حضرت حسینؓ، باب العلم حضرت علی کرم اﷲ وجہہ، خاتون جنّت حضرت فاطمہ الزہرا ؓ کے صاحب زادے اور رسول کریم ﷺ کے انتہائی چہیتے نواسے ہیں۔ آپؓ کی ولادت باسعادت مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ ﷺ کو آپؓ سے بے انتہاء محبت تھی، کبھی آپؓ کو گود میں اُٹھاتے، کبھی کندھے پر بٹھاتے، کبھی ہونٹوں پر بوسہ دیتے تو کبھی چومتے۔ آپ ﷺ کے ارشادات ہیں، مفہوم: ’’اہل جنّت کے جوانوں کے سردار حسنؓ اور حسینؓ ہیں۔‘‘
’’حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں۔ جو حسین ؓ سے محبت کرے اﷲ تعالیٰ اُس سے محبت کرے۔‘‘ (ترمذی)
’’دنیا اور آخرت میں میرے پھول حسنؓ اور حسینؓ ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کسی جنّتی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ حسینؓ کو دیکھ لے۔‘‘
آج کے پُرفتن اور انتشار زدہ معاشرے میں حضرت حسینؓ کی سیرت ہمارے لیے اخلاقی تربیت کا روشن مینار ہے۔ آپؓ کی زندگی شجاعت کے ساتھ حلم، بردباری، عفو، انکساری، سخاوت اور حسن سلوک سے مزین تھی۔ دوستوں کے ساتھ دشمنوں کے لیے بھی آپؓ میں نرمی، برتاؤ میں وقار اور طبیعت میں وسعت تھی۔ چوں کہ حضرت حسینؓ نے خانوادہ نبوی ﷺ میں پرورش پائی تھی اس لیے معدنِ فضل و کمال اور اخلاق و اوصاف قرار پائے۔ حضرت حسینؓ کو آپ ﷺ کی سنّت سے خصوصی شغف و محبت حاصل تھی، ایک موقع پر آپؓ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’جو رسول اﷲ ﷺ کی سنّت پر عمل نہیں کرتا وہ رسول اﷲ ﷺ سے محبت بھی نہیں رکھتا۔‘‘ (الصریح)
ایک مرتبہ آپ ؓ نے جمعہ کا خطبہ دیا جس میں سنت رسول ﷺ کے اتباع پر زور دیتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ’’چوں کہ میں خود سنت نبوی ﷺ کا پابند ہوں اور ہمارے خانوادے کے تمام افراد کتاب و سنّت پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اس لیے میں کسی کام کو دیکھ کر جو نبی کریم ﷺ سے ثابت نہ ہو خاموش نہیں رہ سکتا۔ میں ہر اُس شخص سے لڑوں گا جو دین میں بدعت کا مرتکب ہوگا اور جو سنّت رسول کریم ﷺ کی خلاف ورزی کرے گا۔ ایسا شخص مردود ہے، مردود ہے، مردود ہے اور میرے نانا محترم ﷺ نے اس پر لعنت کی ہے۔‘‘ (سیرت امام حسینؓ)
آپؓ رات کا قیام کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے تھے۔ فرض نمازوں کے علاوہ بہ کثرت نوافل ادا فرماتے تھے۔ بعض اوقات آپؓ عشاء کے بعد بہت کم سوتے تھے، پھر پچھلی رات اُٹھ کر نفل و تہجد میں رات کا بقیہ حصہ گزار دیتے اور فجر پڑھ کر تلاوت قرآن کرتے پھر تھوڑی دیر کے لیے سوجاتے۔ (سیر الصحابہؓ)
ایک روایت میں ہے کہ آپؓ نے پچیس پیدل حج کیے۔ آپؓ کی طبیعت عدل، احسان، ہم دردی، سخاوت اور حلم و رفق سے آراستہ تھی۔ آپؓ حسن اخلاق کے پیکر تھے اور دوسروں کو بھی اچھے اخلاق کا درس دیتے تھے۔ ایک دفعہ ایک دیہاتی نے آپؓ سے پوچھا کہ آپ ﷺ سب سے زیادہ کس سے محبت فرماتے تھے تو آپ ؓ نے فرمایا: جو سب سے زیادہ بااخلاق ہوتا کیوں کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری) کوئی شخص بدتہذیبی پر آتا یا اکھڑ لہجے میں بات کرتا تو آپؓ عمدہ اخلاق سے پیش آتے اور کسی صورت تہذیب و شرافت کا دامن نہ چھوڑتے۔ ایک بار مجلس میں تشریف فرما تھے اور علم و عرفان کے موتی بکھیر رہے تھے، ایک شخص نے سوال کیا: قیامت کے دن کون سا عمل سب سے بہتر سمجھا جائے گا ؟ حضرت سیّدنا امام حسینؓ نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’حشر کے روز میزان میں خوش خلقی سے بڑھ کر کوئی عمل وزنی نہ ہوگا۔‘‘ (سنن ابی داؤد) ایک دفعہ ایک دیہاتی نے آپ ؓ کو بدتمیزی سے بلایا اور بے ادبی سے باتیں کرنے لگا آپؓ ہر بات کا جواب حسن اخلاق سے دیتے رہے اور جب اس نے جانے کا ارادہ کیا تو آپؓ نے اسے کھانا کھلایا اور اس کی ضرورت پوچھی اور اس کی احتیاج پوری فرمائی۔ وہ چلا گیا تو لوگوں نے کہا: وہ تو آپؓ کے ساتھ بدخلقی سے پیش آیا مگر آپؓ نہایت احترام اور خلق و محبت سے پیش آتے رہے۔ آپ ؓ نے فرمایا: ’’وہ دیہاتی بدّو تھا اور میں رسول اﷲ ﷺ کا نواسہ اور علی المرتضیٰؓ کا بیٹا ہُوں، اُس کا اپنا انداز تھا اور میں نے اپنے انداز سے گفت گُو کی، ہر شخص اپنی عقل استعمال کرتا ہے تو میں کیوں دیہاتی کے ساتھ دیہاتی بنوں۔‘‘ آپؓ بہت مؤدب اور شائستہ طبع تھے۔ آپؓ کے مزاج میں سخاوت اور بے نیازی غالب تھی، ایک مرتبہ ایک سائل کو دو سو درہم عطا فرمائے اور کمی کی معذرت بھی کی۔ کسی سفر میں ایک غریب عورت نے آپؓ کو کھانا کھلایا اور بکری کا گوشت بھون کر آپؓ کی خدمت میں پیش کیا پھر جب وہ کچھ مدت کے بعد کسی کام سے مدینہ منورہ آئی تو حضرت سیّدنا امام حسینؓ نے اسے ایک ہزار درہم اور ایک ہزار بکریاں مرحمت فرمائیں۔ (سیرت حضرت حسینؓ) ایک بار سیدنا اسامہ ؓ بیمار ہوگئے تو حضرت حسینؓ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو وہ ہائے غم، ہائے غم پکار رہے تھے۔ حضرت حسینؓ نے پوچھا کس بات کا غم ہے؟ حضرت اسامہ ؓ بولے ساٹھ ہزار درہم کا مقروض ہوں اور اس کی ادائی کا اس وقت کوئی ذریعہ نہیں۔ حضرت حسین ؓ نے فرمایا: فکر نہ کرو یہ قرض میں ادا کردوں گا۔ حضرت اسامہ ؓ نے عرض کیا: بس یہی قرض تھا جس سے خائف اور ڈرتا تھا کہ میں مقروض حالت میں نہ مرجاؤں۔ اور حضرت حسینؓ نے حضرت اسامہؓ کا ساٹھ ہزار درہم کا قرض ادا فرما دیا۔
ایک مرتبہ ایک لونڈی آپؓ کی خدمت میں چنبیلی کا گل دستہ لائی۔ آپؓ نے خوش ہوکر اس کو آزادی بخش دی۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں میں نے پوچھا: آپؓ نے اتنی سی بات پر کنیز کو آزاد کردیا ؟ تو آپ ؓ نے فرمایا: قرآن و سنّت کی یہی تعلیم ہے۔‘‘
سیّدنا حسینؓ عظیم و کریم ہستی کا جُود و کرم بے مثال ہے۔ اہل علم و دانش کی سرپرستی آپؓ کا طرۂ امتیاز ہے۔ انھیں انعام میں بڑی رقوم سے نوازتے تھے۔ سیدنا حسینؓ کی مجالس وقار و متانت کا مرقع ہُوا کرتی تھیں، آپؓ لوگوں کے ہاں بے حد محترم و مکرّم تھے۔ وقار و متانت اور بلند مرتبت ہونے کے باوجود بے حد حلیم الطبع اور منکسرالمزاج تھے اور نہایت کم حیثیت لوگوں سے بھی خندہ پیشانی سے ملتے۔ ایک مرتبہ آپؓ کہیں جا رہے تھے، راستے میں کچھ فقراء کھانا کھا رہے تھے، انھوں نے آپؓ کو کھانے کی دعوت دی تو آپ ؓ سواری سے اترے اور فرمایا: ’’بے شک! اﷲ تعالیٰ تکبّر والوں کو پسند نہیں کرتا پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا، فارغ ہونے پر سب کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی۔ جب وہ لوگ حاضر ہوئے تو آپؓ نے گھر والوں سے فرمایا: جو کچھ موجود ہے سب ان کے دسترخوان پر رکھ دو۔
آپؓ کے بے شمار اقوال زرّیں اور کثیر کلماتِ طیّبات بھی ارباب سیر نے نقل فرمائے ہیں جو آپؓ کے اوصاف و اخلاق کے آئینہ دار ہیں۔ آپؓ کے چند اقوال: ’’حلم زینت ہے۔ جلد بازی نادانی ہے۔ صلۂ رحمی نعمت ہے۔ راست بازی عزت ہے۔ بخل افلاس ہے۔ سخاوت دولت مندی ہے۔ نرمی عقل مندی ہے۔ رازداری امانت ہے۔ حسن خلق عبادت ہے۔ اپنی تعریف ہلاکت ہے۔ سب سے زیادہ معافی دینے والا وہ ہے جو قدرت کے باوجود بدلہ نہ لے۔‘‘
حضرت حسینؓ کے اوصاف و کمالات ناصرف دین و شریعت کی سربلندی کے ضامن ہیں بل کہ ان کی اعلیٰ اخلاقی صفات، حسن سلوک، عفو و درگزر، نرم مزاجی اور انسان دوستی آج کی بے رحم دنیا کے لیے ایک عظیم درس ہے۔ وہ نہ صرف میدان کربلا کے ظلم و ستم کے مدّمقابل عظیم فاتح تھے بل کہ خانقاہ نبوتؐ کے تربیت یافتہ وہ گوہر نایاب تھے جن کے چہرے پر حلم و وقار، گفت گُو میں نرمی اور رویّے میں خالص محبت جھلکتی تھی۔ عصر حاضر کی تیز رفتار، مفاد پرست اور اخلاق باختہ دنیا میں حضرت حسینؓ کے اوصاف و عادات ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ عظمت طاقت میں نہیں بل کہ اخلاق کی بلندی، عجز، صداقت اور انسان دوستی میں ہے۔ آج اگر دنیا کو امن اور باہمی احترام کی راہ درکار ہے تو حضرت حسینؓ کا کرادار اس کے لیے ابدی مشعل راہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایک مرتبہ ا نے فرمایا کے ساتھ رہے تھے کے لیے
پڑھیں:
جس انڈسٹری کی وجہ سے والدین نے عاق کیا وہی انڈسٹری حمیرا کی تدفین کرے گی؛ یاسر حسین
اداکارہ حمیرا اصغر کی کئی ماہ پرانی لاش ان کے فلیٹ سے ملی تھی اور ان کے والد نے لاش وصول کرنے سے انکار کردیا۔
اداکارہ سونیا حسین نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک ویڈیو پوسٹ میں آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ میں کسی کو نصیحت کرنا نہیں چاہتی۔
اداکارہ نے اپیل کی کہ اپنے گھر والوں، ہمسایوں اور دوستوں سے رابطے میں رہا کریں۔
جب مجھے حمیرا کے انتقال کا پتا چلا تو بہت دکھ ہوا لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ اس کے گھر والے لاش وصول نہیں کررہے تو میں سکتے میں آگئی۔
اداکارہ نے مزید کہا کہ آخر اس لڑکی نے ایسا کیا گناہ کردیا تھا۔
سونیا نے کہا کہ اگر خدا نخواستہ کوئی نہ آیا تو ایک انسان اور مسلمان ہونے کے ناطے میں اس کے کفن دفن کی ذمہ داری لینا چاہتی ہوں۔
اداکار اور ہدایت کار یاسر حسین نے سونیا حسین کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے میں بھی حاضر ہوں۔
یاسر حسین نے کہا کہ جس انڈسٹری کی وجہ سے مرحومہ کے گھر والوں نے انھیں عاق کیا وہی انڈسٹری حاضر ہے۔
اس سے قبل گورنر سندھ کامران ٹیسوری بھی اداکارہ حمیرا کی نماز جنازہ گورنر ہاؤس میں کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔
سندھ کے وزیر ثقافت نے بھی اپنے محکمے کی جانب سے اداکارہ حمیرا اصغر علی نماز جنازہ اور تدفین کی ذمہ داری لینے کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے کہ والد اور بھائی کی جانب سے لاش وصول نہ کرنے پر سب سے پہلے سماجی کارکن مہر بانو سیٹھی نے حمیرا اصغر کی تدفین کی ذمہ داری لینے کا اعلان کیا تھا۔
علاوہ ازیں حمیرا کے بہنوئی نے بھی لاش کی وصولی کے لیے رابطہ کیا تھا لیکن پولیس نے کا مؤقف تھا کہ آپ ان کے والد اور بھائی کو راضی کریں۔
جس کے بعد حمیرا کے بھائی اور بہنوئی لاش وصول کرنے لاہور سے کراچی پہنچ گئے تاہم ابھی نماز جنازہ اور تدفین کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔
واضح رہے کہ اداکارہ کی آخری فون کال اور سوشل میڈیا 9 ماہ قبل کی ہیں اور گھر پر کھانے پینے کے سامان کی ایکسپائری بھی ستمبر 2024 کی ہے۔