آڈیٹر جنرل رپورٹ، مالی سال 24-2023 کی سب سے بڑی مالی بے ضابطگی کہاں ہوئی؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے ہر سال رپورٹ جاری کی جاتی ہے جس میں وفاقی وزارتوں، سرکاری ادارے میں مالی بے ضابطگیوں، قواعد کے خلاف ورزیوں اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کی نشان دہی کی جاتی ہے، سال 24-2023 کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزارتوں میں 1100 ارب سے زائد مالیت کی مختلف بے ضابطگیوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق اس سال کی سب سے بڑی بے ضابطگی 35 لاکھ 90 ہزار ٹن گندم امپورٹ کرنے کے فیصلے کو قرار دیا گیا ہے، اس فیصلے سے 300 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے، یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا کہ جب ملک بھر میں گندم کی پیداوار ہو چکی تھی اور گندم وافر مقدار میں موجود تھی اس فیصلے سے کاشتکاروں کو بھی شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے دور حکومت میں جنوری 2023 میں گندم کا بحران شدت اختیار کرگیا تھا، افغانستان اسمگل ہونے کے باعث ملک بھر میں گندم کی قلت ہوگئی تھی اور آٹے کی قیمت کنٹرول سے باہر ہوگئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پہلے اجلاس میں کیا کچھ زیربحث آیا؟
آٹے کی قیمت میں 60 روپے کلو اور گندم کی قیمت میں 1500 روپے فی من کا اضافہ ہوا تھا، جس پر گندم کی طلب پوری کرنے کے لیے حکومت نے 30 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کی اجازت دی تھی جس کے بعد گندم کا بحران حل ہوگیا۔
گندم درآمد کے لیے مجموعی طور پر 98 ارب 51 کروڑ روپے باہر بھیجے گئے، اور 6 ممالک سے گندم سے بھرے 70 جہاز منگوائے گئے، یہ اتنی گندم تھی کہ کئی ماہ گزرنے کے بعد کچھ جہاز بندرگاہ پر لنگرانداز رہے اور لاکھوں ٹن گندم ان پر لدی رہی تھی۔
گندم درآمد کرنے کے بعد ملک بھر میں گندم اتنی وافر مقدار میں موجود تھی کہ جن کسانوں سے ماضی میں 40 لاکھ ٹن گندم خریدی جاتی تھی، ان سے حکومت نے کوئی خریداری نہیں کی ہے، اور گندم کا ریٹ 5 ہزار 500 روپے فی من سے کم ہو کر 3 ہزار روپے تک آ گیا، بعد ازاں مارکیٹ میں خریدار موجود نہ ہونے کے باعث ریٹ 2200 روپے فی من تک گر گیا۔
مزید پڑھیں:بلوچستان کے سرکاری افسران زکوٰۃ کی رقم ڈکار گئے، آڈٹ جنرل کی رپورٹ میں انکشاف
پاکستان میں ہر سال گندم کے ذخائر کا تخمینہ لگایا جاتا ہے، پاکستان کی گندم کی سالانہ ضرورت 2.
گندم اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد پہلے تو کہا گیا کہ نگراں حکومت نے ضرورت نہ ہونے کے باوجود اضافی گندم درآمد کرنے کی اجازت دی، پھر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے خلاف تحقیقات کی بات کی گئی تھی۔
گندم اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق گندم بحران کی بنیاد پی ڈی ایم دور میں رکھی گئی، پی ڈی ایم دور حکومت میں 13 جولائی 2023 کو وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک طارق بشیر چیمہ نے سرکاری سطح پر 10 لاکھ ٹن گندم خریدنے کی سمری کی منظوری دی۔
مزید پڑھیں:بلوچستان میں اربوں روپے کی مالی بےضابطگیاں سامنے آگئیں
تاہم 8 اگست کو پی ڈی ایم حکومت کے آخری 2 دنوں میں اقتصادی رابطہ کمیٹی یعنی ای سی سی نے اس سمری کو مؤخر کردیا اور یوں یہ معاملہ اس وقت ٹل گیا، نگراں حکومت کے قیام سے قبل ہی گندم افغانستان اسمگل ہونے کے باعث ملک بھر میں گندم کی قلت کے باعث اس کے نرخ بڑھ رہے تھے۔
ایسی صورتحال میں گندم کی بڑھتی قیمت کو لگام دینے کے لیے گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ستمبر 2023 کو گندم خریداری کے لیے سمری وزیراعظم آفس بھیجی گئی، جس پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بطور وزیر تحفظ خوراک دستخط کیے۔
گندم درآمد کرنے کی سمری منظوری کے لیے 12 ستمبر کو ای سی سی کو بھیجی گئی تاہم ایک مرتبہ پھر سے سمری مسترد کر دی گئی، تاہم ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد ای سی سی نے 23 اکتوبر 2023 کو گندم درآمد کرنے کی منظوری دیدی۔
مزید پڑھیں:وزارت خارجہ کے اکاؤنٹس میں 16 ارب سے زائد کی بے قاعدگیوں کا انکشاف
ای سی سی سے منظوری کے بعد باہر ممالک سے گندم خریدنے کا عمل شروع ہوا اور 24 نومبر کو ٹریڈ کارپوریشن پاکستان نے 11 لاکھ ٹن گندم خریداری کا ٹینڈر دیا تاہم کسی نے بولی نہ دی، جس کے بعد گندم پرائیویٹ سیکٹر کو درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
دسمبر 2023 تک یوکرین اور دیگر ممالک سے 12 لاکھ ٹن گندم پاکستان آ چکی تھی اس کے باوجود وہیٹ بورڈ کے اجلاس میں مزید 15 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی، اس کے فوری بعد ملک بھر میں گندم آنا شروع ہوگئی اور 25 جہاز گندم لے کر پاکستان آ گئے تاہم یہ گندم پرائیویٹ پارٹیوں کی تھی۔
فلور ملز ایسوسی ایشن اور گندم درآمدکنندگان نے بیرون ملک سے گندم خریدی ہوئی تھی، تاہم فروری میں گندم درآمد کرنے کا وقت ختم ہو رہا تھا جس پر درآمد کنندگان نے کہا کہ گندم خریدی جاچکی ہے اور کچھ توسیع دی جائے، جس پر گندم کی درآمد کی تاریخ میں 31 مارچ تک کی توسیع کر دی گئی۔
مزید پڑھیں:
عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل سے قبل 23 فروری 2024 کو وفاق نے وہیٹ بورڈ کے گندم درآمد کرنے کے فیصلے کی توثیق کی، جس کے بعد گندم پاکستان آتی رہی اور موجودہ حکومت کی تشکیل کے بعد بھی گندم کے پاکستان پہنچنے کا سلسلہ جاری رہا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آڈیٹر جنرل پی ڈی ایم ٹریڈ کارپوریشن پاکستان سرکاری فنڈز فلور ملز ایسوسی ایشن گندم وہیٹ بورڈذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آڈیٹر جنرل پی ڈی ایم ٹریڈ کارپوریشن پاکستان سرکاری فنڈز فلور ملز ایسوسی ایشن گندم درآمد کرنے کی ملک بھر میں گندم لاکھ ٹن گندم میں گندم کی آڈیٹر جنرل مزید پڑھیں پی ڈی ایم اور گندم کی اجازت کرنے کے ہونے کے گندم کا کے باعث کے بعد کی تھی کے لیے
پڑھیں:
قیمتوں پر کنٹرول کیلئے حکومت کا چینی کی بڑی درآمد کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں وفاقی کابینہ نے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔
وزارت غذائی تحفظ کے مطابق چینی کی درآمد سرکاری شعبے کے ذریعے کی جائے گی، جس کے لیے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں اور فوری طور پر عمل درآمد شروع کیا جا رہا ہے۔
وزارت کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد چینی کی قیمتوں میں توازن برقرار رکھنا ہے۔ یہ فیصلہ ماضی کی پالیسیوں سے مختلف ہے کیونکہ ماضی میں اکثر چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے سبسڈی پر انحصار کیا جاتا تھا، لیکن اس بار بہتر حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔
وزارت نے وضاحت کی ہے کہ ماضی میں چینی اس وقت برآمد کی گئی تھی جب ملک میں وافر مقدار میں دستیاب تھی، لیکن اب قیمتوں کے استحکام کے لیے درآمد کا راستہ اپنایا جا رہا ہے۔
دوسری جانب کراچی میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ جاری ہے۔ عاشورہ کے بعد ہول سیلز مارکیٹ میں فی کلو چینی کی قیمت 3 روپے بڑھ گئی ہے، اور اب یہ 179 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ 15 مئی سے اب تک ہول سیلز سطح پر چینی کی قیمت 13 روپے فی کلو بڑھ چکی ہے، جب کہ ریٹیل سطح پر چینی 190 سے 200 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔ یہ قیمتیں 15 مئی کے مقابلے میں 20 سے 30 روپے زیادہ ہیں۔