الخدمت، بنو قابل اور محمود شام کا کالم
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
محمود شام ایک کہنہ مشق صحافی ہیں معاصر جریدے روزنامہ جنگ کی 23 جون کی اشاعت میں انہوں نے الخدمت کے ’’بنو قابل‘‘ پروگرام کے حوالے سے اپنے کالم کے آخر میں مسلم لیگ(ن)، پی پی، جے یو آئی، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی سے جڑے اپنے تاثرات کا اظہار ایک سوال کی صورت میں کیا ہے، پہلے ان کے کالم سے اقتباس دیکھیے اس کے بعد اسی حوالے سے کچھ گزارشات۔
’’الخدمت کے ’’بنو قابل‘‘ پروگرام کو اب پورے ملک میں پذیرائی مل رہی ہے 55 سالہ حافظ نعیم الرحمن نے یہ پروگرام شروع کیا تھا اس وقت وہ صرف کراچی جماعت اسلامی کے امیر تھے لیکن ان کو اپنی منزل آسمانوں پر نظر آتی تھی ان کا ملی تدبر دیکھ کر آفاقی بصیرت جان کر جماعت اسلامی کے کارکنوں نے ان کو پورے پاکستان کے لیے امیر منتخب کیا۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کے کنونشن باقاعدگی سے منعقد ہوتے ہیں بنو قابل کے اس خیال کا دائرہ اب واہگہ سے گوادر تک پھیل چکا ہے۔ ہفتہ 21 جون کا دن بیٹیوں کے لیے تھا ان میں سرٹیفکیٹ بانٹے گئے۔ آج کراچی کے چار ہزار بیٹوں میں سرٹیفکیٹ بٹیں گے۔ اب بنو قابل 55 شہروں میں نوجوانوں کو مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اہل بنا رہا ہے تربیت کا یہ سلسلہ میٹرک کے فوراً بعد شروع ہو جاتا ہے۔ کراچی کے اب تک 50 ہزار نوجوان تربیت پا کر عملی کام کا آغاز کر چکے ہیں اور یہ نوجوان زیادہ تر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ مڈل کلاس ہی کسی ملک میں تبدیلی لاتی ہے عام طور پر کلاسز تین مہینے کی ہوتی ہیں اور ہر چھے مہینے بعد بنو قابل کے لیے نوجوانوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔
ایکسپو سینٹر میں ایک راہداری میں ہماری تربیت یافتہ بیٹیوں نے اپنے پروجیکٹوں کی نمائش شروع کر رکھی ہے۔ راشد قریشی ایگزیکٹو ڈائریکٹر الخدمت کراچی فخریہ انداز میں اس انتہائی اہم منصوبے پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ الخدمت کراچی کے کوآرڈینیٹر منظر عالم صاحب قدم قدم پر ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔ اب بنو قابل ایک اہم ادارے کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کے باقاعدہ چیئرمین ہیں سی ای او ہیں۔ نوجوان رضاکاروں کی بڑی تعداد پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنا رہی ہے اس منصوبے میں جدید ٹیکنالوجی سے تو استفادہ کیا ہی جا رہا ہے لیکن روایتی وارثوں، اقدار آداب کا خیال بھی رکھا جا رہا ہے۔ ہزاروں پاکستانی نوجوان بیٹے بیٹیاں 2022ء سے انفرادی توانائی حاصل کر کے اب قوم کی توانائی بن رہے ہیں۔ الخدمت کراچی کے چیئرمین نوید علی بیگ بھی اپنے تجربے اور مشاہدے کو بروئے کار لا رہے ہیں میٹرک کے بعد پہلے ٹیسٹ ہوتا ہے پھر انٹرویو پھر کورس کی تربیت۔
پاکستان سنچری میں صرف 22 سال رہ گئے ہیں جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے الخدمت نے تو پاکستان کی 60 فی صد آبادی کی باقاعدہ تربیت شروع کر دی ہے 22 سال بعد بنو قابل کے تربیت یافتہ لاکھوں نوجوان پورے ملک میں اہم عہدوں پر فائز ہوں گے۔ حافظ نعیم الرحمن اس وقت 77 سال کے ہوں گے۔ کیا پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ نوجوانوں کی تربیت میں حصہ لینے کو اپنا قومی فریضہ نہیں سمجھتیں؟‘‘
کالم کے مندرجات دیکھ کر یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ مخصوص نظریات کے حامل محمود شام نے ایک فرض کفایہ پورا کیا ہے اور غیر جانبداری کی ایک نظیر قائم کی ہے جو انہی کا خاصہ ہے، ورنہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر آنے والے نمایاں اور بڑے بڑے نام سچ سننے اور کہنے کا نہ حوصلہ رکھتے ہیں اور نہ ہمت اور نتیجہ میں ’’جلتے ہیں جبرائیل کے پر جس مقام پر‘‘ کے مصداق کیفیت سے دو چار نظر آتے ہیں۔ محمود شام نے برملا کسی لگی لپٹی کے بغیر (ن) لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی وغیرہ سے جس خوبی سے سوال کیا ہے اس کی کاٹ، تندی و تیزی، چھپا طنز اور حیرت کا اظہار یکجا اور بر ملا محسوس کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ قدرت نے ان سیاسی جماعتوں کو حکومت کرنے کے مواقع بھی دیے اور وسائل بھی لیکن ان سب نے عوام کو سوائے مایوسیوں اور جھوٹی طفل تسلیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیا۔ مصائب کے شکار اور بنیادی سہولتوں سے محروم عوام کو ان سیاسی جماعتوں سے جو جو توقعات تھیں وہ پوری نہ ہو سکیں ملک اور عوام کے حالات ناگفتہ رہے اور حکمران بے حسی کی تصویر بنے رہے؟
حکمرانوں کی بے حسی تو ابھی حالیہ سوات میں متعدد سیاحوں کے ڈوبنے کے افسوس ناک اور درد ناک واقعہ سے بھی عیاں ہے جب مرکز میں حکمران طبقے نے اس دلخراش واقعہ کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو مطعون کرنا شروع کیا جب کہ سیاسی اسکورنگ بظاہر نظر آرہی تھی۔ ہیلی کاپٹر کی فراہمی ہو یا حادثات سے بچاؤ کے دیگر اقدامات، اس پر تو بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ ایک دھائی سے زیادہ برسر اقتدار پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی ریسکیو ٹیم کے پاس دو لاکھ روپے مالیت کی ’’روپ لانچنگ گن‘‘ بھی موجود نہیں تھی کہ لا چار و بے یار و مدد گار لوگوں کو بچانے کی کوئی تو تدبیر کی جاسکے۔ متعدد افراد کے ڈوب جانے کے بعد اسلام آباد میں وزیراعلیٰ کے پی کا ایک سوال کے جواب میں یہ کہنا کہ وہ اب کیا کریں، کیا وہاں جا کر تمبو لگائیں؟ یقینی طور سے حادثہ کے بعد کچھ نہیں کیا جاسکتا لیکن دلخراش واقعہ پر صوبے کے سب سے زیادہ ذمے دار اور با اختیار فرد کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ ان کے ان الفاظ سے متاثرہ خاندانوں پر کیا بیتی ہوگی، بے حسی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے، سیدنا عمر کے اس قول سے موازنہ اور اس کا فیصلہ ہم اہل دانش پر چھوڑتے ہیں کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا پیاسا مر گیا، تو عمر سے اس کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا‘‘۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہمیں نا اہل، کرپٹ، ’’وش فل تھنکر‘‘ اور وردی والے حکمران تو ملے، نہیں ملے تو سیدنا عمر بن عبد العزیز جیسے حکمران جنہوں نے اپنی اہلیہ کو جہیز میں ملا قیمتی ہار بیت المال میں واپس جمع کرادیا، شاہی خاندان سے متعلق رشتہ داروں کی ظلم سے حاصل جاگیروں کی دستاویزات کو پھاڑ کر جلا دیا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی عوام کا سرابوں کے پیچھے بھاگنا اور پرستش کے لیے ہر کچھ عرصہ بعد نئے بت تراشنا، انہیں ووٹوں سے لاد دینا اور پھر ان ہی حکمرانوں کو کوسنا اور بد دعائیں دینا یہ رویے اور اہم وجوہات میں ایک سبب ہے کہ جس کی وجہ سے آج طرح طرح کے ان مسائل کا سامنا ہے جو ہماری نفسیاتی، سماجی، سیاسی، اقتصادی اور معاشی صورتحال کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی نمایاں سیاسی جماعتیں چاہے وہ حزب اختلاف سے ہوں یا حسب اقتدار سے ان میں صرف ایک ہی فرق ہے وہ ہے شخصیات کا اور پرو پیگنڈے کا، وگرنہ دیکھا جائے تو نمایاں اور اکثریت کی دعوے دار پیپلز پارٹی مسلم لیگ اور پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی منظوری سے آئی ایم ایف کی اسیری تک یہ تینوں جماعتیں تمام ترعملی اقدامات میں ایک، ہم خیال اور ایک ہی پیج پر نظر آتی ہیں، زمینی حقائق تو یہی ہیں۔
بتائیے ان میں سے کس پارٹی کے پاس سود سے پاک معاشی پالیسی، عوامی مسائل کے حل اور نوجوانوں کے لیے جامع پروگرام ہے؟، نتیجہ کے طور سے جب یہ حکومت میں آتے ہیں تو اپنا پروگرام، ماہرین کی ٹیم اور ٹیم ورک نہ ہونے کے نتیجے میں ان کے لیے اسٹیبلشمنٹ، نوکر شاہی، اشرافیہ اور آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چلنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں ہوتا، نتیجے کے طور سے جن مقاصد کے لیے پاکستان وجود میں آیا تھا وہ خواب اب تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ محمود شام کے سوال سے ایک سوال اور نکلتا ہے، سوچیے کہ وہ کیا محرک ہے جس نے الخدمت کی صورت میں اس قوم کو لاکھوں پر خلوص، بلا معاوضہ اور جذبوں سے بھر پور رضاکار مہیا کر دیے ہیں جو خدمت انسانیت کا ہمہ جہت سلسلہ بلا تخصیص مذہب و رنگ و نسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی پی ٹی ا ئی کراچی کے رہے ہیں کیا جا کے لیے کے بعد
پڑھیں:
ریلیف پیکیج آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنا قابل مذمت ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-11-10
فیصل آباد(وقائع نگارخصوصی)جماعت اسلامی کے ضلعی امیرپروفیسرمحبوب الزماںبٹ نے کہاہے کہ حکومت کی طرف سے سیلاب متاثرین کیلئے ریلیف پیکیج کو آئی ایم ایف کی اجازت سے مشروط کرنا بھی قابل مذمت اور قومی خود مختاری پر سوالیہ نشان ہے، وزیر اعظم اتنے بے اختیار ہو چکے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے اجازت لیکر عوام کیلئے بجلی کے بل معاف کر سکیں گے۔ صرف اگست کے بجلی کے بل معاف کرنے کی بجائے اگلے چھ ماہ کے بل معاف کئے جائیں۔انہوںنے کہاکہ سیلاب زدگان کے ریلیف اور امداد کیلئے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ حکومت کی طرف سے جامع پیکیج کا اعلان کیا جائے۔صرف بجلی کے بل ہی نہیں متاثرہ علاقوں میں کسانوں کا آبیانہ قرضے اور زرعی انکم ٹیکس معاف کیا جائے، کسانوں کو کھادبیج اور مویشیوں کیلئے چارہ بھی مفت فراہم کیا جائے۔ سیلاب زدہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ حکمران فضائی دوروں کی بجائے زمین پر آئیں اور لوگوں کے مسائل حل کریں ۔ متاثرہ علاقوں میں انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اور نکاسی آب بڑا مسئلہ ہے۔ بحالی کے اقدامات کے دوران سب سے پہلے تباہ شدہ پلوں کی تعمیر اور آبادیوں سے پانی کی نکاسی کا بندوبست کیا جائے۔ انہوںنے کہاکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں متاثرین کی بحالی کے لیے بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کا آغاز کریں۔ سیلابی علاقوںمیں تعفن پھیلنے کی وجہ سے ڈینگی، ملیریا، ہیضہ اور دیگر خطرناک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں، لوگوں کو ادویات میسر نہیں اور طبی عملہ کی شدید کمی ہے۔ بچوں اور حاملہ خواتین کے لیے تمام علاقوں میں میڈیکل کیمپ بنائے جائیں۔