ائیر فورس میں پائلٹ بننے کی خواہش، سکندر رضا کرکٹر بن گئے
اشاعت کی تاریخ: 27th, May 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک) زمبابوے کے سابق ٹی ٹوئینٹی کپتان اورٹیسٹ آ ل راونڈر سکندر رضانے پاکستان سپر لیگ میں غیر معمولی کارکردگی دکھاتے ہوئے لاہور قلندرز کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔
سکندر رضا ائیر فورس میں پائلٹ بننے کی خواہش رکھتے تھے تاہم وہ کرکٹر بن گئے ،زمبابوے میں معروف فٹبال کلب کے سابق کپتان کیلئے بنائے گئے نغمے کو اب لوگ سکندر رضا کیلئے گاتے ہیں ۔
سکندر رضا سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور اسی شہر کی گلیوں میں انہوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔
سیالکوٹ میں سکندر رضا کے والد گاڑیوں کی خرید و فروخت کاکام کرتے تھے اور زمبابوے میں جاکر انہوں نے یہی کام شروع کیا۔اس دوران سکندر رضا اعلی تعلیم حاصل کرنے اسکاٹ لینڈ گئے۔
سکندر رضا کی پیدائش پاکستان کے شہر سیالکوٹ کی ہے۔وہ پاکستان ایئرفورس میں پائلٹ بننا چاہتے تھے لیکن آنکھوں کے ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہونے پر اُن کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور پھر وہ اپنے والدین کے ساتھ ا سکاٹ لینڈ چلے گئے جہاں انہوں نے سافٹ ویئر انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سنہ 2007 سے زمبابوے کی کرکٹ سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز 2013 میں پاکستان ہی کے خلاف ہرارے میں کیا تھا۔
سکندر رضا کی زمبابوے میں مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ زمبابوے کے سب سے بڑے فٹ بال کلب کے سابق کپتان کے لیے بنائے گئے نغمے ’مونیا‘ کو اب لوگ سکندر رضا کے لیے گاتے ہیں اور کرکٹ گراؤنڈز میں اس نغمے کے دوران فٹ بال کپتان کے نام کی جگہ ’رضا‘ کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
سکندر رضا خود کو زمبابوین کہتے ہیں کیونکہ وہ گزشتہ 2 دہائیوں سے زمبابوے میں اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔
سکندر رضا سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور اسی شہر کی گلیوں میں انہوں نے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔
سکندر رضا نے بتایا کہ طالبعلمی کے زمانے میں ان کی زندگی صرف پڑھائی تک ہی محدود تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ گلیوں میں ٹیپ بال کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔سکندر رضا نے بتایا کہ 2003 میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ زمبابوے آگئے تھے، لیکن جلد ہی وہ تعلیم کے حصول کے لیے اسکاٹ لینڈ چلے گئے جہاں سے انہوں نے سافٹ انجینئرنگ میں بیچلر ڈگری مکمل کی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تک وہ یہ فیصلہ نہیں کر پائے تھے کہ انہیں کرکٹ میں اپنا کیرئر بنانا ہے یا نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے ان کے پاس صرف ایک ہی سال تھا کیونکہ 2009 میں اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرتے تو ممکن تھا کہ وہ اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے دوبارہ اسکاٹ لینڈ چلے جاتے۔
سکندر رضا اسکاٹ لینڈ میں بھی کلب کرکٹ کھیلتے رہے لیکن ان دنوں انہوں نے پیشہ ورانہ کرکٹر کے طور پر کھیلنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ اس وقت جن لوگوں نے انہیں کھیلتے دیکھا، انہیں بھی ایسا کبھی نہیں لگا کہ وہ ایک پروفیشنل کرکٹر بن سکتے ہیں۔
زمبابوے کرکٹ ٹیم کے سابق کوچ اسٹیفن مینگونگو کا کہنا ہے، ’سکندر نے جب کلب کرکٹ کا آغاز کیا تو وہ ایک عام سے کھلاڑی تھے لیکن ان میں کھیلنے کا جذبہ اور سیکھنے کی لگن دیکھ کر میں حیران رہ گیا تھا۔
وہ کئی انٹر نیشنل میچوں میں میچ وننگ کارکردگی دکھا چکے ہیں لیکن ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں اپنے آبائی ملک پاکستان کے خلاف کارکردگی کو وہ یادگار قرار دیتے ہیں2022.
میچ میں سکندر رضا بیٹنگ میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے لیکن بولنگ میں شان مسعود، حیدر علی اور شاداب خان کی اہم وکٹیں لے کر کھیل کا پانسہ پلٹنے میں کامیاب ہو گئے۔
زمبابوے نے محض دوسری مرتبہ پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں شکست دی ہے۔ اس سے قبل 2021 میں ہرارے میں بھی اس نے ایک کم سکور 118 کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کو صرف 99 رنز پر آؤٹ کر کے میچ 19 رنز سے جیتا تھا۔
سکندر رضا کہتے ہیں ’پاکستان کے خلاف میچ سے قبل رات کو میں صحیح سو نہیں سکا۔ چونکہ اس میچ کی میرے نزدیک بہت زیادہ اہمیت تھی لہذا میں اس بارے میں سوچتا رہا تھا کہ کس طرح بیٹنگ کرنی ہے۔میں نے کچھ نوٹس بھی تیار کیے اور میں انھیں بار بار پڑھتا رہا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ زمبابوے کو بڑی ٹیموں کے خلاف کھیلنے کا موقع کم ملتا ہے۔
فلڈ لائٹس میں ہمیں کھیلنے کا کم ہی موقع ملا ہے۔ میں خود پرتھ میں پہلی بار کھیلا ہوں۔میرا جسم سو رہا تھا لیکن دماغ جاگ رہا تھا اور اس میچ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
پاکستان سپر لیگ فائنل میں سکندر رضا نے لاہور قلندرز کو تیسری بار پی ایس ایل چیمپئن بنوانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، اپنی پہلی ہی گیند پر محمد عامر کو چھکا اور پھر آخری اوور میں فہیم اشرف کو ایک چھکا اور پھر وننگ چوکا لگاکر انہوں نے ٹیم کی فتح سے ہمکنار کروایا۔
میچ جیتنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ میں جیسے ہی ٹیسٹ میچ ختم ہوا تو مجھے ثمین رانا کی کال آئی اور مجھے کہا کہ فوراً فلائٹ پکڑکے پاکستان پہنچو، میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ناٹنگھم میں کوئی فلائٹ دستیاب نہیں تو تمہیں برمنگھم پہنچنا ہوگا۔
وہاں سے کسی طرح بھاگ کر ہوٹل آیا، سامان ا بھی پیک نہیں کیا اور ایک دوست نے مجھے اپنی گاڑی میں ایئرپورٹ پہنچایا، فلائٹ پکڑ کر دبئی پہنچا، ڈیڑھ گھنٹہ گاڑی چلاکر ابو ظہبی پہنچا اور وہاں سے سیدھا لاہور میں 6 بجکر 50 پر لینڈ کیا، 7.20 پر ڈریسنگ روم میں آیا، 7 بجکر 25 پر قومی ترانے کے لیے گراؤنڈ میںداخل ہوا اور ساڑھے سات بجے پہلی گیند ہوئی۔اب یہ سب خواب دکھائی دیتا ہے۔
Post Views: 4ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف زمبابوے میں نے بتایا کہ اسکاٹ لینڈ انہوں نے کے سابق رہا تھا کے لیے
پڑھیں:
بیرون ممالک روزگار کے لیے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟
پاکستان سے بیرون ملک روزگار کے لیے جانے والے افراد کی تعداد میں مسلسل کمی ملکی معیشت کے لیے ایک سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ 2024 میں 7 لاکھ 27 ہزار افراد روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک گئے، جو 2023 کے 8 لاکھ 62 ہزار کے مقابلے میں 15 فیصد کم ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کمی سے ترسیلات زر جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، پر براہِ راست اثر پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی جانب سے پاکستانیوں کے ویزوں کی منسوخی برین ڈرین میں کمی کا سبب بن سکتی ہے؟
پاکستان سے ورک فورس بیرون ممالک جانے میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟ اور اس کے کیا نتائج ہوں گے؟
’آنے والے دنوں میں پاکستانی ورک فورس کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں‘اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین عدنان پراچہ نے کہاکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے، اور ماہانہ بنیادوں پر 11 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور خدشہ ہے کہ آئندہ مہینوں میں یہ کمی مزید بڑھے گی۔
انہوں نے کہاکہ اس صورتحال کی ایک بڑی وجہ وہ مسائل ہیں جن کا سامنا بیرون ملک لیبر فورس بھیجنے والے پروموٹرز کو کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب جانے کے لیے جو میڈیکل اور دیگر ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، ان میں کرپشن بڑھ گئی ہے، جس پر سعودی کمپنیوں کی جانب سے شکایات موصول ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ آنے والے دنوں میں ان شکایات میں اضافے کا امکان ہے، جو پاکستانی ورک فورس کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
عدنان پراچہ کے مطابق پاکستان میں بائیو میٹرک کے نظام کو بھی فوری طور پر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جو بائیومیٹرک محض ایک سے 2 گھنٹے میں مکمل ہونا چاہیے، اس میں اکثر 2 دن لگ جاتے ہیں۔
’بائیومیٹرک کے لیے بھی لوگوں سے زیادہ فیس وصولی جارہی ہے‘’ملک بھر میں صرف 5 بائیومیٹرک سینٹرز قائم ہیں، جہاں دور دراز علاقوں سے لوگ صبح سورج نکلنے سے پہلے پہنچ کر لائنوں میں لگ جاتے ہیں اور بعض اوقات شام تک انتظار میں رہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہاکہ بائیومیٹرک فیس 1500 روپے ہے لیکن کرپشن کی وجہ سے 5 ہزار روپے تک وصول کیے جا رہے ہوتے ہیں۔ یہ رشوت نہ صرف مزدوروں پر بوجھ ہے بلکہ ورک فورس کو بیرونِ ملک بھیجنے کی لاگت میں بھی اضافہ کرتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت کو چاہیے کہ صرف رائے لینے کے بجائے پروموٹرز کی نمائندگی کو یقینی بنائے تاکہ یہ بزنس مزید شفاف اور مؤثر ہو سکے۔ اس وقت زرمبادلہ ملکی معیشت کے لیے نہایت اہم ہے، گزشتہ مالی سال میں جو ترسیلات زر پاکستان کو موصول ہوئیں، ان میں اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔
’6 ماہ کے دوران صرف 3 لاکھ 36 ہزار 999 پاکستان بیرون ملک گئے‘پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے 6 ماہ (جنوری تا جون) میں کل 3 لاکھ 36 ہزار 999 پاکستانی بیرونِ ملک روزگار کے لیے روانہ ہوئے۔ جبکہ اگست 2025 تک یہ تعداد بڑھ کر 4 لاکھ 51 ہزار 933 ہوگئی ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کی قریباً 55 فیصد ورک فورس سعودی عرب جاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ مذہبی اور جذباتی وابستگی بھی ہے۔ پاکستانی ورک فورس کے لیے سعودی عرب جانا ایک خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔
پہلے 6 ماہ میں سعودی عرب میں 2 لاکھ 42 ہزار 337 اور یو اے ای میں 13 ہزار 865 (جولائی تک) پاکستانی پہنچے۔
’2 ماہ کی تربیت سے کسی بھی عام شخص کو پروفیشنل نہیں بنایا جا سکتا‘اسکلز ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے سوال کے جواب میں عدنان پراچہ نے کہاکہ پاکستان اس میدان میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ اربوں روپے اس منصوبے پر خرچ کیے جا رہے ہیں مگر مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ رہے۔
انہوں نے کہاکہ محض 2 ماہ کی تربیت سے کسی بھی عام شخص کو پروفیشنل نہیں بنایا جا سکتا۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے سے موجود ہنرمند افراد کو ٹیسٹ اور سرٹیفکیشن کے ذریعے استعمال میں لایا جائے تاکہ وہ فوری طور پر روزگار حاصل کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری پالیسیوں کا حال یہ ہے کہ ہنرمند کو بے روزگار اور غیر ہنرمند کو تربیت دے کر وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ پہلے سے موجود اسکلڈ ورک فورس کو مارکیٹ میں کھپایا جائے تاکہ غربت کی لکیر سے نیچے جانے سے پہلے ہی لوگوں کو سہارا دیا جا سکے۔
انہوں نے کہاکہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال پاکستان سے قریباً 8 لاکھ 62 ہزار افراد بیرون ملک گئے تھے، لیکن رواں سال یہ تعداد کم ہوکر 7 لاکھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔
’دوسری طرف حکومت اربوں روپے اسکلز ڈیویلپمنٹ پر خرچ کر رہی ہے لیکن اس کا براہِ راست فائدہ مزدور طبقے کو نہیں پہنچ رہا۔‘
’ترسیلات زر میں کمی سے کرنسی کی قدر پر دباؤ بڑھے گا‘معاشی ماہر راجا کامران کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر اور پاکستانی ورک فورس کی تعداد میں کمی ملکی معیشت کے لیے سنگین چیلنجز کا باعث بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، اور ان میں کمی سے کرنسی کی قدر پر دباؤ بڑھے گا، جو مہنگائی اور غربت میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
راجا کامران نے خبردار کیا کہ اگر بیرونِ ملک روزگار کے مواقع کم ہوتے رہے تو مقامی سطح پر روزگار کے متبادل مواقع پیدا کرنا ناگزیر ہو جائے گا، ورنہ معاشی عدم استحکام معاشرتی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔
’حکومت کو اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے مسائل فوری حل کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو فروغ دینا چاہیے۔‘
’اسکلز ڈیویلپمنٹ پروگرامز کو شفاف اور مؤثر بنانے کے لیے کرپشن کا خاتمہ ضروری‘ان کے مطابق اسکلز ڈیویلپمنٹ پروگرامز کو شفاف اور مؤثر بنانے کے لیے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ نئی بین الاقوامی مارکیٹس میں پاکستانی ورک فورس کے لیے مواقع تلاش کرنے سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آ سکتی ہے، جو غربت کی شرح کم کرنے اور معاشی استحکام کے لیے کلیدی ثابت ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ 2024 میں پاکستان سے قریباً 7 لاکھ 27 ہزار افراد بیرون ملک روزگار کے لیے روانہ ہوئے، جو 2023 کی 8 لاکھ 62 ہزار کی تعداد سے 15 فیصد کم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی، قومی تشخص خراب کر رہے ہیں؟
2025 کے پہلے 8 ماہ (جنوری تا اگست) میں یہ تعداد قریباً 4 لاکھ 52 ہزار رہی جبکہ ہدف 8 لاکھ افراد کا تھا۔ جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں بھی کم ہے۔ یہ کمی ملکی معیشت کے لیے سنگین چیلنج ہے کیونکہ ترسیلات زر (30 بلین سے زیادہ سالانہ) ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اوورسیز ایمپلائمنٹ اوورسیز پاکستانی بیرون ممالک روزگار تارکین وطن زرمبادلہ ذخائر میں کمی ملکی معیشت ورک فورس وی نیوز