Express News:
2025-11-03@07:27:48 GMT

پی ٹی آئی اور مفاہمت کا سیاسی ایجنڈا

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

پی ٹی آئی بنیادی طورپر اس وقت ایک سیاسی راستے کی تلاش میں ہے تاکہ وہ دوبارہ سرگرم ہوکر اپنی سیاسی سرگرمیوں کے آغاز کو یقینی بناسکے اور دوسری طرف جیلوں میں قید بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر راہنماؤں کی رہائی کو بھی ممکن بنایا جاسکے۔لیکن فی الحال ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے سیاسی اور قانونی ریلیف کے امکانات محدود ہیں ۔

جولوگ پس پردہ بات چیت کی مدد سے اسٹیبلیشمنٹ،پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت پر مبنی کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے ان کو بھی تاحال ناکامی یا مشکلات کا سامنا ہے۔ جو لوگ پی ٹی آئی کے اندر رہتے ہوئے اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے آگے بڑھنے کی سیاسی حکمت عملی رکھتے ہیں وہ بھی بانی پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف نہیں دلوا سکے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اپنے اندر اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنے والوں کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔پارٹی کی سطح پر ایک مضبوط گروپ اسٹیبلیشمنٹ سمیت حکومت کے ساتھ بھی مذاکرات کا حامی ہے اور اس طبقہ کے بقول ہمیں دونوں سطحوں پر مذاکرات کرنے ہوں گے اور دروازہ کسی بھی سطح پر بند نہیں کرنا چاہیے۔جب کہ اس کے برعکس بانی پی ٹی آئی کا موقف یہ ہے کہ مذاکرات اسی سے ہوں گے جو طاقت اور فیصلہ کا اختیار رکھتے ہیں یعنی اسٹیبلیشمنٹ کے سوا کسی اور یا حکومت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ بے اختیار لوگ ہیں ۔

حال ہی میں پی ٹی آئی کے پرانے اور نظریاتی ساتھیوں جو اس وقت جیلوں میں ہیں ان میں مخدوم شاہ محمود قریشی،ڈاکٹر یاسمین راشد،میاں محمود الرشید، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ نے ایک خط کی مدد سے حالیہ سیاسی بحران اور پی ٹی آئی کو درپیش مشکلات کے حل میں مذاکرات ہی کے راستے کو واحد سیاسی آپشن قرار دیا ہے اور ان کے بقول مذاکرات کے راستے سے جتنا سیاسی فرار اختیار کیا جائے گا سیاسی بحران کم نہیں بلکہ اور زیادہ بڑھے گا۔ان راہنماؤں نے بھی اسی نقطہ پر زور دیا ہے کہ ہمیں سیاسی دروازے بند کرنے کے بجائے اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت دونوں کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر بات چیت یا مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور اس تاثر کی نفی کرنی چاہیے کہ ہم حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کے ان راہنماؤں نے اپنے خط میں یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ ان کی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ملاقات بھی کروائی جائے تاکہ ہم ان کی مدد سے مذاکرات کا ایک بڑے سیاسی فریم ورک کو حتمی شکل دے سکیں اور وہ خود بھی ان مذاکراتی عمل کا حصہ بننے کے خواہش مند ہیں۔

ان راہنماؤں کی حکمت عملی بانی پی ٹی آئی کی حکمت عملی یا محض اسٹیبلیشمنٹ سے مذاکرات کی سوچ کے برعکس ہے ۔دیکھنا ہوگا کہ بانی پی ٹی آئی اپنے ان اہم راہنماؤں کی حکمت عملی سے کس حد تک متفق ہوتے ہیں اور حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے ان راہنماؤں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ حکومت جو بھی پی ٹی آئی کو سیاسی یا قانونی سطح پر ریلیف ممکن بنائے گی اس میں اول وہ حکومتی شرائط پر مبنی ہوگی اور دوئم ان کو بھی حتمی فیصلہ کرنے سے قبل اسٹیلشمنٹ ہی کی طرف دیکھنا ہوگا۔لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کو حکومت سے اپنی شرائط پر بات چیت ضرور کرنا چاہیے تاکہ اس تاثر کی پی ٹی آئی نفی کرے کہ وہ حکومت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں ۔پی ٹی آئی راہنماؤں کو یقینی طور پر بانی پی ٹی آئی کی مشاورت کے ساتھ اپنے مذاکرات اور ان کی اپنی شرائط یا نکات کا فریم ورک بنا کر حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں سے بات چیت کرنی چاہیے۔ حکومت کے ساتھ بات چیت فرنٹ لائن اور اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ یقینی طور پر پس پردہ ہوگی۔

سیاست میں سیاسی جماعت اور قیادت کا کام ہی مشکل وقت پر یا دروازوں کے بند ہونے کی صورت میں دروازوں کے کھولنے اور نئے مفاہمت کے امکانات کو پید ا کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے سیاسی لچک پیدا کرنا اور توازن پر مبنی حکمت عملی کی بھی بڑی سیاسی اہمیت ہوتی ہے۔پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی سینئر قیادت اور بانی پی ٹی آئی کے درمیان مشاورت کا عمل بند ہے اور اگر واقعی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ مفاہمت چاہتی ہے تو اسے اس بند دروازے کو کھولنا ہوگا۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا ہوگا کہ مذاکرات اور ڈکٹیشن یا مسلط کردہ ایجنڈے میں بنیادی نوعیت کا فرق ہوتا ہے اور اگر دونوں اطراف سے مفاہمت کے لیے کھلے ذہن اور کھلے دل کے ساتھ مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھے گا تو کچھ بھی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکے گا۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ڈکٹیشن ، دباؤ اور ڈرا کر مذاکرات کے مصنوعی عمل سے استحکام کی سیاست کی طرف بڑھا جاسکتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ اسی طرح جب تک ہم ایک جماعت کے سیاسی وجود کو قبول نہیں کریں گے اور اسے طاقت کی بنیاد پر ختم کرنے کی حکمت عملی کو اختیار کریں گے تو یہ حکمت عملی نہ تو کسی کو ماضی میں کوئی مثبت نتیجہ دے سکی اور نہ ہی آج اورنہ ہی مستقبل میںدے سکے گی۔

اس لیے اگر پی ٹی آئی کی جیل میں موجود قیادت نے اپنے خط کی مدد سے ایک سیاسی راستہ نکالنے کی بات کی ہے تو پی ٹی آئی ،بانی پی ٹی آئی سمیت خود حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو اس پیش کش کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ایک طرف اگر بانی پی ٹی آئی کو اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرنی ہے تو دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ کو بھی اپنے سخت موقف میں لچک پیدا کرکے تعاون کے امکانات پیدا کرنے ہوں گے۔ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو اسے اس کے لیے یقینی طور پر سازگار حالات بھی پیدا کرکے ماحول میں موجود سیاسی تلخیوں کو کم کرنا ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی سطح پر قیادت جو پارلیمنٹ کے اندر یا پارلیمنٹ سے باہر ہے اس نے اپنی سیاسی حکمت عملیوں میں کافی مایوس کیا ہے اور ان ہی کی داخلی شخصی لڑائیوں کی وجہ سے پارٹی کمزور بھی ہوئی اور تقسیم بھی ۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی سیاست اچھی بھلی عددی تعداد کے باوجود پارلیمانی سیاست میں کوئی بڑے سیاسی دباؤ کی سیاست پیدا نہیں کرسکی۔

ملک کے سیاسی ،سماجی، معاشی، انتظامی، گورننس، دہشت گردی یا سیکیورٹی کے سنگین مسائل کا ہمیں سامنا ہے اس کا ہمیں دیانت داری سے ادراک کرناچاہیے اور ان مسائل کے حل کے لیے سب ہی فریقوں کو سر جوڑ کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ مسئلہ کا یہ حل نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف سیاسی لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑیں ۔ہمیں ایک دوسرے کی اہمیت کو قبول کرکے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہے ۔ایسے موقع پر جب داخلی کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست کے مسائل بالخصوص بھارت کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کی موجودگی میں ہمیں اپنے داخلی سیاسی اور معاشی استحکام پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

کیونکہ اگر ہم نے اس وقت کی موجودہ صورتحال میں اپنے گھر کے معاملات میںدرستگی نہیں کی اور پہلے سے موجود سیاسی تلخیوں یا سیاسی دشمنیوں کو کم نہیں کیا تو اس کا جہاں نقصان ہمیں داخلی محاذ پر ہوگا وہیں دشمن ہماری داخلی کمزوریوں یا داخلی خلیج،ٹکراؤ اورتقسیم کا فائدہ اٹھا کر ہمیں مختلف حکمت عملیوں ہی کے تحت کمزور کرسکتا ہے یا اپنی جارحیت دکھا سکتا ہے۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کا ریاستی،حکومتی اور سیاسی نظام ماضی کے دائرے کار سے باہر نکل کر موجودہ حقایق کو تسلیم کرکے نئی مضبوط حکمت عملیوں کو اختیار کرے جو ریاست کے مفاد میں ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور اسٹیبلیشمنٹ بانی پی ٹی آئی کی حکمت عملی ان راہنماو ں پی ٹی آئی کی پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی کے کرنا چاہیے مذاکرات کا سے مذاکرات آگے بڑھنے حکومت اور کی مدد سے حکومت سے کا راستہ بات چیت کے ساتھ کے لیے اور ان اور اس ہے اور کو بھی

پڑھیں:

عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ رہنماؤں اور سابق رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود پارٹی کی تصادم کی راہ پر چلنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں رکاوٹ خود عمران خان بنے ہوئے ہیں جن کے سمجھوتہ نہ کرنے کے موقف کی وجہ سے مصالحت کے جانب بڑھنے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں (جیل کے اندر اور باہر موجود) سینئر شخصیات خاموشی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، دلیل دے رہے ہیں کہ تصادم کی پالیسی نے صرف پارٹی کو تنہا کیا ہے اور اس کیلئے امکانات کو معدوم کیا ہے۔ تاہم، ان کی کوششوں کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ عمران خان حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے حوالے سے دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے کھل کر حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنے کے چند روز بعد ہی عمران خان نے اڈیالہ جیل سے سخت الفاظ پر مشتمل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ 8؍ جولائی کے بیان میں عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے‘‘ اور ساتھ ہی رواں سال اگست میں ملک بھر احتجاجی مہم کا اعلان کیا۔ عمران خان کے پیغام نے موثر انداز سے ان کی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنماؤں (بشمول شاہ محمود قریشی اور دیگر) مصالحتی سوچ کو مسترد کردیا ہے۔ یہ لوگ حالات کو معمول پر لانے کیلئے منطقی سوچ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ جب تک عمران خان اپنے تصادم پر مبنی لب و لجہے (خصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف) پر قائم رہیں گے اس وقت تک پی ٹی آئی کیلئے سیاسی میدان میں واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی چیئرمین اور پارٹی کا سوشل میڈیا جب تک فوج کو ہدف بنانا بند نہیں کرے گا تب تک بامعنی مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔ تاہم، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا لہجہ نرم بھی کر لے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان پر عدم اعتماد بہت گہرا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں فوج کی قیادت پر ان کی مسلسل تنقید نے نہ صرف موجودہ کمان بلکہ ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بڑے حصے کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان پی ٹی آئی کی سب سے زیادہ مقبول اور مرکزی شخصیت ہیں، لیکن ذاتی حیثیت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ساکھ خراب ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا انحصار بالآخر متبادل قیادت پر ہو سکتا ہے مثلاً شاہ محمود قریشی یا چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد، جو مقتدر حلقوں کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی سیاست عمران خان کے ہاتھوں یرغمال ہے، مذاکرات پر غور سے ان کے انکار کی وجہ سے سیاسی حالات نارمل کرنے کیلئے گنجائش بہت کم ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کے معاملے میں تو اس سے بھی کم گنجائش ہے۔ عمران خان کے آگے چوائس بہت واضح ہے: تصادم اور تنہائی کی سیاست جاری رکھیں، یا ایک عملی تبدیلی کی اجازت دیں جو پی ٹی آئی کی سیاسی جگہ بحال کر سکے۔ اس وقت، فواد چوہدری اور عمران اسماعیل کی تازہ ترین کوششوں کے باوجود، تمام اشارے اول الذکر چوائس کی طرف نظر آ رہے ہیں۔
انصار عباسی

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  • امریکہ امن کا نہیں، جنگ کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے، ثروت اعجاز قادری
  • سابق رہنماؤں کا بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے سیاسی جماعتوں و دیگر سے رابطوں کا فیصلہ
  • پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
  •  حکومت یا عسکری قیادت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو رہی، پی ٹی آئی چیئرمین
  • افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے مثبت نتائج کے بارے میں پرامید ہیں، دفتر خارجہ
  • پنجاب حکومت کابانی پی ٹی آئی کے 11مقدمات اے ٹی سی راولپنڈی منتقل کرنے کا فیصلہ