data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا بھر میں ورک فرام ہوم کا چلن موجود ہے اور اس حوالے سے کھٹے میٹھے تجزیے سامنے آتے رہتے ہیں۔ کووِڈ کے زمانے میں ورک فرام ہوم کا نظام بہت بڑے پیمانے پر متعارف کرایا گیا تھا۔ گھر سے کام کرنے کا چلن کووِڈ سے پہلے بھی تھا تاہم اِس کی بنیاد وسیع نہ تھی۔ کووِڈ میں لاک ڈاؤن نے آجروں کو پابند کیا کہ وہ ملازمین کو گھر بٹھاکر کام کرائیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو گھر بٹھاکر اُن سے کام لیا گیا۔

اب بھی دنیا بھر کے معاشرے ورک فرام ہوم کے چلن کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ہاں، اِس حوالے سے اختلافِ رائے بھی نمایاں ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں کسی کے لیے گھر سے کام کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ وہاں توانائی کا مسئلہ نہیں۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں میں توانائی کا بحران لوگوں کو پابند کرتا ہے وہ دفتر یا دیگر ورک پلیس میں جاکر کام کریں۔

آسٹریلیا کے محققین نے کئی سال تک ہزاروں افراد کے حالاتِ زندگی اور حالاتِ کار کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ گھر پر کام کرنے سے انسان خاصی آزادی اور سکون محسوس کرتا ہے اور یہ چلن مجموعی طور پر انسان کو زیادہ مسرت سے ہم کنار کرتا اور رکھتا ہے۔ گھر پر کام کرنے کی صورت میں انسان یومیہ بنیاد پر تکلیف دہ سفر سے بھی بچ جاتا ہے۔

بہت سے آجروں کو یہ شکایت ہے کہ گھر سے کام کرنے والے ملازمین کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں رہتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں منیجرز یا انچارجز کا کردار بھی قابلِ تحقیق ہے۔ منیجرز کو گھر سے کام کرنے والوں سے کام لینے کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں منیجرز اس حوالے سے تربیت حاصل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ گھر سے کام کرنے والے تھوڑی سی تحریک چاہتے ہیں اور یہ تحریک اُنہیں فیڈ بیک سے ملتی ہے۔ نگرانی کا نظام اُن کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے اور فیڈ بیک اُن کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: گھر سے کام کرنے ورک فرام ہوم کرتا ہے

پڑھیں:

ٹرمپ کی کنفیوژن

اسلام ٹائمز: امریکی صدر نے "جنگ کی قیمت" ادا کی ہے اور ابھی ادا کریں گے لیکن وہ اس مساوات میں "فائدہ" حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ دوسری جانب نطنز اور فوردو جوہری تنصیبات پر حملے میں ٹرمپ کو ان کی بے شرمی اور مہنگی کارروائی پر اقتدار کی پس پردہ لابیوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس پس پردہ دباؤ کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ ٹرمپ ایران کے ایٹمی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے پر بار بار اصرار کررہا ہے۔ تحریر و ترتیب: علی واحدی

امریکی صدر نے "ایران کے جوہری پروگرام کی تباہی" کے بارے میں اپنی معمول کی مبالغہ آرائیوں کو دہراتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اگر ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کی تعمیر نو کی طرف بڑھا تو امریکہ دوبارہ کارروائی کرے گا۔ ٹرمپ نے اپنے معمول کے دعووں کو دہراتے ہوئے کہا کہ ایران کی جوہری صلاحیت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور اس نے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی طرف بڑھنے سے روک دیا ہے۔

کنفیوزڈ امریکی صدر کے حالیہ دعوے کے حوالے سے دو بنیادی نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے
اول یہ کہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کی مکمل تباہی کے حوالے سے ٹرمپ کے موقف کی ترتیب اور تکرار نے اس حملے کی ناکامی کے بارے میں پردے کے پیچھے  حقائق کو بے نقاب کردیا ہے۔ گویا اس مقام پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ پینٹاگون اور سینٹ کام کے حوالے سے شائع ہونے والی ابتدائی رپورٹس (جن میں ایران کے جوہری ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں واشنگٹن کی ناکامی کی تصدیق کی گئی ہے) کا سایہ ٹرمپ کے پریشان ذہن پر بدستور منڈلا رہا ہے۔

امریکی صدر نے "جنگ کی قیمت" ادا کی ہے اور ابھی ادا کریں گے لیکن وہ اس مساوات میں "فائدہ" حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ دوسری جانب نطنز اور فوردو جوہری تنصیبات پر حملے میں ٹرمپ کو ان کی بے شرمی اور مہنگی کارروائی پر اقتدار کی پس پردہ لابیوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس پس پردہ دباؤ کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ ٹرمپ ایران کے ایٹمی انفراسٹرکچر کو تباہ کرنے پر بار بار اصرار کررہا ہے۔

پاگل اور جنونی انداز میں بیان کو دہرانا عام طور پر خاص و  عام کی طرف سے اس کی عدم قبولیت کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک قاعدہ جو فوردو اور نطنز ایٹمی تنصیبات پر حملے کے نتائج کے بارے میں ٹرمپ کے دعوے پر بھی صادق آتا ہے۔ دوسرا نکتہ ٹرمپ کے الفاظ اور موقف میں "تعارف" اور "اختتام" کے درمیان عدم تناسب پر مرکوز ہے! اگر امریکی صدر ایران کی جوہری تنصیبات کی تباہی پر پختہ یقین رکھتے ہیں، تو انہیں ایران کے خلاف اپنے اگلے اقدامات کو بیان کرنے میں مشروط بیانات (اگر مگر) کا استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر ایران کا جوہری ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور اگر یہ سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوتی ہیں تو ایران کے ساتھ فوجی تصادم پر ٹرمپ کے بار بار زور دینے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی ہے۔ اس جملے کا بذات خود یہ مفہوم بنتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ابھی ایران کے جوہری پروگرام اور موجود تنصیبات کے بارے میں ابھی تک حتمی نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔

دریں اثنا، افزودہ یورینیم کے ذخائر (60% افزودگی پر مبنی) کا معمہ اب بھی اپنی جگہ قائم و  مضبوط ہے، اور امریکی-یورپی حکام کو ابھی تک اسے حل کرنے کی طاقت نہیں ملی ہے۔ یہ بنیاد اور نتیجہ وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں کے غصے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف حالیہ شکست کا منطقی نتیجہ ہے۔ یہ الجھن مستقبل میں ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے الجھے ہوئے پراگندہ ذہنوں پر سایہ فگن رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ری پبلک پالیسی سروے کے مطابق عمران سب سے مقبول لیڈر ہیں؛ مسرت جمشید چیمہ
  • قلم کے شہید
  • دشمن کی گیدڑ بھبکیوں سے ہمیں کوئی خوف نہیں، حزب اللہ لبنان
  • ٹرمپ کی کنفیوژن
  • کتاب سے دوری؛ کیا ہماری تہذیب کے خدوخال مٹ رہے ہیں؟
  • بارشوں، سیلاب سے نقصانات پر گہری تشویش، متاثرہ خاندانوں کیساتھ کھڑے ہیں، ناصر حسین
  • امریکا کے کہنے پر ہمیں غیر مسلح کیا تو لبنان تباہ ہوجائے گا؛ سربراہ حزب اللہ
  • پاکستان نام نہاد " گریٹراسرائیل " کے ایجنڈے کے حوالے سے اسرائیلی بیانات کی مذمت کرتا ہے اورانہیں مسترد کرتا ہے، ترجمان دفترخارجہ
  • پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟
  • یوم آزادی اور اس کے تقاضے