Daily Ausaf:
2025-07-08@15:10:43 GMT

امت کی عقیدت و محبت کا مرکز خانوادۂ نبوت

اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
ایک وقت آگیا تھا کہ امت دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ ایک طرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے اور ایک طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اُدھر وہ امیر تھے، اِدھر یہ امیر تھے۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد جب حضرت حسنؓ خلیفہ بنے اور نئے سرے سے معرکہ آرائی کی تیاریاں ہونے لگیں تو روایات میں آتا ہے کہ حضرت معاویہؓ نے جب ساتھیوں سے مشورہ کیا تو بتایا گیا کہ بہت بڑا لشکر حضرت حسنؓ کے جھنڈے کے نیچے ہے۔ بخاری کی روایت میں تفصیلات موجود ہیں۔ حضرت معاویہؓ نے کہا نہیں، میں نہیں لڑوں گا، میں حضرت حسنؓ سے صلح کرنا چاہتا ہوں۔ پیغام بھیجا کہ حضرت حسنؓ جن شرائط پر بھی صلح کرنا چاہیں میں تیار ہوں۔ حضرت معاویہؓ نے بھی حوصلے کا مظاہرہ کیا اور حضرت حسنؓ عنہ نے بھی بڑے حوصلے کا مظاہرہ کیا۔ اقتدار چھوڑنا، امارت چھوڑنا، ایک بادشاہ کا دوسرے بادشاہ کے سامنے، ایک حکمران کا دوسرے حکمران کے سا تھ بیٹھنا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ یہ حضرت حسنؓ ہی کا حوصلہ تھا کہ انہوں نے اقتدار اور خلافت سے دستبرداری کرتے ہوئے حضرت معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ساری امت اکٹھی ہو گئی۔ وہ امت جو حضرت عثمانؓ کی شہادت تک متحد تھی، پھر درمیان میں چار پانچ سال متفرق رہی، اس کے بعد حضرت معاویہؓ کے ہاتھ پر حضرت حسنؓ کے ایثار اور قربانی کی وجہ سے دوبارہ متحد ہوئی۔ پھر ساڑھے انیس سال حضرت معاویہؓ کی خلافت کا دور ہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے نواسے ہیں جنہیں حضورؐ نے سردار کا لقب اور خطاب دیا۔
ان کا ایک اور واقعہ ہے، بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے اور بازار جا رہے تھے، حضرت فاطمہؓ کے گھر کے پاس سے گزرے تو باہر سے آواز دی ”این لکع“ بچہ کدھر ہے؟ انہیں باہر آنے میں تھوڑی دیر لگ گئی۔ غالباً حضرت فاطمہؓ حضرت حسنؓ کو تیار کر رہی تھیں۔ ماں کو خیال ہوتا ہے کہ بچہ باہر جا رہا ہے تو ہاتھ منہ صاف کرتی ہے اور کپڑے وغیرہ جھاڑتی ہے۔ جب حضرت حسنؓ باہر نکلے تو حضورؐ نے بازو پھیلا دیے اور حضرت حسنؓ بھی بازو پھیلاتے ہوئے آئے اور دونوں نانا نواسہ آپس میں گلے ملے۔ اور بھی بہت سی روایت ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے جنہوں نے حضورؐ کی گود میں پرورش پائی، آپؐ کے ساتھ کھیلے اور حضورؐ کی تربیت میں انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز کیا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ایک روایت کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ یہ بات شاید میں نے پہلے حضرت عمرؓ کے تذکرے میں بتائی تھی کہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں تذکرہ کیا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذوق یہ تھا کہ وظیفوں کی تقسیم میں برابری ہونی چاہیے، کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ جبکہ حضرت عمرؓ کی رائے یہ نہیں تھی، ان کی رائے یہ تھی کہ فضیلت کے درجات کے مطابق گریڈ سسٹم ہونا چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے تو اڑھائی سال اپنے زمانہ خلافت میں برابر اموال تقسیم کیے، کسی کو کمی بیشی نہیں کی، جو ازواج مطہرات کو ملتا تھا، عام آدمی کو وہی کچھ دیتے تھے۔ مگر حضرت عمرؓ جب خلیفہ بنے تو انہوں نے خلافت سنبھالتے ہی تقسیم کا نظام تبدیل کر دیا۔ وظیفوں کے لیے درجہ بندی کی، غالباً سات یا آٹھ گریڈ بنائے۔ سب سے زیادہ ازواج مطہرات کو، پھر اس سے کم، پھر اس سے کم۔ مختلف درجہ بندیاں کر کے حضرت عمرؓ نے وظائف کی تقسیم کا نظام بنایا۔ حضرت صدیق اکبرؓ کے زمانے میں گریڈ سسٹم نہیں تھا، حضرت عمرؓ نے اپنی رائے اور اپنے اجتہاد کے مطابق گریڈ سسٹم بنایا تھا۔ امام ابو یوسفؒ نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ دس سال حضرت عمرؓ نے اس نظام پر درجہ بندی کے مطابق وظائف تقسیم فرمائے، لیکن آخری سال ان کو احساس ہوا کہ درجہ بندی سے فرق پڑ جاتا ہے، تو انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ حضرت ابوبکرؓ کی رائے ٹھیک تھی، مجھ سے خطا ہوئی ہے، درجہ بندی ٹھیک نہیں تھی، برابری ہونی چاہیے تھی، اگلے سال میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رائے کے مطابق تقسیم کا نظام ازسر نو تبدیل کروں گا، لیکن اگلا سال نہیں ملا اور اس سے پہلے وہ شہید ہو گئے تھے۔
جو بات میں کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس تقسیم میں حضرت عمرؓ نے جو درجہ بندی کی تھی اس میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو حضرت عمرؓ کے بیٹے تو ہیں ہی لیکن ان کا اپنا تعارف بھی ایک جلیل القدر صحابی اور بڑے محدث اور فقیہ کے طور پر ہے۔ وہ اور حضرت حسینؓ وظائف کی اس تقسیم کے مطابق ایک درجے میں آتے تھے، لیکن حضرت عمرؓ نے وظیفہ میں فرق رکھا ہوا تھا کہ حضرت حسینؓ کو پانچ سو درہم زیادہ دیتے تھے اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو پانچ سو درہم کم دیتے تھے۔ ’’کتاب الاموال‘‘ میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جناب عمرؓ سے ایک دن شکوے کے طور پر کہا کہ ابا جی! آپ مجھے وظیفہ پانچ سو کم دیتے ہیں اور حسینؓ کو پانچ سو زیادہ دیتے ہیں حالانکہ تقسیم کے اعتبار سے ہم ایک ہی درجے میں آتے ہیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے انہیں ڈانٹا۔ فرمایا کہ حسینؓ کے مقابلے کی بات مت کرو، وہ حضورؐ کے نواسے ہیں۔ فرمایا عبداللہ! حسین کے نانا کی برکت سے تمہارا باپ امیر المومنین ہے، ورنہ ہم تو بکریاں چرانے والے لوگ تھے، ہمیں کس نے پوچھنا تھا۔ آج تم جو امیر المومنین کے بیٹے کہلاتے ہو تو حسین کے خاندان کی برکت ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں بات نہ کرنا۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے بے شمار روایات ہیں کہ خاندان نبوت اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا باہمی محبت و اعتماد کا تعلق کیا تھا۔ میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں بھائی قیامت تک کے لیے امت کے لیے اسوہ ہیں۔ ایک بھائی عزیمت کے حوالے سے کہ حضرت حسینؓ نے جس بات کو غلط سمجھا ہے، غلط کہا ہے اور اس پر ڈٹ گئے ہیں۔ میں تاریخ کی تفصیلات میں نہیں جاتا، تاریخ میں اس حوالے سے بہت سے مباحث ہیں، میں صرف یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس بات کو غلط سمجھا ہے اس پر مصالحت نہیں کی اور اس پر انہوں نے سمجھوتہ نہیں کیا، یہ عزیمت کی علامت تھی۔ اور حضرت حسنؓ نے جو بات سمجھی ہے کہ امت کی وحدت کے لیے یہ قربانی ضروری ہے تو انہوں نے قربانی دی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اپنے ان نواسوں کے لیے محبت و شفقت کے کلمات مختلف اوقات میں صادر ہوئے ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ اور ان دونوں نواسوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات کو زندہ رکھا ہے اور امت کی رہنمائی فرمائی ہے۔
آج ہم بہت سے غیر متعلقہ مباحث میں پڑ جاتے ہیں لیکن ضروری بات یہ ہے کہ حضرت حسینؓ کی قربانی کا تقاضہ کیا ہے؟ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی جو یزید کے ساتھ کشمکش تھی تو ان کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ انہیں بطور خلیفہ کے یزید پر اطمینان نہیں تھا اور وہ اسے اس منصب کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ جس منصب پر حضرت صدیق اکبرؓ بیٹھے تھے، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بیٹھے تھے، وہ اس منصب کا یزید کو اہل نہیں سمجھتے تھے۔ آپ اس بات سے اندازہ کیجئے کہ اس منصب پر حضرت معاویہؓ تقریباً بیس سال رہے تو حضرت حسینؓ ان کی رعایا میں رہے اور کبھی کوئی اشکال نہیں ہوا۔
( جا ری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ رضی اللہ تعالی اور حضرت حسین کہ حضرت حسین حضرت معاویہ کہ حضرت حسن ہے کہ حضرت کے مطابق حوالے سے انہوں نے کی رائے پانچ سو ا ہے کہ کے لیے کیا ہے تھا کہ ہے اور

پڑھیں:

قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تم مجھے اس بات کی دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ سے کفر کروں اور اس کے ساتھ اْن ہستیوں کو شریک ٹھیراؤں جنہیں میں نہیں جانتا، حالانکہ میں تمہیں اْس زبردست مغفرت کرنے والے خدا کی طرف بلا رہا ہوں۔ نہیں، حق یہ ہے اور اِس کے خلاف نہیں ہو سکتا کہ جن کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو اْن کے لیے نہ دنیا میں کوئی دعوت ہے نہ آخرت میں، اور ہم سب کو پلٹنا اللہ ہی کی طرف ہے، اور حد سے گزرنے والے آگ میں جانے والے ہیں۔ آج جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اْسے یاد کرو گے اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں، وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔ (سورۃ غافر:42تا44)

سیدنا ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بے شک زمانہ گھوم کر پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کیے تھے۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں جس میں تین لگاتار ہیں: ذی قعد، ذی الحجہ اور محرم، چوتھا رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے‘‘۔ (بخاری) تشریح: ان حرمت والے مہینوں میں کسی قسم کی برائی اور فسق و فجور سے کلی طور پر اجتناب کرنا اور ان کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ یوں تو چاروں مہینے برکت و فضیلت سے بھر پور ہیں، لیکن ماہ محرم وہ مہینہ ہے جس میں دس تاریخ کو رسول اللہؐ نے روزے کا دن قرار دیا اور اسے سال بھر کے لیے کفارئہ گناہ ٹھیرایا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دنیا میں تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان اسباب کیا ہیں؟
  • منہاج القرآن علماء کونسل کے زیرِاہتمام پیغام امام حسینؑ و اتحاد امت کانفرنس
  • اہلبیت ؓکی عظیم قربانی کو رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا، گورنر پنجاب
  • پاکستانی فنکاروں کا نوحہ خوانی کے ذریعے حضرت امام حسینؓ کو خراجِ عقیدت
  • قم القمدس، حرم سیدہ بی بی معصومہ فاطمہ سلام اللہ علیھا میں ماتمی دستوں کی پرسہ داری
  • گرین سبیل: شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک غیر روایتی انداز
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • ملک بھر میں یوم عاشورآج مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جائیگا
  • میدانِ کربلا کے عظیم شہسوارسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ