24 جولائی کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا کہ فرانس ستمبر 2025 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اعلان کا خیرمقدم

29 جولائی کو برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اقوام متحدہ کی کانفرنس میں کہا کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں ہولناک حالات کا خاتمہ نہ کیا تو برطانیہ ستمبر 2025 میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔

اس کے بعد 31 جولائی کو کینیڈا نے اعلان کیا کہ وہ ستمبر میں ہونے والے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں فلسطین کو تسلیم کر لے گا۔

تینوں مذکورہ ممالک کے اس بیان پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یکم اگست کو اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور کہا وہ ان تینوں ممالک کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن مذکورہ تینوں ممالک نے یہ اعلان فلسطین میں جاری جبر و استبداد کی بناء پر کیا۔

مارچ 2025 تک، اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147 ممالک نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ جبکہ ستمبر 2025 میں ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر متعدد ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے یا اس کا اعلان کیا ہے جن میں آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا، پرتگال، جرمنی، مالٹا، فن لینڈ، نیوزی لینڈ، آئس لینڈ، لکسمبرگ، اینڈورا، اور سان مارینو شامل ہیں۔

فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے عالمی دباؤ

سنہ 1988 سے اب تک 146 ممالک فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عالمی جنوب (گلوبل ساؤتھ) کا حصّہ ہیں لیکن ان ممالک کی بڑی تعداد کی وجہ سے مغربی ممالک پر بھی دباؤ بڑھتا ہے۔

2024 میں ناروے، سپین، آئرلینڈ اور سلووینیا کی جانب سے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اقدام دیگر یورپی ممالک کے لیے ایک مثال بنا۔ جبکہ جی سیون ممالک میں سب سے پہلے فرانس نے اعلان کیا۔

اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع اور غزہ میں فوجی کارروائیاں، جنہیں بین الاقوامی قانون میں غیر قانونی قرار دیا گیا، نے عالمی برادری کی تنقید کو بڑھایا ہے۔

امن مذاکرات میں ناکامی

اوسلو معاہدوں کے بعد امن مذاکرات کے تعطل نے ممالک کو یکطرفہ طور پر فلسطین کو تسلیم کرنے کی طرف مائل کیا ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات سے نتائج نہیں نکل رہے۔

اِن ممالک کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے محرکات کیا ہیں؟

سب سے بڑا محرک فلسطین میں بالعموم اور غزہ میں بالخصوص انسانی حقوق کی شدید ترین پامالی، اسرائیلی بربریت اور سفّاکی کی غیر معمولی داستانیں ہیں جن کی وجہ سے اِن مغربی ممالک کے اندر لوگ احتجاج کے ذریعے اپنی حکومتوں پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ، جس میں ہزاروں فلسطینی جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوئے، نے عالمی سطح پر فلسطینیوں کے حقوق کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ غزہ میں انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹوں، بھوک اور تباہی نے مغربی ممالک سمیت عالمی برادری میں ہمدردی کو جنم دیا۔ یہ دباؤ خاص طور پر مغربی ممالک میں عوامی مظاہروں اور سیاسی مطالبات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔

بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلے: عالمی عدالت انصاف (ICJ) اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کی جانب سے اسرائیلی پالیسیوں کی مذمت اور اسرائیلی وزیراعظم کے گرفتاری وارنٹس کے مطالبات نے فلسطینی ریاست کی حمایت کو تقویت دی۔ یہ فیصلے ممالک کو فلسطین کی تسلیم کی طرف راغب کر رہے ہیں تاکہ عالمی قانون کی پاسداری کا مظاہرہ کیا جا سکے۔

دو ریاستی حل کی حمایت پر عالمی اتفاق رائے: دو ریاستی حل، یعنی اسرائیل اور فلسطین کی الگ الگ آزاد ریاستیں، کو عالمی سطح پر امن کے واحد قابل عمل حل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عرب امن منصوبے نے اسے تقویت دی ہے۔ ممالک فلسطین کو تسلیم کر کے اس حل کی طرف عملی پیش رفت کا اشارہ دیتے ہیں۔ پاکستان بھی دو ریاستی حل کی حمایت کرتا چلا آیا ہے۔

مغربی ممالک میں پالیسی کی تبدیلی: فرانس، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک، جو تاریخی طور پر اسرائیل کے حامی رہے ہیں، اب فلسطین کی تسلیم کو دو ریاستی حل کی بحالی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہ تبدیلی جزوی طور پر اسرائیلی پالیسیوں پر بڑھتی تنقید اور امن مذاکرات میں تعطل کی وجہ سے ہے۔

عوامی رائے اور احتجاج

مغربی ممالک میں، خاص طور پر فرانس، برطانیہ اور کینیڈا میں، فلسطینی حقوق کے لیے عوامی مظاہرے اور سیاسی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر، فرانس میں بائیں بازو اور مسلم برادریوں کے احتجاج اور برطانیہ میں ووٹروں کی مایوسی نے حکومتی پالیسیوں کو متاثر کیا ہے۔

مزید پڑھیے: سعودی عرب کی جانب سے کینیڈا اور مالٹا کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان کا خیر مقدم

سفارتی اور جغرافیائی سیاست،مغربی ممالک، خاص طور پر G7 ممالک، اپنی عالمی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو انسانی حقوق کے دعووں پر تنقید کی وجہ سے کمزور ہوئی ہے۔ فلسطین کو تسلیم کرنا ان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ عالمی جنوب کے ممالک کے ساتھ اپنی پوزیشن مضبوط کریں۔

امریکی پالیسیوں سے دوری: فرانس، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ امریکی پالیسی سے جزوی انحراف کو ظاہر کرتا ہے، جو تاریخی طور پر اسرائیل کی حمایت کرتی رہی ہے۔ یہ مغربی اتحاد میں دراڑ کی علامت ہے۔

عالمی قانون کی پاسداری

اقوام متحدہ کے ماہرین اور قراردادوں نے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا ہے۔ ممالک فلسطین کو تسلیم کر کے عالمی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

فلسطین کو تسلیم کیے جانے میں سعودی عرب کا کردار

فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیے جانے کے پیچھے سعودی عرب کی حمایت ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں فلسطینی ریاست کے قیام اور دو ریاستی حل کے لیے فعال سفارتی کردار اپنایا ہے۔

سفارتی اقدامات اور کانفرنسیں:سعودی عرب نے فرانس کے ساتھ مل کر 28-29 جولائی 2025 کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کی، جس کا مقصد فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کو فروغ دینا اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کئے جانے کے لیےعالمی اتفاق رائے پیدا کرنا تھا۔

سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے متعدد مواقع پر زور دیا کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنا خطے میں امن و استحکام کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کا حق خود ارادیت ناقابل تنسیخ ہے۔

سعودی عرب نے کئی ممالک، خاص طور پر مغربی ممالک، سے اپیل کی کہ وہ فلسطین کو تسلیم کریں۔ مثال کے طور پر، فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، اور مالٹا کے حالیہ اعلانات کو سعودی عرب نے سراہا اور دیگر ممالک کو بھی اس کی پیروی کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ ستمبر 2025 کے اجلاس سے قبل فلسطینی ریاست کی تسلیم کی حمایت کریں۔

دو ریاستی حل کے لیے تاریخی مؤقف

سعودی عرب نے 2002 کے عرب امن اقدام (Arab Peace Initiative)  کے ذریعے دو ریاستی حل کی تجویز پیش کی تھی، جو 1967 کی سرحدوں پر مشرقی یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کے تین چوتھائی رکن ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرچکے یا جلد کرنے والے ہیں

سعودی عرب نے واضح کیا کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا، جو اس کے مضبوط موقف کی عکاسی کرتا ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی حمایت

سعودی عرب نے فلسطینی صدر محمود عباس کی اصلاحاتی کوششوں کی تعریف کی اور فلسطینی اتھارٹی کی مالی اور سیاسی حمایت کی۔ اس نے اقوام متحدہ کی ایجنسی UNRWA کو بھی مکمل تعاون فراہم کرنے کی بات کی۔

سعودی عرب کی حالیہ کوششوں کو ’سفارتکاری میں ماسٹر کلاس‘ قرار دیا گیا اور اس سے سعودی عرب کا عالمی امیج مزید بڑھا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل سعودی عرب کا سفارتکاری قد سعودی عرب کا عالمی قدکاٹھ فلسطین فلسطین تسلیم فلسطینی ریاست.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل سعودی عرب کا سفارتکاری قد فلسطین فلسطین تسلیم فلسطینی ریاست فلسطینی ریاست کو تسلیم کر فلسطین کو تسلیم کرنے فلسطین کو تسلیم کر کو تسلیم کرنے کے دو ریاستی حل کی اقوام متحدہ کے اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ممالک فلسطین سعودی عرب کا مغربی ممالک جنرل اسمبلی نے فلسطینی کی جانب سے اعلان کیا ممالک میں کی وجہ سے کے طور پر تسلیم کی کی حمایت ممالک کے رہے ہیں کے ساتھ کیا ہے کے لیے کی طرف کیا کہ

پڑھیں:

ٹورزم، ماحولیات بہتری کیلئے خاطر خواہ کام کئے، سموگ میں کمی کے اقدامات دنیا تسلیم کر رہی ہے: مریم نواز

لاہور+ گوجرانوالہ (نیوز رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ خصوصی)  مریم نواز نے برازیل کوپ 30 اجلاس میں شرکت کے لئے جاتے ہوئے لندن میں مختصر قیام کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ پنجاب کوپ30 میں بطور مبصر کی حیثیت سے نہیں بلکہ باقاعدہ طور پر شریک ہورہا ہے۔ ستھرا پنجاب دنیا کا منظم ویسٹ مینجمنٹ پروگرام ہے۔ پنجاب میں ای موبلٹی شروع ہوچکا ہے، الیکٹرک بسیں اور الیکٹرک بائیک لائے ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے کہا کہ ٹرانسپورٹ کو بتدریج گرین انرجی پر شفٹ کیا جارہا ہے۔ ٹورازم، وائلڈ لائف اور ماحولیات میں بہتری کے لئے خاطرخواہ کام کیے ہیں۔ سموگ میں کمی اور خاتمے کے لئے اقدامات کو دنیا تسلیم کررہی ہے۔ برازیل کے شہر بیلم میں کوپ 30 اجلاس میں اپنے پراجیکٹ پیش کیے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے کہا کہ شہباز شریف نے میری ٹریننگ کی اور ان ہی کی نقش قدم پر چل رہی ہوں اور وہی میرے مینٹور ہیں۔ پنجاب کے عوام کی طرف سے جو محبت اور پیار ملا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجھے وزارت اعلیٰ میں کوئی مشکل نہیں آئی۔ گورنمنٹ میں ٹیم کی طرح کام کررہے ہیں، اس سے عوام میں پذیرائی مل رہی ہے۔  مریم نواز سکول اینڈ ریسورس سنٹر فار آٹزم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا معاون خصوصی وزیراعلیٰ برائے سپیشل ایجوکیشن ثانیہ عاشق کی سربراہی میں پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں آٹسٹک بچوں کی فلاح اور بحالی کے اہم اور تاریخی فیصلے کیے گئے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی ہدایت پر مریم نواز سکول اینڈ ریسورس سنٹر فار آٹزم میں آٹزم ٹیچر ٹریننگ اور ریسرچ ریسورس سنٹر قائم کیا جائے گا۔ بورڈ اجلاس میں آٹزم سکول میں بچوں کو فری یونیفارم، فری سکول میل کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے ویژن کے مطابق آٹسٹک معصوم بچوں کی فری تھراپی، فری بکس، فری پک اینڈ ڈراپ اور کھانا دیا جائے گا۔ مریم نواز سکول اینڈ ریسورس سنٹر فارآٹزم پاکستان کا پہلا سٹیٹ آف دی آرٹ سرکاری ادارہ جس میں آٹسٹک بچوں کو عالمی معیار کی تعلیم اور تھراپی اب بالکل مفت دی جائے گی۔ سکول میں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی حکومت کی جانب سے بالکل فری دستیاب ہو گی۔ اوپن جم، سینڈ تھراپی (SandTherapy)، سینسوری گارڈن (SensoryGarden) اور واکنگ ٹریک کی سہولت بھی فری ہوگی۔ بورڈ اجلاس میں مریم نواز سکول اینڈ ریسورس سنٹر فار آٹزم میں داخلوں اور سٹاف بھرتی کا عمل فوری شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز  نے وزیراعلی مریم نواز شریف کے وژن کو خراج تحسین کیا اور مریم نواز سکول فار آٹزم کے قیام پر اظہار تشکر کیا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اجلاس میں جدید ترین آٹزم سکول اور عالمی معیار کی سروسز ایک چھت تلے فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ پاکستان میں آٹسٹک بچوں کے لئے پہلے سرکاری آٹزم سکول میں تعلیم اور بحالی کی خدمات بالکل مفت فراہم کرنے کے فیصلے کی توثیق کی گئی۔ ایوننگ شفٹ میں سیلف فنانسنگ پر آٹسٹک بچوں کو تھراپی سروسز کی سہولت بھی دی جائے گی۔ سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ، سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ اور سیکرٹری ایجوکیشن نے اجلاس میں شرکت کی۔ سیکرٹری فنانس اور سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن بھی بذریعہ ویڈیولنک اجلاس میں شریک ہوئے۔ مریم نواز کا لندن پہنچنے پر صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) برطانیہ احسن ڈار کی جانب سے پرتپاک استقبال کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی جانب سے افغان بارڈر کی بندش سے کتنے کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا؟
  • پاکستان کی جانب سے افغانستان بارڈرز کی بندش سے کتنے کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا؟
  • برازیل میں عالمی موسمیاتی کانفرنس جاری، افغانستان کو دعوت نہیں دینے پر طالبان ناراض
  • اپوزيشن نے ترمیم کے ایک نکتے پر تقریریں کیں، مطلب باقی نکات تسلیم کرلیے: پرویز رشید
  • لگتا ہے اپوزیشن نے ترمیم کے باقی نکات تسلیم کرلیے ہیں، پرویز رشید
  • فلسطین کا ترکی کے اسرائیلی عہدیداروں کے خلاف وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کا خیرمقدم
  • ٹورزم، ماحولیات بہتری کیلئے خاطر خواہ کام کئے، سموگ میں کمی کے اقدامات دنیا تسلیم کر رہی ہے: مریم نواز
  • ریاست ِ مدینہ کے معالم اور جدید عالمی ترکیب
  • کتنے شیریں ہیں ترے لب
  • اسلام آباد، بین الپارلیمانی اسپیکرز کانفرنس، 40 ممالک کے رہنما شریک ہونگے