وہ ملک جس کی معیشت کی کمر اتنی نہ مضبوط ہو کہ اپنی اسی فیصد آبادی کی بھوک کا بوجھ نہ سہار سکے اس ملک کی اشرافیہ اور مقتدرہ کروڑوں روپے کا زر شرلیوں اور دیگر آگ اگلتے پٹاخوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں اور ایک مسکراہٹ کے نذرانے کے ساتھ ایسی شہ خرچی کرنے کو خراج تحسین پیش کر کے کرکٹ میچ دیکھنے کے مزے اڑاتے رہ جائیں ایسے حکمرانوں اور مقتدرہ کے کارپردازگان خوش نوا کو اکیس توپوں کی سلامی ۔
نا ں کہ فیس بک پر یاران سرپل نے اس امر پر شور برپا کردیا کہ اللوں تللوں کا ایک کھیل آمر پرویز مشرف نے اس طور رچایا کہ وطن عزیز کو شاہ خرچی کا ایک ٹیکہ ہر ماہ لگایا اربوں کی صورت لگایا جا رہا ہے اور لگتا ہے جیسے کسی کو خبر ہی نہ ہو قومی اسمبلی میں خواتین کی 60نشستیں مخصوص ہیں۔پنجاب اسمبلی میں 66،سندھ اسمبلی میں 29،خیبر پختون خواہ اسمبلی میں 22 اور بلوچستان اسمبلی میں خواتین کی گیارہ مخصوص نشستیں ہیں جو ٹوٹل 188 نشستیں بنتی ہیں۔
جنرل پر ویز مشرف تو رونق میلوں کے رسیا تھے انہوں نے اپنے دور اقتدار اپنے ذوق کی تسکین کے لئے ،اپنے منظور نظر بڑے خاندانوں کی فیشن زدہ حسن نمائش کی شوقین نرتکیوں کے لئے اور اپنے ذوق نظر کے لئے یہ اہتمام و انصرام کیا آخر ان کے بعد آنے والوں خصوصاً مسلم کلچر کے فروغ کی دعویدار ن لیگ کو اس کی کیا احتیاج تھی اور مدعیان ریاست مدینہ کی کیا مجبوری تھی کہ اربوں روپے سالانہ کا یہ زہر ناک ٹیکہ افتادگان خاک کو لگانے کی ریت جاری رکھی اور اس پر اسلامی سیاسی جماعتوں نے بھی کبھی احتجاج نہ کیا اور آج بھی امیر زادیاں عوام کے لہو سے نچوڑے ہوئے انہیں اربوں روپے کے نت نئے ڈیزائن کے زیورات بنواتی ہیں اور ملکوں ملکوں کے دورے مفت میں۔
اس پر تو مرنجاں مرنج چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے بھی قوم کو معاف نہیں کیا کہ خواتین کو پردے میں رکھا تو گھر کے سب مردوں کو مختلف اسمبلیوں میں بیٹھا دیا کہ ان کا کچن چلنا دشوار تھا اور تازہ واردات پنڈی میں ہونے والے کراچی ،پشاور کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ کی صورت حافظ صاحب کی موجودگی میں کی گئی اور مسرت و انبساط کے کیف میں وہ بھی یہ بھول گئے ملک کے ایک شہر کو آتش فشاں بنا دیا گیا ہے ،پتہ نہیں یہ آتش گیر مادہ کتنی جھگیوں پر عذاب بن کر گرا ہوگا اور وہ خاکستر ہوئی ہوں گی اس طرح کہ اس سانحے پر احتجاج کرنے والا بھی کوئی نہیں بچا ہوگا۔واللہ اعلم
ہم بھی ان میں سے کسی کا غم نہیں بانٹ سکتے کہ ہم نے تو ان کے مفلوک الحال معصوموں کی کبھی خبر تلک نہیں لی ،ان کی زندگی میں آسانیاں بھرنے کی کوشش تو کجا ان کے بارے کبھی سوچا ہی نہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ ضیا دور کے ایک بلدیاتی انتخابات کے موقع پر ایک حلقے میں جانا ہوا تو وہ امیدوار نہ جانے کہاں سے شناختی کار بنانے والی مشین لے آئے تھے اور اتھارٹی کے نقد دستخطوں کا بھی اہتمام کیا ہوا تھا اور یہ مشین پکھی واسوں کی ایک گنجان آبادبستی میں لگائی گئی،موقع پر عورتوں مردوں کے شناختی کارڈ بنائے جاتے اور ویگنوں میں بھر بھر کر انہیں پولنگ اسٹیشن پہنچایا جاتا اور ووٹ بھگتانے کے بعد ایک وقت کے کھانے کے پیسے دیئے جاتے ۔ان میں ایسے افراد بھی تھی جو روٹی کی بجائے ہیروئین کی ایک پڑیا کے وعدے پر لائے گئے تھے۔یہ ہیں ہماری سیاست کے رنگ ،ریاست کے خدو خال ،ہمارے حکمرانوں کی بے اعتدالیاں اور ہماری سرحدی اور جغرافیائی سرحدوں کے امینوں کے وہ حالات و واقعات جو ہمیں نصاب میں شامل کرنے کی اجازت نہ ہوگی ۔
حسب روایت کہ یہ ہماری زندگی کا اہم سوال ہے جو ہمیشہ سوالیہ نشان رہے گا؟اور ہمارا تاج اچھالنے کے خواب کو کبھی تعبیر نہیں ملے گی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسمبلی میں
پڑھیں:
مقامی حکومتوں کے لیے آئین میں تیسرا باب شامل کیا جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خاں نے اسموگ پر قابو پانے کے لیے نئے انوائرمنٹ ایکٹ سمیت مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا مؤقف تھا کہ انوائرمنٹ ایکٹ کے بغیر انتظامی ہدایات مؤثر ثابت نہیں ہوسکتیں۔
’آپ سیکریٹریز کو جتنی مرضی ہدایات دے دیں، انوائرمنٹ ایکٹ کے بغیر سموگ پر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘
یہ بھی پڑھیں: اینٹی اسموگ گنز سے لاہور میں پانی کا بحران مزید گہرا ہونے کا خدشہ، ماہرین نے خبردار کردیا
اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملک محمد احمد خاں نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ ایک اہم اور بنیادی ایشو ہے، جسے آئینی تحفظ فراہم کرنا ناگزیر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پارلیمنٹ آف پاکستان سے آئینی ترمیم کا مطالبہ کیا ہے تاکہ مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ حاصل ہو۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے بتایا کہ اپوزیشن کے بعض اراکین نئے ایکٹ کی کمپوزیشن پر عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مزیدپڑھیں: اسموگ فری پنجاب: ’ایک حکومت، ایک وژن، ایک مشن، صاف فضا‘
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اسی کمپوزیشن پر مبنی آئینی ترمیم کا مطالبہ بھی پارلیمنٹ سے کیا گیا ہے۔
’پی ایل جی او کا ایک اچھا پہلو یہ تھا کہ اس نے مقامی حلقوں کو طاقت دی، چاہے اس کا طریقہ کار درست نہیں تھا۔ لیکن جب تک آئینی تحفظ نہیں ملے گا، کوئی بھی قانون فائدہ نہیں دے سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے قانون بنایا لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے آتے ہی مقامی حکومتوں کی مدت ختم کردی۔
مزیدپڑھیں: اینٹی اسموگ گنز سے لاہور میں پانی کا بحران مزید گہرا ہونے کا خدشہ، ماہرین نے خبردار کردیا
’یہ بحث قانون کی نہیں، آئین کی ہے، جیسے آئین یہ طے کرتا ہے کہ وفاق کی حکومت کیسی ہوگی، اسی طرح مقامی حکومتوں کے لیے آئین میں ایک تیسرا باب شامل کیا جانا چاہیے۔‘
ملک محمد احمد خاں نے اس بات کو ’آئینی جرم‘ قرار دیا کہ اب تک آئین میں مقامی حکومتوں سے متعلق تیسرا باب شامل نہیں کیا گیا۔
ان کے مطابق، یہ جرمِ ضعیفی ہے جو گزشتہ پچاس برس سے دہرایا جا رہا ہے۔
مزیدپڑھیں: اینٹی اسموگ آپریشن کے باوجود لاہور آلودہ ترین شہر، ’یہ پنجاب حکومت کر کیا رہی ہے؟‘
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ہم نے 9 کے قریب قوانین کا جائزہ لیا، تحریک انصاف کے دور میں کئی قوانین بنے اور ٹوٹے، لیکن یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب کسی حکومت کی اکثریت مقامی حکومت میں نہیں آتی تو اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ ’یہ تعطل ختم کرنے کے لیے آئینی تحفظ ضروری ہے۔‘
ملک محمد احمد خاں نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والی حالیہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس کی مخالفت کسی جماعت نے نہیں کی۔
مزیدپڑھیں: لاہور: آلودگی میں کمی کے لیے اسموگ ٹاور کا تجربہ ناکام، مطلوبہ نتائج نہ مل سکے
’یہ قرارداد 81 ارکان پر مشتمل کاکس سے آئی جس میں اپوزیشن بھی شامل تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ جب یہ کاکس بنایا جا رہا تھا تو مخالفت کا سامنا تھا، لیکن اس وقت بھی انہوں نے واضح کیا تھا کہ کاکس کا مقصد عوامی مسائل پر مل کر کام کرنا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی تحفظ اسپیکر انوائرمنٹ ایکٹ پنجاب اسمبلی پی ایل جی او تحریک انصاف سموگ کاکس مسلم لیگ ن مقامی حکومت ملک محمد احمد خان