آسٹریلیا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک آئندہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
کینبرا میں پارلیمنٹ ہاؤس میں کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے البانیز نے کہا:
’آج میں تصدیق کرتا ہوں کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں آسٹریلیا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔‘
یہ بھی پڑھیے فلسطین باقی نہ رہا تو تسلیم کیا ہوگا؟ آسٹریلوی وزیر خارجہ کا انتباہ
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے آسٹریلیا اور بعض یورپی ممالک کو فلسطین کو تسلیم کرنے کے ارادے کو ’شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیے سڈنی آسٹریلیا: فلسطین کے حق میں تاریخی مارچ، ہزاروں افراد کی شرکت
نیتن یاہو نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے غزہ کے بارے میں اسرائیل کا مؤقف تبدیل نہیں ہوگا۔
دوسری طرف فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے واضح کیا ہے کہ جب تک ایک آزاد اور مکمل خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی ہتھیار نہیں ڈالے جائیں گے۔
عرب میڈیا کے مطابق حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے لیے ہونے والے بالواسطہ مذاکرات گزشتہ ہفتے کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوشش، امریکی ایلچی کی اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات
منگل کے روز قطر اور مصر، جو جنگ بندی کے لیے ثالثی کررہے ہیں، نے فرانس اور سعودی عرب کے اس مشترکہ اعلامیے کی توثیق کی، جس میں اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کی جانب اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس حل کا ایک جزو یہ ہے کہ حماس کو اپنے ہتھیار مغرب نواز فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے ہوں گے۔
دوسری جانب حماس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ مسلح مزاحمت کے اپنے حق سے اس وقت تک دستبردار نہیں ہو سکتی جب تک آزاد اور مکمل خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی جس کا دارالحکومت القدس ہو۔
اسرائیل کے لیے حماس کا ہتھیار ڈالنا کسی بھی ممکنہ امن معاہدے کی بنیادی شرط ہے، لیکن حماس متعدد بار واضح کر چکی ہے کہ وہ اپنے ہتھیار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
گزشتہ ماہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک ممکنہ آزاد فلسطینی ریاست کو اسرائیل کی تباہی کے لیے ایک پلیٹ فارم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اسی وجہ سے فلسطینی علاقوں پر سیکیورٹی کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہنا چاہیے۔
انہوں نے برطانیہ اور کینیڈا سمیت اُن ممالک پر تنقید بھی کی تھی جنہوں نے اسرائیلی بمباری اور محاصرے کے نتیجے میں تباہ حال غزہ کے جواب میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ نیتن یاہو نے اس اقدام کو حماس کو انعام دینے کے مترادف قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ یہ جنگ 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے اور 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل غزہ سے نکل جائے، جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے معاہدے پر تیار ہیں، حماس
اس حملے کے ردعمل میں اسرائیل کی فوجی کارروائی نے غزہ کے بیشتر علاقے کو کھنڈر بنا دیا۔ اب تک اسرائیل بمباری میں 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آسٹریلیا حماس فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا سٹریلیا فلسطین فلسطینی ریاست کو تسلیم نیتن یاہو نے نہیں ہو کے لیے یہ بھی
پڑھیں:
امریکی قیادت میں بین الاقوامی امن و استحکام فورس غزہ میں جلد تعینات ہوگی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی امن و استحکام فورس بہت جلد غزہ میں تعینات کردی جائے گی تاکہ جنگ کے بعد کے حالات میں علاقے میں استحکام اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: سماجی ترقی کا خواب غزہ جنگ کو نظرانداز کرکے پورا نہیں ہوسکتا، صدر مملکت کا دوحہ کانفرنس سے خطاب
الجزیرہ کے مطابق غزہ اب بھی شدید انسانی بحران کا شکار ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے بمباری جاری ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ بہت جلد ہو جائے گا اور غزہ میں صورت حال اچھے طریقے سے بہتر ہو رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انتہائی طاقتور ممالک نے رضا مندی ظاہر کی ہے کہ اگر فلسطینی عسکری گروہ حماس کے ساتھ کسی قسم کا مسئلہ پیدا ہوا تو فورس مداخلت کرے گی حالانکہ حماس نے ابھی تک ہتھیار ڈالنے کی تصدیق نہیں کی ہے۔
اقوام متحدہ کا کردار اور امن مشنصدر ٹرمپ کے بیان کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی غزہ میں 2 سالہ عبوری حکومتی اور استحکام فورس کے قیام کے لیے مذاکرات شروع کرنے جا رہی ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستانی دستوں کو غزہ بھیجنے کی خبروں پر پی ٹی آئی کی طرف سے تحفظات کا اظہار
یہ فورس شہریوں کی حفاظت کرے گی سرحدی علاقوں کو محفوظ بنائے گی اور فلسطینی پولیس کی تربیت فراہم کرے گی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوترس نے بتایا کہ کسی بھی استحکام فورس کو مکمل بین الاقوامی قانونی حیثیت حاصل ہونی چاہیے تاکہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کی مدد کر سکے۔
امریکی مسودہ قرارداد اور فوجی تفصیلاتدریں اثنا رائٹرز کے مطابق ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بتایا کہ قرارداد کا مسودہ امریکا نے اقوام متحدہ کی 10 منتخب رکن ریاستوں اور کئی علاقائی شراکت داروں کو بھیجا ہے۔
اس مسودے کے تحت 20,000 فوجی پر مشتمل استحکام فورس کو اپنا مینڈیٹ پورا کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اختیار کرنے کی اجازت دی جائے گی، جس میں فورس کے استعمال کی اجازت بھی شامل ہے۔
حماس اور اس کی عسکری صلاحیتیںصدر ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کی ایک کلیدی شرط یہ ہے کہ حماس اپنے ہتھیار اتارے۔ اگرچہ حماس نے اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا مگر استحکام فورس کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا کہ وہ حماس کی عسکری صلاحیتوں اور جارحانہ انفراسٹرکچر کو تباہ کرے اور دوبارہ اس کے دوبارہ قیام کو روکے۔
مزید پڑھیں: غزہ امن سربراہ اجلاس: صدر ٹرمپ سے وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات، گرمجوشی سے مصافحہ
امریکی صدر کے منصوبے نے اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدی رہا کرنے اور عارضی جنگ بندی میں مدد فراہم کی تھی تاہم اسرائیل نے اپنی بمباری اور امدادی پابندیوں کے ذریعے بار بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے۔
ترکی کی ثالثی اور اسرائیل کا مؤقفترکی نے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا حماس کو امن منصوبہ قبول کروانے کے ساتھ ہی استحکام فورس کے لیے حمایت حاصل کی اور اس سلسلے میں قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن، پاکستان اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ کو استنبول میں بلایا۔
یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ کا غزہ امن منصوبہ یکطرفہ اور ناقابلِ عمل، بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے، خواجہ سعد رفیق
ترکی نے اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی کی جنگ کی بارہا مذمت کی اور عالمی سطح پر مطالبہ کیا کہ اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی بند کرے اور انسانی امداد داخل کرنے کی اجازت دے۔
تاہم اسرائیلی عہدیدار، بشمول وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر خارجہ گیڈیون سآر نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں ترکی کی فوجی موجودگی قبول نہیں کرے گا۔
مزید پڑھیں: فلسطین سے متعلق پاکستان کی پالیسی واضح، غزہ امن منصوبے پر سیاست نہ کی جائے، اسحاق ڈار
نیتن یاہو نے ستمبر میں صدر ٹرمپ کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اسرائیل مستقبل میں غزہ میں سیکیورٹی ذمہ داری برقرار رکھے گا۔
’امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا امکان نہیں‘مشرق وسطیٰ کے لیے ذمہ دار امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے گزشتہ ماہ غزہ کے دورے کے دوران واضح کیا تھا کہ کوئی امریکی فوجی وہاں تعینات نہیں ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈونلڈ ٹرمپ غزہ غزہ میں استحکام فورس غزہ میں امن فوج