سندھ میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی ٹیوشن فیس میں 200 فیصد اضافہ، والدین پریشان
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
سندھ میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی ٹیوشن فیس میں من مانا 200 فیصد اضافے سے طالب علموں اور والدین کو شدید مالی پریشانیوں کا سامنا ہے۔سال 2019 میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی ٹیوشن فیس 10 لاکھ روپے سالانہ مقرر کی گئی تھی، کالجوں نے 2 سال تک اس پر عمل درآمد کیا اور پھر اس کے بعد اچانک فیسوں میں غیر معمولی اور من مانا اضافہ کر دیا، اب نجی میڈیکل کالجوں میں 5 سال کے دوران ایم بی بی ایس کی تعلیم پر ایک کڑور سے ڈیڑھ کڑور روپے فیس کی مد میں وصول کیے جا رہے ہیں۔فیس میں اضافے کے نتیجے میں طالب علموں اور ان کے والدین کو شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ 5 سال کے تعلیمی دورانیے میں کتابوں، ڈریسنگ، ٹرانسپورٹیشن اور یومیہ اخراجات پر 20 لاکھ روپے کی لاگت بھی برداشت کرنا پڑتی ہے۔دوسری جانب، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے پرائیویٹ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی جانب سے ٹیوشن فیس کی مد میں غیر معمولی، غیر اعلانیہ اور من مانے اضافے پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ سن 2019 سے 2021 تک ایم بی بی ایس کی سالانہ فیس 10 لاکھ روپے ٹیوشن فیس فکسڈ تھی، تاہم پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کے ختم ہونے کے بعد پاکستان میڈیکل کونسل (PMC) نے ملک بھر کے میڈیکل کالجوں کو اے، بی اور سی کیٹیگری میں تقسیم کر دیا جس کے بعد ان کالجوں نے اپنی فیسیں ازخود طے کرنا شروع کر دی۔اسی دوران PMC کے ختم ہونے کے بعد دوبارہ پی ایم ڈی سی بحال ہوگئی تھی جس کے بعد بھی تمام پرائیویٹ میڈیکل کالجز من مانی فیسں وصول کر رہے ہیں۔ کراچی میں اس وقت پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں 22لاکھ سے 27لاکھ روپے سالانہ ٹیوشن فیس کی مد میں وصول کیے جا رہے ہیں جبکہ داخلہ فیس اس کے علاوہ ہوتی ہے اور بعض میڈیکل کالجوں میں ہر سال 10 سے 20 فیصد اضافی فیس وصول کی جا رہی ہے۔سرکاری میڈیکل کالجوں میں اوپن میرٹ پر آنے والے طالب علموں سے سالانہ 70ہزار روپے فیس لی جاتی ہے جس میں ہر سال 10فیصد اضافہ کیا جاتا ہے جبکہ ان سرکاری کالجوں میں سیلف فنانس کی سیٹوں پر سالانہ 4 سے 5 لاکھ روپے فیس مقرر ہے۔ کراچی میں ایک انٹرنیشنل میڈیکل کالج کی فیس 18ہزار ڈالر سالانہ وصول کرتا اور اس طرح ایک طالب علم کو 5سال کی تعلیم مکمل کرنے پر 90ہزار ڈالر فیس ادا کرنا پرتی ہے جبکہ دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔اس صورتحال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیکل ایجوکیشن کو ریگولیٹ کرنے والا ادارہ پی ایم ڈی سی عملاً غیر فعال ہوگیا ہے۔ سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں میڈیکل ایجوکیشن کے لیے محدود سیٹیں مختص ہوتی ہیں، اگر حکومت سرکاری میڈیکل کالجوں کی نششتوں میں اضافہ کر دے تو خواہشمند طالب علوں کو زیادہ سے زیادہ داخلے دیے جا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں کم تعداد میں طلباء پرائیویٹ میڈیکل کالجز کا رخ کریں گے۔ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کی خواہشمند بینش نے بتایا کہ 2025 میں میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کے لیے ایم ڈی کیٹ کا امتحان دیا تھا، سرکاری میرٹ لسٹ میں نام نہ آنے کی وجہ سے میرا نام ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں آیا، جب میں میرٹ لسٹ کے مطابق داخلہ لینے گئی تو معلوم ہوا کہ میڈیکل کالج والے ڈونیشن کے نام پر بھی اضافی رقم طلب کرتے ہیں جس کی کوئی رسید بھی نہیں دیتے، بعض پرائیویٹ میڈیکل کالج والے تعلیم کے نام پر اپنی ڈگریوں کی قیمت طالب علموں سے وصول کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پہلے سال فیس کی مد میں 22 لاکھ روپے کے علاوہ ڈونیشن بھی طلب کی جاتی ہے جس کی کوئی رسید نہیں دی جاتی، اگر ہم کالج کی ٹرانسپورٹیشن استعمال کرتے ہیں تو اس کے چارجز کی مد میں ایک لاکھ روپے سالانہ وصول کیے جاتے ہیں، اسی طرح خواتین ہاسٹل میں رہنے کے لیے 50 ہزار روپے ماہانہ فیس طلب کی جاتی ہے۔بینش نے کہا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالج میں 5 سال ایم بی بی ایس کرنے پر مجموعی طور ڈیڑھ کروڑ روپے وصول کیے جا رہے ہیں جو کہ بہت زیادہ ہیں۔ اس بڑی رقم کے وجہ سے ہمارے والدین شدید ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں سکینڈ ایئر کے طالب علم علی مرتضیٰ نے بتایا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں فیس بہت زیادہ وصول کی جا رہی ہے جبکہ متعد پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں فیکلٹی بھی مکمل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کراچی میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی اجارہ داری ہے اور وہ من مانی فیسیں وصول کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میڈیکل ایجوکیشن اس قدر مہنگی کر دی گئی ہے کہ غریب والدین کے بچے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔
فیسوں کے حوالے سے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا ہدایت نامہ:
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے 8 جنوری 2025 کو ایک پبلک نوٹس جاری کیا تھا جس میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کورڈینشن کی سب کمیٹی کی ان ہدایت کے حوالے سے تھا کہ پرائیویٹ میڈیکل و ڈینٹل کالجز 2024-25 کے تعلیمی سیشن کی فیس اس وقت تک وصول نہ کرے جب تک وزیر اعظم کی جانب سے ڈپٹی نائب وزیر اعظم کی سربراہی میں قائم کردہ میڈیکل ایجوکیشن کمیٹی فیسوں پر نظر ثانی اور ٹیوشن فیس کو ری وزٹ کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہ کرے، تمام میڈیکل کالجز کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ان احکامات پر عمل درآمد کرے اور اس کے مطابق ضروری اقدامات کرے، اس نوٹس پر تمام پرائیویٹ میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں فوری اطلاق ہوگا۔
سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں سیٹوں کی تعداد:
سندھ کے سرکاری میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کے لیے مجموعی طور پر 2450 سیٹیں مختص ہیں۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں سرکاری میڈیکل کالجوں کی تعداد 12 جبکہ سرکاری ڈینٹل کالجوں کی تعداد 7، سرکاری میڈیکل یونیورسٹیوں کی تعداد 6 ہیں۔ کراچی میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کی 350 سیٹیں، جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کی 350 سیٹیں، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشور میں ایم بی بی ایس کی 350 سیٹیں، کے ایم ڈی کالج سی میں ایم بی بی ایس کی 250 سیٹیں، شہید بے نظیر بھٹو چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ میں ایم بی بی ایس کی 250 سیٹیں، پیپلز وویمن نواب شاہ میڈیکل کالج میں 250 سیٹیں، خیرپور میڈیکل کالج میں 100 سیٹیں، شہید بے نظیر بھٹو لیاری میڈیکل کالج میں 100 سیٹیں، غلام محمد مہر میڈیکل کالج سکھر میں 100 سیٹیں، گمبٹ میڈیکل کالج میں 100 سیٹیں اور بلال میڈیکل کالج فار بوائے میں 100 سیٹیں مختص ہیں۔
پرائیویٹ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں سیٹوں کی تعداد:
اس وقت ملک بھر میں سرکاری و پرائیویٹ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی تعداد 187 ہے۔ ان میں ملک بھر میں 48 سرکاری میڈیکل کالج، 18 سرکاری ڈینٹل کالج قائم ہیں جبکہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی تعداد 76 اور 43 نجی ڈینٹل کالج قائم ہیں۔ ان پرائیویٹ 76 میڈیکل کالجز میں مجموعی طور پر ایم بی بی ایس کی 7600 جبکہ ڈینٹل کالجز میں تقریباً 2200 نشیتوں پر سالانہ داخلے دیے جاتے ہیں۔ڈاؤ یونیورسٹی کے سابق ڈین آف بیسک سائنسز اور سندھ میڈیکل کالج کے سابق پروفیسر محمد ضیاء اقبال نے بتایا کہ پاکستان میں میڈیکل اور پرائیویٹ ایجوکیشن کی تعلیم بھی ایک تجارتی صنعت کا درجہ اختیار کر گئی ہے، چاہے وہ پرائیویٹ اسکول و کالج اور پرائیویٹ میڈیکل کالج و یونیورسٹی ہوں، ان تمام ایجوکیشنل اداروں میں تجارتی بنیادوں پر داخلے دیے جاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ان پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں غریب والدین اپنوں بچوں کو ان کالجوں میں تعلیم دلوانے کی سکت نہیں رکھتے، پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں طالب علموں کے میرٹ پر نام آنے کے باوجود والدین داخلہ فیس جمع کرانے میں تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر وہ قرض لے کر اپنے بچوں کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے داخلہ دلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی سالانہ فیسوں میں 200 فیصد سے زیادہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔سابق پروفیسر نے بتایا کہ آج سے 15 سال پہلے ان پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں فیس 5 لاکھ سے 8 لاکھ روپے ہوتی تھی جو اب بڑھا کر 20لاکھ سے 25 لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی ہے کیونکہ پاکستان میں ان پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے فیسوں کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے پرائیویٹ کی فیسوں کے حوالے سے کوئی یونیفارم پالیسی بھی مرتب نہیں کی جس کے باعث پرائیویٹ میڈیکل کالج والے ہر سال ٹیوشن اور داخلہ فیسوں میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت پرائیویٹ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ٹیوشن فیس کی مد میں ایک طالب علم کو ایک کروڑ 25 لاکھ فیس ادا کرنی پڑ رہی ہے جبکہ طالب علم کو 5 سال کے اخراجات جس میں میڈیکل بوک، ڈریسنگ اور روز مرہ کے اخراجات شامل ہوتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ پاکستان میں میڈیکل کالجز تجارتی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔سابق پروفیسر نے کہا کہ تعلیم کو پرائیویٹ شعبے میں لانا حکومت کی بہت بڑی غلطی ہے، پرائیویٹ میڈیکل کالج و اسکول ایک بہت بڑی صنعت بن چکی ہے اور اس صنعت میں طاقت ور لوگ شامل ہیں۔ کراچی میں ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج ایسا بھی ہے جہاں ملکی اور غیر ملکی طالب علموں سے ڈالر میں فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: میڈیکل و ڈینٹل کالجوں سرکاری میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کی سرکاری میڈیکل کالج لاکھ روپے سالانہ کالجوں کی تعداد فیس کی مد میں میڈیکل کالجز کی ٹیوشن فیس میں 100 سیٹیں پاکستان میں وصول کیے جا نے بتایا کہ کے حوالے سے طالب علموں میں میڈیکل کر رہے ہیں کراچی میں کے علاوہ طالب علم انہوں نے جاتے ہیں اضافہ کر ہے جبکہ جاتی ہے میں ایک کی جاتی وصول کی وصول کر نے کہا کے بعد ایم ڈی ہے اور کے لیے
پڑھیں:
ایک سال میں حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے تجاوز کر گیا
وزارتِ خزانہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے مجموعی حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد ملک کا مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء سے 2028ء کے دوران قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد تک آنے کا تخمینہ ہے، اور درمیانی مدت میں قرضوں کی پائیداری برقرار رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان پر واجب الادا قرض 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، تاہم گزشتہ مالی سال میں مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ریکارڈ کی گئی۔
رپورٹ میں قرضوں کے حوالے سے درپیش اہم خطرات اور چیلنجز کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وزارت کے مطابق معاشی سست روی قرضوں کی پائیداری کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، جبکہ ایکسچینج ریٹ، سود کی شرح میں اتار چڑھاؤ، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلیاں قرضوں کے بوجھ میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 67.7 فیصد حصہ ملکی قرضوں کا ہے، جبکہ 32.3 فیصد بیرونی قرضے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 80 فیصد قرضے فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیے گئے، جس سے شرحِ سود میں اضافے کا خطرہ برقرار ہے۔ مختصر مدت کے قرضوں کا حصہ 24 فیصد ہے، جس سے ری فنانسنگ کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بیرونی قرضے رعایتی نوعیت کے ہیں جو دوطرفہ یا کثیرالطرفہ اداروں سے حاصل کیے گئے، تاہم فلوٹنگ بیرونی قرضوں کا حصہ 41 فیصد ہونے کی وجہ سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھا یا زرمبادلہ ذخائر کم ہوئے تو مالی دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، مالیاتی نظم و ضبط، معاشی استحکام، برآمدات کے فروغ اور آئی ٹی سیکٹر کی ترقی سے قرضوں کے دباؤ میں کمی لانے کی حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال میں وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں کم ہو کر 6.2 فیصد رہا، جبکہ وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا — جو کہ مالی نظم میں بہتری کی علامت ہے۔
اقتصادی اعشاریوں میں بہتری کے آثار بھی ظاہر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال معاشی شرحِ نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد تک پہنچ گئی، اور اگلے تین سال میں یہ شرح 5.7 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کی شرح بھی نمایاں طور پر گھٹ کر 23.4 فیصد سے 4.5 فیصد تک آ گئی ہے، اور 2028ء تک 6.5 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے اب تک 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام، اور بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ میں کمی جیسے عوامل نے مالیاتی فریم ورک کو سہارا دیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق، اگر یہی رجحان برقرار رہا تو درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد پرائمری سرپلس برقرار رکھنے کی توقع ہے۔
مجموعی طور پر، رپورٹ اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اگرچہ قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، تاہم مالی نظم، شرحِ سود میں نرمی، اور برآمدات کے فروغ سے پاکستان درمیانی مدت میں معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔