جوہری مذاکرات سے امریکہ کے اہداف
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: یاد رہے یہ تھنک ٹینک امریکی وزارت دفاع، پینٹاگون اور صیہونزم کے حامی شدت پسند عناصر کی نظریاتی رہنمائی کرتا ہے۔ امریکہ میں اس طرح کے اور بہت سے تھنک ٹینکس اور تحقیقاتی مراکز یہ تاثر پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام اس کے لیے نظریاتی حیثیت کا حامل ہے اور اسے محض مذاکرات سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس بنیاد پر ان کا خیال ہے کہ ایران سے صرف فنی معاہدہ انجام پانا ممکن نہیں اور ایران کے نظریات اور افکار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے تاثرات صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق دیے جانے والے بیانات اور موقف سے مکمل ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ان تاثرات کے اظہار کا مقصد امریکی حکام کی جانب سے ایران سے مطالبات کی سطح میں اضافہ کرنا اور امریکہ کی مذاکراتی ٹیم پر دباو ڈالنا ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
کسی بھی طرح کے مذاکرات میں اس کے ممکنہ نتائج سمجھنے کے لیے پہلا قدم مذاکرات انجام دینے والے فریقین کے اہداف سے آگاہ ہونا ہے۔ صرف ان اہداف کی درست شناخت کی روشنی میں ہی فریقین کی جانب سے اپنائے جانے والے مختلف حربے اور ہتھکنڈے سمجھے جا سکتے ہیں اور مستقبل کے منظرنامے واضح کیے جا سکتے ہیں۔ امریکہ اور ایران میں جاری حالیہ جوہری مذاکرات بھی اسی بنیاد پر قابل فہم ہیں۔ امریکی حکام اور ان کے طرز عمل کو درست انداز میں سمجھ کر ہی ان کے حقیقی ارادوں اور اہداف کا فہم ممکن ہے۔ کیا امریکہ واقعی ایران کی جانب سے ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے پر تشویش کا شکار ہے؟ یا 2015ء میں بھی اور اب بھی اس کے اصل اہداف کچھ اور ہیں اور ایران کی جانب سے ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی بات محض ایک بہانہ ہے اور اس کی آڑ میں حقیقی محرکات چھپائے جا رہے ہیں؟
2015ء کے جوہری مذاکرات میں حاصل ہونے والے معاہدے "بورجام" میں بھی ایران کو غیر مسلح کرنے کا طریقہ کار شامل کیا گیا تھا جبکہ ان مذاکرات میں امریکہ کا اصل مقصد دھیرے دھیرے ایران کی قومی طاقت کے دیگر پہلووں پر بھی دباو بڑھانے پر مشتمل تھا۔ امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف پابندیوں کا ایک پیچیدہ سلسلہ تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ اس انداز میں تشکیل دیا گیا ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے امریکہ ان میں سے ایک پابندی ختم کرنے پر مجبور ہو جائے تب بھی کسی اور بہانے سے وہی پابندی دوبارہ عائد کرنے کا امکان موجود رہے۔ یوں ایران کے خلاف پابندیاں کبھی بھی ختم نہیں ہوں گی۔ موصول ہونے والی بعض معلومات اور رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ بالواسطہ جوہری مذاکرات بھی بین الاقوامی صیہونزم سے وابستہ عناصر اور امریکہ میں صیہونی لابی سے شدید متاثر ہیں۔
اسی طرح اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور اس کے شدت پسند حامی بھی ان مذاکرات پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ یہ اثرات 2015ء کے جوہری مذاکرات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس بار بالواسطہ مذاکرات انجام پا رہے ہیں جس میں ایران اور امریکہ کی مذاکراتی ٹیمیں اپنا پیغام لکھ کر ثالثی کا کردار ادا کرنے والے عمان کے وزیر خارجہ کو دیتی ہیں اور یوں ان میں پیغامات کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ میں صیہونی افکار اور رجحانات کے حامل تھنک ٹینکس نیز امریکی اسٹیبلشمنٹ صرف ایران کو غیر مسلح کرنے کا ہدف نہیں رکھتے بلکہ ایران کے نظریات بھی تبدیل کرنے کے درپے ہیں۔ اٹلینٹک کونسل، جو جانے پہچانے رجحانات کا حامل تھنک ٹینک ہے، نے جوہری مذاکرات سے متعلق اپنی رپورٹ میں یہ مشورہ دیا ہے کہ چونکہ ایران اور اسلامی مزاحمت کمزور ہو چکے ہیں لہذا ہمیں اپنے مطالبات کی سطح بڑھا دینی چاہیے۔
یاد رہے یہ تھنک ٹینک امریکی وزارت دفاع، پینٹاگون اور صیہونزم کے حامی شدت پسند عناصر کی نظریاتی رہنمائی کرتا ہے۔ امریکہ میں اس طرح کے اور بہت سے تھنک ٹینکس اور تحقیقاتی مراکز یہ تاثر پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام اس کے لیے نظریاتی حیثیت کا حامل ہے اور اسے محض مذاکرات سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس بنیاد پر ان کا خیال ہے کہ ایران سے صرف فنی معاہدہ انجام پانا ممکن نہیں اور ایران کے نظریات اور افکار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے تاثرات صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق دیے جانے والے بیانات اور موقف سے مکمل ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ان تاثرات کے اظہار کا مقصد امریکی حکام کی جانب سے ایران سے مطالبات کی سطح میں اضافہ کرنا اور امریکہ کی مذاکراتی ٹیم پر دباو ڈالنا ہے۔
ان حربوں کے ذریعے امریکہ میں سرگرم صیہونی لابی اور صیہونی فنڈز سے کام کرنے والے تھنک ٹینکس اور تحقیقاتی مراکز وائٹ ہاوس پر ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مزید نئے آپشنز مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ دوسری طرف ایران کے اندر بھی بعض مغرب نواز حلقے اور ذرائع ابلاغ پائے جاتے ہیں جو مختلف عرب اور مغربی ذرائع ابلاغ سے مل کر ایران پر بیرونی دباو کو موثر بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان تمام ذرائع ابلاغ کی کوشش ہے کہ وہ ایرانی حکام کی سوچ اور نظریات تبدیل کر دیں۔ یہ ذرائع ابلاغ مختلف قسم کے نظریات پھیلانے میں مصروف ہیں جیسے یہ کہ حکومت کو دین داری سے جدا ہونا چاہیے اور اسلامی حکومت اور اسلام کی حاکمیت بے فائدہ ہے اور بہت سی مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ یہ تمام حلقے ایران میں سیکولرازم پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں اور ان کے تانے بانے برطانوی اور صیہونی تھنک ٹینکس سے ملتے ہیں۔
یہ حلقے ایک طرف تو امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف عائد کی گئی پابندیوں کا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ کو ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کی ترغیب بھی دلاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ عناصر ایران کے اسلامی نظام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی جانب سے ایران اور اسلامی مزاحمت کے کمزور ہو جانے کی رٹ لگائے جانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اکثر ایرانی شہریوں کو بھی اس جھوٹے پروپیگنڈے پر یقین آ جائے اور وہ عالمی استکباری طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا سوچنے لگیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حال ہی میں لبنان میں بلدیاتی الیکشن میں حزب اللہ لبنان کو شاندار فتح حاصل ہوئی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خطے میں اسلامی مزاحمت نہ صرف کمزور نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر سامنے آئی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی جانب سے ایران کے جوہری مذاکرات جوہری پروگرام میں مصروف ہیں ایران کے خلاف ذرائع ابلاغ مذاکرات سے تھنک ٹینکس اور امریکہ امریکہ میں اور ایران ایران اور امریکہ کی کے نظریات ایران سے تبدیل کر کے جوہری کہ ایران کرنے کی ہیں اور کی کوشش کے لیے ہیں کہ ہے اور اور اس کہ میں
پڑھیں:
ایران سے مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا کی ایران کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے، ایران سے بہت اچھی بات چیت رہی۔
اپنے بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ روسی صدر پوتن لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں جس سے وہ ناخوش ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کررہے ہیں۔
دوسری جانب سربراہ یورپی یونین نے امریکا سے تجارتی مذاکرات آگے بڑھانے کا عزم کیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اتوار کو امریکی صدر کے ساتھ فون پر تجارتی معاہدے سے متعلق مثبت گفتگو ہوئی۔
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یورپی یونین کی درخواست پر ٹیرف میں 9 جولائی تک توسیع کی ہے۔
Post Views: 4