علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی جانب سے نان فارمل ایجوکیشن رپورٹ 2023-24 کا اجرا
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جولائی2025ء)وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہاہے کہ تعلیم یافتہ خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنایا جا رہا ہے اور ان کی شرکت قومی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پاکستان کی نان فارمل ایجوکیشن رپورٹ 2023-24 کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جس کے مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی تھے۔
تقریب کے دوران، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے باضابطہ طور پر رپورٹ کا اجرا کیا اور اسے نان فارمل ایجوکیشن کے شعبے میں پالیسی سازی اور ڈیٹابیس کی تیاری کے لیے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا۔وفاقی سیکریٹری تعلیم، ندیم محبوب نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ وزیرِ تعلیم نے جائیکا کے تعاون سے جاری (اعقّال) پروجیکٹ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشن (پائی) کی مشترکہ کاوشوں کو سراہا جن کے نتیجے میں یہ رپورٹ تیار ہوئی۔(جاری ہے)
ڈیٹا کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر صدیقی نے کہاکہ نان فارمل ایجوکیشن میں رسائی، معیار اور نظم و نسق کو صرف مضبوط اور قابلِ اعتماد ڈیٹا سسٹمز کے ذریعے ہی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔’’ انہوں نے زور دیا کہ نان فارمل ایجوکیشن کے لیے قائم ایمس (ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) سیل مؤثر انداز میں کام کر رہا ہے اور کارکردگی کی نگرانی میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔وزیر تعلیم نے اعلان کیا کہ وفاقی نان فارمل ایجوکیشن پالیسی 2025 کی تیاری جاری ہے، جس کا ہدف ملک میں ‘‘زیرو آؤٹ آف اسکول چلڈرن’’ حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نان فارمل ایجوکیشن کے لیے نیشنل ایکشن پلان 2025 پر بھی کام جاری ہے۔ڈاکٹر صدیقی نے بتایا کہ اساتذہ کے لیے جلد ہی ایک جامع مینجمنٹ فریم ورک اور معیاری اسسمنٹ سسٹم متعارف کروایا جائے گا۔ مزید یہ کہ اسکول سے باہر بچوں کو اسیلریٹڈ لرننگ پروگرامز کے ذریعے دوبارہ تعلیمی نظام میں شامل کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزارت تعلیم ڈیٹا پر مبنی پالیسی سازی کو اولین ترجیح دے رہی ہے، جو جدید تعلیمی تقاضوں کے مطابق ہے،یہ رپورٹ وفاقی اور صوبائی اداروں کے درمیان مضبوط تعاون کا مظہر ہے۔ انہوں نے کہا، اور پائی اور جائیکا کی کوششوں کو ‘‘قابلِ تحسین’’ قرار دیا۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے اپیل کی کہ رپورٹ میں فراہم کردہ ڈیٹا سے بھرپور استفادہ کیا جائے تاکہ تعلیمی منصوبہ بندی اور رسائی میں بہتری لائی جا سکے۔انہوں نے زور دیاکہ تعلیم کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہے، تعلیم میں سرمایہ کاری کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم یافتہ خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنایا جا رہا ہے اور ان کی شرکت قومی ترقی کے لیے ناگزیر ہے، کیونکہ وہ آبادی کا نصف حصہ ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نان فارمل ایجوکیشن خالد مقبول صدیقی کہ تعلیم رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
آڈیٹر جنرل رپورٹ، مالی سال 24-2023 کی سب سے بڑی مالی بے ضابطگی کہاں ہوئی؟
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے ہر سال رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس میں وفاقی وزارتوں، سرکاری ادارے میں مالی بے ضابطگیوں، قواعد کے خلاف ورزیوں اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کی نشان دہی کی جاتی ہے، سال 24-2023 کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتوں میں 1100 ارب سے زائد مالیت کی مختلف بے ضابطگیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق اس سال کی سب سے بڑی بے ضابطگی 35 لاکھ 90 ہزار ٹن گندم امپورٹ کرنے کے فیصلے کو قرار دیا گیا ہے، اس فیصلے سے 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے، یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا کہ جب ملک بھر میں گندم کی پیداوار ہو چکی تھی اور گندم وافر مقدار میں موجود تھی اس فیصلے سے کاشتکاروں کو بھی شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے دور حکومت میں جنوری 2023 میں گندم کا بحران شدت اختیار کرگیا تھا، افغانستان اسمگل ہونے کے باعث ملک بھر میں گندم کی قلت ہوگئی تھی اور آٹے کی قیمت کنٹرول سے باہر ہوگئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پہلے اجلاس میں کیا کچھ زیربحث آیا؟
آٹے کی قیمت میں 60 روپے کلو اور گندم کی قیمت میں 1500 روپے فی من کا اضافہ ہوا تھا، جس پر گندم کی طلب پوری کرنے کے لیے حکومت نے 30 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی تھی جس کے بعد گندم کا بحران حل ہوگیا۔
گندم درآمد کے لیے مجموعی طور پر 98 ارب 51 کروڑ روپے باہر بھیجے گئے، اور 6 ممالک سے گندم سے بھرے 70 جہاز منگوائے گئے، یہ اتنی گندم تھی کہ کئی ماہ گزرنے کے بعد کچھ جہاز بندرگاہ پر لنگرانداز رہے اور لاکھوں ٹن گندم ان پر لدی رہی تھی۔
گندم درآمد کرنے کے بعد ملک بھر میں گندم اتنی وافر مقدار میں موجود تھی کہ جن کسانوں سے ماضی میں 40 لاکھ ٹن گندم خریدی جاتی تھی، ان سے حکومت نے کوئی خریداری نہیں کی ہے، اور گندم کا ریٹ 5 ہزار 500 روپے فی من سے کم ہو کر 3 ہزار روپے تک آ گیا، بعد ازاں مارکیٹ میں خریدار موجود نہ ہونے کے باعث ریٹ 2200 روپے فی من تک گر گیا۔
مزید پڑھیں:بلوچستان کے سرکاری افسران زکوٰۃ کی رقم ڈکار گئے، آڈٹ جنرل کی رپورٹ میں انکشاف
پاکستان میں ہر سال گندم کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جاتا ہے، پاکستان کی گندم کی سالانہ ضرورت 2.40 ملین میٹرک ٹن ہے جبکہ جو گندم پاکستان نے درآمد کی تھی اس کے بعد پاکستان کے پاس 3.59 ملین میٹرک ٹن گندم کا ذخیرہ ہو گیا تھا۔
گندم اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد پہلے تو کہا گیا کہ نگراں حکومت نے ضرورت نہ ہونے کے باوجود اضافی گندم درآمد کرنے کی اجازت دی، پھر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے خلاف تحقیقات کی بات کی گئی تھی۔
گندم اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق گندم بحران کی بنیاد پی ڈی ایم دور میں رکھی گئی، پی ڈی ایم دور حکومت میں 13 جولائی 2023 کو وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک طارق بشیر چیمہ نے سرکاری سطح پر 10 لاکھ ٹن گندم خریدنے کی سمری کی منظوری دی۔
مزید پڑھیں:بلوچستان میں اربوں روپے کی مالی بےضابطگیاں سامنے آگئیں
تاہم 8 اگست کو پی ڈی ایم حکومت کے آخری 2 دنوں میں اقتصادی رابطہ کمیٹی یعنی ای سی سی نے اس سمری کو مؤخر کردیا اور یوں یہ معاملہ اس وقت ٹل گیا، نگراں حکومت کے قیام سے قبل ہی گندم افغانستان اسمگل ہونے کے باعث ملک بھر میں گندم کی قلت کے باعث اس کے نرخ بڑھ رہے تھے۔
ایسی صورتحال میں گندم کی بڑھتی قیمت کو لگام دینے کے لیے گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ستمبر 2023 کو گندم خریداری کے لیے سمری وزیراعظم آفس بھیجی گئی، جس پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بطور وزیر تحفظ خوراک دستخط کیے۔
گندم درآمد کرنے کی سمری منظوری کے لیے 12 ستمبر کو ای سی سی کو بھیجی گئی تاہم ایک مرتبہ پھر سے سمری مسترد کر دی گئی، تاہم ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد ای سی سی نے 23 اکتوبر 2023 کو گندم درآمد کرنے کی منظوری دیدی۔
مزید پڑھیں:وزارت خارجہ کے اکاؤنٹس میں 16 ارب سے زائد کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
ای سی سی سے منظوری کے بعد باہر ممالک سے گندم خریدنے کا عمل شروع ہوا اور 24 نومبر کو ٹریڈ کارپوریشن پاکستان نے 11 لاکھ ٹن گندم خریداری کا ٹینڈر دیا تاہم کسی نے بولی نہ دی، جس کے بعد گندم پرائیویٹ سیکٹر کو درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
دسمبر 2023 تک یوکرین اور دیگر ممالک سے 12 لاکھ ٹن گندم پاکستان آ چکی تھی اس کے باوجود وہیٹ بورڈ کے اجلاس میں مزید 15 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی، اس کے فوری بعد ملک بھر میں گندم آنا شروع ہوگئی اور 25 جہاز گندم لے کر پاکستان آ گئے تاہم یہ گندم پرائیویٹ پارٹیوں کی تھی۔
فلور ملز ایسوسی ایشن اور گندم درآمدکنندگان نے بیرون ملک سے گندم خریدی ہوئی تھی، تاہم فروری میں گندم درآمد کرنے کا وقت ختم ہو رہا تھا جس پر درآمد کنندگان نے کہا کہ گندم خریدی جاچکی ہے اور کچھ توسیع دی جائے، جس پر گندم کی درآمد کی تاریخ میں 31 مارچ تک کی توسیع کر دی گئی۔
مزید پڑھیں:
عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل سے قبل 23 فروری 2024 کو وفاق نے وہیٹ بورڈ کے گندم درآمد کرنے کے فیصلے کی توثیق کی، جس کے بعد گندم پاکستان آتی رہی اور موجودہ حکومت کی تشکیل کے بعد بھی گندم کے پاکستان پہنچنے کا سلسلہ جاری رہا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آڈیٹر جنرل پی ڈی ایم ٹریڈ کارپوریشن پاکستان سرکاری فنڈز فلور ملز ایسوسی ایشن گندم وہیٹ بورڈ