ورک فرام ہوم بلاشبہ ہمیں مسرت سے ہم کنار کرتا ہے، محققین
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں ورک فرام ہوم کا چلن موجود ہے اور اس حوالے سے کھٹے میٹھے تجزیے سامنے آتے رہتے ہیں۔ کووِڈ کے زمانے میں ورک فرام ہوم کا نظام بہت بڑے پیمانے پر متعارف کرایا گیا تھا۔ گھر سے کام کرنے کا چلن کووِڈ سے پہلے بھی تھا تاہم اِس کی بنیاد وسیع نہ تھی۔ کووِڈ میں لاک ڈاؤن نے آجروں کو پابند کیا کہ وہ ملازمین کو گھر بٹھاکر کام کرائیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو گھر بٹھاکر اُن سے کام لیا گیا۔
اب بھی دنیا بھر کے معاشرے ورک فرام ہوم کے چلن کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ہاں، اِس حوالے سے اختلافِ رائے بھی نمایاں ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں کسی کے لیے گھر سے کام کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ وہاں توانائی کا مسئلہ نہیں۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں میں توانائی کا بحران لوگوں کو پابند کرتا ہے وہ دفتر یا دیگر ورک پلیس میں جاکر کام کریں۔
آسٹریلیا کے محققین نے کئی سال تک ہزاروں افراد کے حالاتِ زندگی اور حالاتِ کار کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ گھر پر کام کرنے سے انسان خاصی آزادی اور سکون محسوس کرتا ہے اور یہ چلن مجموعی طور پر انسان کو زیادہ مسرت سے ہم کنار کرتا اور رکھتا ہے۔ گھر پر کام کرنے کی صورت میں انسان یومیہ بنیاد پر تکلیف دہ سفر سے بھی بچ جاتا ہے۔
بہت سے آجروں کو یہ شکایت ہے کہ گھر سے کام کرنے والے ملازمین کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں رہتی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں منیجرز یا انچارجز کا کردار بھی قابلِ تحقیق ہے۔ منیجرز کو گھر سے کام کرنے والوں سے کام لینے کی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں منیجرز اس حوالے سے تربیت حاصل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ گھر سے کام کرنے والے تھوڑی سی تحریک چاہتے ہیں اور یہ تحریک اُنہیں فیڈ بیک سے ملتی ہے۔ نگرانی کا نظام اُن کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے اور فیڈ بیک اُن کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: گھر سے کام کرنے ورک فرام ہوم کرتا ہے
پڑھیں:
پاکستان اسرائیل کوتسلیم نہیں کرتا، پاکستانیوں کی بازیابی کیلئے دوست ممالک سے رابطے میں ہیں، وزیراعظم
اسلام آباد:وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ فلسطین پر مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے، اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے اور گلوبل صمود فلوٹیلا سے حراست میں لیے گئے پاکستانیوں کی اسرائیل سے بازیابی کے لیے دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سے ٹیلی فونک گفتگو کی اور دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور فلسطین میں جنگ بندی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
وزیر اعظم نے فلسطین میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کے جاری قتل عام کی فوری روک تھام کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کا مسئلہ فلسطین پر مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے، پاکستان نے ہمیشہ دنیا کے ہر فورم پر اپنے نہتے فلسطینی بہن بھائیوں کی آواز اٹھائی ہے اور آئندہ بھی اٹھاتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کا مقدمہ اقوام عالم کے سامنے ہمیشہ زوردار طریقے سے لڑا ہے۔
گفتگو کے دوران وزیراعظم نے 1967سے قبل کی سرحدوں کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس الشریف کے بطور اس کے دارالخلافہ کے پاکستان کے مؤقف کو بھی دہرایا اور کہا کہ 8 اسلامی ممالک فلسطین میں جنگ بندی کے لیے اپنی فعال اور بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پر امید ہیں کہ بہت جلد یہ کوششیں رنگ لائیں گی اور امن کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کا دیرینہ خواب پورا ہوگا، گلوبل صمود فلوٹیلا سے اسرائیلی حراست میں موجود پاکستانیوں بالخصوص سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی وطن واپسی کے لیے حکومت اپنا فعال کردار ادا کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا نہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں، پاکستانی شہریوں کی بازیابی و بحفاظت وطن واپسی کے لیے دوست ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت جلد گلوبل صمود فلوٹیلا سے اسرائیلی حراست میں لیے گئے پاکستانیوں کو بحاظت وطن واپس لائیں گے۔
اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان کشمیر کی صورت حال پر بھی گفتگو ہوئی اور اس حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کشمیر میں امن کے حوالے سے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔
امیر جماعت اسلامی کی مشتاق احمد کی بازیابی کیلئے کوششیں تیز کرنے پر زور
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ٹیلیفونک رابطے کے دوران مشتاق احمد خان کی رہائی اور بازیابی کے لیے کوششیں تیز کرنے پر زور دیا، جس پر وزیراعظم نے کہا کہ اس سلسلے میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ذمہ داری لگا دی گئی ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے ٹوئٹ میں بتایا کہ یہ صرف جماعت اسلامی کا معاملہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کے حوالے سے اس کی اہمیت ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ اور گرفتاریاں انتہائی قابل مذمت ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ پروگرام پر قوم کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
حافظ نعیم الرحمان کا وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو صرف آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبے پر قائم رہنا چاہیے، کسی ایسے پلان کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جو بالآخر اسرائیل ہی کو طاقت فراہم کرے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آزاد کشمیر کی تشویش ناک صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ احتیاط کا برتاؤ کیا جائے اور حکومت ذمہ داری کےساتھ اس معاملے کا بات چیت کے ذریعے حل نکالے۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ ایسا کوئی بیانیہ جو صرف چند لوگ کے زیر اثر ہے اسے تمام کشمیریوں کا مؤقف نہ سمجھا جائے۔