اسلام آباد:

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ ایٹمی طاقت بننا محض ہماری تکنیکی ترقی کا مظہر نہیں تھا بلکہ ایٹمی طاقت کا حصول قوت کے ذریعے امن قائم رکھنے کا دانشمندانہ فیصلہ تھا۔

اپنے پیغام میں صدر نے کہا کہ یوم ِتکبیر کے اہم موقع پر پوری قوم کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں، آج ہم نے اپنی جوہری صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تزویراتی دفاعی طاقت حاصل کی۔ آج ہم ملکی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کا عزم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایٹمی پروگرام سے منسلک سائنسدانوں، انجینئرز اور سول اور فوجی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے پر شہید ذوالفقار علی بھٹو کو خراج ِتحسین پیش کرتے ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی سرپرستی میں ہمارا ایٹمی پروگرام مزید آگے بڑھا اور مضبوط ہوا۔

آصف علی زرداری نے کہا کہ بدلتی علاقائی سلامتی کی صورت حال میں ہماری جوہری طاقت ایک قابل اعتبار کم از کم دفاعی صلاحیت ہے۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت امن کی ضامن ہے جو اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ کوئی ہماری خودمختاری اور قومی سلامتی کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں، پرامن بقائے باہمی اور عالمی قوانین کے احترام کے اصولوں پر کاربند ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ حالیہ بلا اشتعال بھارتی جارحیت کے پیش نظر پاکستان نے تزویراتی تحمل اور امن کے عزم کا مظاہرہ کیا۔ آپریشن بُنیانُ مَّرصوص کے تحت ہمارے نپے تلے اور مؤثر ردِ عمل نے دشمن کو اپنی معاندانہ کارروائیاں بند کرنے پر مجبور کیا۔ یومِ تکبیر پر ایک بار پھر عہد کریں کہ ملکی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا تحفظ کریں گے۔

وزیراعظم کا پیغام

وزیراعظم شہبازشریف نے یوم تکبیر کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ میں آج کے دن پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے پوری قوم، پاکستان سے محبت کرنے والوں کو یوم تکبیر کی مبارک باد پیش کرتا ہوں کیونکہ آج سے 27 برس قبل پاکستان کو دنیا کی ساتویں اور مسلمان ممالک میں پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس بار پاکستان 'یومِ تکبیر' ایک اہم اور تاریخی موقع پر منارہا ہے جب بھارت کی مسلط کردہ بلاجواز جنگ میں، پاکستان اللہ تعالی کے فضل وکرم سے 6 سے 10 مئی کے معرکہء حق میں سرخرو اور فتح یاب ہوا۔

وزیراعظم نے کہا کہ فتح مبین سے سرشار قوم کے لیے یوم تکبیر کی مسرتوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، جس پر ہم رب ِعظیم کے حضور سجدہ شکر ادا کرتے ہیں جس نے ہمیشہ پاکستانی قوم کو اپنے خصوصی کرم سے سرفراز فرمایا ہے۔

شہباز شریف نے بتایا کہ مئی 1998 میں پوکھران میں بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کی سلامتی، دفاع اور خودمختاری کے لئے چیلنج پیدا کردیا تھا، جس پر میرے قائد اور اُس وقت کے وزیراعظم محمد نوازشریف نے پوری قوم کی امنگوں اور قومی مفادات کی ترجمانی کی، اقتصادی پابندیوں، دباﺅ، دھمکیوں اور لالچ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، 1998 میں بھارت کے پانچ کے مقابلے میں چھ دھماکے کرکے پاکستان کو ایٹمی ملک اور جغرافیائی سرحدوں کو ہمیشہ کے لئے ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم ،ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک جنہوں نے اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا انہیں ہمیشہ سنہری حروف میں یاد رکھے گی۔ بلوچستان میں چاغی کے پہاڑوں سے اللہ اکبر کی بلند ہونے والی صَدا آج بھی پاکستانی قوم کا عہد بن کر گونج رہی ہے اور اس مقصد کے لئے پورا پاکستان متحد تھا ۔ یہی شاندار روایت بھارت کے حالیہ بلا جواز حملوں کے خلاف قوم نے ایک مرتبہ پھر دہرائی۔

وزیراعظم نے کہا کہ آج کے یومِ عظیم پر میں، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے والے ذوالفقارعلی بھٹو، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سائنسدانوں، انجینئرز ، افواج پاکستان اور قومی اداروں سمیت اس پروگرام میں اپنا حصہ ڈالنے والے تمام معماروں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ میں قوم کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے جوہری پروگرام کی تکمیل کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں اور اپنے عزم وہمت کی قابل فخر داستان لکھی۔ میں اپنی مسلح افواج کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کی بھرپور حفاظت کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ یوم تکبیر، بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کے اُس عہد کا تسلسل ہے جس کے تحت پاکستان جیسی عظیم مملکت خداداد وجود میں آئی۔ قومی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی عوام اور سیاسی قیادت نے اپنے آہنی ارادوں اور ہماری بہادر مسلح افواج نے اپنی دلیری، شجاعت اور عسکری مہارت سے ہمیشہ ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اورسنگین ترین مشکلات کا سینہ چیر کر مقصد کو پالینے کا جذبہ ہی پاکستان کی اصل قوت ہے ۔

شہباز شریف نے مزید کہا کہ یوم تکبیر قوم کے اتحاد اور اپنی آزادی وخودمختاری پر سمجھوتا نہ کرنے کے اعلان کا دِن ہے ۔ آج کے دن ہم عہد کرتے ہیں کہ پاکستان کو ایک معاشی قوت اور اور دنیا میں پاکستان کو اُس کا حقیقی مقام دلائیں گے۔ انشاءاللہ

چیئرمین پیپلز پارٹی

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے یوم تکبیر کے موقع پر ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے والے سائنسدانوں، انجینئرز، مسلح افواج اور دور اندیش سیاسی قیادت کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے، بالخصوص پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے جنہوں نے عالمی دباؤ اور مخالفت کے باوجود پاکستان کے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی۔

میڈیا سیل بلاول ہاؤس سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق، پی پی پی چیئرمین نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ یومِ تکبیر صرف فخر کا دن نہیں بلکہ ہماری قوم کے اس غیر متزلزل عزم کی علامت ہے کہ ہم اپنی خودمختاری، وقار اور مستقبل کے تحفظ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب ایک قوم متحد ہو، اس کی قیادت دوراندیش ہو، سائنسی برتری سے مضبوط ہو اور اپنی بہادر افواج کی حفاظت میں ہو، تو وہ ہر چیلنج کا مقابلہ کر سکتی ہے اور اپنے مقدر کو وقار اور قوت کے ساتھ اپنی تقدیر خود لکھ سکتی ہے۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی دور اندیشی اور بے مثال جرات تھی جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا خواب دکھایا اور اس کے لیے عملی بنیاد فراہم کی۔ انہوں نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کیا جنہوں نے اپنے ادوارِ حکومت میں دانائی اور بصیرت کے ساتھ جوہری پروگرام کو محفوظ رکھا اور اس کی پیشرفت کو یقینی بنایا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا ایٹمی دفاع ان شہداء کی امانت اور ان کی بے مثال قربانیوں کی علامت ہے، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک مضبوط ڈھال ہے۔ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس کے پیچھے کتنی جدوجہد اور قربانیاں ہیں۔

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ ایک مضبوط، خوددار اور محفوظ پاکستان کے لیے کھڑی رہی ہے اور کھڑی رہے گی، نہ صرف عسکری طاقت میں بلکہ معیشت، جمہوریت اور سماجی انصاف کے محاذ پر بھی۔

شرجیل میمن

یومِ تکبیر کے موقع پر سندھ کے سینیئر وزیر شرجیل انعام میمن نے اپنے پیغام میں کہا کہ 28 مئی ہماری قومی تاریخ کا وہ سنہری دن ہے جب پاکستان نے دنیا کو پیغام دیا کہ ہم خودمختار اور ناقابلِ تسخیر قوم ہیں۔ آج کا دن ہمارے لیے فخر کا دن ہے، جب پاکستان پہلی اسلامی ایٹمی قوت کے طور پر سامنے آیا۔

شرجیل انعام میمن نے کہا کہ یومِ تکبیر کے عظیم موقع پر شہید ذوالفقار علی بھٹو کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، جنہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ عالمی دباؤ اور شدید مخالفت کے باوجود، شہید بھٹو نے ثابت قدمی، دور اندیشی اور جرات مندی سے پاکستان کو دفاعی لحاظ سے ناقابلِ شکست بنانے کی راہ ہموار کی۔

انہوں نے کہا کہ شہید بھٹو کا یہ تاریخی جملہ کہ ’’ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے‘‘ آج بھی ہماری قومی غیرت اور خودداری کی پہچان ہے۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کے وژن کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک کو جدید میزائل ٹیکنالوجی سے بھی آراستہ کیا۔

شرجیل میمن نے کہا کہ پاکستان کے دفاعی نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں شہید بھٹو اور شہید بی بی کا کردار انتہائی کلیدی اور ناقابلِ فراموش ہے۔ شہید بھٹو کی قیادت میں پاکستان نے ایک ایسا خواب حقیقت میں بدلا جو آج ہماری سلامتی کی ضمانت ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب

وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے یوم تکبیر پر پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ 27 سال گزر گئے مگر آج پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند ہے اور سر بلند رہے گا۔ دشمن پاکستان کی سرزمین کی طرف میلی نظر سے دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی قوت بننا پوری امت مسلمہ کا فخر ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کو پوری دنیا میں پہلی مسلمان ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔

مریم نواز نے کہا کہ 10 مئی کی فتح کی بنیاد 28مئی 1998ء کو رکھی گئی، 28 مئی کو چاغی کے پہاڑوں میں لگائے نعرہ تکبیر کی گونج آج بھی وطن عزیز کی فضاؤں میں موجود ہیں۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ قوم آج بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کی ممنون ہیں، دشمن کو جب بھی منہ توڑ جواب ملا، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ ایٹمی دھماکے پرامن اور محفوظ پاکستان کی ضمانت ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شہید ذوالفقار علی بھٹو پروگرام کی بنیاد انہوں نے کہا کہ اپنے پیغام میں ایٹمی پروگرام پاکستانی قوم بھٹو کو خراج پاکستان کو ا پیش کرتا ہوں پاکستان کے کہ پاکستان ایٹمی طاقت نے پاکستان پاکستان کی کہا کہ یوم ایٹمی قوت شہید بھٹو یوم تکبیر تحسین پیش تکبیر کے جنہوں نے کرتے ہیں نے اپنے شریف نے ہے اور آج بھی کے لیے

پڑھیں:

مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-8

 

شاہنواز فاروقی

انسانی زندگی میں مسرت کی اہمیت اتنی بنیادی ہے کہ مسرت کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کی تمام تگ و دو مسرت کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ انسان دولت کمانا چاہتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ مسرت حاصل کر سکے۔ انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے تا کہ خوش ہو سکے۔ انسان عہدے اور منصب کا طالب ہوتا ہے تا کہ انبساط محسوس کر سکے۔ انسان فتح مند ہونا چاہتا ہے تا کہ شادمانی اس کے قدم چوم سکے۔ غرضیکہ مسرت پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ عصر حاضر کے سب سے اہم ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اگرچہ انسانی فطرت میں اذیت پسندی اور تباہی و بربادی کے رجحانات بھی دریافت کیے ہیں لیکن اس نے بھی انسان کے بارے میں بنیادی بات یہی کہی ہے کہ انسان کی شخصیت مسرت مرکز یا Pleasure Centric ہے۔ کارل مارکس نے سوشلسٹ انقلاب کا تصور پیش کیا لیکن سوشلزم مارکس کی فکر کا ایک مرحلہ تھا۔ مارکس کا خیال یہ تھا کہ انسانی تاریخ کا سفر سوشلزم سے آگے بڑھے گا تو کمیونزم سوشلزم کی جگہ لے لے گا، اور اس مرحلے میں جبر کی تمام صورتیں معاشرے سے ختم ہو جائیں گی، یہاں تک کہ ریاست کا ادارہ بھی تحلیل ہو جائے گا، معاشرہ چھوٹے چھوٹے گروہوں یا ’’کمیونز‘‘ میں تبدیل ہو جائے گا، لوگوں کی ضروریات کم ہوں گی اس لیے وہ کام بھی کم کریں گے اور زیادہ وقت ایسی سماجی و ثقافتی سرگرمیوں میں صرف کریں گے جن سے انہیں زیادہ سے زیادہ ’’مسرت‘‘ حاصل ہو سکے۔ مارکس کے یہ تصورات خواب و خیال ثابت ہوئے، انسانی تاریخ کبھی کمیونزم کے عہد میں داخل نہ ہو سکی اور سوشلزم کمیونزم کے لیے راہ ہموار کرنے سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ لیکن بہر حال کارل مارکس کا مثالی معاشرہ مسرت کے حصول کو سب سے بڑا مثالیہ یا Ideal سمجھتا تھا۔ تاہم مسرت کا تصور ہمیشہ تصویر انسان اور تصور کائنات سے ماخوذ رہا ہے۔

انسانی تاریخ میں نمرود اور فرعون صرف انکار حق اور باطل کی علامت نہیں ہیں، وہ مادّی مسرت کی بھی علامت ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ انسان اور کائنات کو محض ایک مازی حقیقت سمجھتے تھے اور ان کی زندگی میں صرف دو چیزوں کی اہمیت تھی: ایک طاقت اور دوسری دولت۔

چنانچہ ان کی تمام مسرتیں طاقت اور دولت سے متعلق تھیں۔ ان کے لیے انسان پر حکم چلانے میں ایک لطف تھا، ان کے لیے انسان کو غلام بنانے میں ایک لذت تھی، ان کے لیے دولت اور اس کے مظاہر کی تخلیق میں ایک مسرت تھی، ان کے نزدیک زندگی صرف دنیا تک محدود تھی، مرنے کے بعد کسی زندگی کا کوئی وجود نہیں تھا، چنانچہ ان کے نزدیک ہر لمحے کو مادّی مسرت میں ڈھال لینا ہی سب سے بڑی عقل مندی تھی۔ اس کے برعکس مذہب کا تصور یہ تھا کہ انسان اول و آخر ایک روحانی حقیقت ہے۔ بلا شبہ انسان ایک جسم بھی ہے، اور جسم کی جسمانی ضروریات بھی ہیں، مگر یہ ضروریات روحانی دائرے کے اندر ہیں، اس سے باہر نہیں ہیں۔ اس طرح مذہب کائنات کو اس کی مادی حقیقت سے آگے بڑھ کر بیان کرتا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ کائنات اللہ کی لاتعداد نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ مذہب کے دائرے میں آخرت کا تصور مسرت کے تصور کو ایک جانب زمین سے اْٹھا کر آسمان پر پہنچا دیتا ہے، دوسری جانب وہ مسرت کو عارضی کے بجائے مستقل بنا دیتا ہے، اور تیسری جانب وہ مسرت کو ایسی جامعیت عطا کرتا ہے جو روح نفس اور جسم پر محیط ہے۔

رسول اکرمؐ کے عہد میں اگر چہ عرب کفر اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن ان میں سے اکثر کا کفر اور شرک ان کی فطرت کی کجی کا نہیں، ان کے ماحول کے جبر کا نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مسرت کا تصور طاقت اور دولت سے آگے جاتا تھا۔ عرب اپنے تمام تر کفر اور شرک کے باوجود خانہ کعبہ کی بڑی تکریم کرتے تھے اور اس کی دیکھ بھال کو بڑا شرف جانتے تھے۔ ان کے نزدیک خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کے طواف کے لیے آنے والے بڑے محترم ہوتے تھے اور ان کی خبر گیری انہیں بہت عزیز تھی۔ عرب بلا کے مہمان نواز تھے۔ ان کی سخاوت کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کے یہاں پناہ کا تصور اتنا مکرم تھا کہ وہ اپنے عزیز ترین شخص کے قاتل کو بھی مخصوص مدت کے لیے پناہ دے دیتے تھے۔ ان کے نزدیک شعر کہنے، شعر سننے اور شعر یاد رکھنے میں کسی بھی چیز سے بڑھ کر مسرت تھی۔ وہ قصیدے کہنے والے شاعروں کے لیے خزانے کا منہ کھول دیتے تھے۔ ان کے نزدیک خطابت بڑا فن تھا اور اس کی مسرت بے پناہ تھی۔ دوستوں کے لیے جان دے دینا اور ان کے لیے جان لے لینا ان کا معمول تھا اور اس میں ان کے لیے بڑے معنی تھے۔ ان کے نزدیک شجاعت ایک اعلیٰ ترین انسانی قدر تھی اور اس کی پاسداری میں ان کے لیے بڑے معنی اور بڑا لطف تھا۔ یہ ساری خوبیاں عربوں میں اس لیے تھیں کہ رسول اکرمؐ کو ان کے درمیان آنا تھا۔ آپ تشریف لائے اور آپ نے وحی اور اسوہ حسنہ کی قوت اور جمال سے ماحول کے جبر کو توڑ دیا۔ چنانچہ کفر اور شرک کی ضلالت ختم ہو گئی اور بدترین لوگ بھی انسانی تاریخ کے بہترین لوگ بن گئے۔ کم لوگ ایسے تھے جو سلیم الفطرت نہیں تھے، وہ یا تو غزوات میں مارے گئے یا دارالسلام سے فرار ہو گئے، یا پھر معاشرے میں نا قابل اثر بن کر رہ گئے۔

انسانی تاریخ میں ہمارے عہد کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس عہد میں کفر اور اس سے پیدا ہونے والی مادیت جتنی ’’مدلل‘‘ بنی، اس سے پہلے تاریخ میں بھی نہیں بنی تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جدید نفسیات نے کہا کہ انسان ایک مادی حقیقت ہے، حیاتیات نے کہا کہ انسان ایک مادّی شے ہے، طبیعیات نے کہا کہ انسان ایک مادّی چیز ہے… غرضیکہ علم کی کوئی ایسی شاخ نہیں ہے جس نے انسان اور کائنات کو مادیت سے آگے پہچانا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسرت کا تصور مادی امور تک محدود ہو گیا۔ انسانوں نے کہا کہ اصل چیز سرمایہ ہے، چنانچہ انہوں نے اس بنیاد پر پوری انسانیت کو تقسیم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جس کے پاس سب سے زیادہ سرمایہ ہے وہ پہلی دنیا ہے، ترقی یافتہ دنیا ہے۔ جس کے پاس اس سے کم سرمایہ ہے وہ دوسری دنیا ہے، ترقی پذیر دنیا ہے۔ جس کے پاس سب سے کم سرمایہ ہے وہ تیسری دنیا ہے، پسماندہ دنیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کا شرف اس بات سے برآمد ہوتا ہے کہ ان کی مجموعی قومی پیداوار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوموں کی قدر کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ ان کی فی کس آمدنی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل چیز تو قوموں کی معیشت کی شرح نمو ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام چیزیں عصر حاضر کے بت بن گئیں۔ ان بتوں نے پوری دنیا میں انفرادی زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ چنانچہ مغرب کیا مشرق میں بھی دولت مسرت کا سر چشمہ بن گئی۔

لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورت حال جاری رہے گی؟ یا مادی مسرت کا تصور چیلنج ہوگا اور اس کی جگہ مسرت کا زیادہ حقیقی اور زیادہ جامع تصور دنیا میں رائج ہوگا؟

اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں لیکن مادّی مسرت کا رائج الوقت تصور رفتہ رفتہ اپنی کشش کھو رہا ہے۔ اس کی تین شہادتیں اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے اور سوشلزم کے زوال کے بعد مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کو پوری دنیا میں جو غلبہ اور تسلط حاصل ہوا تھا اس نے اس تصور کو عام کیا تھا کہ انسانیت کی بقا اس نظام کے تحفظ اور پیروی میں ہے اور یہ نظام اتنا کامیاب اور تضادات سے پاک ہے کہ کم از کم 21 ویں صدی میں اسے کسی قسم کے خطرے کا سامنا نہیں ہوگا۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام سنگین داخلی بحران کا شکار ہے، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کسی حریف کے بغیر ہی اس کی کمزوریاں عیاں ہو رہی ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تصورات سے وابستہ مسرتیں خطرے میں ہیں۔ مادی مسرت کے تصور کو در پیش مسائل کا ایک ثبوت یورپ میں یورو کا بحران ہے۔ یورپی اتحاد یقینا ایک سیاسی اتحاد بھی ہے، لیکن اس کا معاشی پہلو سیاسی پہلو پر غالب ہے۔ اس کی ایک شہادت مشتر کہ منڈی کا تصور ہے، جبکہ اس کی دوسری شہادت مشتر کہ کرنسی کا نظام ہے۔ تاہم یورپی معیشت کے بحران نے…  مادی مسرت کے تصور کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یورپ جو بھی سماجی بہبود، کم اوقات کار، طویل تعطیلات، مادی مواقع اور مساوی تنخواہوں کی سرزمین تھا اب سماجی فوائد میں کمی کی سرزمین بن گیا ہے۔ بچت اور سادگی کے نام پر روزگار کے مواقع محدود کیے جا رہے ہیں اور محنت کشوں کی منڈی میں سخت مقابلے کی فضا پیدا ہو چلی ہے۔

مادّی مسرت کے تصور کی پسپائی کا ایک چھوٹا سا مظہر یہ ہے کہ بھوٹان کی حکومت نے مسرت کے حصول کو عوامی مفاد اور اجتماعی ہدف قرار دیا ہے۔ بھوٹان میں اس کام کی ابتدا 1970ء میں ہوئی تھی جب بھوٹان کے سابق بادشاہ جگمے سنگھے وانگ چک نے مجموعی قومی پیداوار یا جی این پی کے بجائے مجموعی قومی مسرت یعنی جی این ایچ کا تصور پیش کیا اور کہا کہ مسرت کا حصول بھوٹان کی قومی پالیسی ہے۔ اس سلسلے کا تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اقتصادی نمو اور سماجی ترقی کے سلسلے میں مسرت کی اہمیت فیصلہ کن ہے۔ پیرس میں قائم اقتصادی تعاون اور ترقی سے متعلق تنظیم OECD نے ملکوں کے حالات کے تعین کے لیے ’’پیمانۂ مسرت‘‘ متعارف کرایا جس کے تحت مختلف ملکوں کے لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا آپ اپنے روز گار کو پسند کرتے ہیں؟ آپ کی صحت کیسی ہے؟ کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ ضرورت کے مطابق وقت گزارتے ہیں؟ کیا ضرورت کے وقت آپ کے دوست آپ کے ساتھ ہوتے ہیں؟ کیا آپ اپنے پڑوسیوں پر اعتماد کرتے ہیں؟ آپ اپنی مجموعی زندگی سے کتنے مطمئن ہیں؟ ان سوالات کے جوابات کی روشنی میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس ملک کے لوگ کتنے خوش اور مطمئن ہیں۔ تائیوان نے ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ جاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق تائیوان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر سال مجموعی مسرت کا گوشوارہ (Index) جاری کرے گا۔ تھائی لینڈ میں بھی اس حوالے سے پیش رفت کا امکان ہے۔ یہ صورت حال اس امر کی نماز ہے کہ مذہب کے بغیر بھی مادّی مسرت کے تصور میں روحانی مسرت کا تصور در آیا ہے۔ لیکن روحانی مسرت کا یہ تصور مجرد بھی ہے اور نا کافی بھی۔

اس کے برعکس اسلام روحانی مسرت کے تصور کو نیکی کے ساتھ منسلک کر کے ٹھوس، وسیع اور ہمہ گیر بنا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام کے بنیادی تصورات چار ہیں۔

ایک یہ کہ انسان کی اصل اور سب سے بڑی مسرت یہ ہے کہ اس کا خالق، مالک اور رازق اس سے راضی ہو جائے، کیونکہ خدا کو خوش کیے بغیر انسان کی کسی خوشی کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا کی خوشی کو جاننے کا طریقہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خدا کے حقوق کی ادائیگی اس کی واحد صورت اور اس کا واحد معیار ہے۔

اسلام کا دوسرا بنیادی تصور یہ ہے کہ انسان خود اپنے آپ سے کتنا خوش ہے؟ اس کی گواہی صرف انسان کا ضمیر فراہم کر سکتا ہے۔ ضمیر کا اطمینان شخصی مسرت کی اعلیٰ ترین اور ٹھوس صورت ہے۔

اسلام کا تیسرا تصور یہ ہے کہ انسان سے دوسرے انسان کسی حد تک خوش ہیں؟ یہ حقوق العباد کا دائرہ ہے اور یہاں معاملہ گھر کے افراد سے شروع ہوتا ہوا عزیزوں، پڑوسیوں اور ساری دنیا کے انسانوں تک جاتا ہے، اور اسلام بتاتا ہے کہ اپنے بھائی کے لیے مسکرا دینا بھی صدقہ یا نیکی ہے۔ اسلام میں نیکی کی اہمیت یہ ہے کہ یہ پوری کائنات فنا ہو جانے والی ہے البتہ ذرے کے برابر کی گئی نیکی بھی باقی رہنے والی ہے۔

اسلام کا چوتھا تصور یہ ہے کہ انسان نے دائمی زندگی یا آخرت کے لیے کتنی فکر اور کتنا عمل کیا؟ فرض کیجیے کہ اگر انسان نے سارے عمل دنیا کے لیے کیے، تو اس میں مسرت کی کوئی بات نہیں۔ البتہ اگر اس کے تمام یا اکثر عمل آخرت کے لیے ہیں تو یہ انتہائی مسرت کی بات ہے۔

یہ حقیقی مسرت کے وہ تصورات ہیں دنیا جن سے نا آشنا ہے، یہاں تک کہ مسلمان بھی ان سے اس طرح آگاہ نہیں جس طرح ان سے آگاہ ہونے کا حق ہے۔ لیکن ان تصورات کے ذریعے ہی دنیا حقیقی مسرت سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔

شاہنواز فاروقی

متعلقہ مضامین

  • ایران کا جوہری تنصیبات مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان
  • ایران کا جوہری تنصیبات کو مزید طاقت کیساتھ دوبارہ تعمیر کرنے کا اعلان
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم کا پیغام
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر  وزیراعظم کا پیغام
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کو رسائی کیخلاف کامران ٹیسوری کی درخواست، ائینی پینج تشکیل
  • پی ٹی آئی کی وجہ سے آزاد کشمیر کے گزشتہ الیکشن میں جیت کو شکست میں بدلا گیا، اب حکومت بنائینگے: بلاول
  • چترال: وزیراعظم شہبازشریف دانش اسکول کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد دعا کررہے ہیں
  • نئے وزیراعظم کا اعلان کشمیر سے ہوگا؛ بلاول بھٹو
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کے نام کا اعلان اسلام آباد سے نہیں بلکہ کشمیر سے ہوگا، بلاول بھٹو