Daily Ausaf:
2025-09-17@23:17:38 GMT

ہمارا تاج اچھالنے کا خواب

اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT

وہ ملک جس کی معیشت کی کمر اتنی نہ مضبوط ہو کہ اپنی اسی فیصد آبادی کی بھوک کا بوجھ نہ سہار سکے اس ملک کی اشرافیہ اور مقتدرہ کروڑوں روپے کا زر شرلیوں اور دیگر آگ اگلتے پٹاخوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں اور ایک مسکراہٹ کے نذرانے کے ساتھ ایسی شہ خرچی کرنے کو خراج تحسین پیش کر کے کرکٹ میچ دیکھنے کے مزے اڑاتے رہ جائیں ایسے حکمرانوں اور مقتدرہ کے کارپردازگان خوش نوا کو اکیس توپوں کی سلامی ۔
نا ں کہ فیس بک پر یاران سرپل نے اس امر پر شور برپا کردیا کہ اللوں تللوں کا ایک کھیل آمر پرویز مشرف نے اس طور رچایا کہ وطن عزیز کو شاہ خرچی کا ایک ٹیکہ ہر ماہ لگایا اربوں کی صورت لگایا جا رہا ہے اور لگتا ہے جیسے کسی کو خبر ہی نہ ہو قومی اسمبلی میں خواتین کی 60نشستیں مخصوص ہیں۔پنجاب اسمبلی میں 66،سندھ اسمبلی میں 29،خیبر پختون خواہ اسمبلی میں 22 اور بلوچستان اسمبلی میں خواتین کی گیارہ مخصوص نشستیں ہیں جو ٹوٹل 188 نشستیں بنتی ہیں۔
جنرل پر ویز مشرف تو رونق میلوں کے رسیا تھے انہوں نے اپنے دور اقتدار اپنے ذوق کی تسکین کے لئے ،اپنے منظور نظر بڑے خاندانوں کی فیشن زدہ حسن نمائش کی شوقین نرتکیوں کے لئے اور اپنے ذوق نظر کے لئے یہ اہتمام و انصرام کیا آخر ان کے بعد آنے والوں خصوصاً مسلم کلچر کے فروغ کی دعویدار ن لیگ کو اس کی کیا احتیاج تھی اور مدعیان ریاست مدینہ کی کیا مجبوری تھی کہ اربوں روپے سالانہ کا یہ زہر ناک ٹیکہ افتادگان خاک کو لگانے کی ریت جاری رکھی اور اس پر اسلامی سیاسی جماعتوں نے بھی کبھی احتجاج نہ کیا اور آج بھی امیر زادیاں عوام کے لہو سے نچوڑے ہوئے انہیں اربوں روپے کے نت نئے ڈیزائن کے زیورات بنواتی ہیں اور ملکوں ملکوں کے دورے مفت میں۔
اس پر تو مرنجاں مرنج چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے بھی قوم کو معاف نہیں کیا کہ خواتین کو پردے میں رکھا تو گھر کے سب مردوں کو مختلف اسمبلیوں میں بیٹھا دیا کہ ان کا کچن چلنا دشوار تھا اور تازہ واردات پنڈی میں ہونے والے کراچی ،پشاور کے درمیان ہونے والے کرکٹ میچ کی صورت حافظ صاحب کی موجودگی میں کی گئی اور مسرت و انبساط کے کیف میں وہ بھی یہ بھول گئے ملک کے ایک شہر کو آتش فشاں بنا دیا گیا ہے ،پتہ نہیں یہ آتش گیر مادہ کتنی جھگیوں پر عذاب بن کر گرا ہوگا اور وہ خاکستر ہوئی ہوں گی اس طرح کہ اس سانحے پر احتجاج کرنے والا بھی کوئی نہیں بچا ہوگا۔واللہ اعلم
ہم بھی ان میں سے کسی کا غم نہیں بانٹ سکتے کہ ہم نے تو ان کے مفلوک الحال معصوموں کی کبھی خبر تلک نہیں لی ،ان کی زندگی میں آسانیاں بھرنے کی کوشش تو کجا ان کے بارے کبھی سوچا ہی نہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ ضیا دور کے ایک بلدیاتی انتخابات کے موقع پر ایک حلقے میں جانا ہوا تو وہ امیدوار نہ جانے کہاں سے شناختی کار بنانے والی مشین لے آئے تھے اور اتھارٹی کے نقد دستخطوں کا بھی اہتمام کیا ہوا تھا اور یہ مشین پکھی واسوں کی ایک گنجان آبادبستی میں لگائی گئی،موقع پر عورتوں مردوں کے شناختی کارڈ بنائے جاتے اور ویگنوں میں بھر بھر کر انہیں پولنگ اسٹیشن پہنچایا جاتا اور ووٹ بھگتانے کے بعد ایک وقت کے کھانے کے پیسے دیئے جاتے ۔ان میں ایسے افراد بھی تھی جو روٹی کی بجائے ہیروئین کی ایک پڑیا کے وعدے پر لائے گئے تھے۔یہ ہیں ہماری سیاست کے رنگ ،ریاست کے خدو خال ،ہمارے حکمرانوں کی بے اعتدالیاں اور ہماری سرحدی اور جغرافیائی سرحدوں کے امینوں کے وہ حالات و واقعات جو ہمیں نصاب میں شامل کرنے کی اجازت نہ ہوگی ۔
حسب روایت کہ یہ ہماری زندگی کا اہم سوال ہے جو ہمیشہ سوالیہ نشان رہے گا؟اور ہمارا تاج اچھالنے کے خواب کو کبھی تعبیر نہیں ملے گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسمبلی میں

پڑھیں:

یہ وہ لاہور نہیں

لاہور کے حوالے سے کچھ کہنے کا حق تو پرانے لاہوریوں کو حاصل ہے، میرے جیسے لوگ بھی البتہ خود کو لاہوری کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ لگ بھگ 30 برس سے یہاں پر مقیم ہوں۔ میرے بچے یہیں پرپیدا ہوئے، پروان چڑھے، تعلیم وغیرہ سب ادھر ہی حاصل کی۔ اب تو اپنے آبائی شہر دو دو سال تک جانا نہیں ہو پاتا۔ رب ہی جانتا ہے کہ کہاں کی مٹی کہاں جا کر ملے گی، مگر میری تو خواہش ہے کہ وقت آخریں بھی ادھر آئے اور مٹی بھی داتا کی نگری کی نصیب ہو۔

اس کا البتہ افسوس ہے کہ ہم نے اپنے سامنے لاہور کو بدلتے ہوئے دیکھا۔ اس کا وہ حسن، رنگینی، دلکشی اور فسوں بتدریج تحلیل ہوتا گیا۔ آج کا لاہور کنکریٹ کا ایسا سنگی شہر ہے جس کی مناسبت 30 سال پہلے کے لاہور سے نہیں۔

مجھے یاد ہے کہ جب 30 سال پہلے لاہور آیا تو یہ دھیمے سروں کا ایک حسین شہر لگا، جس نے اپنے بازو اس بے خانماں مسافر کے لیے کھول دیے تھے۔ ایک زمانے میں کراچی کو غریب نواز شہر کہا جاتا تھا، ہم نے تو یہ وصف لاہور میں بھی کمال درجے پر پایا۔ کھانا سستا اور عمدہ۔ گلی محلے میں ریڑھی پر ایسے لذیذ نان چنے، بونگ شوربہ مل جانا کہ آدمی انگلیاں چاٹتا رہ جائے۔ جگہ جگہ پر ڈھابے، روایتی کھانوں کے مرکز جہاں مزے کے کھانے مل جاتے۔ ہریسہ، نہاری، حلیم، پٹھورے، مختلف انداز کے کباب، روایتی انداز کی مچھلی اور نجانے کیا کیا۔ اب تو لگتا ہے مہنگائی کا طوفان ہر شے کو لے ڈوبا۔

لاہور کی بڑی وجہ شہرت یہاں کا علمی، فکری اور ثقافتی ماحول رہا ہے۔ سرسید احمد خان کوئی سوا سو سال قبل لاہور آئے تو لاہوریوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہیں زندہ دلانِ لاہور کا نام دیا۔ یہ شہر زندہ دلان طویل عرصے تک اپنے شعبوں کے ممتاز ترین افراد سے آباد تھا۔ شاعری، ادب، تنقید، تحقیق، مصوری، ڈرامہ،تھیٹر، موسیقی، میلے، تہوار۔۔۔ ہر حوالے سے لاہور کے دلنشیں رنگ نمایاں تھے۔ ایسے ایسے قدآور لوگ ایک ہی وقت میں یہاں موجود تھے کہ اس زمانے کے لاہوریوں پر رشک آتا ہے۔ آپ خود تصور کریں کہ علمی اعتبار سے اسی شہر میں ایک طرف اچھرہ میں مولانا مودودی کی عصر کی محفل تھی، مولانا اصلاحی کا درس قرآن ہوتا، علامہ غلام احمد پرویز کی اپنی علمی محفل سجتی، اس کے علاوہ بھی کئی علمی، مذہبی محافل ہوتیں۔ اس کہکشاں کے رنگوں کی جھلک اس زمانے کی یادوں پر مشتمل کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

29 سال پہلے جب ہم لاہور وارد ہوئے تو صحافت کے علاوہ ایک بڑی کشش لاہور کے علمی ادبی ماحول کاحصہ بننے کی خواہش تھی۔ لاہور کی پرانی یادوں پر مشتمل کئی کتابیں پڑھ رکھی تھی۔ اس فسوں خیز ماحول کا تصور کر کے آدمی انبساط سے سرشار ہوجاتا۔ پاک ٹی ہاؤس جانے کی خواہش تھی۔ لاہور کی ادبی ڈائریاں بڑے شوق سے پڑھتا تھا، حلقہ ارباب ذوق کے اجلاسوں کی تفصیل جہاں باقاعدگی سے شائع ہوتیں۔ یہی سوچتے لاہور پہنچا کہ ٹی ہاؤس میں ہونے والی بحثیں کس رنگ کی ہوں گی، کیا کیا کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔ گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کا بڑا شہرہ سنا تھا۔ برٹش کونسل اور امریکن سینٹر کی لائبریریوں کی بھی دوستوں سے تعریف سنتے رہے تھے۔

افسوس کہ اپنی آنکھوں سے لاہور کا وہ پورا کلچر بدلتے دیکھا۔ یہ خوش گمانی تو لاہور آتے ہی ہوا ہوگئی کہ یہاں پر ماضی کی طرح کے ادبی حلقے اور فکری نشستیں جاری ہیں۔ بڑے بڑے ادیب اور دانشور جن میں شامل ہوتے اور نوجوانوں کی تربیت کا باعث بنتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ سب کچھ بکھر چکا ہے۔ وہ لوگ رخصت ہوگئے، جو اپنی ذات میں انجمن تھے۔ جو بچے، وہ اپنے اپنے گھروندوں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ کچھ بڑھاپے کے باعث متحرک نہیں رہے۔ بعض کو اب ہجوم بھاتا ہی نہیں۔ کسی نے اپنے گھر میں کبھی کوئی ستائشی نشست جما لی، جس میں دو چار مداحین اکٹھے ہوگئے۔ مشروب مغرب کے پیالوں پر تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے رہے۔

کچھ یہ بھی ہوا کہ ٹی ہاؤس کا کھلا ڈلا درویشانہ ماحول اب ہمارے سپر اسٹار ادیبوں، دانشوروں کو راس ہی نہیں تھا۔ اس کی جگہ پانچ ستارہ ہوٹلوں اور اعلیٰ پائے کے ان کلبوں نے لے لی، جہاں کی سالانہ فیس لاکھوں اور ممبرشپ کے لیے کروڑ پتی ہونا شرط تھی۔ وہاں وہ گاہے بگاہے نشست جماتے اور اشرافیہ کو اپنے علم وہنر سے مسحور کرتے۔ شروع میں ہم حلقہ کے اجلاسوں میں بھی شامل ہوتے رہے، پیچھے بیٹھنے والے ایک مبصر کے طور پر۔ سچ تو یہ کہ کچھ مزا نہ آیا۔ لگا کہ یہاں پر آنے والے بہت سے لوگوں کو ابھی دنیا بدل جانے کی اطلاع ہی نہیں ملی۔ یہ خبر ہی نہیں پہنچ سکی کہ اب 70 اور 80 کا عشرہ نہیں، بلکہ نئی صدی، نیا ملینئم شروع ہوچکا ہے۔ وہی لگے بندھے تصورات، گھسی پٹی تھیوریاں، ادبی مناقشے اور سب سے بڑھ کر تحریر سے زیادہ چہرہ دیکھ کر داد، بے داد دینا۔ پرانے لوگوں میں سے سید قاسم محمود جب تک زندہ تھے، وہ فعال رہتے، خاص اجلاسوں میں شامل بھی ہوجاتے۔ بہت سے سینیئر ادیب اور لکھاری البتہ شریک نہ ہوتے۔ ادبی محفلوں کی بے رونقی بڑھتی گئی۔ (یہ نائن الیون کے آس پاس کی بات کر رہا ہوں یعنی اٹھانوے، ننانوے سے 2001، 2002 تک۔)

ادھر دہشتگردی کے خوف سے برٹش کونسل لائبریری اور امریکن سینٹر لائبریری دونوں تک رسائی ختم ہوگئی۔ اجوکا کے بعض ڈرامے میں نے امریکن سینٹر کے ہال میں دیکھے، بعد میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ میں بھی کچھ ڈرامے ہوئے۔ پھر گوئٹے سینٹر بھی نہ رہا۔ خیر پھر اجوکا نے الحمرا کا رخ کیا۔ سال میں ایک آدھ بار وہ اپنے دو چار ڈرامے کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، مگر پہلے جیسی بات نہیں۔

نائن الیون سے پہلے کے برسوں میں رفیع پیر تھیٹر والے ہر سال اکتوبر نومبر میں عالمی پرفارمنگ تھیٹر فیسٹیول کراتے تھے۔ اس میں کئی یورپی ممالک سمیت قریباً تمام جنوبی ایشیائی ممالک کے تھیٹر گروپس آتے، دستاویزی فلمیں دکھائی جاتیں۔ شیما کرمانی، نگہت چوہدری اور تحریمہ مٹھا کمال شائستگی اورفنکاری سے نرت کی باریکیاں بیان کرتیں۔ افسوس کہ بدبخت دہشتگردوں نے لاہوریوں کو اس عالمی فیسٹیول سے بھی محروم کر دیا۔ اب پچھلے چند برسوں سے لاہور میں معاملات ٹھیک ہیں، مگر تھیٹر فیسٹیول کی کہانی ختم ہوچکی۔

لاہور کی ایک اور خاص بات فروری میں بسنت فیسٹیول تھا۔ ایسی رونق اور خوبصورتی جو لاہوریے آج بھی یاد کرتے ہیں۔ افسوس کہ ایسے شاندار تہوار کو کچھ کنزیومر ازم اور کچھ لوگوں کی حماقتیں مار گئیں، حکومت بھی اسے ہینڈل کرنے میں ناکام رہی۔ اب تو لگتا ہے کہ بسنت کا صرف نام ہی کلچر کی پرانی کتابوں میں رہ جائے گا۔ پھر ہر سال مارچ کا پورا مہینہ ریس کورس پارک میں جشن بہاراں کا میلہ لگتا۔ سندھ، بلوچستان اور پختونخوا سے بھی فن کار، ہنرمند آتے۔ مجھے یاد ہے کہ شکار پور والوں کے اسٹال سے ان کا مشہور اچار اور ماوا (کھویا) کئی بار لیا۔ ایک بار بلوچستان کے اسٹال سے خوبصورت بگٹی چپل بھی خریدی۔ عجب رنگا رنگ فیسٹیول تھا وہ بھی۔ اب وہ بھی اجڑ گیا۔ لگتا ہے جیسے لاہور اور لاہوریوں سے رنگ روٹھ ہی گئے ہیں۔

لیجنڈری شخصیات کی مالا بھی نہ رہی۔ رفتہ رفتہ موتی جیسے وہ لوگ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتے رہے۔ افسوس کہ ان کی جگہ لینے کے لیے دور دور تک کوئی موجود نہیں۔ ہر ایک کے جانے سے ایسا خلا پیدا ہوا جو آج تک نہیں بھر سکا۔ احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، اشفاق احمد، قتیل شفائی، ڈاکٹر وزیرآغا، ڈاکٹر انیس ناگی، شہزاد احمد، سید قاسم محمود اور ہمارے ہردلعزیز امجد اسلام امجد۔۔۔ کس کس کا نام لیا جائے۔

ان میں بعض ایسے بھی تھے، جو آخری عمر تک محدود پیمانے پر ہی سہی، مگر محفلیں سجاتے رہے۔ اشفاق صاحب اگرچہ پوش علاقے کے ایک شاندار گھر میں مقیم تھے، گیٹ پر ایک چاق و چوبند گارڈ تعینات تھا، بغیر وقت لیے ملنا آسان نہیں تھا۔ اس گھر کے دروازے البتہ نوجوانوں پر کھلے تھے۔ کوئی بھی لڑکا، لڑکی فون پر وقت لے کر اشفاق صاحب سے مل سکتا تھا۔ بابوں کے قصے کہانیاں، روحانیت میں ڈوبی حکایتیں سننے کے ساتھ ان کی فراخدلانہ میزبانی سے بھی لطف اندوز ہوتا۔ دو چار بار ہم بھی حاضر ہوئے، گھنٹوں پر محیط ان نشستوں کی یادیں آج بھی پہلے دن کی طرح تروتازہ ہیں۔

احمد ندیم قاسمی صاحب بھی مجلس ترقی ادب کے دفتر میں موجود ہوتے۔ ان کے گرد احباب کا جھمگھٹا لگا رہتا۔ قاسمی صاحب ادیب تو بڑے تھے ہی، مگر ادیب ساز بھی کمال کے تھے۔ میں تو ایک آدھ بار ہی وہاں جا سکا، مگر ہمارے کئی دوست وہاں جاتے رہے، ان کی تحریریں فنون میں بھی شائع ہوتیں۔ منیر نیازی یکسر مختلف مزاج کے انسان تھے۔ ان کا ایک مخصوص حلقہ احباب تھا، ہر ایک نیازی صاحب کے مزاج کو نہیں سمجھ پاتا نہ ہی ان کی نظر میں جچنا آسان کام تھا۔

ڈاکٹر وزیر آغا سے ان کے آخری دنوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ طفیل روڈ، کینٹ کے ایک پرسکون گھر میں وہ مقیم تھے۔ یار دیرینہ کرامت علی بھٹی کے ساتھ ڈاکٹر وزیرآغا سے فون پر وقت طے کر کے حاضر ہوتے۔ کمال آدمی تھے، اپنا علم اور معلومات اپ ڈیٹ رکھتے۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے ہر ملاقات معلومات اور علم کے نئے در وا کرتی۔ دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو کرتے۔ سائنس اور کاسمولوجی جیسے موضوعات پر ان جیسی نظر رکھنے والا کوئی ادیب میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ جی چاہتا ہے کبھی ڈاکٹر صاحب مرحوم پر تفصیل سے لکھوں، ان کی آپ بیتی بڑی دلچسپ اور شاندار ہے۔ جانے کیوں ہمارے نقادوں نے ڈاکٹر صاحب کی شاعری کی طرح ان کی خود نوشت کو بھی سفاکانہ بے پروائی سے نظر انداز کیا؟

پاک ٹی ہاؤس کو ہم نے اپنے سامنے بند ہوتے اور پھر اسے دوبارہ سے شروع ہوتے دیکھا۔ اس کا دوبارہ شروع ہونا عطاالحق قاسمی صاحب کا کریڈٹ ہے۔ ان کی کاوش سے ارباب اقتدار اس جانب مائل ہوئے۔ پاک ٹی ہاؤس صرف چائے خانہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی علامت بھی تھا۔ نصف صدی سے زیادہ علمی، ادبی، فکری اور تہذیبی سفر کا عینی شاید۔ ایسے تہذیبی مراکز زندہ رہنے چاہییں۔ پاک ٹی ہاؤس میں اب بھی حلقہ ارباب ذوق اور بعض دیگر تنظیموں کے اجلاس ہوتے ہیں۔ پچھلے سال بہت متحرک نواز کھرل سیکریٹری تھے تو انہوں نے کئی یادگار اجلاس منعقد کر ڈالے۔

پاک ٹی ہاؤس کے باہر انارکلی کا مشہور پرانی کتابوں کا بازار لگتا ہے۔ ہر اتوار کو کتابوں کے متلاشی وہاں کا رخ کرتے اور اپنے ذوق کی تسکین کرتے ہیں۔ وہاں سے بسا اوقات کئی شاندار کتابیں بہت سستے داموں مل جاتی ہیں۔ اس سب کے باوجود کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ دراصل ادبی مراکز صرف عمارتوں سے تو نہیں بنتے، اصل اہمیت تو ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اگر فٹ پاتھ پر بیٹھ جائیں تو وہ محفل کی صورت دھار لیتا ہے۔ ایسے لوگ کہاں سے اب لائیں؟ وہ نوجوان کہاں سے لائیں جو چائے کی پیالی پر بحث مباحثے، نظریات ڈسکس کرتے، دنیا بدل جانے کے خواب دیکھتے تھے۔ وہ خواب دیکھنے والے کہاں سے آئیں گے؟

ایسا نہیں کہ لاہور مردہ شہر ہے، اس میں زندگی آج بھی دوڑتی ہے، اس کے رگ وپے میں خون دوڑتا ہے، مگر وہ پہلے سی بات نہیں رہی۔ شائد ہم نے اپنے سامنے اس شہر کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، اس لیے اس میں پرانی پرچھائیں ڈھونڈتے ہیں۔ ممکن ہے کسی نوجوان کو ایسا کچھ محسوس نہ ہو۔

لاہور میں دانشوروں، اساتذہ اور صحافیوں کا ایک فورم سی این اے (سی این اے) بھی ہے، پچھلے 28 برسوں سے ہر جمعہ کی شام اس کا اجلاس ہوتا ہے، مختلف ایشوز پر گفتگو، بحث مباحثہ۔ اکیس برسوں سے میں اس کا ریگولر ممبر ہوں۔ لاہور کے بہت سے نامور صحافی، اساتذہ، پروفیسر، دانشور اس کے ممبر رہے ہیں، بہت سے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سینیئر صحافی، ایڈیٹر ارشاد احمد عارف اسے فعال اور زندہ رکھے ہوئے ہیں، تونسہ کے سردار غلام مصطفیٰ میرانی اس کے سدابہار چیئرمین ہیں۔ میں سی این اے کے فورم میں ہر جمعہ شریک ہوتا ہوں۔ لاہور میں ایسی بیٹھک، ایسے فورم غنیمت ہیں، مگر وہی بات کہ آج کے لاہور میں کچھ نہ کچھ مسنگ ضرور ہے۔ جیسے پھولوں کی خوشبو کم ہوجائے، تتلی کے رنگ پھیکے پڑ جائیں، جیسے باد صبا میں بادِ سموم کی آمیزش ہوجائے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

wenews ثقافتی ماحول رنگینی عامر خاکوانی علمی و ادبی محفلیں کنکریٹ لاہور وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • کشمیری حریت رہنما عبدالغنی بٹ آزادی کا خواب آنکھوں میں لیے چل بسے
  • امریکہ کی طرف جھکاؤ پاکستان کو چین جیسے دوست سے محروم کر دے گا،علامہ جواد نقوی
  • ’چاند نظر نہیں آیا کبھی وقت پر مگر ان کو دال ساری کالی نظر آ رہی ہے‘
  • زینت امان کو اپنا آپ کبھی خوبصورت کیوں نہ لگا؟ 70 کی دہائی کی گلیمر کوئین کا انکشاف
  • قطر ہمارا قریبی اتحادی ہے‘اسرائیل دوبارہ حملہ نہیں کرئے گا.صدرٹرمپ
  • قطر ہمارا اتحادی، اسرائیل دوحہ پر دوبارہ حملہ نہیں کرے گا: امریکی صدر کی یقین دہانی
  • قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، اسرائیل دوبارہ اس پر حملہ نہیں کریگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • میجر عدنان اسلم شہید قوم کے ہیرو ہیں، قربانی کبھی رائیگاں نہیں جائے گی، عاطف اکرام شیخ
  • یہ وہ لاہور نہیں