ترجمان کے الیکٹرک کا دعویٰ ہے کہ شہر میں کہیں بھی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی تاہم خود کمپنی کے جاری کردہ شیڈول سے واضح ہو رہا ہے کہ 2 ہزار 127 میں سے 651 فیڈرز پر باقاعدہ لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے، جن میں سے 496 فیڈرز پر روزانہ 10 گھنٹے تک بجلی بند رہتی ہے، یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی کا تقریباً 23 فیصد حصہ روزانہ دس گھنٹے لوڈشیڈنگ کی اذیت جھیل رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شہر قائد اس وقت شدید گرمی اور بجلی کی طویل اور اذیت ناک لوڈشیڈنگ کی زد میں ہے، درجہ حرارت 40 ڈگری سے تجاوز کر چکا ہے مگر کے الیکٹرک کی جانب سے کئی کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے، گھروں میں موجود خواتین، بچے اور بزرگ شدید گرمی میں بلبلا اٹھے ہیں، سانس لینا تک دشوار ہو چکا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شہر بھر میں بجلی کی بندش معمول بن چکی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کے الیکٹرک شہریوں سے بجلی کے بل تو مکمل وصول کر رہی ہے مگر سروس آدھی بھی فراہم نہیں کی جا رہی، جن علاقوں کو ’’لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ‘‘ قرار دیا جاتا ہے وہاں بھی کئی کئی گھنٹے بجلی بند کی جا رہی ہے اور اکثر اوقات یہ لوڈشیڈنگ غیر اعلانیہ ہوتی ہے۔

ترجمان کے الیکٹرک کا دعویٰ ہے کہ شہر میں کہیں بھی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی تاہم خود کمپنی کے جاری کردہ شیڈول سے واضح ہو رہا ہے کہ 2 ہزار 127 میں سے 651 فیڈرز پر باقاعدہ لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے، جن میں سے 496 فیڈرز پر روزانہ 10 گھنٹے تک بجلی بند رہتی ہے، یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کراچی کا تقریباً 23 فیصد حصہ روزانہ دس گھنٹے لوڈشیڈنگ کی اذیت جھیل رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ بجلی کی بندش کے باوجود بلوں میں کسی قسم کی رعایت نہیں دی جا رہی بلکہ اوور بلنگ کے ذریعے اضافی رقوم بھی وصول کی جا رہی ہیں۔ عوام جب شکایت لے کر کے الیکٹرک کے دفاتر کا رخ کرتے ہیں تو ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے، عملے کا رویہ تحقیر آمیز ہوتا ہے، جیسے بجلی لینے آئے لوگ گاہک نہیں بلکہ غلام ہوں نہ کوئی مناسب جواب دیا جاتا ہے، نہ ہی شکایت پر فوری عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

عوام  کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک نے اپنی اجارہ داری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کراچی کے شہریوں کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے، ایک جانب گرمی کی شدت، دوسری طرف بجلی کی بندش اور تیسری طرف غیر شائستہ رویے نے شہریوں کو نفسیاتی دباؤ میں مبتلا کر دیا ہے۔ شہری مطالبہ کر رہے ہیں کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں کے الیکٹرک کی کارکردگی کا نوٹس لیں، بجلی کی ترسیل کا شفاف نظام قائم کیا جائے اور بل کے بدلے میں مکمل سروس کی ضمانت دی جائے، بصورت دیگر عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے، جس کے نتائج حکام کے قابو سے باہر ہوں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: لوڈشیڈنگ کی کے الیکٹرک کی جا رہی فیڈرز پر بجلی کی جاتا ہے رہی ہے رہا ہے

پڑھیں:

کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی

کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی WhatsAppFacebookTwitter 0 15 September, 2025 سب نیوز


تحریر: محمد محسن اقبال


میں کالا باغ ہوں، ایک ایسا نام جو پاکستان کی تاریخ میں امید اور تنازع دونوں کی گونج لیے ہوئے ہے۔ میرا مسکن پنجاب کے ضلع میانوالی میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ہے، جہاں دریا کی طاقت نمکین پہاڑیوں سے ٹکراتی ہے۔ یہاں کی مٹی زرخیز ہے، ہوائیں تیز ہیں، اور دریا کی گرج مسلسل ہے۔


کالا باغ نام مجھے اُس وقت دیا گیا جب میری حیثیت بطور ڈیم ابھی کسی کے ذہن میں نہ تھی۔ یہ نام دریا سندھ کی برکتوں سے سیراب ہونے والے سیاہ و زرخیز باغات سے جڑا تھا۔ زمین نے یہ نام پایا اور بالآخر وہی نام اُس خواب کا عنوان بن گیا جو میرا مقدر تھا۔


میری تعمیر کا خیال پاکستان کے قیام کے بعد ابتدائی برسوں میں منصوبہ سازوں اور انجینئروں کے ذہنوں میں ابھرا۔ جگہ بالکل واضح تھی—یہاں پہاڑوں سے اُترتا ہوا سندھ دریا ایک قدرتی مقام فراہم کرتا تھا جہاں پانی کو زرعی اور برقی طاقت کے لیے قابو میں لایا جا سکتا تھا۔ میری تعمیر کے ابتدائی اشارے 1950 کی دہائی کے اوائل میں ملے، جب پاکستان نے آزادی کے بعد بڑے ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا۔ 1967 میں منگلا ڈیم بنا، 1976 میں تربیلا ڈیم تعمیر ہوا، اور اس کے بعد دریائے سندھ پر کالا باغ کو اگلے بڑے ذخیرے کے طور پر منتخب کیا گیا۔ میرا مقدر نقشوں، تخمینوں اور وعدوں میں لکھا جا چکا تھا۔ 1977 تک میری فزیبلٹی رپورٹ مکمل ہو چکی تھی اور عالمی بینک کے ”انڈس اسپیشل اسٹڈی گروپ” نے میری منظوری دے دی تھی۔
ابتدائی طور پر میری تعمیر کا تخمینہ تقریباً 6.12 ارب ڈالر لگایا گیا تھا، جسے چھ برسوں میں—1977 سے 1982 تک—مکمل ہونا تھا۔ میری پیداوار کا اندازہ 3,500 سے 3,600 میگاواٹ لگایا گیا، اور بجلی کی لاگت محض 1.5 روپے فی یونٹ ہونی تھی، جبکہ تھرمل ذرائع سے وہی بجلی 16 سے 16.5 روپے فی یونٹ پر آتی۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان کے مستقبل میں کی جا رہی تھی، کیونکہ میری نہریں لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرتیں اور میرے ٹربائن سستی ترین بجلی پیدا کرتے۔ اندازہ یہ تھا کہ میں سات برسوں میں مکمل ہو جاؤں اور 1970 کی دہائی کے وسط تک پاکستان میری برکات سے فیضیاب ہو۔


لیکن افسوس، تاریخ کبھی انجینئر کے نقشے کی لکیروں پر نہیں چلتی۔ میری کہانی، جو ترقی کی ہونی چاہیے تھی، سیاست اور بداعتمادی میں الجھ گئی۔ صوبے میرے معاملے پر آپس میں دست و گریبان ہو گئے۔ سندھ کو خوف تھا کہ میرا ذخیرہ ان کے کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی سندھ دریا کو پی جائے گا۔ خیبرپختونخوا نے اپنی زمینوں اور لوگوں کے بے دخل ہونے پر اعتراض کیا۔ حتیٰ کہ پنجاب، جس کے دامن میں میں واقع ہوں، بھی یہ الزام نہ دُور کر سکا کہ فائدہ صرف اُسے ہوگا۔ یوں میں اتحاد کی علامت بننے کے بجائے اختلاف کی علامت بن گیا۔ حکمران ہچکچاتے رہے، فائلیں گرد چاٹتی رہیں، اور دہائیاں گزر گئیں مگر دریا ویسے ہی بہتا رہا، بے قابو اور بے مصرف۔
انتظامی طور پر بھی میری تعمیر رُکی رہی۔ آنے والی حکومتوں میں تسلسل کی کمی رہی۔ وعدے کیے گئے، کمیٹیاں بنیں، لیکن عمل کے وقت ووٹ کھونے کے خوف نے حکمرانوں کو مفلوج کر دیا۔ تیل کی کمپنیوں نے بھی مجھے اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ کیونکہ اگر میں تعمیر ہو جاتا تو 3,600 میگاواٹ سے زائد سستی اور صاف بجلی پیدا کرتا اور پاکستان کی تیل کی درآمدات پر انحصار کم کر دیتا۔ ان کمپنیوں کا منافع پاکستان کے فرنس آئل پر انحصار میں تھا، میرے پانیوں میں نہیں۔


اگر میں اپنے وقت پر تعمیر ہو جاتا تو میں 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر سکتا تھا—ایسا پانی جو ملک کو خشک سالیوں سے بچاتا، قحط کے مہینوں میں نہروں کو بھر دیتا اور طغیانی کے موسم میں سیلابوں کے خلاف ڈھال بنتا۔ جو بجلی میں پیدا کرتا وہ دنیا کی سستی ترین بجلی میں شمار ہوتی، صنعتوں کو سہارا دیتی، گھروں کو روشن کرتی، اور اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچاتی۔ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میرے نہ بننے کی وجہ سے پہلے ہی 100 ارب ڈالر سے زیادہ کھو چکا ہے—فصلوں کی بربادی، بجلی کی قلت، مہنگی تیل درآمدات، اور بار بار آنے والی سیلابی تباہ کاریوں کی صورت میں۔


آج، میری پیدائش کے خیال کو پچاس برس سے زیادہ بیت چکے ہیں، مگر میری کہانی حسرت اور آرزو کی ہے۔ میری تعمیر کی لاگت اب بڑھ کر 20 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی ہے، شاید اس سے بھی زیادہ۔ جہاں کبھی سات برس کافی تھے، اب دس یا اس سے بھی زیادہ لگیں گے، کیونکہ مسائل کئی گنا بڑھ چکے ہیں، آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے، اور پانی و توانائی کی مانگ نکتہ عروج پر ہے۔ پھر بھی آج بھی میرے ثمرات میرے اخراجات سے کہیں زیادہ ہیں۔ میں اب بھی پاکستان کی توانائی کی سلامتی، غذائی خود کفالت، اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف ڈھال ہوں۔


میں عام آدمی کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا، جو پانی کو ترستا ہے اور لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں ٹھٹھر رہا ہے۔ میں اُن لوگوں کو بھی قصوروار نہیں مانتا جو بے دخلی سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ اُن کے خدشات جائز ہیں اور اُنہیں منصفانہ حل ملنا چاہیے۔ مگر میرا دکھ یہ ہے کہ بعض سیاسی رہنما وقتی فائدوں میں بندھ گئے اور صوبوں کو اُس ویژن پر یکجا نہ کر سکے جو قوم کے مستقبل کی ضمانت ہوتا۔ میری آواز نعروں میں دب گئی، میری تصویر متنازع بنا دی گئی، اور دریا آج بھی سمندر کی طرف بہہ رہا ہے—انمول مگر غیر استعمال شدہ۔


اگر آج آپ میرے مقام کالا باغ پر کھڑے ہوں تو آپ کو کچھ نظر نہیں آئے گا سوائے اس دریا کے جو صدیوں سے یوں ہی بہہ رہا ہے، اپنے ساتھ ایک قوم کی ضائع شدہ صلاحیت کو بہا لے جاتا ہے۔ لیکن اگر کبھی جُرأت خوف پر، حکمت سیاست پر، اور اتحاد تقسیم پر غالب آ گیا، تو شاید میں آخرکار اُٹھ کھڑا ہوں—دریا کے سامنے کنکریٹ کی ایک دیوار، عوام کے لیے روشنی کا چراغ، اور ایک یادگار جو انتشار کی نہیں بلکہ کھوئے ہوئے وقت کی تلافی کی علامت ہو۔ اُس دن تک، میں صرف رپورٹوں اور مباحثوں میں بیان کی جانے والی کہانی ہوں، ایک نامکمل وعدہ، ایک ٹلا ہوا خواب—مگر کبھی مردہ نہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیل کو اپنے کئے کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا؛ دوحہ اجلاس سے قبل قطری وزیراعظم کا بیان قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا پاکستان: عالمی افق پر ابھرتی طاقت پاکستانی فضائیہ: فخرِ ملت، فخرِ وطن انقلابِ قرض سے آزادی: خودمختاری کے نئے باب کی جانب یوم دفاع TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • جیکب آباد ،8 گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ ،شہر تاریکی میں ڈوبا رہا
  • کراچی سمیت ملک بھر کے صارفین کےلئے بجلی مہنگی کرنے کی تیاری
  • ماحول دوست ٹرانسپورٹ کی طرف قدم، مریم نواز کا وزیرآباد میں الیکٹرک بس سروس کا افتتاح
  • وزیراعلیٰ پنجاب سرگودہا میں الیکٹرک بس سروس کا افتتاح 19 ستمبرکو کریں گی، کمشنر
  • وزیرآباد میں پہلی بار الیکٹرک بس سروس کا آغاز،گوجرانوالہ میٹروبس منصوبہ جلد شروع ہوگا،مریم نواز
  • 20 سال میں ریلوے کا زوال، ٹرینوں کی تعداد آدھی رہ گئی، سیکرٹری ریلوے کا انکشاف
  • حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے خلاف نیپرا کا ایکشن: کروڑوں روپے جرمانہ عائد
  • کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی
  • عامر خان کی سابقہ اہلیہ کرن راؤ کی فلم ‘دھو بی گھاٹ’ کے بعد طویل تاخیر کیوں ہوئی؟ اداکار نے بتا دیا
  • میجر عدنان کی شہادت پر اہل خانہ کو فخر، پورے پاکستان کے بیٹے تھے: سسر