کورسیقا کی اسمبلی نے فلسطین کو تسلیم کر لیا، اسرائیل پر ’نسل کشی‘ کے الزامات
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کورسیقا: فرانسیسی جزیرے کورسیقا کی علاقائی اسمبلی نے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کر لی ہے، یہ قرارداد اسمبلی کی صدر ماری آنتوانیت موپرٹویس نے پیش کی، جس میں فلسطینی عوام کی حمایت اور غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسمبلی میں منظور ہونے والی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ کورسیقا کی اسمبلی “اقوام متحدہ کی سابقہ قراردادوں کے مطابق ریاستِ فلسطین کے وجود کو تسلیم کرتی ہے، اس قرارداد میں اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے، ساتھ ہی اسرائیلی حکومت کی جانب سے بار بار کیے گئے اقدامات کو بین الاقوامی جرائم، بشمول نسل کشی، کے مترادف” قرار دیا گیا ہے۔
اسمبلی صدر موپرٹویس نے قرارداد کی منظوری کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کورسیقا کی اسمبلی ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرتی ہے، فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والے نسل کش اقدامات کی مذمت کرتی ہے اور کورسیقا اور سرڈینا کے فوجی اڈوں کو ایسے آپریشنز کے لیے استعمال کرنے کی مخالفت کرتی ہے جو عالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوں۔
قرارداد میں دو ریاستی حل پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان باہمی احترام، سیاسی خودمختاری، اور مذہبی و اجتماعی مفادات کو تسلیم کیا جانا ضروری ہے، اس میں فلسطینی عوام کے ساتھ کورسیقا کے دیرینہ یکجہتی کے جذبے کو بھی دہرایا گیا، جنہیں عشروں سے قبضے، امتیازی سلوک اور منظم تشدد کا سامنا ہے۔
مزید برآں، کورسیقا کی اسمبلی نے فرانسیسی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ریاستِ فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے،اسرائیل کو اس وقت تک ہتھیار، گولہ بارود اور فوجی ساز و سامان کی ترسیل بند کرے جب تک وہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتا رہے۔
واضح رہے کہ سرڈینا ایک خودمختار اطالوی علاقہ ہے، جہاں نیٹو اور مغربی دفاعی اتحاد کے کئی فوجی اڈے قائم ہیں، جنہیں حالیہ عرصے میں غزہ میں کارروائیوں کے لیے استعمال کیے جانے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کورسیقا کی اسمبلی فلسطین کو کو تسلیم کرتی ہے گیا ہے
پڑھیں:
اجنبی جو قابض بنے
1947 ء کا موسمِ بہار تھا جب یورپ سے آئے اجنبی چہروں والے قافلے فلسطین کی سرزمین پر اترے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں دنیا اشکنازی یہودیوں کے نام سے جانتی ہے۔ ان کے چہروں پر مظلومیت کی جھوٹی پرچھائیاں اور دلوں میں ایک پرانا خواب تھا۔ ارضِ مقدس پر قبضہ !فلسطینی عربوں نے انسانیت کے ناطے انہیں پناہ دی، کھانے کو دیا، رہنے کو جگہ دی، مگر شاید وہ جانتے نہ تھے کہ جنہیں وہ مہمان سمجھ رہے ہیں وہی کل ان کے گھروں کے مالک بن بیٹھیں گے۔
اشکنازی یہودی اصل میں یورپ کے مختلف ممالک جیسے جرمنی، پولینڈ، روس، ہنگری اور آسٹریا سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی زبان عبرانی نہیں بلکہ یدش (Yiddish) تھے جو جرمن اور عبرانی کا ایک مرکب تھی۔ یہ لوگ وہاں صدیوں سے رہ رہے تھے لیکن جب نازی جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم میں یہودیوں پر مظالم شروع کیے تو لاکھوں یہودی جان بچا کر نکلے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں بکھرنے کے بجائے ان کا رخ فلسطین کی طرف تھا کیونکہ وہاں صہیونی تحریک پہلے سے ہی کام کر رہی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ انیسویں صدی کے آخر میں صہیونیت یعنی Zionism کی ایک تحریک نے جنم لیا ۔ اس کا بانی تھیوڈور ہرزل تھا جس نے دعویٰ کیا کہ دنیا کے تمام یہودیوں کو ایک الگ ریاست ملنی چاہیے اور وہ ریاست صرف فلسطین میں بننی چاہیے۔ یہ محض ایک مذہبی یا روحانی خواب نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی منصوبہ تھا جسے مغربی طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی خاص طور پر برطانیہ اور بعد ازاں امریکہ کی۔1917 ء میں اس وقت کے برطانوی سیکریٹری خارجہ آرتھر بالفور نے بالفور اعلامیہ جاری کیا جس میں یہودیوں کو فلسطین میں قومی وطن قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ یہ اعلان اس وقت ہوا جب فلسطین پر عثمانی خلافت کی گرفت ختم ہو چکی تھی اور برطانیہ نے فلسطین کو اپنا انتداب بنا لیا تھا۔
جب یہودی قافلے آنا شروع ہوئے تو فلسطینی عربوں نے انہیں انسانی ہمدردی کے تحت خوش آمدید کہا۔ کئی علاقوں میں زمین فروخت کی گئی، کئی جگہوں پر یہودیوں نے آبادیاں بسائیں لیکن ان کی تعداد پھر بھی اقلیت میں تھی۔ 1947ء تک فلسطین میں کل یہودیوں کی آبادی 30 فیصد سے بھی کم تھی جبکہ 70 فیصد سے زائد فلسطینی مسلمان اور عیسائی عرب تھے۔ مگر یہودیوں نے پہلے دن سے ہی ایک منظم حکمت عملی اختیار کی۔ زمین خریدنا، مسلح گروہ تیار کرنا، خفیہ ملیشیا قائم کرنا اور مغربی دنیا میں لابنگ کر کے اپنے لیے عالمی ہمدردی حاصل کرنا۔چودہ مئی 1948 ء کو وہ دن آیا جب دنیا کے نقشے پر ایک ناجائز ریاست اسرائیل کے نام سے وجود میں آئی۔ اگلے ہی روز عرب ممالک نے اس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا مگر بدقسمتی سے عربوں کی قیادت بکھری ہوئی، تیاری ناکافی اور عزائم غیر واضح تھے۔ اسرائیل نے برطانوی اسلحے، امریکی تعاون اور یورپی لابیوں کی مدد سے نہ صرف اپنا وجود قائم رکھا بلکہ فلسطینیوں کو ان کے ہی گھروں سے نکال دیا۔ اس سانحے کو آج ’’نکبہ‘‘ (تباہی) کہا جاتا ہے۔
تقریباً 8 لاکھ فلسطینی اپنے گھروں، کھیتوں، مسجدوں، قبرستانوں، بازاروں اور قصبوں سے نکال دیئے گئے۔ کئی کو قتل کیا گیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی، بچے یتیم اور خاندان برباد ہو گئے۔ یافا، حیفا، صفد، طبریہ اور لد جیسے شہر خالی کرائے گئے اور ان پر یہودی قابض ہو گئے۔
فلسطینیوں نے جنہیں نازی مظالم سے بچنے کے لیے پناہ دی تھی وہی آج ان کے گھروں کے مالک بن بیٹھے۔ اشکنازی یہودیوں نے اپنی چالاکی، مغربی حمایت اور منظم منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے ہی محسنوں کی زمین پر ظلم کا پہاڑ توڑ دیا۔ انہوں نے نہ صرف فلسطین پر قبضہ کیا بلکہ پوری تاریخ کو بھی مسخ کیا۔ مسجد اقصیٰ سے لے کر حیفا کے اسکولوں تک ہر چیز کو یہودی شناخت دینے کی کوشش کی ۔ یہاں تک کہ آج کے جدید اسرائیل میں اگر کوئی فلسطینی اپنی شناخت پر فخر کرے، اپنی زبان بولے یا اپنے حقوق مانگے تو وہ دہشت گرد کہلاتا ہے۔
آج اسرائیل دنیا کی جدید ترین فوجی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، جدید فضائیہ ہے، طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی ’’موساد‘‘ ہے اور اسے امریکہ اور یورپ جیسے طاقتور ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ لیکن اس تمام طاقت کے باوجود اسرائیل ایک خوفزدہ ریاست ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کا وجود ظلم پر قائم ہے، جھوٹ پر قائم ہے اور جبر پر قائم ہے۔غزہ کی گلیوں میں پتھروں سے لڑتے بچے، مقبوضہ بیت المقدس میں نماز پڑھتے نمازی اور لبنان کی سرحد پر مزاحمت کار یہ سب اسرائیل کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں۔جس طرح وہ 1947 ء میں یورپ سے آئے تھے اور جس طرح وہ فلسطین میں زبردستی داخل ہوئے تھے ان شا اللہ وہ دن بھی دور نہیں جب وہ اسی ذلت سے نکالے جائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم جتنا بھی طاقتور ہو وہ ہمیشہ عارضی ہوتا ہے۔ نمرود، فرعون، ہٹلر، اور موسولینی جیسے جابر حکمران آج تاریخ کی گرد میں دفن ہو چکے ہیں۔ اسرائیل بھی اسی انجام سے نہیں بچ سکے گا۔فلسطین کے نوجوان، غزہ کے مجاہد، اور القدس کے نمازی اس دن کے لیے پر امید ہیں جب قابض کو اس سرزمین سے نکال باہر کیا جائے گا یا وہ انجام کو پہنچے گا۔دنیا خاموش نہیں رہی۔ اب یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں بھی لاکھوں لوگ فلسطین کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے سچ کو عام کر دیا ہے۔ وہ فلسطینی مظلوم بچے جن کی تصویریں کبھی دکھائی نہ دیتی تھیں آج دنیا بھر میں دلوں کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔یہ تحریر صرف تاریخ کا ایک گوشہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے۔ آج بھی ظلم جاری ہے، آج بھی اشکنازی یہودی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال رہے ہیں، آج بھی بیت المقدس قید ہے اور آج بھی عالمی ضمیر امتحان میں ہے۔ لیکن امید زندہ ہے اور حالات اسرائیل کو ہر آنے والے دن مشکلات کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جن یہودیوں کو امن اور آئرن ڈوم جیسی فوجی تنصیبات اور لاکھوں ڈالر کے پیکیج اور مراعات دے کر اسرائیل میں آباد کر کے یہاں کی آبادی کو بڑھایا جا رہا تھا اب ایران اسرائیل جنگ کے بعد لاکھوں یہودی دوبارہ اسرائیل چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یورپ اور امریکی ممالک کو واپس روانہ ہو نا شروع ہو چکے ہیں۔ حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ شہیدوں کا لہو ، مجاہدین کے وار اور فلسطینیوں کی مزاحمت رنگ لانے والی ہے۔ فلسطین کا سورج طلوع ہونے والا ہے۔