سائنس دانوں کا مرد تن سازوں سے متعلق ہوشربا انکشاف!
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ مرد تن ساز قلبی مسائل سے اچانک موت کے زیادہ خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
یورپین ہارٹ جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق میں پیشہ ور تن سازی سے جڑے صحت کے مسائل پر روشنی ڈالی گئی اور اس کھیل میں آگہی اور حفاظتی لائحہ عمل متعارف کرانے پر زور دیا گیا۔
اچانک قلبی موت ایسی موت کو کہا جاتا ہے جب کسی کی غیر متوقع طور پر قلبی مسئلے سے موت واقع ہوجاتی ہے اور یہ نوجوانوں میں عموماً کم ہی واقع ہوتی ہے۔
تاہم، نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ اس کیفیت سے غیر معمولی طور پر مرد تن سازوں کی زیادہ اموات واقع ہو رہی ہیں (بشمول کم عمر تن ساز) جبکہ پیشہ ور تن سازوں کو سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
محققین کی ایک بین الاقوامی ٹیم نے مطالعے میں 20 ہزار 286 مرد تن سازوں کی موت کی رپورٹ کا معائنہ کیا۔ ان تن سازوں نے 2005 سے 2020 تک کم از کم ایک بار تن سازی کے مقابلے میں حصہ لیا تھا، اور ان رپورٹس کی ڈاکٹروں نے تصدیق کی تھی۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر 20 ہزار سے زائد پیشہ ور تن سازوں میں 121 کی اموات کی اوسط 45 برس تھی۔ جبکہ ان 121 اموات میں تقریباً 40 فی صد حصہ قلبی مسئلے کی وجہ سے پیش آئی تھیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان فہرست سے خارج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برطانوی اخبار دی گارڈین نے ایک نئی عالمی تحقیق کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو فطرت اور قدرت سے سب سے زیادہ قریبی تعلق رکھتے ہیں، ان میں نیپال سرفہرست ہے جب کہ پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں۔
یہ تحقیق بین الاقوامی جریدے ایمبیو (AMBIO) میں شائع ہوئی ہے، جس کی تیاری میں برطانیہ اور آسٹریا کے ماہرین نے حصہ لیا ہے۔ اس تحقیق نے دنیا بھر میں انسانی رویوں اور فطرت کے درمیان تعلق کے بارے میں دلچسپ پہلو اجاگر کیے ہیں۔
تحقیق کرنے والی ٹیم میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف ڈربی کے معروف ماہر پروفیسر مائلز رچرڈسن شامل تھے، جو قدرت سے وابستگی پر اپنے کام کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تحقیق اس بات کو سمجھنے کے لیے کی گئی کہ مختلف سماجی، معاشی، ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر رکھنے والے لوگ قدرت کے ساتھ کس قدر گہرا ربط محسوس کرتے ہیں اور اس احساس پر روحانیت، مذہب اور طرزِ زندگی کا کتنا اثر ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سروے میں دنیا کے 61 ممالک کے 57 ہزار افراد سے رائے لی گئی۔ نتائج نے حیران کن طور پر یہ ظاہر کیا کہ فطرت سے وابستگی کا سب سے گہرا تعلق مذہبی عقائد اور روحانیت سے ہے، یعنی وہ لوگ جو مذہب یا روحانی نظامِ فکر کے قریب ہیں، وہ قدرت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ زندگی گزارتے ہیں۔
فہرست کے مطابق نیپال کو دنیا کا سب سے زیادہ قدرت سے جڑا ہوا ملک قرار دیا گیا۔ نیپال کے بعد دوسرے نمبر پر ایران ہے، جب کہ جنوبی افریقا، بنگلادیش اور نائیجیریا بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر آئے۔
جنوبی امریکا کا ملک چلی چھٹے نمبر پر رہا۔ سرفہرست 10 ممالک میں یورپ کے صرف 2 ملک شامل ہیں ، کروشیا ساتویں اور بلغاریہ نویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح آٹھویں نمبر پر افریقی ملک گھانا اور دسویں پر شمالی افریقا کا ملک تیونس ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ممالک جنہیں عام طور پر ماحولیاتی آگہی میں نمایاں سمجھا جاتا ہے، وہ قدرت سے وابستگی کے لحاظ سے نچلے درجے پر ہیں۔ فرانس فہرست میں 19ویں نمبر پر ہے، جب کہ برطانیہ 55ویں نمبر پر پایا گیا۔
اسی طرح نیدرلینڈز، کینیڈا، جرمنی، اسرائیل اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی آخری نمبروں میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 61 ممالک کی فہرست میں اسپین سب سے آخری یعنی 61ویں نمبر پر ہے۔
تحقیق میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ سامنے آیا کہ کاروبار میں آسانی یا معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے قدرت سے وابستگی میں کمی آتی ہے۔ یعنی جہاں معاشی نظام زیادہ مضبوط اور مارکیٹ زیادہ متحرک ہوتی ہے، وہاں انسان فطرت سے نسبتاً دور ہوتا جاتا ہے۔
پروفیسر مائلز رچرڈسن کے مطابق صنعتی ترقی اور شہری مصروفیات نے جدید انسان کو قدرتی ماحول سے جدا کر دیا ہے، جس سے اس کے ذہنی سکون، تخلیقی صلاحیت اور مجموعی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مذہبی یا روحانی رجحان رکھنے والے معاشروں میں لوگ فطرت کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہیں، جب کہ مادی معاشروں میں اسے صرف وسائل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی فرق ان معاشروں میں قدرت سے تعلق کے معیار کو متعین کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ تحقیق عالمی پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں فطرت سے رشتہ کمزور ہونا انسانی بقا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نیپال، ایران اور افریقا کے کچھ ممالک کی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ سادگی، روحانیت اور قدرت سے قرب نہ صرف ثقافتی طور پر اہم ہیں بلکہ پائیدار طرزِ زندگی کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔