Juraat:
2025-12-04@18:43:12 GMT

اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت !

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت !

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

سندھ ایمپلائز ایسوسی ایشن اور اساتذہ کی جانب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس پر احتجاج کرنے جانے والے اساتذہ کی کوشش کے دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ کی 20سے زائد مظاہرین کو حراست میں لیکر تھانہ منتقل کیا۔کراچی میں وزیراعلیٰ ہائوس جانے والے اساتذہ کے پرامن احتجاجی ریلی پر سندھ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج، واٹر کینن کے استعمال اور ربڑ کی گولیاں چلانے سمیت بدترین تشدد قابلِ افسوس ہے۔سندھ کے اساتذہ کے جائز مطالبات تسلیم کرکے ان کو اپنے حقوق دیے جائیں، پولیس اساتذہ پرتشدد کی بجائے عوام کو امن اورسندھ میں جرائم ختم کرنے کے لیے اپنی غیرت کا مظاہرہ کرے۔پرامن احتجاج کے دوران تشدد، بلاجواز گرفتاریاں اور اساتذہ پر واٹر کینن کا استعمال اورآنسوگیس سمیت بلاوجہ لاٹھی چارج کرکے اساتذہ کا تقدس پامال کیا گیا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔ تنخواہوں میں اضافے سمیت اپنا جائز حق مانگنے والے اساتذہ کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت کرنے کی بجائے ان پر وحشیانہ تشدد اور گرفتاریوں سے اساتذہ کا عزت اور وقار مجروح ہوا ہے۔بے گناہ اساتذہ پر پہلے بہیمانہ تشدد اور ان کی تذلیل کسی بھی مہذب معاشرے کی تباہی ہے۔ہر مہذب معاشرے میں سب سے زیادہ اہمیت اس میں بسنے والوں کی فلاح وبہبود کو دی جاتی ہے اور انہیں وہ تمام وسائل فراہم کئے جاتے ہیں جن سے ان کی زندگی آرام دہ اور پرسکون انداز میں گزرے۔اساتذہ بہت محترم اور انتہائی قابلِ عزت ہیں۔استاد کا بلند مقام ہے۔یہ پیغمبری پیشہ ہے۔
ہمارے وطن عزیز کے اساتذہ سے ہم کیا سلوک کر رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو ان چند باتوں سے ہو جائے گا کہ اساتذہ کو تو ہم نے سب سے حقیر اور فارغ سمجھ رکھا ہے۔مردم شماری ہو، پولیو کے قطرے بچوں کو پلانا ہوں، الیکشن ڈیوٹی کرنا ہو یا کسی بھی قسم کی ایمرجنسی ڈیوٹی ہو، اساتذہ ہی انجام دیتے جبکہ اساتذہ کا کام درس و تدریس ہے۔افسوس کہ آج تک جتنی بھی حکومتیں برسر اقتدار رہیں ان میں سے کسی نے بھی محکمہ تعلیم اور اس سے وابستہ اساتذہ کے متعلق کسی نے کچھ نہیں کیا۔استاد کائنات کے اندر اس ہستی کا نام ہے جو معاشرے میں موجود لوگوں کے اخلا ق و کردار کو سنوارنے میں ایک بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور افراد کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر اوج ثریا میں پہنچا دیتا ہے ۔استاد ہی اصل زندگی کے معنی سکھاتا ہے ۔ استاد ایک ایسا رہنما ہے جو لوگوں کو گمراہی سے نکال کر منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔استاد ہی کی بدولت ایک عام انسان ڈاکٹر، انجینئر، جج، جرنیل، بیوروکریٹ اور سیاستدان بنتا ہے۔استاد ہی انسان کو معاشرے میں جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے ، اچھائی اور برائی کی پہچان کراتا ہے ۔ اسی لیے استاد کو پوری قوم کا معمار کہا جاتا ہے ۔کیونکہ ایک استاد کی دی ہوئی اچھی تربیت سے نسلیں ترقی کرتی ہیں اور انسان کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس کو کسی استاد کا ہی دامن تھامنا پڑتا ہے ۔ جب بھی انسان اپنے آپ کو ترقی یافتہ پائے گا تو اس کی زندگی کے رموز و اوقاف کے فریم پر سنہرے حرفوں سے استاد لکھا ہوگا۔ تعلیم قومی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے ۔قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کا اہم کردار ہے۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی
استاد کو علم کا منبع اور معاشرے کی ترقی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ اسلام میں استاد کو معلمِ کائنات (نبی کریم ۖ) کا نائب قرار دیا گیا ہے ، اور ان کی عزت و تکریم کو دین کا حصہ مانا گیا ہے ۔
آج ہمارے معاشرے میں استاد کا وہ مقام و مرتبہ نہیں جو دنیا کی مہذب اقوام عالم اپنے اساتذہ کو دیتی ہیں ۔امریکہ میں استاد کو وی آئی پی پروٹوکول حاصل ہے ، جرمنی میں استاد کو کرسی پیش کی جاتی ہے ، جاپان میں حکومت کی اجازت کے بغیر کسی استاد کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا ۔ دنیا کے ہر ملک میں استاد کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ کبھی ہمارے ملک میں بھی استاد کی عزت ہوتی تھی، آج کل تو استاد کو ہتھکڑی لگا دی جاتی ہے ، پولیس موبائل میں زبردستی بری طرح گھسیٹ کر لے جاتے ہیں اور تھانہ میں بند کر دیتے ہیں اور ایک اشفاق صاحب کورٹ میں پیش ہوتے ہیں تو جج کھڑا ہو جاتا ہے۔یہاں پر مجھے ایک اعلی درجے کے بہترین استاد اور بہت بڑے دانشور اشفاق احمد کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے کسی زمانے میں آپ اٹلی کے شہر روم میں رہتے تھے وہاں پر انکا ٹریفک چالان ہو گیا۔ مصروفیت کے باعث ان کو چالان بھرنے میں تاخیر ہو گئی۔ انہیں گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے پو چھا کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پھر چالان بھی ادا نہیں کیا کیوں؟ اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں یونیورسٹی پروفیسر ہوں اور مصروفیت کی بنا پر وقت پر چالان ادا نہیں کر سکا۔ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ میرے یہ الفاظ ادا کرنے کی دیر تھی کہ جج صاحب
A teacher in the court کا نعرہ لگاتے ہو ئے کھڑے ہو گئے اور ان کے ساتھ عدالت میں موجود سب لوگ کھڑے ہو گئے۔
مجھے کرسی پیش کی گئی اور چالان معاف کردیا گیا اور عدالت میں لائے جانے پر معذرت کی گئی۔ اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ اسوقت مجھے یہ نکتہ سمجھ آیا کہ ان ممالک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ لوگ استاد کا احترام کرتے ہیں۔
جرمنی میں میڈیکل ڈاکٹرز نے جرمن چانسلر سے مطالبہ کیا کہ ان کی تنخواہیں اساتذہ کے برابر کی جائیں، جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی تنخواہیں کس طرح اساتذہ کے برابر کر دوں وہ تو قوم کے طلباء و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں اور ان کے کردار کی تعمیر بھی کرتے ہیں۔چانسلر نے جواب دیا کہ آپ ان کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں جو آپ کو بناتے ہیں۔۔۔اساتذہ کی شان میں ان کا یہ جملہ ضرب المثل بن گیا:
A teacher is not a common man and a common man can not be a teacher
جاپان میں اساتذہ کو اتنا بڑا مقام حاصل ہے کہ اگر کسی تقریب میں یونیورسٹی پروفیسر آ جائے تو اس تقریب کے شرکاء استاد کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں، خواہ اس تقریب کی جاپانی وزیراعظم ہی کیوں نہ صدارت کر رہا ہو۔
ابن انشاء لکھتے ہیں کہ ایک بارمیں جاپان میں ایک یونیورسٹی میں مہمان خصوصی تھا جب فنکشن ختم ہوا تو میں وہاں کے استاد کے ساتھ ٹہلتا ہوا گاڑی کی طرف جا رہا تھا، راستے میں میَں اور وہ ایک جگہ کھڑے ہوکر باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ دو بچے ہمارے پاس سے کود کود کے گزررہے تھے ۔میں نے پوچھا کہ بچے کود کود کر کیوں گزررہے ہیں تو استاد نے بتایا کہ دراصل ہم دونوں جہاں کھڑے ہیں ،ہمارا سایہ زمین پر پڑ رہا ہے تو یہ اس سے بچ کر کود رہے ہیں کہ ہم اس سائے کے اوپر سے نہ گزریں ۔یہ تھی استاد کی عزت جاپان میں۔
فاتح عالم سکندر کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ ایک بار سکندراعظم اپنے استاد محترم ارسطو کے ساتھ گھنے جنگلات سے گزر رہا تھا کہ اچانک راستے میں ایک نالہ آگیاجس میں برسات کی وجہ سے طغیانی آئی ہوئی تھی، اب نالے سے ایک شخص پہلے اور ایک بعد میں گزر سکتا تھا۔ لہٰذا استاد اور شاگرد میں پہلے نالہ پار کرنے پر بحث شروع ہو گئی۔سکندر پہلے نالہ پار کرنے پر بضد تھا بالآخر ارسطو نے بحث کے بعد سکندر کو پہلے نالہ عبور کرنے کی اجازت دے دی۔ یوں سکندر نے پہلے اور ارسطو نے بعد میں نالہ عبور کیا،نالہ عبور کرتے ہی ارسطو نے سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، کیا تم نے پہلے نالہ عبور کرتے ہوئے میری بے عزتی نہیں کی؟ سکندر نے بڑے احترام سے جواب دیا،نہیں استاد محترم، ایسا بالکل نہیں ہے ، میں نے تو صرف اپنا فرض ادا کیا ہے کیونکہ اگر ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر سکتا ۔مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔پیٹرول دن بدن مہنگا ہو رہا ہے۔اساتذہ بھی متاثر ہو رہے ہیں۔حکمران اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کی بجائے عوام کے معاشی مسائل حل کرنے پر بھرپور توجہ دیں۔ وزیراعلیٰ سندھ، محکمہ تعلیم کے صوبائی وزیر و دیگر بالا حکام کی ذمہ داری ہے کہ اساتذہ سمیت دیگر سرکاری ملازمین کے جائز حقوق پر توجہ دیکر ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔تشدد اور گرفتاریاں مسائل کا حل نہیں بلکہ مزید انتشار کا باعث ہونگیں۔ گرفتار اساتذہ کی رہائی فوری طور پر یقینی بنائی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: میں استاد کو اشفاق صاحب جاپان میں اساتذہ پر اساتذہ کے اساتذہ کی نالہ عبور استاد کا کرنے کی جاتا ہے کرتے ہی کھڑے ہو رہے ہیں کے ساتھ ہیں اور نہیں کی ہیں کہ کہ میں گیا ہے ہیں اس

پڑھیں:

گورنر کرناٹک کی بہو کا سسرالیوں پر جہیز کیلئے تشدد و قتل کی کوشش کا الزام

 

کرناٹک (ویب ڈیسک) بھارت کی جنوب مغربی ریاست کرناٹک کے گورنر تھاورچند گہلوت کے خاندان میں بہو پر جہیز کیلئے تشدد اور قتل کی کوشش کا الزام سامنے آیا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سینئر رہنما و کرناٹک کے گورنر تھاورچند گہلوت کے پوتے دیویندر گہلوت کی اہلیہ دیویا گہلوت نے اپنے شوہر اور سسرالیوں پر جہیز کے مطالبے، گھریلو تشدد، قتل کی کوشش اور اپنی کم سن بیٹی کے اغواء کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔

دیویا نے پولیس کو ایک تحریری درخواست دی جس میں انہوں نے ملزمان کے خلاف فوری کارروائی اور اپنی چار سالہ بیٹی واپس دلوانے کی اپیل کی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ اُن کے شوہر دیویندر گہلوت، سسر جیتندر گہلوت جو سابق ایم ایل اے بھی ہیں و دیگر اہلخانہ کافی عرصے سے 50 لاکھ روپے جہیز کے مطالبے پر مجھے ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔

دیویا کا الزام ہے کہ شادی سے قبل اُن کے شوہر کی شراب نوشی، منشیات کے استعمال اور متعدد خواتین کے ساتھ تعلقات جیسے اہم حقائق جان بوجھ کر چھپائے گئے۔

بھارت: جہیز پر سسرالیوں کے ہراساں کرنے پر نئی نویلی دلہن نے خودکشی کرلی

انہوں نے کہا کہ سسرالیوں کی جانب سے 2021 میں حمل کے دوران مجھے شدید اذیتیں دی گئیں، جن میں کھانا نہ دینا، مار پیٹ کرنا اور ذہنی اذیت دینا عام بات بن چکی تھی، بیٹی کی پیدائش کے بعد بھی یہ سلوک جاری رہا۔

اپنی شکایت میں دیویا نے بتایا کہ 26 جنوری کی رات شوہر نشے میں گھر آیا اور انہیں بری طرح مارا۔ اس نے دھمکی دی کہ اگر آج پیسے نہ لائی تو تمہیں قتل کر دوں گا۔

دیویا کا الزام ہے کہ شوہر نے انہیں چھت سے نیچے دھکا دیا، جس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی، کندھے اور کمر میں شدید چوٹیں آئیں۔ رات بھر انہیں طبی امداد نہ دی گئی۔ اگلی صبح نجی اسپتال لے جایا گیا، جہاں حالت تشویشناک قرار دی گئی اور انہیں اندور کے بمبئی اسپتال منتقل کیا گیا۔

دیویا نے الزام لگایا کہ سسرالیوں نے ان کی بیٹی کو زبردستی اپنے پاس رکھا ہوا ہے اور ملاقات تک کی اجازت نہیں دیتے۔ نومبر میں جب وہ اسکول میں بچی کو دیکھنے گئیں تو شوہر نے روک کر کہا کہ ’جب تک تم اپنے والدین سے پیسے نہیں لاتی، بچی سے نہ مل سکو گی۔

انہوں نے اپنی درخواست میں فریاد کی کہ ایک ماں ہی اپنی بچی کی صحیح پرورش کر سکتی ہے۔ میری بچی مجھے واپس دلائی جائے۔

خاندان کی بہو کی جانب سے عائد کیے گئے ان سنگین الزامات کے جواب میں جیتندر گہلوت نے مختصر بیان میں کہا کہ کوئی بھی الزام لگا سکتا ہے، میں تمام حقائق میڈیا کے سامنے پیش کروں گا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق دیویا اور دیویندر کی شادی 29 اپریل 2018 کو مدھیہ پردیش میں ہوئی تھی، جس میں اُس وقت کے مرکزی وزیر تھاورچند گہلوت اور سابق لوک سبھا اسپیکر سومترہ مہاجن سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی تھی۔

یہ معاملہ سیاسی خاندان سے جڑے ہونے کی وجہ سے وسیع توجہ حاصل کر رہا ہے اور پولیس نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • گورنر کرناٹک کی بہو کا سسرالیوں پر جہیز کیلئے تشدد و قتل کی کوشش کا الزام
  • خود مختار خواتین معاشرے میں خوشحالی پھیلاتی ہیں: ڈاکٹر شمشاد اختر
  • کراچی میں قاری کا 6 سالہ بچے پر انسانیت سوز تشدد، سر کی ہڈی توڑ دی
  • کراچی، مدرسے میں کمسن طالبعلم پر تشدد کرنیوالا استاد گرفتار
  • کراچی: مدرسے میں کمسن طالب علم پر تشدد کرنے والا استاد گرفتار
  • بنگلہ دیش میں عام انتخابات سے قبل سیاسی تشدد میں خطرناک اضافہ
  • ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس موبائل پر بم دھماکے میں 3 اہلکار شہید، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی مذمت
  • والد کے بارے میں قابل تصدیق معلومات نہیں‘ قاسم خان کا عمران خان کی سلامتی سے متعلق خدشات کا اظہار
  • لوئردیر،تنظیم اساتذہ کی تنظیم نو کے موقع پر گروپ
  • حیدرآباد، خواتین کے تحفظ و حقوق کے حوالے سے پروگرام کا انعقاد