Express News:
2025-07-11@04:36:27 GMT

حکومت کیوں نہیں ماؤں جیسی

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

36 ارب روپے کے مجوزہ منی بجٹ میں مرغی کے ایک دن کے چوزے پر دس روپے ڈیوٹی لگانے کی تجویز بھی دی گئی جب کہ حالیہ بجٹ میں 462 ارب روپے کے حکومت نے جو نئے ٹیکس لگائے ہیں ان کی وصولی کو ممکن بنایا جاسکے۔ میاں شہباز شریف کی مسلم لیگی حکومت کے قیام کے بعد یہ چوتھا بجٹ ہے۔

اپریل 2022 میں پی ٹی آئی حکومت میں ان کے تین وزرائے خزانہ نے جو بجٹ پیش کیے تھے ان پر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور حکومت مخالف پارٹیاں تنقید کیا کرتی تھیں جس کے بعد مفتاح اسمٰعیل نے بھی بجٹ پیش کیا تھا ،پھر  اسحاق ڈار بڑے دعوؤں سے آ کر وزیر خزانہ بنے اور عوام پر مزید ٹیکس بڑھا کر اور آئی ایم ایف کو ناراض کرکے چلتے بنے ، نگران حکومت نے انھی کے بجٹ پر عمل کیا تھا۔

موجودہ وزیر خزانہ بڑی توقعات سے لائے گئے ہیں جن کا یہ دوسرا بجٹ ہے لیکن انھیں بھی عوام سے زیادہ ارکان پارلیمنٹ، وزیروں اور ججز کے بعد نئے بجٹ میں پارلیمنٹ کے چار عہدیدار یاد آئے کہ ان بے چاروں کی تو دس سال سے تنخواہیں اور مراعات ہی نہیں بڑھیں اور ان چاروں کا تعلق صدر مملکت اور وزیر اعظم کی پارٹی سے ہے اس لیے 78 سالوں سے نظرانداز رکھے گئے ملک کے عوام کے بجائے پارلیمنٹ کے ان چاروں اہم عہدیداروں کی تنخواہیں یکدم کئی گنا بڑھا دیں اور ان چاروں نے بھی حکومت کی اس فیاضی کو قبول کر لیا۔

وزیراعظم میاں شہباز شریف ملک کے لیے قرضے اور امداد کے لیے دنیا کے دورے کرتے ہیں، ملکی معیشت کی بدتر حالت کے باوجود وفاقی حکومت  نے اپنی سخاوت کا ریکارڈ قائم کردیا اور حکومت نے ثابت کر دیا کہ اسے عام عوام کا نہیں خاص لوگوں کا ہی خیال رہتا ہے اور غریب عوام کو کوئی نہیں پوچھتا، کیونکہ ملک ان بڑوں نے چلانا اور عوام کے ٹیکسوں سے عوام پر حکومت کرنی ہے اور ہر حکومت سوتیلی ماؤں جیسی ہوتی ہے حقیقی ماؤں جیسی نہیں۔

دنیا بھر میں حکومتیں عوام کے ٹیکسوں سے چلتی ہیں اور سرکاری اخراجات کے بعد جو رقم بچتی ہے وہ عوام کی تعلیم و صحت، فلاح و بہبود اور ملک میں ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ میں مختص کی جاتی ہے اور سرکاری اخراجات غیر ترقیاتی کہلاتے ہیں مگر پاکستان میں ہوتا یہ رہا ہے کہ ہر بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات مسلسل بڑھائے جاتے ہیں اور ترقیاتی اخراجات کم ہوتے جا رہے ہیں جو اب کم ہو کر نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔

 ہر حکومت میں عوام کی سہولیات و فلاح و بہبود کے نام پر ٹیکس بڑھائے جاتے ہیں اور ٹیکس پر ٹیکس لگا کر بھی حکومتی اخراجات ہی بہ مشکل پورے ہوتے ہیں اور ترقیاتی فنڈز کم ہوتے جاتے ہیں اور جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے وہ پورے ملک کے بجائے اپنے ووٹ بینک والیعلاقوں کو زیادہ فنڈز اور اہمیت دیتی ہے جس کے بعد ملک اب تین پارٹیوں میں 2007 کے بعد سے واضح طور پر تقسیم نظر آتا ہے جب کہ جنرل پرویز کے دور میں ایسا نہیں تھا اور تمام صوبوں کا برابر خیال رکھا جاتا تھا جس کے بعد سندھ پیپلز پارٹی، پنجاب مسلم لیگ (ن) اور کے پی کے پی ٹی آئی کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور 2008 کے الیکشن میں 2 صوبوں میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی کی جب کہ کے پی میں مخلوط حکومت بنی تھی۔

 پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی سب سے زیادہ عرصہ تک حکومت چلی آ رہی ہے۔ سندھ میں چوتھی حکومت پی پی اور کے پی میں تیسری حکومت پی ٹی آئی کی مسلسل چلی آ رہی ہے مگرترقیاتی کاموں کے حوالے سے دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ واضح تبدیلی صرف پنجاب میں ہی نظر آتی ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا سترہواں سال اور چوتھی حکومت ہے جہاں عوام کی حالت میں کوئی معنی خیز تبدیلی نہیں آئی ہے مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ حکومت میں شامل لوگ مالی اعتبار سے کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہیں۔

سندھ میں پی پی اپنی چوتھی حکومت کو پی پی کی عوام میں مقبولیت قرار دیتی ہے تو سندھ حکومت کو عوام کے لیے اچھی ماں ثابت ہونا چاہیے اور سندھ میں خوشحالی اور ترقی کا ریکارڈ قائم ہونا چاہیے تھا مگر ریکارڈ پنجاب میں مریم نواز کی پہلی سوا سال کی حکومت قائم کر رہی ہے جہاں خاتون وزیر اعلیٰ ہیں مگر کسی حد تک ان کی پہلی حکومت ماؤں جیسا کردار ادا کر رہی ہے اور وہاں جنوبی پنجاب کو بھی اہمیت دی جا رہی ہے جہاں زیادہ عوامی نمایندگی پیپلز پارٹی کی ہے مگر لاہور میں بیٹھی وزیر اعلیٰ جنوبی پنجاب کو بھی اہمیت دینے پر مجبور ہیں اور وہاں بھی بہتری جاری ہے۔ہونا بھی یہی چاہیے۔

سندھ کا وزیر اعلیٰ کراچی میں رہتا ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کراچی میں ہے۔ حالانکہ ضلع جامشورو سے منتخب ہوئے ہیں اور ان کی ترجیح بھی سندھ کے دیہی علاقے ہیں ۔کراچی میں بھی پیپلزپارٹی کی بلدیاتی حکومت بڑے عرصے کے بعد قائم ہوئی ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ شہری سندھ اور دیہی سندھ دونوں جگہ مسائل میں کمی آنے کی رفتار زیادہ تیز نہیں ہے۔ سندھ حکومت ترقی و خوشحالی کے دعوے بہت کرتی ہے۔ لیکن یہ دعوے سو فیصد درست نہیں ہیں۔ کراچی والے مسلسل شکوہ کناں ہیںکیونکہ ان کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔کراچی اور حیدر آباد شہر کو بڑے عرصے سے نظرانداز کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ دونوں شہر سندھ کی شان ہیں۔اگر یہ شہر ترقی یافتہ ہوں گے تو پورا سندھ ترقی یافتہ ہو جائے گا۔

 کے پی حکومت کی ترجیحات میں عوام کی بھلائی شامل نہیں جہاں کا وزیر اعلیٰ صرف اپنی حکومت برقرار رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔ بلوچستان کے عوام کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا سلوک ماؤں جیسا نہیں بلکہ ان کی ترجیح غریب عوام کے بجائے سرداروں کو نوازنا ہے اور ہر علاقے کا سردار عوام کو کبھی اہمیت نہیں دیتا جہاں ماں ہے نہیں سردار ہی باپ ہوتا ہے۔ وفاق میں کسی پارٹی کی حکومت ملک کے عوام کو ماں جیسی اہمیت نہیں دی صرف دعوے کیے اور سلوک سوتیلی ماؤں سے بھی بدتر کیا جس نے غریب عوام کو صرف لوریاں دیں سہانے خواب دکھائے اور ہر بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان کی جھکی ہوئی کمر پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھایا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی وزیر اعلی کی حکومت کے بجائے مسلم لیگ پارٹی کی عوام کے عوام کی عوام کو ہیں اور کے بعد ملک کے ہے اور رہی ہے

پڑھیں:

لیاری حادثہ: لواحقین کو 80 گز پلاٹ، راشن فراہم کرنے کا اعلان

—فائل فوٹو

 گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے لیاری حادثے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کو 80، 80 گز کا پلاٹ اور بے گھر خاندان کو گورنر ہاؤس سے راشن فراہم کرنے کا اعلان کر دیا۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں گورنر سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت نے گزشتہ 20 سال میں کسی رہائشی منصوبے میں ترقیاتی کام مکمل نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری رہائشی اسکیموں میں تاخیر کی وجہ سے شہری پورشن لینے پر مجبور ہوتے ہیں، اسکیم 42 تیسر ٹاؤن میں بیس سال سے ترقیاتی کام نہیں ہوئے۔

کراچی: 51 مخدوش عمارتوں میں سے 11 خالی کروالی گئیں

وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے ممکن نہیں کہ مخدوش عمارتوں کے تمام مکینوں کو رہائش فراہم کرے، کچھ خاندانوں کو عارضی رہائش دے سکتے ہیں۔

کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ ڈی جی ایس بی سی اے کو برطرف کیا گیا ہے، چہرے بدلنے سے نظام ٹھیک نہیں ہو گا، ایس بی سی اے کا سسٹم تبدیل کریں۔

گورنر سندھ نے کہا کہ لیاری کے عوام کو مایوس نہیں کروں گا، ایوان میں آواز اٹھاؤں گا، عمارت گرنے کے واقعے پر وزیر اعلیٰ سندھ کا کمیٹی بنانا خوش آئند ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ حکومت 6 مہینے کا کرایہ اور اس ہی علاقے میں متاثرین کو گھر لے کر دے، جو خاندان بے گھر ہوئے ہیں، انہیں راشن فراہم کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت لانڈھی ٹاؤن کوفنڈز نہیں دے رہی‘ عبدالجمیل خان
  • عوام دشمن فیصلے
  • سندھ حکومت کانمبر پلیٹس کے نام پراہل کراچی سے 6 ارب بٹورنے کا منصوبہ،عوام میں اشتعال
  • سندھ حکومت کے ماتحت ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں، منعم ظفر خان
  • لیاری میں عمارت گرنے کا واقعہ سندھ حکومت کی نااہلی ہے: منعم ظفر
  • پاکستانی سیاست اور مہنگائی
  • گورنر سندھ کا لیاری لواحقین کو پلاٹ اور راشن فراہم کرنے کا اعلان
  • کراچی کا ماسٹر پلان سندھ حکومت کی ترجیح نہیں: آباد چیئرمین
  • لیاری حادثہ: لواحقین کو 80 گز پلاٹ، راشن فراہم کرنے کا اعلان