data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میں: لگتا ہے آج تمہیں کوئی خط موصول ہوا ہے؟
وہ: ہاں موصول تو مجھے ہوا ہے مگر ہے پاکستان کے نام۔ کس نے بھیجا ہے کیوں بھیجا ہے اس بحث میں پڑے بغیر مِن وعن آج کی گفتگو میں شامل کرلینا زیادہ بہترہے۔
میرے پیارے پاکستان
السلام علیکم
امید ہے خیریت سے ہوگے۔ خدا تمہیں ہمیشہ شادو آباد رکھے۔ میری خیر خبر تو تمہیں روز ہی مل جاتی ہوگی، بس فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس خبر میں خیرکا کو ئی پہلو نہیں ہوتا، بقول شاعر
کسی گولی کی زد میں آگیا گر
نظر آجائوں گا تم کو خبر میں
اور میری یہ خبریں تو ساری دنیا تک ہی روزانہ پہنچ رہی ہیں۔ آج ۸۰ افراد جان سے گئے، کل ۵۵ افراد کو گولی مار دی گئی، پرسوں ۳۲ بے گناہ نذرِ اجل ہوگئے اور کل کے دن بھی یہ تعداد ۴۰، ۵۰ کے قریب ہی ہوگی۔ اب اس میں کتنی عورتیں، کتنے بچے اور کتنے جوان وبوڑھے تھے ان کی تفصیل بتاکر کیا حاصل ہوجائے گا۔ اور خط میں یہ سب بتانے کا مقصد تمہیں رنجیدہ کرنا ہے نہ ہی تمہارے ضمیر کو جھنجھوڑنا۔ ویسے بھی آج کل کون کس کو یاد رکھتا ہے اور اس تیز رفتار اور ٹیکنالوجی سے بھرپور زندگی میںکس کے پاس وقت ہے کہ اپنے کسی پیارے کو کوئی خط لکھے۔ کسی سیانے نے کبھی کہا تھا کہ خط آدھی ملاقات ہوتا ہے، شاید اسی لیے پڑھنے والے کو خط کے کاغذ پر لکھنے والا کا چہرہ نظر آتا ہے، مجھے نہیں پتا کہ یہ خط پڑھتے ہوئے تم میرا چہرہ بھی دیکھ پارہے ہو یا نہیں۔ اور اب تو میرے چہرے پر دیکھنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں ہے، برسوں سے منتظر پتھرائی آنکھیں، گولیوں سے چھلنی رخسار، سر پر بالوں کی جگہ بارود کی اُگتی فصل، کٹے ہوئے ہونٹوں پر اَدھ سِلے ٹانکے، مرہم کی جگہ پیپ سے بھرے زخم، پیشانی پر جگہ جگہ خون آلود پٹیاں، جن سے مسلسل بہتا ہوا خون میری سُرخ روئی کی دلیل بن رہا ہے۔ اور مشکل یہ ہے کہ حرف ِ جسم پر اعراب لگانے کے اس کھیل کو روکنے کے لیے کوئی سبیل نکالی جارہی ہے نہ کوئی دلیل کام آرہی ہے۔ بقول اعتبار ساجدؔ
جہاں خنجر سے حرفِ جسم پر اعراب لگتے ہوں
وہاں منطق، دلیلیں، فلسفے، افکار کیا کرتے
تم یقینا یہ سوچ رہے ہوگے کہ میں نے اپنے قریبی یار دوستوں کو چھوڑ کر تمہیں خط کیوں لکھا اور یہی بات میرے دل میں بھی آئی تھی میں یہ خط اپنے آس پڑوس والوں کے بجائے اتنی دور صرف تمہیں کیوں لکھ رہا ہوں؟ تو اس کی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ میرے پڑوسی اور بظاہر میرے اپنے اب صرف نام لینے کے لیے میرے اپنے ہیں۔ کیوں کہ مجھے مٹانے کی تیاری میں عالمی سامراج کے ساتھ یہ بھی حصہ دار بننے کی تیاری کررہے ہیں۔ اس وقت ابراہیمی معاہدے کی گونج چار طرف پھیلی ہوئی ہے اور میرے تمام بھائی بند اس معاہدے پر دستخط کرنے پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ اور اس معاہدے پر دستخط کا مقصد ناجائز اور ناپاک اسرائیلی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کرنا ہے۔ بقول ثاقب لکھنوی
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
تم نے ہمیشہ مجھ پر ہونے والے ہر ظلم پر ہر جگہ آواز بلند کی ہے، سفارتی حمایت کے ساتھ ساتھ اپنی بھرپور امداد سے میرے رستے زخموں پر مسلسل مرہم بھی رکھا ہے اس کے باوجود کہ تم نہ میرے پڑوسی ہو اور میرے وجود کا کوئی بھی حصہ تم سے جڑا ہوا نہیں ہے۔ لیکن ایک مسلمان کا مسلمان سے لاالہ الا للہ کی بنیاد پر محبت و اخوت اور بھائی چارے کا جو ازلی رشتہ ہے بس اسی امید پر تمہیں یہ چند سطور لکھ رہا ہوں کہ تم اس عالمی سازش کا شکار نہ ہونا، کیوں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا یہ معاہدہ ماضی کے بہت سارے پرفریب معاہدوں کی طرح سوائے دھوکے اور دغابازی کے اور کچھ نہیں۔ مجھ تک تو یہ بھی اطلاعات پہنچی ہیں کہ ٹرمپ منیر ملاقات میں اسی حوالے سے تفصیل سے بات چیت ہوئی ہے۔ جس میں پاکستان پر اس معاہدے پر دستخط کے لیے دبائو ڈالا گیا ہے۔
یقینا تمہارے لیے یہ بہت مشکل اور کٹھن ہوگا کہ تم عرب ممالک کی پیروی نہ کرتے ہوئے اس شیطانی معاہدے پر دستخط سے باز رہو، چند روپے کے تجارتی اور اقتصادی فائدے کی خاطر اس گھنائونی سازش کا شکار نہ ہو۔ میرے پیارے پاکستان تم میری پہلی محبت اور آخری امید ہو۔ پہلی محبت اس لیے کہ جب ۴۸ء میں اسرائیل کی ناجائز ریاست وجود میں آئی تھی تو تمہارے بانی قائداعظم نے سب سے پہلے مضبوط اور توانا موقف اختیار کیا تھا اور تم اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے اسی موقف پر آج تک اسی طرح ثابت قدم ہو۔ اور آخری امید اس لیے کہ میرے اپنے تو اس معاہدے پر دستخط کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں، شاید تم میری اس امید پر پورا اتر سکو۔ اور پھر دنیا کھلی آنکھوں سے وہ منظر بھی دیکھے جب ہم دونوں عالم ِ سرشاری میں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوکر دل کی باتیں کریں۔ بقول شاعر
کب سے آنکھیں ہیں یہ میری پرنم
سہہ رہا ہوں جو بے وفائی کا غم
میرے اپنے تو مطلبی نکلے
تم ہی رکھ لو جو محبت کا بھرم
تمہارے جواب کا منتظر
تمہارا فلسطین
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اس معاہدے پر دستخط میرے اپنے کے لیے
پڑھیں:
عمران خان کو اپنے وکیل سے صرف 95 سیکنڈز کیلئے ملاقات کی اجازت دیے جانے کا انکشاف
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 07 جولائی2025ء) عمران خان کو اپنے وکیل سے صرف 95 سیکنڈز کیلئے ملاقات کی اجازت دیے جانے کا انکشاف، علیمہ خان کے مطابق عمران خان کو کئی ہفتوں سے اپنی قانونی ٹیم سے مناسب ملاقات کا حق نہیں دیا جا رہا، منگل، یکم جولائی کو، ان کے وکیل ظہیر عباس کو صرف 95 سیکنڈز کے لیے مشورے کی اجازت دی گئی، یہ آئینی عمل کا کھلا مذاق ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان کا اہم پیغام سامنے آیا ہے۔ علیمہ خان نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ گزشتہ آٹھ ماہ سے، عمران خان کو اڈیالہ جیل میں مکمل قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے۔ عمران خان کو گزشتہ چھ ماہ سے اپنے بیٹوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، حالانکہ جیل کے قواعد کے مطابق ہر ہفتے کال کی اجازت ہوتی ہے۔(جاری ہے)
یہ مسلسل انکار نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ غیر قانونی بھی ہے۔ پچھلے ایک ماہ سے، جیل حکام نے عمران خان کو ہماری جمع کروائی کتب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ اُنہیں فکری اور روحانی طور پر تنہا کرنے کی ایک واضح کوشش ہے۔ گزشتہ آٹھ ماہ سے، پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے، عمران خان کو اپنے پارٹی اراکین سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہیں سیاسی مشاورت اور قیادت کا آئینی حق چھینا جا رہا ہے۔ عمران خان کو کئی ہفتوں سے اپنی قانونی ٹیم سے مناسب ملاقات کا حق نہیں دیا جا رہا۔ منگل، یکم جولائی کو، ان کے وکیل ظہیر عباس کو صرف 95 سیکنڈز کے لیے مشورے کی اجازت دی گئی، یہ آئینی عمل کا کھلا مذاق ہے۔ ہماری فیملی کو بھی کئی ماہ سے عمران خان سے ملاقات سے روکا جا رہا ہے۔ پچھلے تین ماہ سے، میری بہنیں اور میں اڈیالہ پہنچتے ہیں لیکن پنجاب پولیس ہمیں جیل سے کئی کلومیٹر پہلے ہی روک لیتی ہے۔ ہمارے ساتھ رضاکار بھی کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم 1.5 کلومیٹر پیدل چل کر اگلے ناکے تک جاتے ہیں۔ گھنٹوں انتظار کے بعد صرف ڈاکٹر عظمٰی خان اور نُورین نیازی کو اپنے بھائی سے مختصر ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے۔ جو ملاقات پہلے آدھے گھنٹے کی ہوتی تھی، اب گزشتہ چار منگلوں سے صرف 15 منٹ تک محدود کر دی گئی ہے۔ عمران خان کے ذاتی معالجین (ڈاکٹر فیصل سلطان اور ڈاکٹر عاصم یوسف) کو گزشتہ دس ماہ سے اُن کا طبی معائنہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مسلسل طبی سہولیات سے محروم رکھ کر اُن کی صحت کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ غیر انسانی تنہائی مریم نواز کے احکامات پر نافذ کی جا رہی ہے، نہ کہ اڈیالہ کو کنٹرول کرنے والے کرنل کی ہدایت پر۔ یہ جیل پنجاب میں واقع ہے، جہاں صرف 17 نشستوں والی ن لیگی حکومت اتنی خوفزدہ ہے کہ عمران خان تک ہر قسم کی رسائی بند کر دی گئی ہے۔ اُنہیں ڈر ہے کہ کوئی بھی اطلاع اندر جائے یا باہر نکلے۔ انشاءاللہ، ہم عمران خان کا مکمل پیغام قوم تک پہنچاتے رہیں گے، جب تک وہ اس غیر قانونی قید سے آزاد ہو کر ایک بار پھر اپنی قوم کی قیادت نہیں کرتے۔ دوسری جانب عمران کے صاحبزادے قاسم خان کا بھی اہم پیغام سامنے آیا ہے۔ اپنے پیغام میں قاسم خان کا کہنا ہے کہ "میرے والد، سابق وزیرِ اعظم عمران خان، اب جیل میں 700 دن سے زیادہ قید کاٹ چکے ہیں۔ اُنہیں اپنے وکلا تک رسائی نہیں دی جا رہی، اہلِ خانہ سے ملاقات کی اجازت نہیں، ہم بچوں سے مکمل طور پر کٹ چکے ہیں، اور ذاتی معالج تک کو ملاقات سے روکا جا رہا ہے۔ یہ انصاف نہیں، بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے کہ ایک ایسے شخص کو تنہا کیا جائے اور توڑا جائے جس نے ہمیشہ قانون کی حکمرانی، جمہوریت، اور پاکستان کے لیے آواز بلند کی۔"