Express News:
2025-08-05@23:00:47 GMT

عدم برداشت اور دلیل کا فقدان

اشاعت کی تاریخ: 6th, August 2025 GMT

ہم ایک ایسا سماج بن چکے ہیں جو لفظوں سے خائف ہے، سوالوں سے چڑتا ہے، تحقیق کو گمراہی سمجھتا ہے اور تنقید کو توہین کا دوسرا نام قرار دیتا ہے۔ یہ وہ المیہ ہے جو برسوں کی تربیت، ریاستی بیانیے اور سوچ پر تالے لگانے والے نصاب کا نتیجہ ہے۔ ہم نے سوچنے کی آزادی کو جرم ، اختلافِ رائے کو گستاخی اور دلیل کو بے ادبی سمجھ لیا ہے۔

یہی وہ راستہ ہے جو کسی بھی قوم کو اجتماعی زوال کے گڑھے میں دھکیلتا ہے۔جب ہم ماضی کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں سقراط، ارسطو اور ابن رشد جیسے افراد دکھائی دیتے ہیں جو فکر و دلیل کے علمبردار تھے۔ ان کی تحریریں سوال سے شروع ہوتی تھیں اور تحقیق پر ختم۔ ان کے ہاں کوئی بات محض جذبات کی بنیاد پر قابلِ قبول نہ تھی۔ دلیل تھی، تجزیہ تھا اور سب سے بڑھ کر وہ رواداری تھی جو دوسرے نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے کی گنجائش پیدا کرتی تھی۔

مگر آج ؟ … آج جب کوئی نوجوان سوال کرتا ہے تو اسے بدتمیز قرار دیا جاتا ہے۔ جب کوئی استاد تنقید کرتا ہے تو اسے ملک دشمن کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ جب کوئی دانشور تحقیق کے ذریعے سچ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر فتوے لگائے جاتے ہیں۔ ہمیں انفرادیت سے خوف آتا ہے کیونکہ ہم نے ایک ایسا سماج تشکیل دیا ہے جہاں اجتماعی سوچ بھی وہی ہے جو طاقتور حلقے طے کرتے ہیں۔

برداشت ایک ایسا عمل ہے جو دل کی وسعت اور ذہن کی روشنی کا متقاضی ہوتا ہے، لیکن جب ذہن تاریکی میں ہو اور دل بغض و تعصب سے لبریز، تو برداشت کہاں سے آئے؟ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں برداشت صرف اپنی رائے کے حق میں مانگی جاتی ہے لیکن مخالف نقطہ نظر کے لیے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔ ایسے میں تنقید برداشت نہیں کی جاتی ہے، تحقیق غداری اور دلیل بغاوت سمجھی جاتی ہے۔

یہ بحران صرف علمی حلقوں تک محدود نہیں۔ ہمیں اپنے گھروں میں بھی وہی تربیت دی جاتی ہے جہاں سوال کرنا بے ادبی ہے، بڑوں کی باتوں پر تجزیہ کرنا بدتمیزی ہے۔ بچہ اگر پوچھ لے کہ یہ کیوں؟ تو اسے فوراً چپ کرا دیا جاتا ہے۔ ہم نے نسل در نسل یہ سبق سکھایا ہے کہ اطاعت ہی نجات ہے، جب کہ ترقی یافتہ اقوام نے سیکھا کہ سوال ہی نجات ہے۔

ہمارے تعلیمی ادارے جو کبھی فکر و دانش کے گہوارے ہوا کرتے تھے، آج رٹنے اور نمبر لینے کی مشین بن چکے ہیں۔ جامعات میں تحقیق کے نام پر جو کام ہو رہا ہے، وہ بیشتر اوقات محض خانہ پُری ہوتی ہے اور تنقیدی شعور وہ تو نصاب میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا۔ طالب علم کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ دلیل کیسے دی جاتی ہے، اختلاف کیسے کیا جاتا ہے اور رواداری کیسے برتی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہماری جامعات ایسے نوجوان پیدا کر رہی ہیں جو معلومات تو رکھتے ہیں مگر فہم اور بصیرت سے محروم ہیں۔

ذرا، ٹی وی اسکرینز کا جائزہ لیجیے وہاں جو گفتگو ہو رہی ہے وہ دلیل نہیں دھمکی ہے۔ وہاں سوال نہیں، الزام ہے وہاں تجزیہ نہیں، تمسخر ہے۔ سیاسی اختلافات اب علمی سطح پر نہیں بلکہ شخصی سطح پرکیے جاتے ہیں۔ کوئی کسی کی بات سے متفق نہ ہو، تو اسے فوراً غدار، ایجنٹ یا لفافہ کہہ دیا جاتا ہے، ایسے میں مکالمہ کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ اور جب مکالمہ ترک کردیا جائے تو سماج میں فکر اور شعور دم توڑ دیتے ہیں۔

 ہماری سڑکوں پرگلیوں میں سوشل میڈیا پر ہر طرف ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے بس چپ رہو۔ گویا اختلاف کی ہر صورت کو دبانا ہی حب الوطنی ہے جب کہ سچ تو یہ ہے کہ سب سے بڑی حب الوطنی یہی ہے کہ ہم سچ بولیں، سوال کریں اور دلیل کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔

جب تحقیق ختم ہو جائے تو علم محض معلومات کا ذریعہ بن جاتا ہے، جب تنقید ختم ہو جائے تو سوچ جمود کا شکار ہو جاتی ہے، جب دلیل کا گلا گھونٹ دیا جائے تو سماج جہالت کے گھپ اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے اور جب برداشت ختم ہو جائے تو پھر صرف انتہا باقی رہ جاتی ہے، مذہبی ہو یا سیاسی نسلی ہو یا لسانی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسے سماج کی تشکیل ہو سکے جہاں فکر کی آزادی ہو اختلاف کی گنجائش ہو اور دلیل کو اہمیت دی جائے۔ ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ سوال کرنا، ان کا حق ہے کہ تنقید ذاتی حملہ نہیں بلکہ بہتری کی صورت ہوتی ہے کہ تحقیق صرف نصاب کا حصہ نہیں بلکہ زندگی کا رویہ ہے اور برداشت صرف ایک اخلاقی خوبی نہیں بلکہ بقاء کا واحد راستہ ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قومیں نعرے بازی سے نہیں مکالمے سے بنتی ہیں، ترقی محض انفرا اسٹرکچر سے نہیں فکری بنیادوں سے جنم لیتی ہے۔ جب تک ہم اپنی فکری بنیادوں کو مضبوط نہیں کریں گے جب تک ہم اختلاف کو قبول کرنا نہیں سیکھیں گے جب تک دلیل اور تحقیق کو اپنا شعار نہیں بنائیں گے، ہم زوال کی اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے۔

آئیے! اپنے اندر ایک بار پھر سوال اٹھائیں شاید یہی سوال ہمیں سچ کی طرف لے جائے اور سچ جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے ہماری نجات کا واحد راستہ ہے۔مجھے اکثر جان لینن کا گانا یاد آتا ہے am a dreamer I میں بھی خواب دیکھنے والوں میں سے ہوں۔ یہ خواب کہ ایک دن دنیا میں عقل و دانش کی قدر ہوگی۔ انسان تحمل اور برداشت سے کام لیں گے۔ فہم و فراست کو اہمیت دی جائے گی۔

ہاں! میں خواب دیکھتی ہوں خواب کہ انسان ایک بہتر سماج میں جی رہا ہو۔ خواب کہ ہر مظلوم کو اس کا مقام ملے اور سب سے بڑھ کر خواب کہ سوال کیا جاسکے اور اختلاف رائے کو بڑا دل کر کے سنا جاسکے شاید میں یہ اپنی زندگی میں نہ دیکھ سکوں مگر پھر بھی میں خواب دیکھتی ہوں، کیونکہ خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دیا جاتا ہے نہیں بلکہ اور دلیل جائے تو جاتی ہے خواب کہ تو اسے ہے اور

پڑھیں:

آرٹیفشل انٹیلی جنس میں ترقی،دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

ایک اوسط پاکستانی کا آئی کیو 84ہے۔ اور ایک امریکی کا اوسط آئی کیو 98ہے ، سنگا پور کے لوگوں کا اوسط آئی کیو106ہے ۔جب کہ آئین اسٹائن کا آئی کیو 155سے160پوائنٹ کے درمیان تھا یہی وجہ ہے کہ ہم آئین اسٹائن کی ذہانت اور اس کی ایجادات کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں ۔

آرٹیفیشل انٹیلی جنس انسان سے اربوں ٹائم زیادہ طاقت کی حامل ہے آپ کو اس بات کا یقین نہیں آئے گا ۔اس کی مثال یہ ہے کہ ایک پروٹین کا اسٹریکچر ڈیفائن کرنے کے لیے ایکPHDڈگری کے حامل فرد کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ پوری دنیا میں ایک سال میں 10لاکھ PHDڈاکٹر بنتے ہیں۔ یہ تمام ملکرایک سال میں 10لاکھ پروٹین اسٹریکچر کو ڈی کوڈ کرسکتے ہیں ۔ الفا4 سافٹ وئیر جس کا نام ہے، نے صرف ایک سال میں بیس کروڑ اسٹریکچر کو ڈی کوڈ کردیا ہے ۔ سارے انسانوں کی مل کر محنت ایک طرف ہے تودوسر ی طرف الفا4کی قوت ہے ۔

سائنٹفک چیٹ جی پی ٹی میں اب بہت زیادہ ترقی ہوچکی ہے صرف ایک سال کے عرصے میں 10لاکھ لوگوں نے اس سے استفادہ کیا ۔ آنکھوں کے سکین کے ذریعے ایسی بیماریاں تشخیص ہوجاتی ہیں جن کا تعلق دماغ ، لیور ، دل ، شوگر سے ہے ۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے بریسٹ کینسر کا پتہ چلایا جاسکتا ہے جب کہ اس کی کوئی علامت بھی ظاہر نہیں ہوتی ۔مگر یہ اسے تین سال پہلے ہی اس کو تشیخص کر لیتا ہے ۔ گوگل نے حال ہی میں ایک وڈیو لانچ کی ہے اور اس کے رزلٹ اتنے حیران کن ہیں کہ چہرے اور آواز کی نقل ہو بہو بنا لیتی ہے ۔

ماضی کی ایجاد پرنٹنگ پریس کو بڑے پیمانے پر پروپیگنڈا اور جھوٹ پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ۔ گن پاؤڈر کی ایجاد نے بڑی آرمیوں کو جنم دیا۔ اس کے ساتھ ہی بڑی جنگیں شروع ہو گئیں ۔ چین اور امریکا دوسپر پاورز آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ آخر یہ دوڑ کیوں لگی ہوئی ہے۔ یہ دونوں ملک جانتے ہیں کہ جب تباہ کن ٹیکنالوجی آتی ہے تو جو اس پر پہلے کمانڈ حاصل کر لیتا ہے وہ اگلے کئی سالوں کے لیے سپر پاور بن جاتا ہے ۔

یہ چیز ہم نے پاکستان ، بھارت جنگ اور اسرائیل ایران جنگ میں مشاہدہ کی ہے ۔ چین اور امریکا دونوں اس معاملے میں بہت تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ۔ اگر یہ دونوں ملک کر کام نہیں کریں گے تو ہم دنیا کے مسائل کاحل جلد ڈھونڈ نہیں پائیں گے مثلاً گلوبل وارمنگ وغیرہ ۔آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی لرننگ کتنی زیادہ ہے ۔

جیفری ہنٹن اس کی مثال بلیک باکس سے دیتے ہیں ۔یہ کتنی رفتار سے لرننگ کر رہا ہے اس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم ۔اس ریس میں چین بہت زیادہ نیو کلیئر ری ایکٹر بنا رہا ہے۔ کیونکہ AIکو بہت زیادہ انرجی کی ضرورت ہوگی اسے سپر کمپیوٹر ، ڈیٹا سینٹر چاہیں اور یہ انرجی کے بغیر نہیں چل سکتے ۔

پچھلے دس سالوں میں چین نے 27نیو کلیئر ری ایکٹر لگائے جب کہ امریکا نے پچھلے دس برسوں میں صرف دو نیو کلیئر ری ایکٹر لگائے ہیں ۔ امریکا چپ بنانے میں چین سے آگے ہے ۔ جب کہ چین اس معاملے میں امریکا سے صرف 6مہینے پیچھے ہے۔ چین کا اب فوکس کوانٹم کمپیوٹر 6پر ہے ۔ اگر چین یہ بنا لیتا ہے تو چند سالوں میں وہ اس فیلڈ میں اتنی بڑی ترقی کرے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ چین نے RSAکوڈی کوڈ کرنے کا دعوی کیا ہے کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعے ۔ پاکستان کے لیے بھی اس میں سبق ہے کہ ہم بھی AIکی طرف جائیں ورنہ ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ جائینگے ۔

تازہ ترین خبر اور طالبعلموں کے لیے یہ خوش خبر ی ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹ میں اسٹڈی موڈ نامی نیا فیچر متعارف کرایا گیا ہے ۔ اس نئے فیچر کا مقصد طالبعلموں کو زیادہ قدرتی انداز سے سیکھنے کا تجربہ فراہم کر نا ہے ۔

اس فیچر کا اعلان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اب آپ کوئی سوال ٹائپ کریں یا کسی موضوع کوجاننے کے لیے چیٹ جی پی ٹی سے مدد لیں تو اسٹڈی موڈ میں طالبعلموں کو قدم بہ قدم درست جواب کے حصول میں مدد مل جائے گی۔ طالب علم خود چیٹ جی پی ٹی سے بات چیت بھی کر سکیں گے تاکہ سوالات کے بارے میں بہتر وضاحت حاصل کر سکیں۔ یہ طالبعلموں کی اس طرح سے مدد کرے گا کہ وہ خود درست جواب تک پہنچ سکیں ۔ یہ کسی استاد کی طرح کام کرے گا اور یہ سروس صارفین کو مفت دستیاب ہو گی۔

متعلقہ مضامین

  • ویڈیو گیمز تو کام کے نکلے، دیکھیے یہ فالج کے مریضوں کی کیسے مدد کرسکتے ہیں؟
  • جبری گمشدگیوں پر ادارہ جاتی ردِعمل کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کر دی، چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی
  • سفید پائوں والی لومڑی نقصان دہ حشرات الارض اور ضرررساں جانوروں کو کھاکر فصلات کو نقصان سے محفوظ رکھتی ہے،سیکرٹری جنگلات
  • مصنوعی مٹھاس کینسر کے علاج میں رکاوٹ بن سکتی ہے، تحقیق
  • وزیر اعظم کی ملک بھر میں کسٹمز کلیئرنس اصلاحات نافذ کرنے کی ہدایت
  • والدہ کی گرفتاری پر عثمان ڈار نے وزیراعلیٰ مریم نواز سے اہم سوال کر ڈالا
  • آج 4 اگست ہے۔ پاپا کی سالگرہ کا دن۔۔۔
  • جنک فوڈ کس خطرناک بیماری کے خطرات بڑھا سکتا ہے؟
  • آرٹیفشل انٹیلی جنس میں ترقی،دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی