تیمرگرہ میڈیکل کالج میں بڑا مالی اسکینڈل سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, May 2025 GMT
ممبر اسٹینڈنگ کمیٹی ثوبیہ خان کا کہنا تھا کہ تیمرگرہ میڈیکل کالج کے پی سی ون میں 24 وینٹی لیٹر درج ہے جبکہ تیمرگرہ میڈیکل کالج کے لیے 36 وینٹی لیٹر خریدے گئے، 4 وینٹی لیٹر تیمرگرہ ٹیچنگ اسپتال میں موجود ہیں جبکہ 32 وینٹی لیٹر اسپتال سے غائب ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسٹینڈنگ کمیٹی محکمہ صحت کی رکن و ممبر صوبائی اسمبلی ثوبیہ خان نے تیمرگرہ میڈیکل کالج میں بڑے مالی اسکینڈل کا انکشاف کر دیا۔ تیمرگرہ میڈیکل کالج کے لیے سازو سامان کی خریداری کے حوالے سے محمکہ صحت کے اسٹینڈنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں کمیٹی کے اراکین نے شرکت کی۔ اسٹینڈنگ کیمٹی نے تیمرگرہ میڈیکل کالج اور تیمرگرہ ٹیچنگ اسپتال کا دورہ کرکے میڈیکل کالج کے لیے خدیدا ہوا سامان کا جائزہ لیا۔ ممبر اسٹینڈنگ کمیٹی ثوبیہ خان کا کہنا تھا کہ تیمرگرہ میڈیکل کالج کے پی سی ون میں 24 وینٹی لیٹر درج ہے جبکہ تیمرگرہ میڈیکل کالج کے لیے 36 وینٹی لیٹر خریدے گئے، 4 وینٹی لیٹر تیمرگرہ ٹیچنگ اسپتال میں موجود ہیں جبکہ 32 وینٹی لیٹر اسپتال سے غائب ہیں۔
ذرائع کے مطابق تیمرگرہ ٹیچنگ اسپتال میں ڈاکٹر کی جانب سے ممبر صوبائی اسمبلی ثوبیہ خان سے بدتمیزی کی گئی۔ ممبر صوبائی اسمبلی ثوبیہ خان نے ڈاکٹر کے خلاف تحریک استحقاق اسمبلی میں لانے کا فیصلہ کیا ہے، جس پر ڈاکٹر نے معافی کے لیے جرگہ بھیج دیا لیکن ممبر صوبائی اسمبلی ثوبیہ خان نے معافی سے انکار کر دیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ممبر صوبائی اسمبلی ثوبیہ خان اسٹینڈنگ کمیٹی وینٹی لیٹر
پڑھیں:
سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔