دیواریں تعمیر کرنے والے عظمت کے حقدار نہیں ہوتے، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
دیواریں تعمیر کرنے والے عظمت کے حقدار نہیں ہوتے، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 26 May, 2025 سب نیوز
بیجنگ :امریکا کے ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے عائد پابندی نے معروف ہارورڈ یونیورسٹی کو طوفان کے مرکز میں دھکیل دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی طلبا ء کو داخلہ دینے کی اہلیت کو منسوخ کر دیا، جس کے تحت یونیورسٹی میں تقریباً 6،800 غیر ملکی طلبا ء کو جلد از جلد ٹرانسفر کرنا ہوگا یا اپنی قانونی حیثیت کھونا ہوگی۔
امریکی وزیر برائے ہوم لینڈ سکیورٹی کرسٹی نوئم نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی پر پابندی امریکہ کی تمام جامعات اور تعلیمی اداروں کے لیے ایک انتباہ ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف امریکی اعلیٰ تعلیم کی روایتی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ امریکہ میں نام نہاد سیاسی اشرافیہ کی جانب سے سیاسی مفادات کی خاطر ملک کی بنیاد کو ہلانے کی نظری کمزوری کو بھی بے نقاب کیاہے ۔
اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی میں بین الاقوامی طلباء کا تمام طلبا ء میں تناسب 27 فیصد سے زیادہ ہے، جو دنیا بھر کے 140 سے زیادہ ممالک اور علاقوں سے وابستہ ہیں اور ان میں سے زیادہ تر گریجویٹ پروگراموں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں.
یہ مجبور کرنے کی کوشش ہے کہ وہ سیاسی ایجنڈے سے ہم آہنگ ہوں ۔امریکی ریاست میساچوسٹس کی گورنر مورا ہیلی کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسی طلبا ء کو سزا دے رہی ہے اور معیشت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ امریکی ویب سائٹ ایگزیوس کاماننا ہے کہ ٹرمپ کے اس اقدام سے اسٹارٹ اپس کے ترقیاتی چینل میں خلل پڑ سکتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 20 امریکی یونیکارن کمپنیوں کے بانی یا شریک بانی ہارورڈ کے سابق بین الاقوامی طلبا ء ہیں ۔ نیشنل ایسوسی ایشن آف فارن اسٹوڈنٹ ایڈوائزرز نے متنبہ کیا ہے کہ بین الاقوامی اسکالرز کو ملک سے نکالنے سے امریکا کی معاشی طاقت اور بین الاقوامی مسابقت کمزور ہو جائے گی اور یہ حکومت کے “امریکہ کو عظیم بنانے” کے بیان کردہ مقصد کے منافی ہے۔یہ طوفان سیاسی حساب کتاب سے بھرا ہوا ہے، جو امریکی معاشرے میں مزید تقسیم اور نظریاتی میدان میں دائیں اور بائیں بازو کے درمیان کشمکش کی شدت میں اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے ہارورڈ یونیورسٹی کی 2.6 بلین ڈالر کی فنڈنگ کو “اینٹی سیمیٹ تحقیقات” کے بہانے منجمد کیا، پھر “سفید فاموں کے خلاف امتیازی سلوک” کی بنیاد پر متنوع داخلہ پالیسی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور آخر میں “کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ساتھ ملی بھگت” کے شبہ میں چینی اداروں کے ساتھ تعاون کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ تین مراحل پر مبنی الزام تراشی امریکہ میں میک کارتھی دور کے پولیٹکل پلے بک کی تکرار کی طرح ہے جہاں ہمیشہ کی طرح ، چین کو ایک بار پھر بہانہ بنایا جا رہا ہے۔ 19 مئی کو امریکی ایوان نمائندگان کی ‘سلیکٹ کمیٹی آن چائنا’ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو لکھے گئے ایک خط میں جان بوجھ کر ہارورڈ اور چینی اداروں کے درمیان معمول کے تعلیمی تبادلوں کو ‘ٹیکنالوجی کی منتقلی’ کے طور پر پیش کیا۔
چینی وزارت خارجہ نے اس کی سختی سے تردید کی اور مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ عالمی سطح پر تسلیم شدہ تحقیقی تعاون کو بدنام کرنے کا یہ عمل صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان کشمکش کی منطقی توسیع ہے – آخر کار ، ہارورڈ ، ڈیموکریٹک اشرافیہ کا گہوارہ اور “تنوع ، مساوات اور جامعیت” کی اقدار کا نمائندہ ہونے کے ناطے ، ہمیشہ قدامت پسندوں کے حق میں کانٹا رہا ہے۔امریکی حکومت کی جانب سے امریکہ بھر میں یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی “صفائی” کے خوفناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ برطانوی جریدے نیچر میں مارچ میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق سروے میں شامل 1600 سے زائد امریکی محققین میں سے تقریباً 75 فیصد نے کہا کہ وہ امریکہ چھوڑنے پر غور کر رہے ہیں۔ اگرچہ امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے حکومت کی پابندی کو معطل کرنے کا عارضی حکم امتناع جاری کیا ہے، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سائنسی تحقیق کی فنڈنگ منجمد کرنے، تعلیمی تحقیق پر سنسرشپ اور کالجوں اور جامعات کو فریقین میں سے ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کرنے سے کافی نقصان پہنچ چکا ہے۔
جیسا کہ نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کا یہ اقدام امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے ماحول کو تباہ کرنے کی اس کی کوششوں کو بے نقاب کرتا ہے، جس سے دنیا بھر سے بہترین ٹیلنٹ کو راغب کرنے کی اعلیٰ ترین جامعات کی صلاحیت کو براہ راست نقصان پہنچتا ہے۔بوسٹن کے دریائے چارلس کے کنارے، لال اینٹوں سے بنی عمارتوں نے البرٹ آئنسٹائن کو لیکچر دیتے دیکھا تھا اور خود امریکہ کا عروج اس کے ماضی میں کھلے پن اور جامعیت سے قریبی تعلق رکھتا ہے ۔ آج کا امریکہ دنیا بھر میں محصولات عائد کرنے کی دھمکی دے رہا ہے، امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کر رہا ہے اور بین الاقوامی ماہرین تعلیم کو بے دخل کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ کو خود ساختہ قید کے بند دروازے کی طرف دھکیل رہا ہے۔ بندش اور قدامت پسندی بالآخر زوال کا باعث بنے گی۔ جب سیاسی کشمکش پارٹی کے ذاتی مفادات کے لئے تعلیم کے قانون کو مسخ کرتی ہے تو یہ نہ صرف جامعہ کی بنیاد بلکہ ملک کے مستقبل کو بھی ہلا دے گی ۔
تاریخ نے بار ہا ثابت کیا ہے کہ دیواریں تعمیر کرنے والے عظمت قائم نہیں کر سکتے اور دروازے کھولنے والے ہی مستقبل کے حقدار ہوتے ہیں ۔5شی جن پھنگ کا فودان یونیورسٹی کی 120ویں سالگرہ پر مبارکباد کا خط ،سماجی علوم ،ہنرمندی اور سائنس و ٹیکنالوجی پر زور دیا کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری، چین کے صدر اور مرکزی فوجی کمیشن کے چیئرمین شی جن پھنگ نے 26 مئی کو چین کی فودان یونیورسٹی کی 120ویں سالگرہ پر مبارکباد کا خط بھیجا اور تمام اساتذہ، عملے اور سابق طلباء کو گرمجوشی سے مبارکباد پیش کی۔شی جن پھنگ نے اپنے مبارکبادی خط میں کہا کہ 120 سال میں، فودان یونیورسٹی نے بڑی تعداد میں ممتاز ہنر مند افراد کو تربیت دی، کئی اصل تخلیقی کامیابیاں حاصل کیں، اور ملک کی تعمیر اور قوم کی ترقی میں فعال کردار ادا کیا۔
شی جن پھنگ نے زور دیا کہ نئے نقط آغاز پر، امید ہے کہ فودان یونیورسٹی مسلسل نئے دور کے چینی خصوصیت کے سوشلسٹ نظریے سے طلباء کی تربیت کرے، تعلیمی اور تحقیقی اصلاحات کو گہرا کرے، سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصار جدت اور ہنر مند افراد کی پرورش کے مثبت تعامل کو فروغ دے، فلسفہ اور سماجی علوم میں علم، نظریہ اور طریقہ کار کی جدت کو آگے بڑھائے، اور ملک کی اہم حکمت عملی اور علاقائی اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے خدمات کی صلاحیت کو مسلسل بہتر بنائے، تاکہ مضبوط ملک کی تعمیر اور قوم کے نشاۃ ثانیہ کے لیے نئی خدمات سرانجام دے ۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین کی ای کامرس کی مستحکم ترقی کا رجحان برقرار چین کی ای کامرس کی مستحکم ترقی کا رجحان برقرار چین نے ڈیجیٹل انٹیلی جنٹ سپلائی چین کی ترقی کو تیز کرنے کے لئے خصوصی ایکشن پلان جاری کر دیا چین میں تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، اور ہنر مند افراد کا ’’سنہرا مثلث‘‘ ڈیجیٹل پاکستان کی جانب بڑا قدم، بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کیلئے 2000میگاواٹ بجلی مختص پاکستان بزنس فورم کا حکومت سے خطے کی صورتحال کے پیش نظر گروتھ بجٹ لانے کا مطالبہ گزشتہ 2سالوں میں پاکستان کا ریونیو تقریبا دگنا ہوگیا، آئی ایم ایفCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
یہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں؟
وہ چھوٹا سا لڑکا جو ملبے کے ڈھیر سے کتاب نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ماں جو لاپتہ بیٹے کی تصویر لیے دہلیز پر بیٹھی ہے۔ وہ نوجوان جو جنگ زدہ شہر کی دیواروں پر امید کے اشعار لکھتا ہے۔ یہ سب کون ہیں؟ اور وہ کون ہے جو ہمیں دن رات سمجھاتا ہے کہ یہ سب دہشت گرد ہیں؟ صدیوں سے ایک سوال ہے جو تہذیبوں کے درمیان لٹکا ہوا ہے۔ جو کوئی چیختا ہے تو اسے شور مچانے والا کہا جاتا ہے۔ جب کوئی مزاحمت کرتا ہے تو اسے باغی یا فسادی لکھا جاتا ہے اور جب کوئی بندوق اٹھاتا ہے تو اس کے ساتھ ایک لیبل چپکا دیا جاتا ہے، دہشت گرد کا۔ یہ لیبل وہ ہیں جو طاقتور قومیں اپنے مفاد کی بنیاد پرگھڑتی ہیں۔
جن ہاتھوں میں بارود کے ڈھیر ہوتے ہیں وہی طے کرتے ہیں کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ۔ جس کے پاس میڈیا ہے، میزائل ہیں، منڈی ہے، وہی اپنی مرضی کی کہانی لکھتا ہے اور باقی دنیا بس تماشائی بن کر دیکھتی ہے ،کچھ تالیاں بجاتی ہے ،کچھ چپ رہتی ہے اور کچھ کچلے ہوئے لوگ بند گلیوں میں مر جاتے ہیں۔
میں نے فلسطین میں وہ بچی دیکھی ہے جس کے پاؤں کے نیچے سے زمین چھینی گئی۔ میں نے ان نوجوانوں کو سنا ہے جن کے سوالوں کو گولیوں سے جواب دیا گیا۔ میں نے کشمیر کے ان بچوں کی آنکھوں میں وہ دھند دیکھی ہے جو پیلٹ گنوں سے پیدا ہوتی ہے۔ میں نے کابل، بغداد، یمن،کردستان اور غزہ کی لاشوں پر وہ جھنڈے لہراتے دیکھے ہیں جن پر امن اور ترقی کا دعویٰ ہوتا ہے۔پھر پوچھا جاتا ہے یہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں؟ میں کہتی ہوں انھیں ہم نے ہی پیدا کیا ہے، یہ ہماری خاموشی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ یہ اس ناانصافی کے اندھیرے میں پلتے ہیں جسے ہم قانون کا نام دیتے ہیں۔ یہ اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ناانصافی ہوتی ہے، بھوک ہوتی ہے، جنگ ہوتی ہے۔ یہ کہانی صرف ایک ملک کی نہیں، یہ کہانی ہر اس جگہ کی ہے جہاں طاقتور اور انصاف کے درمیان فاصلہ بہت بڑھ چکا ہے۔
ایک فلسطینی بچہ اگر پتھر اٹھاتا ہے تو وہ دہشت گر ایک کشمیری نوجوان اگر آزادی کا نعرہ لگاتا ہے تو وہ شدت پسند۔ ایک بلوچ اگر اپنی ماں کے لیے انصاف مانگتا ہے تو وہ ریاست کا دشمن لیکن اگر ایک سپر پاور ہزاروں میل دور جا کر بمباری کرے تو وہ امن قائم کر رہی ہے۔کیا انصاف کا پیمانہ یہی ہے؟ کیا ہم صرف اس لیے خاموش ہیں کہ ہم محفوظ ہیں؟ یا اس لیے کہ ہمارے ضمیر کو نیند پسند ہے؟ ہم نے دہشت گردی کو اتنا سیاسی اتنا معاشی اور اتنا مفاد پرست بنا دیا ہے کہ اب اصل سوال دب چکے ہیں۔ ہم بھول گئے کہ کسی بھی شدت پسندی کے پیچھے فقر ظلم جبر اور محرومی ہوتی ہے۔ ہم نے صرف نتائج پر شور مچایا اسباب پر کبھی نہیں۔
ہم نے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ایک لڑکی اگر مدرسے سے نکل کر بندوق اٹھاتی ہے تو اس پر کیا بیتی؟ ایک لڑکا اگر مزدوری کے بجائے خودکش جیکٹ پہن لیتا ہے تو وہ اس مقام تک کیوں پہنچا؟وہ کیا حالات ہوتے ہیں جب ایک انسان انسان رہنا چھوڑ دیتا ہے؟مجھے اپنا ایک جملہ یاد آ رہا ہے جو برسوں پہلے لکھا تھا’’ ہم نے المیوں کو گنتی میں بدل دیا اور زندگی کو لاش میں۔‘‘ آج بھی وہی گنتی جاری ہے۔ لاشیں گنی جا رہی ہیں مگر درد کوکوئی نہیں تولتا۔ہماری دنیا وہ دنیا ہے جہاں پینٹاگون کا بیان حقیقت بن جاتا ہے، جہاں اسرائیل کی گولی خبر نہیں بنتی لیکن فلسطینی کی چیخ اشتعال کہلاتی ہے۔
ہماری لغت میں دہشت گرد ایک ایسا لفظ ہے جو صرف کمزوروں کے لیے مخصوص ہے۔ طاقتورکا کوئی عمل دہشت گردی نہیں کہلاتا۔ جب نیٹو غلطی سے شادی کی تقریب پر بم گرا دیتی ہے تو وہ کولَیٹرل ڈیمیج کہلاتا ہے۔ جب اسرائیلی ٹینک مسجد کے مینار پرگولہ داغتا ہے تو وہ دفاعی کارروائی کہلاتی ہے لیکن جب ایک بچہ پتھر مار دیتا ہے تو وہ عالمی سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہر دہشت گرد ایک دن معصوم بچہ تھا۔ ہر شدت پسند نے کبھی کسی ماں کی گود میں مسکراہٹ کے ساتھ آنکھ کھولی تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ وہ اس مسکراہٹ کو بارود میں بدل بیٹھا؟ اور ہاں کچھ لوگ واقعی درندے ہوتے ہیں لیکن کیا درندے بھی پیدا ہوتے ہیں؟ یا حالات محرومیاں اور ظلم انھیں درندہ بنا دیتے ہیں؟ یہ سوال میں دنیا سے نہیں خود سے کرتی ہوں۔
جب کوئی نوجوان افریقہ کے کسی جنگ زدہ علاقے سے آتا ہے اور یورپ میں نفرت کی دیواروں سے ٹکرا کر پلٹتا ہے جب کوئی میانمار سے جان بچا کر بنگلہ دیش کے کیمپوں میں سسکنے پر مجبور ہو جاتا ہے جب کوئی شام میں کیمیائی گیس سے اپنے بچوں کو مرتا دیکھتا ہے اور جب کوئی ہندو، مسلمان، یہودی، عیسائی اپنی شناخت کی بنیاد پر جبر سہتا ہے تو ان سب کے دلوں میں ایک ہی آگ سلگتی ہے دنیا ہمیں سنتی کیوں نہیں؟ ہمیں جینے کیوں نہیں دیتی؟
یہ وہ مقام ہے جہاں کچھ لوگ صبر کا دامن تھامے رکھتے ہیں اورکچھ لوگ بندوق اٹھا لیتے ہیں۔ تب دنیا انھیں دہشت گرد کہتی ہے اور اپنی جان چھڑا لیتی ہے لیکن میں یہ سوال دوبارہ اٹھاتی ہوں، یہ دہشت گرد کون ہوتے ہیں؟ کیا وہ واقعی دہشت گرد ہوتے ہیں؟ یا ہم سب جو ظلم دیکھتے ہیں اور چپ رہتے ہیں ان کے خاموش خالق ہوتے ہیں؟ دنیا میں کہیں بھی اگر کوئی نوجوان بارود کا راستہ اختیارکرتا ہے تو ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ اس مقام تک کیسے پہنچا؟ یہ سوال بہت ضروری ہے۔
اگر ہم نے یہ سوال نہ پوچھا نہ سمجھا تو ہرگلی ہرکوچہ ہر بستی میں ایک اور دہشت گرد جنم لیتا رہے گا ہمارے نظام کی کوکھ سے ہماری خاموشی ہماری بے حسی سے۔ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے اگر یہ خاموشی اور ظلم نہ رکا تو انسانیت کو اس کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔