Express News:
2025-11-03@10:52:42 GMT

حکومت کیوں نہیں ماؤں جیسی

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

36 ارب روپے کے مجوزہ منی بجٹ میں مرغی کے ایک دن کے چوزے پر دس روپے ڈیوٹی لگانے کی تجویز بھی دی گئی جب کہ حالیہ بجٹ میں 462 ارب روپے کے حکومت نے جو نئے ٹیکس لگائے ہیں ان کی وصولی کو ممکن بنایا جاسکے۔ میاں شہباز شریف کی مسلم لیگی حکومت کے قیام کے بعد یہ چوتھا بجٹ ہے۔

اپریل 2022 میں پی ٹی آئی حکومت میں ان کے تین وزرائے خزانہ نے جو بجٹ پیش کیے تھے ان پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور حکومت مخالف پارٹیاں تنقید کیا کرتی تھیں جس کے بعد مفتاح اسمٰعیل نے بھی بجٹ پیش کیا تھا ،پھر  اسحاق ڈار بڑے دعوؤں سے آ کر وزیر خزانہ بنے اور عوام پر مزید ٹیکس بڑھا کر اور آئی ایم ایف کو ناراض کرکے چلتے بنے ، نگران حکومت نے انھی کے بجٹ پر عمل کیا تھا۔

موجودہ وزیر خزانہ بڑی توقعات سے لائے گئے ہیں جن کا یہ دوسرا بجٹ ہے لیکن انھیں بھی عوام سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ، وزیروں اور ججز کے بعد نئے بجٹ میں پارلیمنٹ کے چار عہدیدار یاد آئے کہ ان بے چاروں کی تو دس سال سے تنخواہیں اور مراعات ہی نہیں بڑھیں اور ان چاروں کا تعلق صدر مملکت اور وزیر اعظم کی پارٹی سے ہے اس لیے 78 سالوں سے نظرانداز رکھے گئے ملک کے عوام کے بجائے پارلیمنٹ کے ان چاروں اہم عہدیداروں کی تنخواہیں یکدم کئی گنا بڑھا دیں اور ان چاروں نے بھی حکومت کی اس فیاضی کو قبول کر لیا۔

وزیراعظم میاں شہباز شریف ملک کے لیے قرضے اور امداد کے لیے دنیا کے دورے کرتے ہیں، ملکی معیشت کی بدتر حالت کے باوجود وفاقی حکومت  نے اپنی سخاوت کا ریکارڈ قائم کردیا اور حکومت نے ثابت کر دیا کہ اسے عام عوام کا نہیں خاص لوگوں کا ہی خیال رہتا ہے اور غریب عوام کو کوئی نہیں پوچھتا، کیونکہ ملک ان بڑوں نے چلانا اور عوام کے ٹیکسوں سے عوام پر حکومت کرنی ہے اور ہر حکومت سوتیلی ماؤں جیسی ہوتی ہے حقیقی ماؤں جیسی نہیں۔

دنیا بھر میں حکومتیں عوام کے ٹیکسوں سے چلتی ہیں اور سرکاری اخراجات کے بعد جو رقم بچتی ہے وہ عوام کی تعلیم و صحت، فلاح و بہبود اور ملک میں ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ میں مختص کی جاتی ہے اور سرکاری اخراجات غیر ترقیاتی کہلاتے ہیں مگر پاکستان میں ہوتا یہ رہا ہے کہ ہر بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات مسلسل بڑھائے جاتے ہیں اور ترقیاتی اخراجات کم ہوتے جا رہے ہیں جو اب کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔

 ہر حکومت میں عوام کی سہولیات و فلاح و بہبود کے نام پر ٹیکس بڑھائے جاتے ہیں اور ٹیکس پر ٹیکس لگا کر بھی حکومتی اخراجات ہی بہ مشکل پورے ہوتے ہیں اور ترقیاتی فنڈز کم ہوتے جاتے ہیں اور جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے وہ پورے ملک کے بجائے اپنے ووٹ بینک والیعلاقوں کو زیادہ فنڈز اور اہمیت دیتی ہے جس کے بعد ملک اب تین پارٹیوں میں 2007 کے بعد سے واضح طور پر تقسیم نظر آتا ہے جب کہ جنرل پرویز کے دور میں ایسا نہیں تھا اور تمام صوبوں کا برابر خیال رکھا جاتا تھا جس کے بعد سندھ پیپلز پارٹی، پنجاب مسلم لیگ (ن) اور کے پی کے پی ٹی آئی کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور 2008 کے الیکشن میں 2 صوبوں میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی کی جب کہ کے پی میں مخلوط حکومت بنی تھی۔

 پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی سب سے زیادہ عرصہ تک حکومت چلی آ رہی ہے۔ سندھ میں چوتھی حکومت پی پی اور کے پی میں تیسری حکومت پی ٹی آئی کی مسلسل چلی آ رہی ہے مگرترقیاتی کاموں کے حوالے سے دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ واضح تبدیلی صرف پنجاب میں ہی نظر آتی ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا سترہواں سال اور چوتھی حکومت ہے جہاں عوام کی حالت میں کوئی معنی خیز تبدیلی نہیں آئی ہے مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ حکومت میں شامل لوگ مالی اعتبار سے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔

سندھ میں پی پی اپنی چوتھی حکومت کو پی پی کی عوام میں مقبولیت قرار دیتی ہے تو سندھ حکومت کو عوام کے لیے اچھی ماں ثابت ہونا چاہیے اور سندھ میں خوشحالی اور ترقی کا ریکارڈ قائم ہونا چاہیے تھا مگر ریکارڈ پنجاب میں مریم نواز کی پہلی سوا سال کی حکومت قائم کر رہی ہے جہاں خاتون وزیر اعلیٰ ہیں مگر کسی حد تک ان کی پہلی حکومت ماؤں جیسا کردار ادا کر رہی ہے اور وہاں جنوبی پنجاب کو بھی اہمیت دی جا رہی ہے جہاں زیادہ عوامی نمایندگی پیپلز پارٹی کی ہے مگر لاہور میں بیٹھی وزیر اعلیٰ جنوبی پنجاب کو بھی اہمیت دینے پر مجبور ہیں اور وہاں بھی بہتری جاری ہے۔ہونا بھی یہی چاہیے۔

سندھ کا وزیر اعلیٰ کراچی میں رہتا ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں ہے۔ حالانکہ ضلع جامشورو سے منتخب ہوئے ہیں اور ان کی ترجیح بھی سندھ کے دیہی علاقے ہیں ۔کراچی میں بھی پیپلزپارٹی کی بلدیاتی حکومت بڑے عرصے کے بعد قائم ہوئی ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ شہری سندھ اور دیہی سندھ دونوں جگہ مسائل میں کمی آنے کی رفتار زیادہ تیز نہیں ہے۔ سندھ حکومت ترقی و خوشحالی کے دعوے بہت کرتی ہے۔ لیکن یہ دعوے سو فیصد درست نہیں ہیں۔ کراچی والے مسلسل شکوہ کناں ہیںکیونکہ ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔کراچی اور حیدر آباد شہر کو بڑے عرصے سے نظرانداز کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ دونوں شہر سندھ کی شان ہیں۔اگر یہ شہر ترقی یافتہ ہوں گے تو پورا سندھ ترقی یافتہ ہو جائے گا۔

 کے پی حکومت کی ترجیحات میں عوام کی بھلائی شامل نہیں جہاں کا وزیر اعلیٰ صرف اپنی حکومت برقرار رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ بلوچستان کے عوام کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا سلوک ماؤں جیسا نہیں بلکہ ان کی ترجیح غریب عوام کے بجائے سرداروں کو نوازنا ہے اور ہر علاقے کا سردار عوام کو کبھی اہمیت نہیں دیتا جہاں ماں ہے نہیں سردار ہی باپ ہوتا ہے۔ وفاق میں کسی پارٹی کی حکومت ملک کے عوام کو ماں جیسی اہمیت نہیں دی صرف دعوے کیے اور سلوک سوتیلی ماؤں سے بھی بدتر کیا جس نے غریب عوام کو صرف لوریاں دیں سہانے خواب دکھائے اور ہر بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان کی جھکی ہوئی کمر پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی وزیر اعلی کی حکومت کے بجائے مسلم لیگ پارٹی کی عوام کے عوام کی عوام کو ہیں اور کے بعد ملک کے ہے اور رہی ہے

پڑھیں:

نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟

ڈاکٹر سلیم خان

بھاگوت اور مودی کی درمیان تعلقات اس قدر خراب ہیں کہ وزیر اعظم نے آر ایس ایس کی تعریف کردی سالگرہ پر مضمون لکھ دیا اس کے باوجود سرسنگھ چالک نے مودی کے جنم دن پرمبارکباد کا دو سطری پیغام تک نہیں لکھا ایسے میں کس منہ سے یہ پروچن کیا جارہا ہے ؟ بھاگوت کا اعتراف درست ہے کہ سیاست لوگوں کو متحد نہیں کر سکتی اور نہ انہیں متحد کرنے کاآلہ ٔکار بن سکتی ہے بلکہ وہ اتحاد کو بگاڑنے کا ہتھیار ہے ۔ یہ بات اس ہندوتوا کی سیاست پر ہو بہو صادق آتی ہے جس کی کمان بھاگوت اور مودی کے ہاتھ میں ہے ۔بھاگوت جی نے جب یہ انکشاف کیا کہ ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں یہاں ہندو یا مسلمانوں کا غلبہ نہیں ہوسکتا ،صرف اور صرف ہندستانیوں کا ہی غلبہ ہوسکتا ہے تو یہ سن کر سنگھ پریوار کی شاکھا میں تربیت پانے والوں کو حیرت کا جھٹکا لگا ہوگا ۔ گرو گولوالگر اور روحانی پیشوا ساورکر کی آتما کو تکلیف پہنچانے کے لیے موہن بھاگوت نے یہ بھی کہہ دیا کہ ‘ اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں نہیں رہنا چاہیے تو وہ ہندو نہیں’کیونکہ ساورکر نے تو شیواجی کے ہندو نواب کی بہو کے ساتھ حسنِ سلوک پربھی اعتراض کیا تھا ۔خطاب کے بعد سوال و جواب کے دوران بھاگوت نے یہ انکشاف کردیا کہ:”ہندو اور مسلمان ایک ہیں… اس لیے ان کے درمیان اتحاد کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا؛ صرف ان کی عبادت کا طریقہ بدل گیا ہے۔ ہم پہلے ہی ایک ہیں۔ اتحاد کس بات کا کرنا ؟ کیا بدلا ہے ؟ صرف عبادت کا طریقہ بدلا ہے ؛ کیا یہ واقعی کوئی فرق پیدا کرتا ہے ”؟
بھاگوت جی نہیں جانتے کہ عبادت اور اس کے طور طریقہ پر عقائد کو سبقت حاصل ہوتی ہے اور جب وہ بدل جاتا ہے تو انسان کی زندگی کا نصب العین اور مقصد حیات تک ساری چیزیں بدل جاتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ” اسلام زمانہ قدیم سے ہندوستان میں ہے اور آج تک قائم ہے ، اور مستقبل میں بھی قائم رہے گا۔یہ خیال کہ اسلام باقی نہیں رہے گا، ہندو سوچ نہیں ہے ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے ”۔ بھاگوت ایک طرف تو سارے مسلمانوں کو ہندو کہتے ہیں اور پھر اسلام کے باقی رہنے کی پیشنگوئی بھی فرماتے ہیں ۔ اس تضاد بیانی پر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
بھاگوت مسلم ناموں والی سڑکوں اور شہروں کے نام تبدیل کرنے کے خلاف ہیں لیکن یوگی تو دور ان کی گود میں پلے بڑھے اور سنگھ کی شاکھا سے نکلے ہوئے فڈنویس تک ان کی سن کر نہیں دیتے تو کوئی غیر کیوں مانے ؟ آر ایس ایس کے سربراہ نے فرمایا کہ ان کااصرار اس بات پر ہے کہ سڑکوں یا شہروں کے نام جابر حملہ آوروں کے نام پر نہ رکھے جائیں تو کیا سارے ہندو راجہ مہاراجہ انصاف پسند تھے ۔ انہوں نے ایک دوسرے پر اور اپنی رعایہ پر ظلم نہیں کیا۔ بھاگوت جی کیا ایسے پیشواوں کے نام پر شہروں اور سڑکوں کو رکھنے کی مخالفت کریں گے جنھوں شودروں پر فرعون اور ہٹلر سے زیادہ مظالم کیے ۔ وہ بولے اے پی جے عبدالکلام، عبدالحمید کے نام ہونے چاہئیں لیکن سوال یہ ہے کہ گجرات میں لاشوں کے سوداگر نریندر مودی کو احمد آباد میں ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم کا نام بدل کر اپنا نام رکھنے کی اجازت کس نے دی اور کم از کم بھاگوت نے علی الاعلان اس کی مخالفت کیوں نہیں کی ؟ دوسروں کو نصیحت کرنے سے قبل بھاگوت جی کو اپنے اور پریوار کے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے ۔
آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ مسلم قیادت کو بنیاد پرستی کے خلاف بات کرنے کی ضرورت ہے ،اس کام کے لیے طویل المدتی کوششوں اور صبر کی ضرورت ہو گی۔ یہ ہم سب کے لیے ایک طویل اور سخت امتحان بھی ہو گا۔ جتنی جلدی ہم شروع کریں گے ، ہمارے معاشرے کو اتنا ہی کم نقصان پہنچے گا”۔ یہ صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے کیونکہ بنیاد پرستی کی خاطر منافرت کو سنگھ پریوار فروغ دے رہا ہے اور یہ مرض اس قدر بڑھ گیا ہے کہ خود بھاگوت کو یہ کہنا پڑ جاتا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے شیولنگ ڈھونڈنا ضروری نہیں ہے مگر یوگی تک ان کی نصیحت پر کان نہیں دھرنے کے بجائے سنبھل کی مسجد کا تنازع کھڑا کرکے اپنی سیاست چمکاتے ہیں ۔ بھاگوت کے کنفیوژن کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ کاشی اور متھرا تنازع میں سنگھ ملوث نہیں ہوگا مگر پھر مسلمانوں کو یہ دونوں عباتگاہیں ہندووں کے حوالے کردینے کا مشورہ بھی دے دیتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا انہوں نے مسلم سماج کو بھی اپنی طرح بیوقوف سمجھ رکھا ہے ؟
دن رات ہندو راشٹر کے قیام کی مالا جپنے والے سنگھ پریوار کا سر براہ جب کہتا ہے کہ ”ہمیں بھارتی غلبے کے حوالے سے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کے غلبے کے بارے میں نہیں”۔ جب وہ فرماتے ہیں کہ” مسلم برادری کے سمجھدار رہنماؤں کو انتہا پسندی کی مخالفت کرنی چاہیے ” تو بیک وقت ہنسی اور رونا دونوں آتا ہے ۔ موہن بھاگوت کا یہ الزام بے بنیاد ہے کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ آیا۔ سچ تو یہ ہے ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں نے نہیں بلکہ صوفیاء کرام کی سعیٔ جمیل سے پھیلا۔ مسلم حکمرانوں کی آمد سے بہت پہلے ملک کی جنوبی ریاست کیرالا میں پہلی مسجد تعمیر ہوگئی تھی جبکہ وہاں مسلم حکمرانوں نے کوئی حملہ نہیں کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندووں پر عقیدے کے معاملے کوئی زور زبردستی نہیں کی ۔ ہندو راجاوں اور مسلم بادشاہوں کے درمیان سیاسی جنگوں کو مذہبی رنگ دینے کا کام ہندوتوا نوازوں نے کیا ہے ۔ سر سنگھ چالک سمیت وزیر اعظم واسودھیو کٹمبکم یعنی ساری دنیا ایک کنبہ ہے کی بات تو بہت کرتے ہیں مگر دراندازی یعنی گھس پیٹھیا کی سیاست اور این آر سی کے ذریعہ اپنے ہی ملک کے باشندوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
موہن بھاگوت نے ویسے تو طبِ حیوانی کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی ہے مگر کبھی کبھار وہ بڑی دانشورانہ باتیں کرنے لگتے ہیں مثلاًانہوں نے ہندوستان کی فطرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یہاں کا مزاج جدوجہد یا ٹکراؤ کا نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا ہے ۔ہندوستان کی اکائی زمین، وسائل اور معرفتِ ذات کی وجہ سے ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ماتا اور ہمارے بزرگوں کے تئیں عقیدت ہی سچے ہندو کی پہچان ہے ۔ان بلند بانگ دعووں کا معروضی جائزہ لینا ضروری ہے ۔ ہندوستان میں جنم لینے والے بودھ مت کا دیش نکالا کس نے کیا ؟ اس معاملے کو افہام تفہیم کے ذریعہ سلجھانے کے بجائے بودھوں کو نسل کشی سے ڈراکر ملک بدری کے لیے کیوں مجبور کیا گیا؟ آج کے دور میں علی
الاعلان نسل کشی کی ترغیب کون دے رہا ہے ؟ کیا نیپال میں چند سال قبل اقتدار کی خاطر اپنے خاندان کو موت کے گھاٹ اتارنے والا ولیعہد ہندو نہیں تھا ۔ اس وقت تو وہ دنیا کی واحد ہندو ریاست تھی؟ ا بھی حال میں نیپال کے سابق وزیر اعظم کی بیوی کو زندہ جلا دینے والے کون تھے ؟ اس سے قبل بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی اقتدار تبدیل ہوا مگر ایسی سفاکی کا مظاہرہ کہیں نہیں ہوا۔ لداخ میں اپنے ہی نوجوانوں پر گولی چلانے کا حکم دینے والے ہندو ہے یا نہیں؟
آر ایس ایس کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے عصرِ حاضر میں اپنی تنظیم کی غرض و غایت اس طرح بیان کی کہ سنگھ کی حقیقی معنویت تبھی ہے ، جب بھارت وشوگرو (عالمی رہنما) بنے ۔ عالمی قیادت کے تناظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے ۔ وہ بغیر چیلوں کے وشو گرو دکھائی دیتے ہیں ۔ عالمی سیاست کی بساط چین اور امریکہ مودی جی سے کھیل ر ہے ہیں ۔ ٹرمپ ایک دن ڈانٹتے ہیں تو دوسرے دن دوست کو گنوانے پر افسوس کا اظہار کرکے امید جگاتے ہیں ۔ تیسرے دن تعریف کرکے پچکارتے ہیں اور چوتھے دن اپنے وزیر خزانہ نے مزید ٹیرف کے بڑھانے کی دھمکی دے دیتے ہیں۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شریر بچے کو پہلے ڈانٹا جائے اور وہ منہ بسور کر بیٹھ جائے تو لالی پاپ پکڑا کر خوش کردیا جائے ۔وہ اسے لے کر اچھلنے کودنے لگے اور پھر سے شرارت کا خطرہ لاحق ہوجائے تو دوبارہ ڈانٹ ڈپٹ دیا جائے ۔ امریکہ یہی کررہا ہے اور اسی لیے وزیر اعظم نے اس بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے بذاتِ خود امریکہ جانے کے بجائے وزیر خارجہ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ حل نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کو پنڈت نہرو نے غیر جانبدار ممالک کا عالمی رہنما بنایا تھا مودی جی جیسے نام نہاد وشوگرو نے اس مقامِ بلند سے بھی ہندوستان کو محروم کردیا ہے ۔ اس انحطاط میں آر ایس ایس کا بھی حصہ ہے کیونکہ وزیر اعظم ملک کے نہیں بلکہ سنگھ کے سیوک( خادم ) ہیں۔کاش کے یہ بات موہن بھاگوت کی سمجھ میں آجائے کہ ملک کو وشو گرو بنانا کم از کم مودی جی کے بس کا روگ نہیں ہے ۔موہن بھاگوت نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک سپر پاور ہے اور وہ کسی کی بھی پروا نہیں کرے گا لیکن سوال یہ کہ کون ہماری پروا کرتا ہے ۔ چین، امریکہ، روس اور سعودی عرب سبھی تو پاکستان کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔ بھاگوت اپنے آپ کو بہلانے کے لیے کہتے ہیں لوگ ہماری ترقی سے حسد کرتے ہیں حالانکہ ‘دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • عوام پر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے: حافظ نعیم سندھ حکومت کے ای چالان سسٹم کے خلاف بول پڑے
  • شاہ رخ خان کی سالگرہ: 60 کی عمر میں بھی جین زی کے پسندیدہ ’لَور بوائے‘ کیوں ہیں؟
  • نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘پی ٹی آئی
  • پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
  • ڈیم ڈیم ڈیماکریسی (پہلا حصہ)
  • سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے
  • سندھ حکومت کراچی کی عوام سے زیادتیاں بند کرے، بلال سلیم قادری
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کا اعلان اسلام آباد سے نہیں، کشمیر سے ہوگا، بلاول