بھارتی جارحیت کیخلاف پاکستان کی فیصلہ کن ضرب اور بھارت کی ہزیمت آمیز شکست نے خطے پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ اس حوالے سے ’پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ‘ کے زیراہتمام شائع کے مختصر اور جامع رپورٹ بعنوان ’ 16 گھنٹے میں جنوبی ایشیا کی تاریخی تبدیلی‘ کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آپریشن بنیان مرصوص کی کامیابی پر آزاد کشمیر میں اظہار تشکر ریلیوں کا انعقاد

اس رپورٹ میں اعداد و شمار اور دیگر حقائق کی بنیادوں پر واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح حالیہ کشیدگی میں مودی کا غلط اندازہ پاکستان کی برتری کا باعث بنا۔

وسیع پیمانے پر الیکٹرانک جامنگ

بھارت کی جانب سے 6 مئی 2025 کو لائن آف کنٹرول پر شروع کی گئی جارحیت اور در اندازی کی کوشش چند گھنٹوں میں اس وقت ناکام ہو گئی جب پاکستان ایئر فورس نے چھ بھارتی فرنٹ لائن لڑاکا طیارے تین رافیل ، دو سو خوئی – 30 ایم کے آئی اور ایک میراج- 2000 مار گرائے اور 10 مئی کو بھارت کے جوابی حملے پر پاکستان نے نہایت پیشہ ورانہ طریقے سے ایک جوابی کارروائی کی جس میں میزائلوں، ڈرونز اور وسیع پیمانے پر الیکٹرانک جامنگ کے ذریعے بھارت کے 26 ٹھکانوں اور انسٹالیشنز کو ناکارہ و تباہ کر دیا یوں وہ عسکری توازن بحال ہو گیا جسے نئی دہلی ختم کرنا چاہتا تھا۔

بھارت کی عسکری اور سفارتی ذلت

عالمی دار الحکومتوں نے اس واقعے پر محتاط غیر جانبداری اختیار کی، واشنگٹن نے جنگ بندی کی اپیل میں دونوں جوہری ہمسایوں کو یکساں طور پر مخاطب کیا۔

بیجنگ نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کا اشارہ دیا اور ماسکو نے بھارت کو متوقع سفارتی حمایت فراہم کرنے سے گریز کیا۔

یہ بھی پڑھیں:آرمی چیف سید عاصم منیر کو بیٹن آف فیلڈ مارشل سے نواز دیا گیا

بیرونی حمایت سے محروم بھارت کا اندرونِ ملک پرو پیگنڈہ پر مبنی بیانیہ بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل نہ کر سکا، یوں یہ واقعہ بیک وقت بھارت کے لیے عسکری، سفارتی اور میڈیا کی سطح پر ذلت آمیز شکست کا باعث بنا۔

پاکستانی بالا دستی کا سبب

عملی طور پر پاکستان نے فضائی، میزائل، سائبر اور الیکٹرانک وار فیئر کے اثرات کو ایک متحد کمانڈ کے تحت مربوط کیا جس کی قیادت فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر کر رہے تھے۔ چینی ساختہ جدید ترین سینسرز ، ڈیٹا لنکس اور الیکٹرانک اتمی ما ساخته جدید ترین سینسرز، ڈیٹا لنکس اور الیکٹر انک ایک پوڈز نے پاکستان ایئر فورس کے پائلٹس جو پہلے ہی رات کے وقت اور کٹھن خطوں میں کم بلندی پر پرواز کی مہارت رکھتے تھے، کو نیٹ ورک برتری فراہم کی جس سے بھارت کے رافیل طیارے ناکام ہو گئے۔

مربوط الیکٹر انک حملوں نے بھارتی کمانڈ سرکٹس کو اتنی دیر کے لیے مفلوج کر دیا کہ اسٹینڈ آف گولہ بارود بلا مزاحمت اپنے اہداف پر جا گرے جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ کسی بھی پلیٹ فارم کی کار کردگی اس کے انفارمیشن گرڈ کی پیچیدگی سے محدود ہوتی ہے۔

چینی اور مغربی ٹیکنالوجی کا فرق

بیجنگ کی غیر نمایاں مگر واضح تکنیکی معاونت نے چینی اور مغربی نظاموں کے درمیان بڑھتے ہوئے کار کردگی کے فرق کو نمایاں کردیا جن پر بھارت نے اپنی عسکری قوت میں اضافے کے لیے انحصار کیا تھا۔

اسٹریٹجک تبدیلیاں

اس کے فوراً بعد اسٹریٹجک تبدیلیاں محسوس کیں گئیں۔ 17 مئی کو چین نے بھارت کے ’اروناچل پردیش‘( زانگنان) پر دعوے کو کالعدم اور غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے متنازع علاقے کے اندر موجود 27 جغرافیائی مقامات کو نئے نام دے دیئے جو اس بات کی ٹھوس علامت ہے کہ بیجنگ اپنی علاقائی سالمیت کی کسی بھی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرے گا۔

مسئلہ کشمیر پھر سے اجاگر

ٹرمپ کے اس بیان نے کہ ’پاکستانی ذہین لوگ ہیں‘ اور ان کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش نے عالمی سطح پر اس حقیقت کو پھر سے اجاگر کیا کہ کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے نہ کہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔

3 نئی حقیقتیں

مئی کے وسط تک 3 نئی حقیقتیں میں سامنے آچکی تھیں:

1۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان ڈیٹرنس روایتی ڈومین بحال ہو گیا ہے جبکہ جوہری شعبے میں یہ پہلے ہی موجود ہے۔

2۔ چین علاقائی امن واستحکام کا غیر رسمی سیکیورٹی ضامن بن کر ابھرا ہے خصوصاً متنازعہ خطہ جموں و کشمیر کے معاملے پر ایک اہم استحکام بخش عصر اور اسٹیک ہولڈر کے طور پر کردار ادا کیا ہے۔

3۔ امریکا نے بھارت اور پاکستان کو دوبارہ ایک ساتھ جوڑ دیا ہے جس سے نئی دہلی کی خطے میں بالادستی کی خواہش کو نقصان پہنچا ہے۔

ان نئی پیش رفتوں نے بھارت کو 1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے بعد کی طرح ایک بار پھر سب سے شدید اسٹریٹجک ذلت کا سامنا کرنے پر مجبور کیا ہے۔

داخلی سطح پر ’شائننگ انڈیا‘ کے بیانیے کو زک پہنچی جبکہ امریکا اور نیٹو کے منصوبہ سازوں کو چین اور مغرب کے درمیان ٹیکنالوجی کے فرق سے متعلق اپنے اندازوں پر از سر نو غور کرنا ہوگا۔

بھارت کی افادیت مشکوک ہو گئی ہے

پاکستان کی فضائی برتری کے بھر پور مظاہرے کے بعد اور کواڈ (Quad) فریم ورک کے تحت بیجنگ کے خلاف توازن قائم کرنے میں بھارت کی افادیت مشکوک ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت کو بڑا جھٹکا،مودی کی شامت آگئی۔۔۔۔ ماہرنگ بلوچ کے حوالے سے اہم فیصلہ

اس کے برعکس، اسلام آباد نے ترکی، ایران، سعودی عرب اور انڈو نیشیا کے ساتھ ایک مؤثر مسلم مڈل پاور کے طور پر اپنی ساکھ کو مضبوط کیا ہے جو فوجی مؤثریت کو مؤثر سفارتکاری اور پختہ پیغام رسانی کے ساتھ جوڑ کر علاقائی نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

6 مئی 2025 کو بھارتی جارحیت سے پہلے کا منظر نامہ

تین بنیادی مفروضے جو بھارت نے قائم کر رکھے تھے:

الف۔ بھارت یہ کوشش کر رہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ جوہری برابری اور عسکری پیشہ ورانہ طاقت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی روایتی برتری (conventional superiority) کو استعمال کرکے ایک New Normal قائم کیا جائے۔

ب۔ 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی اقدامات کے بعد بھارت یہ سمجھ چکا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ نئے اسٹیٹس کو کے ذریعے ہمیشہ کے لیے دفن ہو چکا ہے؟

ج۔ 2014 میں وزیر اعظم مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد بھارت اپنی خود ساختہ غلط اندازے ’حجم ہی طاقت ہے‘ کے تحت خود کو چین کے خلاف ایک توازن قائم کرنے والے ملک کے طور پر پیش کر رہا تھا اور اس مقصد کے لیے امریکا اور مغرب کی حمایت حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا۔

16 گھنٹے جو جنوبی ایشیا میں بڑی تبدیلی کا باعث بنے

پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد ان تینوں بھارتی مفروضوں کی بنیادیں مکمل طور پر زمین بوس ہو چکی ہیں ۔ پہلے مرحلے (6-7 مئی، جو ایک گھنٹے پر محیط تھا) اور دوسرے مرحلے (9-10 مئی، جو 15 گھنٹے تک جاری رہا) میں بھارت کی ناکامی نے اس کو بے نقاب کر دیا۔ در اصل، یہ 16 گھنٹے جنوبی ایشیا میں ایک بڑی تبدیلی کا موجب بنے۔

بڑا اسٹریٹجک دھچکہ

بھارت کو 1962 کی چین بھارت جنگ میں نہرو کی شکست کے بعد سب سے بڑا اسٹریٹجک دھچکہ لگا:

الف۔ پاکستان کے ہاتھوں عسکری شکست: پہلے مرحلے میں ، پاکستان نے صرف ایک گھنٹے میں بھارت کے 6 جنگی طیارے مار گرائے جن میں 3 رافیل، 2 روسی 30-SU اور  20-MIG اور ایک فرانسیسی میراج 2000 شامل تھے۔

دوسرے مرحلے میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے 9 مقامات پر حملے کے جواب میں پاکستان نے بھارت کے 26 مقامات پر میزائل اور ڈرون حملے کیے، جن میں اس کے اسٹریٹجک تنصیبات کو بھی جام کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:آپریشن بنیان مرصوص: پاک فوج کی پٹھان کوٹ کو ٹارگٹ کرنے کی ویڈیو منظرعام پر

ب۔ سفارتی میدان میں بھارت کی مکمل شکست: دنیا کی 3 بڑی طاقتوں امریکا، چین اور روس نے یا تو غیر جانبدارانہ مؤقف اپنایا یا پاکستان کے مؤقف سے ہمدردی ظاہر کی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا تو انہوں نے پاکستان اور بھارت دونوں کو برابری کی سطح پر رکھا اور یوں دونوں جوہری ہمسایوں کو دوبارہ ایک ہی دائرے میں دیکھا گیا؟

ج ۔ میڈیا کے محاذ پر بھی بھارت کو شکست ہوئی: بھارت کا بیانیہ جھوٹ ، من گھڑت باتوں اور جعلی خبروں پر مبنی تھا جسے عالمی سطح پر کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا چنانچہ اس کا پرو پیگنڈا مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔

بھارت کی مئی میں شکستوں کی ہیٹ ٹرک:

الف۔ پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی شکست ڈیٹرنس کی بحالی میں فیصلہ کن رہی ہے۔ بھارت جو New Normal قائم کرنا چاہتا تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے۔

ب۔ چین نے 17 مئی کو اعلان کیا کہ متنازعہ علاقہ جسے بھارت ارونا چل پردیش کہتا ہے جبکہ چین اسے ’ازانگنان‘ کہتا ہے دراصل خود مختار تبت (Xizang) کے خود مختار خطے کا حصہ ہے اور چین کا اٹوٹ انگ ہے۔

چین نے مزید کہا کہ ’بھارت کی جانب سے زانگنان پر قبضہ کالعدم اور غیر قانونی ہے‘۔ چین نے زانگنان میں 27 مقامات کو نئے نام دیئے جن میں 15 پہاڑیاں، 2 دریا اور کئی رہائشی علاقے شامل ہیں۔

ج۔ بھارت کو بڑا دھچکہ: بھارت کی ساکھ ، مفادات اور اہداف کو سب سے بڑا دھچکہ صدر ٹرمپ کے بیان سے پہنچا جنہوں نے پاکستان کی کھل کر تعریف کی۔ پاکستانیوں کو  بہت ذہین قرار دیا، پاکستانی مصنوعات کو حیرت انگیز  کہا اور مسئلہ جموں و کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی۔

صدر ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ کشمیر ایک بین الاقوامی سیاسی تنازعہ ہے جس کا حل پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈائیلاگ کے ذریعے ضروری ہے۔

IV۔ پاکستان کیوں جیتا؟

الف۔ پاک فوج کی اعلیٰ پیشہ وارانہ قیادت خصوصاً چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر اور ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر کی قائدانہ صلاحیت ، اسٹریٹجک کلیر ٹی اور مکمل ہم آہنگی۔

یہ بھی پڑھیں:عباسپور: آپریشن ’بنیان مرصوص‘ کی کامیابی پر پیپلز پارٹی کی اظہار تشکر ریلی، گورنر پنجاب کی شرکت

ب۔ تینوں افواج کے درمیان خاص طور پر منصوبہ بندی، ربط اور نفاذ کے مراحل میں بہترین ہم آہنگی۔

ج۔ پاک فضائیہ کے پائلٹس کی پیشہ ورانہ مہارت، تربیت، لگن اور رات کے وقت پر واز اور جنگ میں مہارت۔

د۔ جدید ٹیکنالوجی کا شاندار استعمال، الیکٹرانک وار فیئر اور سائبر وار فیئر کی کامیاب حکمت عملی جس کے نتیجے میں پاکستان نے فضائی جنگ، میزائل جنگ، الیکٹرانک وار فیئر اور سائبر سبقت میں مکمل برتری حاصل کی۔

ہ۔ چینی عسکری ٹیکنالوجی کی مغربی ٹیکنالوجی پر برتری۔

و۔ مؤثر سفارت کاری اور بالغ نظر، قابل اعتماد ذرائع ابلاغ۔

ز۔ پاکستانی عوام کی قومی یکجہتی اور بلند حوصلہ۔

’شائننگ انڈیا‘ کا خواب چکنا چور

پاکستان کے آپریشن ’بنيان المرصوص‘ نے بھارت میں ہند و تو حکومت کے بدنما چہرے کو بے نقاب کرنے اور اس کی اصلیت کو سامنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔

بھارتی میڈیا کی جنگی جنون اور جذباتی لغویات کے علاوہ پاکستان کیخلاف نفرت کھلے عام اور کئی بار ظاہر ہوئی۔ مودی کے غلط اندازے کے بعد جب ان کا غرور خاک میں ملا تو بھارت کی کمزوریاں اور نا پائیداریاں واضح ہو گئیں۔ ’انڈیا شائننگ‘ سے ’انڈیا وائٹننگ‘ تک کا سفر ایک لمحے میں طے ہوا۔ جب ایک ایسی قوم کو اچانک احساس ہوا کہ حجم حقیقی طاقت کا فیصلہ نہیں کرتا۔

45 فیصد نوجوانوں کی بے روزگاری اور امریکا میں 750,000 غیر قانونی تارکین وطن (میکسیکو اور ایل سلواڈور کے بعد تیسری سب سے بڑی تعداد ) کے ساتھ بھارت کی سرمایہ داری نے چند افراد کو تو فائدہ پہنچایا ہے لیکن مجموعی طور پر بھارت ایک نازک صورتحال کا سامنا کرنے والی ریاست ہے جس میں 17 علیحدگی پسند تحریکیں سر گرم ہیں۔

مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی کی تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے اور اقلیتوں و متوسط طبقے میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ گزشتہ دہائی کی ہندوتوا گھٹن نے بھارت کو ایک ’ریپبلک آف فیئر‘یعنی خوف کی ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔

VI3 نئے اسٹریٹجک حقائق:

الف۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری سبقت کا تصور تبدیل ہو چکا ہے۔ پاکستان نے ثابت کر دیا کہ حجم ہی طاقت نہیں ہوتا اور اب Deterrence بحال ہو چکا ہے جبکہ بھارت کی New Normal کی خواہش خاک میں مل چکی ہے۔

ب۔ چین اب نہ صرف تنازعہ کشمیر کا ڈی فیکٹو حصہ بن چکا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں امن، سلامتی اور استحکام میں مدد کے لیے ایک ضامن قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے اور پاکستان کی وحدت، خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے ایک معاون بھی ہے۔

ج۔ امریکا کی بدولت مسئلہ کشمیر دوبارہ زندہ ہو چکا ہے اور پاکستان و بھارت کو برابری کی سطح پر یکساں حیثیت دی گئی ہے۔

VI – اختتامیہ: پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی کے تاریخی واقعات کی اسٹریٹجک اہمیت

الف۔ وزیر اعظم نہرو کو 1962 میں چین سے شکست کے بعد جس طرح حقیقت کا سامنا کرنا پڑا ویسے ہی وزیر اعظم مودی کو بھی اب اپنی حیثیت کا اندازہ ہو گیا ہے۔

ب۔ امریکا، نیٹو اور مغربی منصوبہ ساز اب پرانے عسکری منصوبے اور مفروضے دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہو گئے ہیں، خاص طور پر جنگ آزما چینی ٹیکنالوجی جو ان کے اندازوں سے کہیں زیادہ جدید اور مؤثر نکلی اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی فوجی مہارت، پیشہ ورانہ قابلیت اور میدانِ جنگ میں ثابت قدمی کی نئی تشخیص بھی ضروری ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:آپریشن ’بنیان مرصوص‘ میں شاہین میزائل استعمال نہیں کیا گیا، پاکستان نے بھارتی دعوؤں کو مسترد کردیا

ج۔ بھارت کا کردار، جو امریکا کی انڈو پیسیفک حکمت عملی میں مرکزی حیثیت کا حامل تھا یا چین کے خلاف ممکنہ توازن سمجھا جار ہا تھا اب خود ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے، کیونکہ بھارت پاکستان کے ساتھ جنگوں میں ناکام رہا اور زمینی اور فضائی سطح دونوں میں بری طرح ناکام رہا۔

د۔ پاکستان نے مستقبل کے لیے اپنی استعداد مستحکم کر دی ہے اور اگلی دہائی میں ترکی، ایران، سعودی عرب اور انڈو نیشیا کے ساتھ 5 بڑی مسلم طاقتوں میں بطور مسلم مڈل پاور کے طور پر اپنی جگہ مستحکم کرلی ہے۔

مودی کا ’غیر دانشمندانہ‘ اقدام

بھارتی دفاعی تجزیہ کار پراوین ساہنی نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے بھارتی الحاق کو صحیح معنوں میں ’غیر دانشمندانہ‘ اقدام قرار دیا، کیونکہ یہی فیصلہ بھارت کے پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات میں خرابی بشمول تمام عدم استحکام کی جڑ ہے۔

مودی کا دھوکا بے نقاب ہو گیا اور جب اس کی جارحیت الٹا گلے پڑ گئی تو وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا۔ مزید برآں ساہنی نے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ آر ایس ایس کی نظریاتی سوچ بھارت کی خارجہ پالیسی کو چلارہی ہے۔

آئندہ لائحہ عمل: کیا کرنا چاہیے؟

i۔ صدر ٹرمپ کی سفارتی مداخلت اور کشمیر پر ثالثی کی پیشکش جو اس بات کا اعتراف ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک حل طلب عالمی تنازع ہے۔ یہ خدا کی طرف سے عطا کردہ ایک بہترین موقع ہے جسے بھر پور انداز میں بروئے کار لانا اور اس پر مسلسل عملدرآمد کرنا چاہیے کیونکہ اس سے مسئلہ کشمیر کو بین الا قوامی حیثیت حاصل ہوئی ہے لہذا کشمیر پر خاص توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

ii۔ اپنے دشمن کو پہچانو: پاکستان کو جان لینا چاہیے کہ مودی اور اس کی جماعت آرایس ایس کی نمائندگی کرتے ہیں جو پاکستان کے بارے میں ایک نظریاتی خارجہ پالیسی رکھتے ہیں جو ’اکھنڈ بھارت‘ ( گریٹر انڈیا) کے تصور سے متصل ہے جو کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب، بغض اور نفرت پر مبنی ہے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ میں اکھنڈ بھارت کا نقشہ فخر سے آویزاں ہے جس میں پاکستان، افغانستان اور میانمار کو اکھنڈ بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔

آر ایس ایس کی حکمرانی میں اصل مسئلہ کشمیر، دہشتگردی یا پانی نہیں بلکہ پاکستان کا وجود ہی ان کے لیے نا قابل قبول ہے اسی سبب وہ پاکستان کے لیے نقصان کا باعث ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان پر حملہ کیوں؟ بھارتی نوجوان مودی سرکار پر برس پڑے

iii۔ بھارت نے پاکستان کے بارے میں حکمت عملی کے لحاظ سے واضح سوچ کا مظاہرہ کیا ہے، جو 3 نکاتی مستقل حکمت عملی (تھری ڈی اسٹرینجی) پر مبنی ہے:

پاکستان کو بدنام کرنا: 2020 کی EU Disinfo Lab کی رپورٹ ایک عمدہ مثال ہے کہ کسی طرح بھارت نے جعلی ویب سائٹس کو فنڈ فراہم کر کے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کیا۔

پاکستان کو نقصان پہنچانا: بھارت نے نہ صرف آئی ایم ایف سے پاکستان کے لیے مالی امداد رکوانے کی کوشش کی بلکہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کے لیے بھی سرگرم کردار ادا کیا۔

پاکستان کو غیر مستحکم کرنا: خیبر پختو نخوا میں دہشتگردی کو فروغ دینا اور بلوچستان میں دہشت گردی / علیحدگی پسندی کی پشت پناہی کرنا۔

iv۔ پاکستان کو بھی بھارت کشمیر پالیسی پر حکمت عملی کے حوالے سے واضح سوچ اپنانی چاہیے کیونکہ ماضی میں اس ضمن میں تذبذب اور ابہام پایا گیا ہے۔ ایسی پالیسی درج ذیل نکات پر مبنی ہونی چاہیے:

۔ شکست خوردہ ذہنیت کا مقابلہ کرنا

۔ عزم وہمت کے ساتھ پالیسی کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانا

۔ اٹھائے گئے اقدامات پر عملدر آمد کو یقینی بنانا، جس کے لیے منظم طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ کامیابی ممکن ہو سکے۔

لہٰذا پاکستان کی پالیسی، بالخصوص مستقبل قریب میں یعنی 2026-2025 کے دوران جب پاکستان خوش قسمتی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کارکن ہو گا، درج ذیل تین کلیدی شعبوں پر ایک منظم ، دیر پا اور فہم و فراست کے انداز میں توجہ مرکوز ہونی چاہیے:

الف۔ متحرک سفارت کاری، جس میں گلوبل ساؤتھ، اہم مغربی ممالک پر خصوصی توجہ مرکوز ہو اور ہمارے جنوبی ایشیائی ہمسایہ ممالک جیسے کہ بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ کی جانب تزویراتی سمت بندی کے ساتھ ساتھ اُن دوست ممالک چین، ترکی، آذربائیجان، ایران، متحد و عرب امارات، سعودی عرب اور قطر سے تعلقات کو مزید مضبوط بنانا جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا اور ان سے اظہار تشکر بھی نا گزیر ہے۔

ب۔ Creative lawfare، خصوصاً سندھ طاس معاہدے کے معاملے پر نیز بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے خلاف اور آر ایس ایس کو فاشزم پر مبنی پالیسیوں اور مسلمانوں سے نفرت کو فروغ دینے پر عدالت میں لے جانا۔ کیونکہ 2025 میں آر ایس ایس کے قیام کو 100 سال مکمل ہو رہے ہیں۔

یہ  بھی پڑھیں:جھوٹ کا پردہ چاک کرنیوالے ٹی وی چینل پر مودی سرکار کا دھاوا

ج۔ بیانیے کی جنگ، جو میڈیا، تھنک ٹینکس، رائے عامہ بنانے والے افراد، پارلیمانی اور عوامی سفارتکاری کے ذریعے لڑی جائے جس میں قابل اعتماد انگریزی زبان کے ٹی وی نیوز چینل اور ڈیجیٹل نیوز و انفارمیشن پلیٹ فارمز کا قیام شامل ہو، جن کی رسائی خاص طور پر ہمارے خطے ، گلوبل ساؤتھ اور مغرب میں وسیع ہو۔

مختلف اور زیادہ مثبت نقطہ نظر

آج پاکستان کو بھارت کی غلط حکمت عملی اور بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کی مؤثر جوابی کارروائی کے باعث اسٹریٹیجک اسپیس حاصل ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو ایک مختلف اور زیادہ مثبت نقطہ نظر سے دیکھا جارہا ہے، جبکہ بھارت کو بھی ایک مختلف مگر کسی حد تک منفی نقطہ نظر میں دیکھا جارہا ہے۔ چنانچہ پاکستان کے قومی مفادات کے تحفظ، فروغ اور نگہداشت کے لیے مؤثر مواقع اور راہیں ہموار ہو چکی ہیں۔

داخلی معاملات کی درستی

ایک جامع اور مسلسل پالیسی اپروچ میں اپنے داخلی معاملات کو درست کرنا بھی شامل ہونا چاہیے اور اس کے لیے ایک بہتر رویے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ وہ قومی یکجہتی جو قوم کو متحد کر چکی ہے وہ محدود سیاسی مفادات یا کوتاہ نظری کی نذر نہ ہو جائے۔

ہمیں وسیع تناظر میں بڑے دل اور کشادہ نظری سے سوچنا ہو گا تا کہ ملکی سطح پر موجود رکاوٹیں قومی ترقی کے بڑے مقصد کی راہ میں حائل نہ ہوں۔

تخلیقی انسداد دہشتگردی کی حکمت عملی

اس کے ساتھ ایک جامع اور تخلیقی انسداد دہشتگردی کی حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس کی کمی موجود ہے اور حالیہ بھارتی شکست کے تناظر میں بھارت کی جانب سے پاکستان میں مختلف پر اکسیز کے ذریعے دہشتگردی کی سر پرستی یقینی طور پر ایک ممکنہ خطرہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم شہباز شریف کا نیول ڈاکیارڈ کا دورہ، آپریشن ’بنیان مرصوص‘ میں پاک بحریہ کے کردار کو سراہا

حالیہ کشیدگی سے سبق حاصل کے اہم نکات:

جنگ کو بڑی حد تک اس لیے روکا جاسکا کیونکہ جنوبی ایشیا میں ’بیلنس آف ٹیٹر را‘ کا ایک مقامی ورژن موجود ہے جو بھارتی جارحیت کو روکنے میں مدد دیتا ہے۔ لہٰذا کسی مکمل یا بھرپور جنگ کے امکانات موجود نہیں، کیونکہ یہ خوف کا توازن ’امن ، سلامتی اور استحکام‘ کے قیام میں مدد دے گا۔

New Normal

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے کامیابی کے ساتھ ڈیٹرنس کو بھی بحال کر لیا ہے جو خاص طور پر دونوں ممالک کے حجم اور وسائل میں موجود تفاوت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں دونوں ممالک کے درمیان عسکری تعلقات میں ایک ’New Normal‘ قائم ہو گیا ہے۔

بھارت چونکہ ایک بڑا ملک ہے اور مودی نے ایک فسادی کے طور پر رویہ اپنایا لیکن جب پاکستان نے بھارتی جارحیت کا جواب دیا تو اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو نا پڑا۔

 ’انڈیا شائننگ‘ اب ’انڈیا وائٹننگ میں تبدیل ہو چکا

ایک دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ’انڈیا شائننگ‘ اب ’انڈیا وائٹننگ‘ میں تبدیل ہو چکا ہے جس کی مثال بھارت کی جانب سے دی جانے والی بے مثال سفارتی مہم ہے جس میں 60 سے زائد ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل 7 وفود کو 32 ممالک میں بھیجا گیا صرف اس لیے کہ وہ پاکستان جو کہ حجم میں کہیں چھوٹا ملک ہے کے خلاف شکایت کریں۔

سفارتی تاریخ میں پہلے کبھی کسی بڑے ملک نے اپنے سے کہیں چھوٹے مخالف ملک کے خلاف ایسی مہم نہیں چلائی۔

پاکستانی ایک ’خوشگوار احساس‘ کے جذبے کا تجربہ کر رہے ہیں، کیونکہ پاکستانی پیشہ ورانہ مہارت نے کامیابی حاصل کی ہے اور قومی خود اعتمادی بحال ہو چکی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کے مستقبل پر یقین بھی مضبوط ہوا ہے۔ جیسا کہ 22 مئی کے گیلپ سروے سے ظاہر ہوتا ہے جس میں تقریبا 90 فیصد پاکستانیوں کی بھاری اکثریت نے 1947 میں قائد اعظم کے پاکستان کے قیام کے وژن اور مدبرانہ قیادت کو درست قرار دیا ہے۔

پاکستان کا شاندار ترین لمحہ

قوم مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس نے ہمت اور استقامت کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کی بہادر مسلح افواج کے پیچھے شانہ بشانہ کھڑی رہی ایک ایسے وقت میں جو بلا شبہ پاکستان کا شاندار ترین لمحہ تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت کے درمیان بھارت کی جانب سے جنوبی ایشیا میں بھارتی جارحیت یہ بھی پڑھیں میں بھارت کی بنیان مرصوص مسئلہ کشمیر اور پاکستان میں پاکستان پاکستان کی پاکستان کو پاکستان کا پاکستان نے کہ پاکستان نے پاکستان سے پاکستان پاکستان کے پیشہ ورانہ آر ایس ایس حکمت عملی ہے جس میں ہو چکا ہے کے طور پر کی سطح پر بھارت کو نے بھارت کے ذریعے ضرورت ہے بھارت کا وار فیئر کہ کشمیر بھارت نے کہ بھارت میں پاک کے ساتھ کے خلاف شکست کے بحال ہو کا باعث کیا ہے چین کے ہو گیا گئی ہے اور اس کر دیا ہو گئی گیا ہے کے بعد کے لیے ہے اور چین نے کو بھی اور ان

پڑھیں:

ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران

میری بات/روہیل اکبر

ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔ پاکستان میں سب سے امیر 10فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے، لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرہ قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔یہ آکسفیم کی رپورٹ کا ایک اہم نتیجہ ہے، جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔رپورٹ کا عنوان غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے اور یہ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں، جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے ۔سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اور تیمور-لیسٹ کے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں غربت اور عدم مساوات پڑھانے والے ڈاکٹر عابد امان برکی اس رپورٹ کو اس خطے میں آمدنی اور دولت کی عدم مساوات کو اجاگر کرنے کی ایک جرت مندانہ کوشش سمجھتے ہیں آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھی کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کیلئے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے بقول یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے ۔عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کیلئے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں۔ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لئے بہت کم بچتا ہے آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے ۔ 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا ۔لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے ۔افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے۔ لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔ صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں ۔ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں 1 ہزار 800 سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں 1 لاکھ 50 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 120کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے ۔دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں ۔ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے لیکن صرف 333ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے ۔اس لیے ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے ۔ایشیا پیسیفک میں، 83فیصد شہری آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ صرف 49فیصد ہے ۔ ایشیا بھر میں خاص طور پر جنوبی ایشیا میں خواتین مردوں کے مقابلے میں بہت کم انٹر نیٹ سے جڑی ہوئی ہیں کم اور درمیانہ آمدنی والے ممالک میں 88کروڑ 50لاکھ خواتین موبائل انٹرنیٹ استعمال نہیں کر رہیں جن میں سے 33کروڑ جنوبی ایشیا میں ہیںجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان خواتین کو ڈیجیٹل اور ٹیک ڈرائیوڈ نوکریوں سے باہر رکھنے کیلئے سہولت کی کمی، ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، حفاظت کے مسائل اور غیر ادائیگی والے دیکھ بھال کے کام جیسے رکاوٹیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • راولپنڈی میں موسم کی تبدیلی کے باوجود ڈینگی کے کیسز میں اضافہ
  • پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: بابر اعظم نے ویرات کوہلی کا کونسا ریکارڈ توڑ ڈالا؟
  • ایشیاء میں بڑھتا معاشی بحران
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • چین کی تاریخی فتح اور بھارت کو سبکی، نصرت جاوید بڑی خبریں سامنے لے آئے
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان
  • پاکستان کا اصولی موقف دنیا اور افغانستان نے تسلیم کیا، طلال چودھری
  • پاکستان کی شاندار واپسی، جنوبی افریقا کو 9 وکٹوں سے شکست، سیریز 1-1 سے برابر
  • ایشیا کپ رائزنگ اسٹارز: پاکستان اور بھارت کی ایمرجنگ ٹیمیں 16 نومبر کو آمنے سامنے
  • پاک بھارت ٹیمیں ایک بار پھر مد مقابل آنے کو تیار