس کی پارٹی سے بہت زیادتی کی گئی
  • نواز شریف سیاسی مکالمے کے حق میں، عمران خان سے اڈیالہ جا کر ملنے کو تیار
  • خیبر پختونخوا حکومت گرانے کے بارے میں قطعی طور پر غور نہیں ہو رہا، رانا ثناء اللہ
  • مینڈیٹ چھینا گیا، مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا، ہمت ہے خیبر پی کے حکومت کو گرا کر دکھاؤ: پی ٹی آئی
  • کسی کو تحریکِ عدم اعتماد لانے کا شوق ہے تو پورا کر لے: بیرسٹر گوہر
  • پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں کا عمران خان کو مؤقف میں نرمی کا مشورہ، سیاسی مذاکرات پر زور
  • جیل میں بند کسی فرد سے مذاکرات نہیں ہوں گے، رانا ثنااللہ