شاہوں کے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں!
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
ایک شاہ کا فیصلہ
1996ء کی بات ہے، سپریم کورٹ میں ’الجہاد ٹرسٹ بنام وفاقِ پاکستان‘ کے عنوان سے ایک بہت اہم مقدمے میں یہ سوال زیرِ بحث تھا کہ اگر اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی وزیرِ اعظم کی مرضی سے ہو، تو کیا اس سے عدلیہ کی آزادی کا اصول متاثر نہیں ہوتا، اور اگر ہوتا ہے تو جو آئینی دفعات بظاہر وزیرِ اعظم کو یہ اختیار دیتی ہیں، ان کی تعبیرِ نو کیسے کی جائے؟
ایک سوال یہ بھی تھا کہ آئین میں یہ تو لکھا ہوا موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں سب سے سینئر جج کو قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر تعینات کیا جائے گا، لیکن کیا مستقل چیف جسٹس کے لیے بھی سب سے سینئر جج ہونا ضروری ہے؟
سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ آئین میں چونکہ یہ لکھا ہے کہ صدر ججوں کی تعیناتی چیف جسٹس کی ’مشاورت‘ سے کرے گا، اس لیے عدلیہ کی آزادی کے اصول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے قرار دیا جاتا ہے کہ یہاں ’بامعنی مشاورت‘ مراد ہے اور صدر بغیر کسی ٹھوس وجہ کے، جسے تحریر میں لانا ضروری ہے، چیف جسٹس کی جانب سے نامزدگی کو مسترد نہیں کرسکتا۔ سپریم کورٹ نے مزید یہ قرار دیا کہ قائم مقام چیف جسٹس کی طرح مستقل چیف جسٹس کا بھی سب ججوں میں سینئر ہونا لازم ہے۔
اس فیصلے نے ایسی ہلچل مچادی جس کا اثر 3 عشروں کے بعد آج بھی نظر آتا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیرِ اعظم تھیں۔ انھوں نے پارلیمان کے اجلاس میں اس فیصلے کو ججوں کی جانب سے ’آئین سازی‘ قرار دیا۔ تاہم سب سے دلچسپ تبصرہ ایک سابق چیف جسٹس کا تھا جنھوں نے صحافیوں کے پوچھنے پر کہا کہ ’شاہوں کے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں!‘
اس جملے میں شوخی کے علاوہ ایک نوع کی تعلّی بھی تھی کیونکہ یہ چیف جسٹس خود بھی ایک ’شاہ‘ تھے اور 3 سال قبل انھوں نے بھی ایک فیصلہ سنایا تھا جس سے اچھی خاصی تھرتھلی مچی تھی۔ وہ فیصلہ میاں نواز شریف کی بطورِ وزیرِ اعظم بحالی کا تھا۔
ایک اور شاہ کا فیصلہ
صدر غلام اسحاق خان 1990ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کرچکے تھے۔ لاہور ہائیکورٹ سے بات سپریم کورٹ تک پہنچی، لیکن حکومت بحال نہیں ہوسکی اور نئے انتخابات کرانا پڑے۔ تاہم جب 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے یہی حرکت دہرائی اور میاں نواز شریف کی حکومت ختم کی، تو ایک تو مقدمہ براہِ راست سپریم کورٹ نے سنا اور پھر سن کر نواز شریف کی حکومت بحال بھی کردی۔ شاہوں کے فیصلے ایسے ہی تو ہوتے ہیں!
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر ایک شاہ صاحب، جو چیف جسٹس تھے، حکومت بحال کرنے کے حق میں تھے؛ اور دوسرے شاہ صاحب، جو جج تھے، حکومت بحال کرنے کے خلاف تھے۔ یہ مخالفت والی بات بھلا میاں نواز شریف کیسے بھول سکتے تھے!
دوسرے شاہ اپنے فیصلے کی زد میں!
1997ء میں میاں نواز شریف کی دوسری حکومت بننے کے کچھ ہی عرصے بعد حکومت اور سپریم کورٹ کے تعلقات خراب ہوگئے جس میں ایک اہم سبب انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا۔ اس فیصلے کے کچھ ہی عرصے بعد سپریم کورٹ میں ججوں اور چیف جسٹس شاہ کے درمیان اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ بعض ججوں نے چیف جسٹس کو کام سے ہی روک دیا اور پھر ان کو چیف جسٹس کے عہدے سے ہی ہٹا دیا گیا۔ اس ہٹا دیے جانے کے لیے ’الجہاد ٹرسٹ مقدمے‘ میں شاہوں والا فیصلہ ہی استعمال کیا گیا کیونکہ شاہ صاحب خود ججوں میں سب سے سینئر نہ ہونے کے باوجود چیف جسٹس بنائے گئے تھے!
پہلے شاہ کا بھٹو کے عدالتی قتل میں حصہ
دوسروں کے لیے انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرتے ہوئے خود کو بھول جانے کی روش صرف دوسرے شاہ صاحب ہی کی نہیں تھی، بلکہ پہلے شاہ صاحب بھی اسی روش پر گامزن رہے تھے۔ ان کے اس دہرے معیار کی سب سے بڑی مثال ان کا وہ فیصلہ تھا جس کے ذریعے انھوں نے جناب ذو الفقار علی بھٹو کی سزائے موت یقینی بنا دی تھی۔ 3 جج بھٹو کو بری کرنے کے حق میں تھے، جبکہ 3 کے نزدیک ان کا جرم ثابت شدہ تھا اور جب شاہ صاحب بھی ان کے ساتھ ہوگئے، تو سزا دینے والوں کی تعداد 4 ہوگئی۔ یوں 3 کے مقابلے میں 4 کی اکثریت سے بھٹو کو مجرم قرار دے کر انھیں سزائے موت سنائی گئی۔ بعد میں شاہ صاحب نے ایک انٹرویو میں اقرار کیا کہ ان پر اس فیصلے کے وقت دباؤ تھا، لیکن کیا کریں کہ شاہوں کے فیصلے تو ایسے ہی ہوتے ہیں!
تیسرے شاہ کے تضادات
شاہوں کے ایسے فیصلوں اور ان میں تضادات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور آج بھی ایک شاہ صاحب اپنے ہی فیصلوں کا شکار نظر آتے ہیں۔
2023ء میں ججوں کی تعیناتی کے لیے آئینی ادارے جیوڈیشل کمیشن نے اپنے قواعد پر نظرِ ثانی کے لیے ایک کمیٹی شاہ صاحب کی سربراہی میں قائم کی۔ اس کمیٹی نے 2024ء میں نئے قواعد کا مسودہ تیار کیا، تو اس میں طے کیا کہ ہائیکورٹ میں سب سے سینئر جج کی چیف جسٹس کے طور پر تعیناتی ضروری نہیں ہے، بلکہ 3 سینئر ججوں میں کسی ایک کو چیف جسٹس بنانا چاہیے۔
جیوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں شاہ صاحب نے یہ بھی کہا کہ ضروری نہیں کہ جو اچھا جج ہو، وہ چیف جسٹس بھی بنے کیونکہ چیف جسٹس کے پاس انتظامی امور بھی ہوتے ہیں۔ یہ قواعد کبھی منظور نہیں ہوئے لیکن اس کے باوجود جب لاہور ہائیکورٹ کے لیے چیف جسٹس کی تعیناتی کا مسئلہ آیا، تو شاہ صاحب نے اس اصول پر عمل کرتے ہوئے 2 سینئر ججوں کو چھوڑ کر تیسرے نمبر پر موجود جج صاحبہ کو چیف جسٹس بنانے کے حق میں ووٹ دیا۔ چند ہی دنوں بعد آئین میں26ویں ترمیم کے ذریعے یہی اصول سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے طے کیا گیا اور خود شاہ صاحب اس کی زد میں آگئے!
مکمل انصاف یا عبوری انصاف
شاہوں کے فیصلے چونکہ مرضی کے فیصلے ہوتے ہیں، شاید اس لیے قانونی اصولوں کا یکساں اطلاق ان کے نزدیک غیر ضروری ہوتا ہے؛ جب مرضی ایک اصول لے لیا، پھر اسے چھوڑ کر ایک اور اصول لےلیا۔
مثلاً موجودہ شاہ صاحب نے پچھلے سال ایک فیصلے میں ’مکمل انصاف‘ کا اصول استعمال کرتے ہوئے اس سیاسی پارٹی کو داد رسی فراہم کی جو مقدمے میں عدالت کے سامنے بطورِ فریق آئی ہی نہیں تھی، اور ’مکمل انصاف‘ کی تلوار استعمال کرتے ہوئے شاہ صاحب نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ اس سیاسی پارٹی کو جو داد رسی وہ فراہم کررہے ہیں، اس کا اختیار ان کے پاس ہے بھی یا نہیں، نہ ہی انھوں نے یہ دیکھا کہ فیصلہ لکھ چکنے اور جاری کرچکنے کے بعد اس فیصلے کی وضاحت کے لیے ایک کے بعد دوسرا نوٹ وہ کس اختیار کے تحت جاری کرسکتے ہیں۔ تاہم اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات ان کے اس اضافی نوٹ میں سامنے آئی جو انھوں نے بھٹو کی سزائے موت کے متعلق صدارتی ریفرنس میں لکھا جس میں انھوں نے ’مکمل انصاف‘ کے بجائے ’عبوری انصاف‘ کا تصور استعمال کیا اور بتایا کہ جہاں آئین سے انحراف کی وجہ سے نظام قانون کے مطابق نہ چلایا جاسکتا ہو، وہاں عبوری انصاف پر عمل کیا جاتا ہے۔
ایسا لکھتے ہوئے وہ نہ صرف یہ بھول گئے کہ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل وہ مکمل انصاف کی بات کررہے تھے، بلکہ یہ بھی بھول گئے کہ جس وقت ان کے سامنے بھٹو ریفرنس آیا، اس وقت آئین سے انحراف کرنے والے جنرل ضیاء الحق کی موت کو 36 سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا، چنانچہ کم از کم اس معاملے میں انھیں عبوری انصاف کے بجائے مکمل انصاف کے اصول پر فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔
بحیثیت قانون کے ایک طالب علم کے، مجھے شاہ صاحب کے ان 2 فیصلوں سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کے نزدیک آج کے پاکستان میں ججوں کو مقدمے کے فریقوں کے ساتھ مکمل انصاف کرنا چاہیے یا عبوری انصاف پر ہی گزارا کرنا چاہیے؟
اسلامی قانون یا مغربی تصورات؟
یہ مخمصہ ایک اور بنیادی مسئلے میں بھی نظر آتا ہے۔ آئین کی رو سے پاکستان ایک ’اسلامی جمہوریہ‘ ہے اور یہاں کے تمام قوانین کو اسلامی احکام کے ساتھ ہم آہنگ کرنا لازم ہے۔ چنانچہ شاہ صاحب اس 10 رکنی اکثریت میں شامل تھے جس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے متعلق فیصلے (’راجا عامر بنام وفاقِ پاکستان‘) میں طے کیا تھا کہ جب کسی قانون کی 2 تعبیرات ممکن ہوں، تو عدالت پر وہ تعبیر اختیار کرنا لازم ہے جو اسلامی احکام سے ہم آہنگ ہو۔ پھر جب ایک اور مقدمے میں تاحیات نا اہلی کا سوال شاہ صاحب کے سامنے آیا، تو انھوں نے ایک بار پھر اس اصول کی تصریح کی اور عدالتوں پر اس کی پابندی لازم ٹھہرائی (’حمزہ رشید خان بنام الیکشن اپیلیٹ ٹریبیونل‘)۔
تاہم چیف جسٹس کے عہدے سے محرومی کے بعد ان کے فیصلوں میں مسلسل اس اصول کی خلاف ورزی نظر آرہی ہے۔ یہ خلاف ورزی خاندان سے متعلق مقدمات اور شخصی امور میں بھی نظر آتی ہے حالانکہ ایسے مقدمات کے لیے تو نہ صرف مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلی کیشن ایکٹ کی دفعہ 2 کے تحت شریعت ہی ’فیصلے کا قانون‘ ہے، بلکہ آئین کی دفعہ 227 کی توضیح کے تحت مسلمانوں کے شخصی قانون کو ایسا آئینی تحفظ حاصل ہے کہ وفاقی شرعی عدالت بھی اس میں مداخلت نہیں کرسکتی، جیسا کہ سپریم کورٹ ہی ’ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل مقدمے‘ میں طے کرچکی ہے۔
اس کے باوجود ایسے کئی مقدمات میں شاہ صاحب نے اسلامی قانون کا یا تو، محض بھرتی کے لیے، سرسری حوالہ دیا، یا سرے سے حوالہ ہی نہیں دیا اور اس کے بجائے بین الاقوامی معاہدات کی دفعات اور مغربی دانشوروں کے تصورات نقل کرکے انھیں پاکستان کے قانونی نظام کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔ ایسا کرتے ہوئے شاہ صاحب یہ اصول بھی بھول جاتے ہیں کہ پاکستان ایک dualist ملک ہے جس میں بین الاقوامی معاہدات کی دفعات کو عدالت نافذ نہیں کرسکتی جب تک ان دفعات کو باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے ملکی قانونی نظام میں سمویا (incorporate) نہ جائے۔ سوال یہ ہے کہ شاہ صاحب ایسا کیوں کررہے ہیں؟ یا شاہوں کے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں؟
ہمارے عدالتی نظام میں ایک اور شاہ بھی ہیں لیکن وہ فیصلے کرنے سے زیادہ فیصلے نہ کرنے اور انھیں لٹکائے رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ مناسب موقع آنے پر مفید ہوا تو یوں فیصلہ کرلیں، ورنہ ووں کرلیں گے؛ اور مناسب موقع نہ ہو، تو سرے سے فیصلہ ہی نہیں کریں گے۔ان کے کیے گئے اور لٹکائے گئے فیصلوں پر ٍالگ سے بات کی ضرورت ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
محمد مشتاق احمد.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: محمد مشتاق احمد میاں نواز شریف کی ایسے ہی ہوتے ہیں بین الاقوامی عبوری انصاف چیف جسٹس کی چیف جسٹس کے شاہ صاحب نے حکومت بحال مکمل انصاف کی تعیناتی سپریم کورٹ کرتے ہوئے اس فیصلے انھوں نے ایک اور ججوں کی میں شاہ کے ساتھ کورٹ کے یہ بھی کے بعد کے لیے
پڑھیں:
فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ عدالتیں اب انصاف دینے کی اہلیت کھو چکیں
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 جولائی2025ء) 9 مئی کیس کے فیصلے پر پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ عدالتیں اب انصاف دینے کی اہلیت کھو چکیں، انصاف اب صرف طاقتور طبقے کے لیے ہے، جبکہ عدالتوں کو عوام اور تحریک انصاف کو دبانے، رسوا کرنے اور ختم کرنے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سرگودھا کی عدالت کی جانب سے 9 مئی کیسز میں تحریک انصاف کے رہنماوں اور کارکنان کو سزائیں سنائے جانے کے فیصلے پر پی ٹی آئی کی جانب سے ردعمل دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے سرگودھا میں پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کو 10 سال سزا سنانے پر ردعمل میں کہا ہے کہ "یہ فیصلہ نہ صرف انصاف کے تمام اصولوں کی کھلی توہین ہے بلکہ ایک منتخب جمہوری جماعت کو طاقت کے زور پر کچلنے کی کھلی کوشش ہے۔(جاری ہے)
فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ عدالتیں اب انصاف دینے کی اہلیت کھو چکی ہیں۔ انصاف اب صرف طاقتور طبقے کے لیے ہے، جبکہ عدالتوں کو عوام اور تحریک انصاف کو دبانے، رسوا کرنے اور ختم کرنے کا ذریعہ بنایا جا رہا ہے۔
" واضح رہے کہ 9 مئی کے مقدمہ میں سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بچھر کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، سزا کی وجہ سے ممکنہ طور پر ان کی نااہلی ہوگی جس کے نتیجے میں وہ ڈی سیٹ ہو جائیں گے اور یہ نشست خالی ہو جائے گی۔ بتایا گیا ہے کہ موسیٰ خیل میانوالی پولیس سٹیشن کے نو مئی کے کیس میں انسداد دہشت گردی سرگودھا نے اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی سے متعلقہ 32 ملزمان کو بھی دس دس سال قید کی سزا سنا دی۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت بھی نو مئی کے واقعات سے متعلق ایک مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی عبدالطیف، سابق رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ کیلاشی سمیت 11 افراد کو 10 سال قید کی سزائیں سنا چکی ہے، اس کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج طاہر عباس سپرا نے یہ سزائیں تھانہ رمنا پر حملے کے مقدمے میں سنائیں جو 10 مئی 2023 کو درج کیا گیا تھا۔ بتایا جارہا ہے کہ عدالت نے غیر حاضر ملزمان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے، فیصلے کے بعد پولیس نے عدالت میں موجود چار ملزمان سہیل خان، میرا خان، محمد اکرم اور شاہ زیب کو تحویل میں لے لیا، عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’ملزمان نے تھانہ رمنا پر حملہ کرتے ہوئے فائرنگ اور پتھراؤ کیا، پولیس اہلکاروں کو مارنے کی کوشش کی اور اپنے مقاصد کے لیے موٹر سائیکلوں کو آگ لگائی، ملزمان کے خلاف 24 گواہان نے بیانات قلم بند کروائے‘۔ معلوم ہوا ہے کہ فیصلے میں مختلف جرائم پر سزاؤں کی تفصیل بھی دی گئی جن میں پولیس پر قاتلانہ حملے پر 5 سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ، موٹر سائیکل جلانے پر 4 سال قید اور 40 ہزار روپے جرمانہ، تھانہ جلانے کے جرم پر 4 سال قید اور 40 ہزار روپے جرمانہ شامل ہے، اس کے علاوہ پولیس کے کام میں مداخلت پر 3 ماہ قید، دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر ایک ماہ قید، مجمع بنا کر جرم کرنے پر 2 سال قید اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت 10 سال قید اور 2 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔