Express News:
2025-09-17@23:29:28 GMT

پی ٹی آئی اور مفاہمت کا سیاسی ایجنڈا

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

پی ٹی آئی بنیادی طورپر اس وقت ایک سیاسی راستے کی تلاش میں ہے تاکہ وہ دوبارہ سرگرم ہوکر اپنی سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کو یقینی بناسکے اور دوسری طرف جیلوں میں قید بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر راہنماؤں کی رہائی کو بھی ممکن بنایا جاسکے۔لیکن فی الحال ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے سیاسی اور قانونی ریلیف کے امکانات محدود ہیں ۔

جولوگ پس پردہ بات چیت کی مدد سے اسٹیبلیشمنٹ،پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت پر مبنی کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے ان کو بھی تاحال ناکامی یا مشکلات کا سامنا ہے۔ جو لوگ پی ٹی آئی کے اندر رہتے ہوئے اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے آگے بڑھنے کی سیاسی حکمت عملی رکھتے ہیں وہ بھی بانی پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف نہیں دلوا سکے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنے اندر اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنے والوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔پارٹی کی سطح پر ایک مضبوط گروپ اسٹیبلیشمنٹ سمیت حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کا حامی ہے اور اس طبقہ کے بقول ہمیں دونوں سطحوں پر مذاکرات کرنے ہوں گے اور دروازہ کسی بھی سطح پر بند نہیں کرنا چاہیے۔جب کہ اس کے برعکس بانی پی ٹی آئی کا موقف یہ ہے کہ مذاکرات اسی سے ہوں گے جو طاقت اور فیصلہ کا اختیار رکھتے ہیں یعنی اسٹیبلیشمنٹ کے سوا کسی اور یا حکومت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ بے اختیار لوگ ہیں ۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے پرانے اور نظریاتی ساتھیوں جو اس وقت جیلوں میں ہیں ان میں مخدوم شاہ محمود قریشی،ڈاکٹر یاسمین راشد،میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ نے ایک خط کی مدد سے حالیہ سیاسی بحران اور پی ٹی آئی کو درپیش مشکلات کے حل میں مذاکرات ہی کے راستے کو واحد سیاسی آپشن قرار دیا ہے اور ان کے بقول مذاکرات کے راستے سے جتنا سیاسی فرار اختیار کیا جائے گا سیاسی بحران کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھے گا۔ان راہنماؤں نے بھی اسی نقطہ پر زور دیا ہے کہ ہمیں سیاسی دروازے بند کرنے کے بجائے اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت دونوں کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر بات چیت یا مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور اس تاثر کی نفی کرنی چاہیے کہ ہم حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کے ان راہنماؤں نے اپنے خط میں یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان کی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقات بھی کروائی جائے تاکہ ہم ان کی مدد سے مذاکرات کا ایک بڑے سیاسی فریم ورک کو حتمی شکل دے سکیں اور وہ خود بھی ان مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کے خواہش مند ہیں۔

ان راہنماؤں کی حکمت عملی بانی پی ٹی آئی کی حکمت عملی یا محض اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات کی سوچ کے برعکس ہے ۔دیکھنا ہوگا کہ بانی پی ٹی آئی اپنے ان اہم راہنماؤں کی حکمت عملی سے کس حد تک متفق ہوتے ہیں اور حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے ان راہنماؤں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ حکومت جو بھی پی ٹی آئی کو سیاسی یا قانونی سطح پر ریلیف ممکن بنائے گی اس میں اول وہ حکومتی شرائط پر مبنی ہوگی اور دوئم ان کو بھی حتمی فیصلہ کرنے سے قبل اسٹیلشمنٹ ہی کی طرف دیکھنا ہوگا۔لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کو حکومت سے اپنی شرائط پر بات چیت ضرور کرنا چاہیے تاکہ اس تاثر کی پی ٹی آئی نفی کرے کہ وہ حکومت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ۔پی ٹی آئی راہنماؤں کو یقینی طور پر بانی پی ٹی آئی کی مشاورت کے ساتھ اپنے مذاکرات اور ان کی اپنی شرائط یا نکات کا فریم ورک بنا کر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں سے بات چیت کرنی چاہیے۔ حکومت کے ساتھ بات چیت فرنٹ لائن اور اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ یقینی طور پر پس پردہ ہوگی۔

سیاست میں سیاسی جماعت اور قیادت کا کام ہی مشکل وقت پر یا دروازوں کے بند ہونے کی صورت میں دروازوں کے کھولنے اور نئے مفاہمت کے امکانات کو پید ا کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے سیاسی لچک پیدا کرنا اور توازن پر مبنی حکمت عملی کی بھی بڑی سیاسی اہمیت ہوتی ہے۔پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سینئر قیادت اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مشاورت کا عمل بند ہے اور اگر واقعی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ مفاہمت چاہتی ہے تو اسے اس بند دروازے کو کھولنا ہوگا۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہوگا کہ مذاکرات اور ڈکٹیشن یا مسلط کردہ ایجنڈے میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے اور اگر دونوں اطراف سے مفاہمت کے لیے کھلے ذہن اور کھلے دل کے ساتھ مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھے گا تو کچھ بھی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ڈکٹیشن ، دباؤ اور ڈرا کر مذاکرات کے مصنوعی عمل سے استحکام کی سیاست کی طرف بڑھا جاسکتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ اسی طرح جب تک ہم ایک جماعت کے سیاسی وجود کو قبول نہیں کریں گے اور اسے طاقت کی بنیاد پر ختم کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کریں گے تو یہ حکمت عملی نہ تو کسی کو ماضی میں کوئی مثبت نتیجہ دے سکی اور نہ ہی آج اورنہ ہی مستقبل میںدے سکے گی۔

اس لیے اگر پی ٹی آئی کی جیل میں موجود قیادت نے اپنے خط کی مدد سے ایک سیاسی راستہ نکالنے کی بات کی ہے تو پی ٹی آئی ،بانی پی ٹی آئی سمیت خود حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو اس پیش کش کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ایک طرف اگر بانی پی ٹی آئی کو اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرنی ہے تو دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرکے تعاون کے امکانات پیدا کرنے ہوں گے۔ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو اسے اس کے لیے یقینی طور پر سازگار حالات بھی پیدا کرکے ماحول میں موجود سیاسی تلخیوں کو کم کرنا ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی سطح پر قیادت جو پارلیمنٹ کے اندر یا پارلیمنٹ سے باہر ہے اس نے اپنی سیاسی حکمت عملیوں میں کافی مایوس کیا ہے اور ان ہی کی داخلی شخصی لڑائیوں کی وجہ سے پارٹی کمزور بھی ہوئی اور تقسیم بھی ۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی سیاست اچھی بھلی عددی تعداد کے باوجود پارلیمانی سیاست میں کوئی بڑے سیاسی دباؤ کی سیاست پیدا نہیں کرسکی۔

ملک کے سیاسی ،سماجی، معاشی، انتظامی، گورننس، دہشت گردی یا سیکیورٹی کے سنگین مسائل کا ہمیں سامنا ہے اس کا ہمیں دیانت داری سے ادراک کرناچاہیے اور ان مسائل کے حل کے لیے سب ہی فریقوں کو سر جوڑ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ مسئلہ کا یہ حل نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف سیاسی لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑیں ۔ہمیں ایک دوسرے کی اہمیت کو قبول کرکے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہے ۔ایسے موقع پر جب داخلی کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کے مسائل بالخصوص بھارت کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کی موجودگی میں ہمیں اپنے داخلی سیاسی اور معاشی استحکام پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

کیونکہ اگر ہم نے اس وقت کی موجودہ صورتحال میں اپنے گھر کے معاملات میںدرستگی نہیں کی اور پہلے سے موجود سیاسی تلخیوں یا سیاسی دشمنیوں کو کم نہیں کیا تو اس کا جہاں نقصان ہمیں داخلی محاذ پر ہوگا وہیں دشمن ہماری داخلی کمزوریوں یا داخلی خلیج،ٹکراؤ اورتقسیم کا فائدہ اٹھا کر ہمیں مختلف حکمت عملیوں ہی کے تحت کمزور کرسکتا ہے یا اپنی جارحیت دکھا سکتا ہے۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کا ریاستی،حکومتی اور سیاسی نظام ماضی کے دائرے کار سے باہر نکل کر موجودہ حقایق کو تسلیم کرکے نئی مضبوط حکمت عملیوں کو اختیار کرے جو ریاست کے مفاد میں ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور اسٹیبلیشمنٹ بانی پی ٹی آئی کی حکمت عملی ان راہنماو ں پی ٹی آئی کی پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی کے کرنا چاہیے مذاکرات کا سے مذاکرات آگے بڑھنے حکومت اور کی مدد سے حکومت سے کا راستہ بات چیت کے ساتھ کے لیے اور ان اور اس ہے اور کو بھی

پڑھیں:

شنگھائی: صدر زرداری کی موجودگی میں مفاہمت کی 3 یادداشتوں پر دستخط

—تصویر بشکریہ سوشل میڈیا

شنگھائی میں ‎صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے مفاہمت کی 3 یاد داشتوں پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی ہے۔

ان ‎ایم او یوز کا مقصد پاکستان میں زراعت، ماحولیات اور ماس ٹرانزٹ کے شعبوں کی ترقی ہے۔

‎خاتونِ اوّل آصفہ بھٹو زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور سینیٹر سلیم مانڈوی والا بھی تقریب میں شریک ہوئے۔

صدر زرداری کی چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری سے ملاقات

صدر آصف زرداری کی شنگھائی میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کے سیکریٹری چن جینِنگ سے ملاقات ہوئی، ‎خاتونِ اول آصفہ بھٹو زرداری، بلاول بھٹو زرداری، سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور سندھ کے وزرا شرجیل میمن و ناصرحسین شاہ بھی ملاقات میں موجود تھے۔

سندھ کے وزراء شرجیل میمن، ناصر حسین شاہ اور پاکستان کے چین میں سفیر بھی اس موقع پر موجود تھے۔

‎پہلا ایم او یو کنٹرولڈ ایگریکلچر سائنس اینڈ ایجوکیشن پارک، زرعی پیداوار اور خوراک کے تحفظ میں اضافے سے متعلق ہے۔

‎دوسرا ایم او یو کسانوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور تربیت فراہم کرنے کے لیے ووکیشنل انسٹیٹیوٹ سے متعلق ہے جبکہ تیسرا ایم او یو ماحول دوست فاضل مادے کی مینجمنٹ کے فروغ سے متعلق ہے۔

اس موقع پر صدرِ مملکت آصف زرداری نے کہا کہ ‎یہ ایم او یوز پاک چین زرعی، تکنیکی اور ماحولیاتی تعاون کو مضبوط بنانے کی عملی کوشش ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • 375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
  • مودی سرکار نے مذموم سیاسی ایجنڈے کیلیے اپنی فوج کو پروپیگنڈے کا ہتھیار بنا دیا
  • بھارت اور امریکا کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم مذاکرات ناکام
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • شنگھائی: صدر زرداری کی موجودگی میں مفاہمت کی 3 یادداشتوں پر دستخط
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • بانی نے کہا ہے آپریشن مسئلے کا حل نہیں مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے، وزیراعلیٰ کے پی
  • آپریشن حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے، عمران خان
  • بانی کے مطابق آپریشن حل نہیں ،مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے،علی امین گنڈاپور
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟