آسٹریلیا کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان، ستمبر میں باضابطہ اقدام متوقع
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
کینبرا(انٹرنیشنل ڈیسک)کینبرا میں کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ ان کا ملک فلسطینی ریاست کو آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کچھ یورپی ممالک کے فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو ’شرمناک‘ قرار دے کر سخت تنقید کی تھی۔
دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ جب تک ایک آزاد اور مکمل خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی، مزاحمت ختم نہیں کی جائے گی۔
عرب میڈیا کے مطابق حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جاری بالواسطہ مذاکرات گزشتہ ہفتے بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
’ نیوکلیئر توازن عالمی سلامتی کا ایک اہم جزو ‘، روس نے اپنے ایٹمی تجربات کو امریکی اقدام سے مشروط کر دیا
کریملن کے ترجمان دمیتری پسکوف نے کہا ہے کہ روس بین الاقوامی معاہدوں کے تحت نیوکلیئر ٹیسٹ پر پابندی کی اپنی ذمہ داری کو نہیں توڑے گا، تاہم اگر دیگر ممالک پابندی توڑیں تو روس بھی ٹیسٹ دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نیوکلیئر ٹیسٹ کے امریکی اعلان پر روس کا سخت ردِعمل، جوابی تیاریوں کا آغاز
یہ بیان پسکوف نے اس تنازع کے بعد دیا جس کی بنیاد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر مبنی تھی کہ پینٹاگون نیوکلیئر ٹیسٹ دوبارہ شروع کرنے کی تیاری کرے۔
ٹرمپ نے روس اور چین پر ’خفیہ‘ نیوکلیئر ٹیسٹ کرنے کا الزام عائد کیا، جسے دونوں ممالک مسترد کر چکے ہیں۔
صدر ولادیمیر پوتن نے بھی روس کی بین الاقوامی معاہدے کے تحت پابندی کی پختہ وابستگی کی تصدیق کی، مگر خبردار کیا کہ اگر امریکا یا دیگر ممالک ٹیسٹ دوبارہ شروع کریں تو ماسکو مناسب جوابی اقدامات کرے گا۔
پسکوف نے کہا کہ پیوٹن نے اہلکاروں کو صرف یہ ہدایت دی تھی کہ یہ جانچیں کہ آیا نیوکلیئر ٹیسٹ کی ضرورت ہے، نہ کہ دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں:ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی دوسرا ملک ایسا کرتا ہے، تو ہم برابر کی بنیاد پر ایسا کرنے پر مجبور ہوں گے، کیونکہ نیوکلیئر توازن عالمی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے۔
انہوں نے روس کے حالیہ نیوکلیئر پاورڈ بیوریویسٹنک کروز میزائل اور پوسائیڈن زیرِ آب ڈرون کے تجربات پر مغربی خدشات کو بھی مسترد کیا اور کہا کہ ان میں کوئی نیوکلیئر دھماکا شامل نہیں تھا۔
پسکوف نے مغربی ماہرین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ نیوکلیئر ٹیسٹ اور نیوکلیئر پاورڈ سسٹمز کے تجربات میں فرق نہیں کر پا رہے اور ماسکو واشنگٹن سے وضاحت کا منتظر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایٹمی تجربات چین روس صدر ٹرمپ کریملن نیوکلیئر ہیوٹن