کیسے لوگوں سے ہمیں واسطہ آپڑا، تاریخ کے بہاؤ میں جن کے ظلم کوفیوں والے تھے، مگر جنہیں سروں پہ بٹھائے رکھا۔ افسوس! صد افسوس!
یہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں! اُجلے دامن کی پاکباز خاتون! جن کے بھائی نے انگریز استعمار اور برہمن سامراج سے غیر مبہم طور پر آنکھیں چار کیں۔
وہ انگریز وں کی دھمکیوں اور گاندھی کی چالبازیوں سے ایک پوری قوم کو بچا لائے ۔ مگر اس قوم نے اپنے قائد اور بانی کی بہن کے ساتھ کیا سلوک گوارا کیا؟
وہ بانی کی بہن تھیں، جس کے خلاف بھی حب الوطنی کی آڑ لے لی گئی۔ کس وطن کی” محبت” کا دھوکا دیا گیا، وہی جس کے متعلق کہا گیا کہ اگر قائد اعظم کی بیماری کا گاندھی، نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کو علم ہوتا تو وہ تقسیم کا منصوبہ التواء میں ڈال دیتے۔ کوئی دوسرا نہ تھا، جو قائد اعظم کے بعد ایک آزاد وطن کے مطالبے کی پیروی کر پاتا! ایسے بھائی کی بہن بھی اقتدار کی لامحدود ہوس کی بھینٹ چڑھائی گئیں، اُنہیں ہر الزام سہنا پڑا، جبکہ وطن کی تقدیس کے تمام القابات سفاک حکمران اوڑھے رہے۔ افسوس اس قوم پر جنہیں سامنے کی حقیقتیں بھی نظر نہ آسکیں!
فیلڈ مارشل (خود ساختہ) نے پاکستان کے اقتدار پر نہیں پورے جمہوری عمل پر قبضہ کر لیا۔ جنرل ایوب خان صرف اقتدا پر فوجی قبضے کے حوالے سے ہی تاریخ میں بدنام نہ ہوئے بلکہ اُنہوں نے پاکستان کے اندر ہر جمہوری عمل پر زبردست گرفت رکھنے کی لت بھی طاقت ور حلقوں کو لگا دی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن!
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی!
محترمہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کا انتخابی معرکہ مارچ 1965ء میں بپا ہونا تھا، مگر قائد کی بہن کی مقبولیت نے آمر کو خائف کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے ایک ہی روز میں تین مختلف نوٹیفکیشن جاری کیے اور صدارتی امیدواروں کے نام اور انتخابی نشانات کے ساتھ صدارتی انتخاب کی تاریخ 2جنوری 1965ء مقرر کردی۔ کوئی دور نہ تھا جب ”سکندر سلطان راجہ” ایسے لوگ الیکشن کمیشن میں نہ رہے ہوں۔
محترمہ فاطمہ جناح کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ فریڈم اسپیشل ٹرین کے ڈھاکہ سے چٹا گانگ کے 293 میل کے راستے پر دس لاکھ لوگ پھولوں کے ہار لے کر استقبال کے لیے امڈ آئے۔ آمر یا پھر جمہوریت کو بالواسطہ کنٹرول میں رکھنے والی قوتوں کے لیے کسی بھی جمہوری رہنما کی مقبولیت سب سے بڑا خطرہ ہوتی ہے۔ ایوب خان بھی سہم گئے۔ قائد اعظم کی بہن مجمع سے پوچھتیں : کیا آپ میرے ساتھ ہیں”؟ عوام جوش و خروش سے ہاتھ ہوا میں لہرانے لگتے۔عوامی رجحانات کے جذباتی دھاروں کی تہہ داریوں سے اُچھلتے تیوروں نے آمر پر لرزہ طاری کیا تو تب کے
الیکشن کمیشن نے فوری طور پر انتخابی مہم پر حدیں لگانا شروع کردیں۔ صدارتی انتخاب کے لیے ایک ماہ کی انتخابی مہم چلانے کی اجازت تھی۔ لیکن الیکشن کمیشن نے فریقین کو نو، پروجیکشن میٹنگز تک محدود کر دیا۔ اور اس میں بھی عوامی شرکت پر پابندی لگا دی۔ اب ان میٹنگز میں صرف انتخابی کالج کے بیسک ڈیموکریٹس یا صحافی شریک ہو سکتے تھے۔ تب کے ”سکندر سلطان راجہ” ، جی معین الدین خان تھے۔
امریکا میں چھپنے والے انگریزی جریدے ان مناظر کی ہکا بکا کردینے والی تفصیلات چھاپا کرتے۔ پاکستانی میڈیا تب بھی صرف کنٹرولڈ نہ تھا بلکہ جرائم میں شراکت دار بھی تھا۔ طاقت کی بہیمت کیسے نچاتی ہے، زیڈ اے سلہری کو یاد کر لیجیے! اُنہوں نے بانی پاکستان کی بہن اور تحریک ِ پاکستان میں اُن کی شریک محترمہ فاطمہ جناح پر پاکستان توڑنے کا الزام عائد کر دیا۔ الزام والے کاغذ کے چیتھڑے اخبار کو ایوب خان لہرا لہرا کر مس جناح کو غدار کہتے رہے۔سیاست دانوں کو غدار قرار دینے کی یہ روایت ایوب خان نے ڈالی، تب ذوالفقار علی بھٹو اُن کے ساتھ تھے، اُنہیں ڈیڈی پکارا کرتے۔ محترمہ فاطمہ جناح کی تب عمر 71 برس تھی۔ اگلے صرف دو برسوں میں اُنہیں آج ہی کی تاریخ میں دنیا سے چلے جانا تھا۔
پانچ سیاسی جماعتوں (متحدہ محاذ) کی وہ متفقہ صدارتی امیدوار تھیں جو الیکشن لڑنے کے لیے بھی بمشکل تمام آمادہ ہوئیں ۔ وہ حصول اقتدار سے بے نیاز صرف عوامی حقوق اور دستور سازی پر زور دیتی رہیں۔ طاقت ور ان دونوں چیزوں کو روندنے کی نفسیات رکھتے ہیں۔ چنانچہ اُنہیں بانی ٔ پاکستان کی بہن فاطمہ جناح بھی گوارا نہ تھیں۔ سفید ملبوس، بارعب چہرہ اور اپنے بھائی کی طرح قوم کے لیے مانوس ، مادرِ ملت کی مقبولیت ایوب خان کسی طور قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اور اپنی ذہنی رکاکت اور قلبی کثافت سے ہر نوع کا الزام اُن پر لگایا۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو’ ایک بوڑھی اور کمزور دماغ والی خاتون’ کہا۔اسی انتخابی مہم میں فاطمہ جناح کو ‘نسوانیت اور ممتا سے عاری’ خاتون بھی قرار دیا۔ ایوب خان لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں ہر حد عبور کر گئے۔ کسی اور نے نہیں، خود اُن کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے اپنی کتاب ”ایوب خان، فوجی راج کے دس سال” میں لکھا ہے کہ
”انہوں (ایوب خان) نے مس جناح کے غیر شادی شدہ ہونے کے حوالے سے ان پر خلاف فطرت
زندگی بسر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ”بد خصال لوگوں میں گھری ہوئی ہیں” ۔
الطاف گوہر نے آگے لکھا ہے کہ ”ایوب خان کے ان ناگفتنی کلمات پر سرکاری حلقے سکتے میں آگئے۔ تاہم ایوب خان کو اس کا کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچا”۔ کیسے پہنچتا؟ اقتدار پرست اور طاقت کے محور میں ڈولتا ٹولہ ہمیشہ سربہ سجدہ جو رہا ہے۔ ایوب خان کے دور میں ہی سیاست دانوں کی خرید وفروخت شروع ہو گئی تھی۔ مولانا بھاشانی اس کی ایک مثال تھے۔ انتخابی مہم کے عین ہنگام مولانا بھاشانی اپنی پارٹی سمیت فاطمہ جناح کی حمایت سے دستبردار ہو گئے۔ اُن پر الزام لگا کہ ایوب خان سے چالیس لاکھ روپیہ لیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیے جمہوریت نام کا چوزہ ایوب خان کے دور میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا، کیونکہ ایوب خان بھٹو کے” ڈیڈی” ہی نہیں ایشیا کے ڈیگال بھی تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ہی نہیں سندھ کے اہم روحانی گدی کے سربراہ مخدوم سید زماں طالب المولیٰ نے بھی ایوب خان کی حمایت میں مہم چلائی۔ تب تاریخ کی غلط سمت پر پیر پگاڑا، محمد خان جونیجو، پیر آف رانی پور، غلام نبی میمن وغیرہ بھی کھڑے تھے، جنہوں نے ایوب کا ساتھ دیا۔
بھولیں نہیں!لاہور میں میاں معراج دین، میاں شریف محترمہ فاطمہ جناح کی مخالفت میں سرگرم رہے۔ بعد میں میاں شریف کا پورا خاندان جنرل ضیاء کی گودی میں رہا۔ آج بھی ملک پر مسلط ہے۔ راول پنڈی کے راجا ظفر الحق اسی میاں شریف کے فرزند میاں نواز شریف کو ہمیشہ ساز گار رہے، ایوب خان کے ساتھ تھے۔ گجرات کے چودھریوں کی کیا بات کریں، ظہور الٰہی تو ایوب خان کا دست راست تھے۔ گوجرانوالہ میں غلام دستگیر خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جلوس نکالا تو ایک جانور پر محترمہ کے نام کی تختی لگا دی۔ بھولیں نہیں رفیق تارڑ نے مادر ملت کی کُھل کر مخالفت کی، بعد میں جج اور نواز شریف کے سب سے قابلِ اعتبار صدر پاکستان بنے۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ جیسی نظم لکھنے والے اصغر سودائی ایوب خان کے قصیدے اور ترانے لکھنے لگے۔
یہی دور تھا جب اسلام کا استعمال اور استحصال فتوؤں کی صورت میں کرنے کاچلن پیدا ہوا۔ محترمہ فاطمہ جناح کے لیے عورت کی حکمرانی کے خلاف فتوے لیے گئے۔ علمائے کرام کا کردار بھی اسی دور میں متعین ہو گیا تھا۔ اب اس پر تحقیقی کتابیں موجود ہیں جو آشکار کرتی ہیں کہ کس طرح ایوب خان نے علمائے کرام سے کسی خاتون کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتوے لیے۔ تب مولانا مودودیؒ، دارالعلوم کراچی کے مفتی محمد شفیعؒ ایسے دو لہکتے کردار اُٹھے، جنہوں نے تاریخ کی درست سمت کا تعین کیا۔ مولانا مودودی نے فرمایا:”مرد سے قوم کو فائدہ نہ پہنچ رہا ہو تو خاتون سربراہِ مملکت بن سکتی ہے”۔ پھر وہ فقرہ زباں زد عام ہو ا کہ ”ایوب خان میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ وہ مرد ہیں، اور فاطمہ جناح میں اس کے سوا کوئی کمی نہیں کہ وہ عورت ہیں”۔مولانا مفتی محمد شفیع نے دارالافتا دارالعلوم کراچی کی مہر سے فتویٰ جاری کیا کہ ‘جمہوری ملک میں عورت صدرِ مملکت بن سکتی ہے ‘۔
وہ طبقہ جو فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو کے خلاف فتووں کی پوٹلی کندھوں پر اُٹھائے پھرتا تھا اُن کی پیٹھ پر تاریخ نے ایک زناٹے دار کوڑا برسایا جب مریم نواز پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنیں۔ اب وہ فتوے کہیں کتاب الحیل میں پڑے سستا رہے ہیں۔ ایوب خان کے حق میں جس طبقے کے کنج لب سے فاطمہ جناح کے خلاف مذہبی دلائل کے انگارے نکلتے تھے، اب وہاں سے ”او سب دی ماں آگئی اے ،کر اپنا فرض ادا گئی اے” کے پھول جھڑتے ہیں۔ مولانا روم نے لکھا ہے کہ” ریشم کا کیڑا ریشم میں اور بدبو کا کیڑا بدبو میں رہتا ہے”۔
جمہوریت اور متانت کے چہرے محترمہ فاطمہ جناح کو ہارنا ہی تھا۔ تاریخ کی درست سمت پر کھڑے حبیب جالب تب گونجے تھے
دھاندلی، دھونس، دھن سے جیت گیا
ظلم پھر مکروفن سے جیت گیا
ایوب خان نے اپنے ”سکندر سلطان راجہ” سے خانہ ساز جیت کی خبر سنی تو کہا ‘خدا کا شکر ہے ! ملک بچ گیا’۔ ملک کہاں بچتا ہے، ملک بچانے والی مشرقی اور مغربی پاکستان کی واحد متحدہ قوت کو انتخابی جعلسازیوں سے شکست دے دی گئی۔ یہ مشرقی پاکستان کے انجام کا آغاز تھا۔ گاہے سوچتا ہوں، محترمہ کو شکست دلا کر اچھا ہی ہوا، وگرنہ ہماری تاریخ میں یہ باب تب ہی لکھ دیا جاتا کہ الیکشن جیتنے والے زندانوں میں کیسے پڑے ہوتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا
ہم مقفل حویلیوں کی طرح
منہدم ہو رہے ہیں اندر سے
ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
قم القمدس، حرم سیدہ بی بی معصومہ فاطمہ سلام اللہ علیھا میں ماتمی دستوں کی پرسہ داری
ایران کے مختلف شہروں سے ماتمی دستوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس شہر قم میں حرم حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا میں حاضری دی اور پرسہ دیا۔ اسلام ٹائمز۔ سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے قیام اور مظلومانہ شہادت کی یاد اور سوگ میں پوری دنیا میں مجالس عزا اور جلوس ہائے عزاداری منعقد ہو رہے ہیں۔ نویں اور دسویں محرم کو ایران کے مختلف شہروں سے ماتمی دستوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس شہر قم میں روضہ حضرت سیدہ فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا میں حاضری دی۔ حرم کی فضا یاحسینؑ یاحسینؑ کی صداوں سے گونجتی رہی۔ دن رات عزاداران امام حسینؑ دستوں کی صورت میں حضرت معصومہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سلام کی خدمت میں حاضر ہو کر نوحہ خوانی، ماتم و عزاداری کے مراسم انجام دے رہے ہیں اور پرسہ دے رہے ہیں۔ ماتمی دستوں میں لبیک یا حسینؑ اور یاابوالفضل العباسؑ کے بڑھے بڑھے علم اٹھا رکھے ہیں اور مردہ بار امریکہ اور مردہ اسرائیل کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ شعر خوانی اور نعروں کے ذریعے عزاداروں نے یزیدان وقت امریکہ، اسرائیل اور ظالم یورپی طاقتوں کیخلاف اپنا جہاد رکھنے اور فرزند امام حسین علیہ السلام رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای کیساتھ وفاداری کا اظہار کیا۔