محکمہ بورڈ یونیورسٹیز حکام ثانوی بورڈ ملازمین کی ترقی کے آڑے آگئے
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(رپورٹ:حماد حسین)ثانوی تعلیمی بورڈ کے کئی افسران و ملازمین کی ترقیاں 7ماہ گزرنے کے باوجود نہ ہوسکیں۔محکمہ بورڈ اینڈ یونیورسٹیز کے عدم دلچسپی سے بورڈ اجلاس کے منٹس منظوری کی منتظر ہے۔سابق اور موجودہ چیئرمین کی کئی کوششیں بھی رائیگاں گئی۔ ذرائع کے مطابق ثانوی تعلیمی بورڈ کے بورڈ اجلاس نمبر364 جوکہ 15نومبر2024کو ہواتھا جس کی صدارت چیئرمین بورڈ آف سکینڈری ایجوکیشن ڈاکٹر شرف علی شاہ نے کی جبکہ دیگر ممبران میں چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد پروفیسر ڈاکٹر احمد علی بروہی، چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن شہید بے نظیر آباد ڈاکٹر محمد فاروق حسن،چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سکھر رفیق احمد پلھ، چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری لاڑکانہ سکندر علی میر جت،چیئرمین بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری میرپور خاص ڈاکٹر ثمر رضا تالپور، چیئرمین بورڈ آف انٹر میڈیٹ ایجوکیشن کراچی پروفیسر امیر حسین قادری، چیئرمین سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن مظفر علی بھٹو اور وائس چانسلر جامعہ کراچی کی نمائندہ پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ سعیدشامل تھے۔ بورڈ اجلاس میں ثانوی تعلیمی بورڈ کے ملازمین جن میںسپر نٹنڈنٹ حماد، سینئرکلرک ارشاد علی خان، اسسٹنٹ محمود عالم، سیما،نادیہ موسیٰ کو اگلے عہدے کے لیے ترقی کی منظوری دے دی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ بورڈ اجلاس کے بعد منٹس منظوری کے لے سیکر ٹری بورڈ اینڈ یونیورسٹیز کو ارسال کردیے گئے تھے۔ تاہم 7ماہ گزرنے کے باوجود وہ اب تک منظور نہیں کئے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قوانین کے مطابق اجلاس کے منٹس45 دن میں اگر متعلقہ اتھارٹی منظور نہیں کرتی تووہ ازخود منظور ہو جاتے ہیں تاہم کچھ عرصہ قبل ثانوی تعلیمی بورڈ کو ایک خط کے ذریعے پابند کیا گیا کہ جب تک محکمہ بورڈ زاینڈ یونیورسٹیز اس کو منظور نہ کریں آپ اس وقت تک اس کو لاگو نہ کریں۔ جس کے بعد ایک ترمیم کے ذریعے45 دن کے بعد منظوری کا اختیار مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ترقی کے منتظر افراد میں 2 ملازمین جن میں محمد رفیق11 اپریل2026 اور نادیہ11 فروری 2026کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ اس حوالے سابق چیئرمین ڈاکٹر شرف علی شاہ اور موجودہ چیئرمین غلام حسین سوہو نے بھی کوششیںکیں تھی جوکہ رائیگاں گئیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ثانوی تعلیمی بورڈ بورڈ اجلاس
پڑھیں:
نیشنل لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا وسطی کا اجلاس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیشنل لیبر فیڈریشن خیبر پختونخوا وسطی کے نئے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا۔ حلف برداری کی تقریب میں نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے مرکزی صدر شمس الرحمٰن سواتی نے نومنتخب عہدیداران سے حلف لیا۔
منتخب عہدیداران میں جمشید خان صدر، سمیع اللہ جنرل سیکرٹری، مہر علی ہوتی سینئر نائب صدر، فلک تاج سینئر نائب صدر، ملک ہدایت نائب صدر، اور فضل اکبر خان چیف آرگنائزر شامل ہیں۔
اس موقع پر مرکزی صدر شمس الرحمن سواتی نے نومنتخب مجلسِ عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
موجودہ ظالمانہ، فرسودہ اور گلے سڑے نظام نے مزدوروں، کسانوں اور پسے ہوئے طبقات سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ پاکستان کے ساڑھے آٹھ کروڑ مزدوروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں، مزدور تحریک کمزور ہو چکی ہے، اور محض روایتی مطالبات و احتجاج سے مزدور اپنا حق حاصل نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مزدور، کسان اور ملازمین اس نظام کے خلاف متحد ہوں۔ 21، 22 اور 23 نومبر کو مینارِ پاکستان لاہور کے سائے میں متحد ہو کر شریک ہوں، اور حافظ نعیم الرحمٰن کی ‘‘بدلو نظام کو۔۔۔ تحریک’’ کا حصہ بنیں۔
شمس الرحمن سواتی نے مزید کہا کہ:
آج کروڑوں مزدور کم از کم اجرت اور سماجی بہبود کے حق سے محروم ہیں۔ مزدوروں کے بچے تعلیم سے، بیمار علاج سے، اور اکثریت سر چھپانے کی چھت سے محروم ہے۔ سرکاری ملازمین کو ملازمتوں کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے، منافع بخش اداروں کی نجکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے، اور تعلیمی ادارے و اسپتال بھی فروخت کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تمام ٹریڈ یونینز، فیڈریشنز، اور ملازمین و کسانوں کی تنظیمیں متحد ہو کر اس ظالمانہ نظام کی بیخ کنی کریں۔
مزدوروں، کسانوں اور ملازمین کے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ وہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور افسر شاہی کے اس گٹھ جوڑ کو توڑیں، اور ایک دیانتدار، امانتدار اور خدمت گزار قیادت کے ساتھ مل کر اسلام کے عادلانہ نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اب بھی ہم نے کوتاہی برتی تو کچھ باقی نہیں بچے گا۔
غلامی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر ظلم کے نظام کے خلاف عظیم الشان جدوجہد برپا کرنا ہوگی تاکہ پاکستان کو صنعتی و زرعی ترقی کا ماڈل بنایا جا سکے، جہاں روزگار کے مواقع میسر ہوں، عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم ہو، اور پسے ہوئے طبقات کو باعزت زندگی نصیب ہو۔