گورنر سندھ کا لیاری سانحے کے متاثرین کو 80 گز کے پلاٹ دینے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا ہے کہ لیاری سانحے کے متاثرین کو 80 گز کے پلاٹ دینے کا اعلان کرتا ہوں۔
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کراچی پہنچا ہوں وقت ضائع کیے بغیر یہاں آیا ہوں، تمام تجاویز خط کے ذریعے سندھ حکومت کو بھیجوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ چھوٹا سانحہ نہیں ہے سندھ حکومت چھ ماہ کا کرایہ ادا کرکے گھر فراہم کرے، نبیل گبول اور سعید غنی نے اچھی بات کی۔
گورنر سندھ نے کہا کہ معاملے پر خاموشی نہیں ہوگی، کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے، گورنر ہاؤس ہر کام میں فعال رہتا ہے، متاثرین کو راشن اور روزگار بھی گورنر ہاؤس دے گا۔
کامران ٹیسوری نے کہا کہ ہندو کمیونٹی اور متاثرین کے ساتھ ہوں، جو بلڈنگ خالی کرائی جارہی ہیں، حکومت سندھ ان کو چھ مہینے کا کرایہ دے کر اسی علاقے میں گھر دے۔
انہوں نے کہا کہ گورنر ہاؤس میں پیلپ لائن 1133 بنائی ہے، متاثرین کو 80 گز کے پلاٹ دینے کا اعلان کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی سو لوگ کھڑے ہیں جنہوں نے میرے حق میں نعرے لگائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: متاثرین کو نے کہا کہ
پڑھیں:
لیاری واقعہ: 27 جانیں نگلنے والے سانحے کے بعد سوالیہ نشانات اور متاثرین کی فریاد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) لیاری میں رہائشی عمارت کے المناک انہدام کے 60 گھنٹے طویل ریسکیو آپریشن کا اختتام ہو گیا ہے، اور جائے حادثہ سے بھاری مشینری ہٹا لی گئی ہے۔ یہ سانحہ اپنے پیچھے 27 انسانی جانوں کے ضیاع کا داغ چھوڑ گیا ہے، جن میں 16 مرد، 9 خواتین اور 2 بچے شامل ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ تر کا تعلق ہندو برادری سے تھا۔ تاہم، ریسکیو آپریشن کے خاتمے کے بعد یہ اہم سوال اب بھی باقی ہے کہ اس دلخراش سانحے کا ذمہ دار کون ہے۔حادثے کے بعد لیاری میں آج اداسی، خاموشی اور ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں کل تک قہقہے گونجتے تھے، آج وہاں پھٹی ہوئی کتابیں، خالی بستے، جوتے، ٹوٹے پھوٹے برتن اور رکشوں و موٹر سائیکلوں کی باقیات بکھری پڑی ہیں۔ یہ تباہ شدہ اشیاء ان بے شمار زندگیوں کی نشان دہی کر رہی ہیں جو اس حادثے کی نذر ہو گئیں۔ٹی وی اسکرینوں پر نظر آنے والا ایک خالی جیومیٹری باکس، جو کسی اسٹور سے نہیں بلکہ اسی ملبے سے ملا، انعمتا نامی ننھی پری کا ہے جو اس حادثے کے بعد بے گھر ہو گئی ہے۔ ملبے کے ڈھیر سے صرف یہ ڈبیا ہی نہیں بلکہ اس کی ایک کاپی اور رپورٹ کارڈ بھی ملا ہے جس میں اس نے امتحانات میں A1 گریڈ حاصل کیا تھا۔ انعمتا کا خوابوں سے بھرا خالی بستہ بھی جائے حادثہ سے ملا، جو اس کے روشن مستقبل کے بکھر جانے کی علامت ہے۔اس دلخراش حادثے نے کئی خاندانوں کو بے آسرا کر دیا ہے۔ ایک متاثرہ رکشہ ڈرائیور نے فریاد کی ہے کہ اس حادثے نے اس کے بچوں کی روزی روٹی چھین لی ہے۔ اس کا واحد ذریعہ معاش، اس کا رکشہ بھی ملبے تلے دب کر تباہ ہو گیا ہے۔ وہ نم آنکھوں سے حکومت سے اپیل کر رہا ہے کہ “حکومت پیسے نہ دے، کم سے کم رکشہ دے دے تاکہ روزگار کا بندوبست ہو جائے۔ میرے تو ہاتھ ہی ٹوٹ گئے ہیں (یعنی اب کچھ کمانے کے قابل نہیں رہا)۔” اندازہ ہے کہ متاثرہ عمارت کے ملبے تلے دب کر 50 سے زائد رکشوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ریسکیو آپریشن کے خاتمے کے بعد، متاثرین اور عوام کی نظریں اب حکام کی طرف ہیں کہ اس عمارت کے انہدام کے ذمہ داروں کا تعین کب ہو گا۔ یہ سوال شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ناقص تعمیرات، حکومتی عدم توجہی، یا کسی اور غفلت کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا؟ متاثرہ خاندان انصاف اور اپنے نقصانات کے ازالے کے منتظر ہیں۔