کینبرا(انٹرنیشنل ڈیسک)کینبرا میں کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے کہا کہ ان کا ملک فلسطینی ریاست کو آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کچھ یورپی ممالک کے فلسطین کو تسلیم کرنے کے فیصلے کو ’شرمناک‘ قرار دے کر سخت تنقید کی تھی۔

دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا کہنا ہے کہ جب تک ایک آزاد اور مکمل خودمختار فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو جاتی، مزاحمت ختم نہیں کی جائے گی۔

عرب میڈیا کے مطابق حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے جاری بالواسطہ مذاکرات گزشتہ ہفتے بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے۔

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

’ خوشی بھی، تشویش بھی‘، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر عوامی ردعمل

حالیہ دنوں میں کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، پرتگال اور فرانس سمیت کئی بڑے ممالک نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ اب دنیا کے 150 سے زائد ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر مانتے ہیں۔

’ یہ اسرائیل کے لیے جھٹکا ہے‘، ادیل شادید

ہیبرون کے قریب دورا کے محقق ادیل شادید کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا فیصلہ ایک تاریخی اصلاح ہے کیونکہ برطانیہ نے ہی ایک صدی قبل بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے اسرائیل کی بنیاد رکھی تھی۔

ادیل شادید

ان کے مطابق یہ فیصلے اسرائیل کی سیاسی اور اخلاقی تنہائی میں اضافہ کرتے ہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ جب تک زمین اور عملی حقائق تبدیل نہیں ہوتے، صرف کاغذ پر ریاست کو تسلیم کرنا کافی نہیں ہوگا۔

’امریکا کا قدم سب سے اہم ہوگا‘، راعد السعید

ہیبرون کی مرکزی مارکیٹ میں کافی بیچنے والے راعد السعید کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس کی کوششوں سے یہ پیشرفت ممکن ہوئی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اصل کامیابی اس وقت ہوگی جب امریکا فلسطین کو ریاست تسلیم کرے گا۔

راعد السعید

انہوں نے بتایا کہ عوام میں ملا جلا ردعمل پایا جاتا ہے: کچھ لوگ پرامید ہیں جبکہ کچھ کو خدشہ ہے کہ اسرائیل انتقامی کارروائیوں میں شدت لا سکتا ہے۔

’فائدے بھی ہیں، خطرات بھی‘، مرام نصر

بین الاقوامی قانون کی ماہر مرام نصر نے کہا کہ یہ فیصلے فلسطین کی سیاسی و سفارتی حیثیت کو مضبوط کرتے ہیں، نئی ایمبیسیوں کے قیام اور عالمی سطح پر حمایت بڑھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ معاشی میدان میں بھی فائدہ دے سکتے ہیں، کیونکہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ اور فلسطینی عوام کی براہِ راست مدد کے راستے کھل سکتے ہیں۔

مرام نصر

تاہم وہ خدشہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیل ان فیصلوں کے ردعمل میں مزید زمینیں ہتھیانے اور فلسطینی ریاست کو غیر مؤثر بنانے کی کوششیں تیز کر سکتا ہے۔

فلسطینی عوام ان فیصلوں کو ایک بڑی کامیابی مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیل اس کے جواب میں مزید سخت اقدامات کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں:فلسطینی ریاست کا قیام ایک حق ہے، انعام نہیں، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی میں خطاب

ایک طرف یہ پیشرفت فلسطینی جدوجہد کے لیے ایک روشن باب ہو سکتی ہے، مگر دوسری طرف اس کے نتائج مزید مشکلات بھی لا سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل اقوام متحدہ امریکا فلسطین فلسطینی ریاست

متعلقہ مضامین

  • اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے؛ اٹلی نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کیلیے کڑی شرط رکھ دی
  • اٹلی: فلسطین کو ریاست تسلیم نہ کرنے پر ہنگامے پھوٹ پڑے
  • فلسطینی ریاست کے کھوکھلے نعرے، ستم کی رات ختم نہیں کر سکتے
  • فرانس ،لکسمبرگ، بیلجیئم، موناکو اور مالٹا کا سرکاری طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • فرانس نے بھی فلسطینی ریاست کو باضابطہ تسلیم کر لیا
  • فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کرنے پر اٹلی میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے
  • پی ٹی آئی کا برطانیہ،آسٹریلیا اورکینیڈا کی جانب سے فلسطین کو بطورریاست تسلیم کرنے پرخیر مقدم
  • ’ خوشی بھی، تشویش بھی‘، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر عوامی ردعمل
  • برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے بعد فرانس کا بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
  • فرانس سمیت مزید 6 ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلیا