گستاخوں کے حق میں رپورٹس جھوٹ کا پلندہ ثابت
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
وفاقی وزارت داخلہ کو بھیجی گئی مذکورہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ نے گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات کی تحقیقات میں تمام قانونی تقاضے پورے کئے۔مذکورہ ملزمان کے خلاف مضبوط شواہد موجود ہیں اور تمام ملزمان کا ٹرائل ملک کی مختلف عدالتوں میں جاری ہے‘‘۔مذکورہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’مذکورہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری سے یہ واضح ہے کہ اسپیشل برانچ کی مذکورہ سورس انفارمیشن رپورٹ میں عائد کئے گئے ان الزامات کے متعلق کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ جن میں یہ کہا گیا تھا کہ نوجوانوں کو ٹریپ کرکے بلاسفیمی کے مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے۔جس کے بعد مذکورہ ملزمان کو تحفظ دینے کے لئے ان کی فیملیز سے پیسے مانگے جاتے ہیں۔ مذکورہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری سے یہ بھی واضح ہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے کسی بھی اہلکار نے مذکورہ مقدمات میں اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کیا۔‘‘ واضح رہے کہ ایف آئی اے نے مذکورہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایت پر کی تھی۔اسی طرح ایف آئی اے کی خصوصی کمیٹی نے گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف درج مقدمات کے متعلق قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کو بھی بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ رپورٹ گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کو قانون کی گرفت سے بچانے کی کوشش اور ملک کے امن و ترقی کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی ہدایت پر ایڈیشنل ڈائریکٹر لا امتیاز احمد کھٹانہ، ایڈیشنل ڈائریکٹر ایڈمن محمود الحسن، اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد عثمان اور سب انسپکٹر فضل معبود پر مشتمل قائم کی گئی ایف آئی اے کی خصوصی کمیٹی نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کے متعلق مقدمات کے خلاف قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کے متعلق 5 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ میں این سی ایچ آر کی مذکورہ رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ایف آئی اے کی مذکورہ کمیٹی نے رپورٹ میں این سی ایچ آر کی مذکورہ رپورٹ کے اہم حصوں کا کالم وار جواب دیتے ہوئے مزید کہا ہے کہ ’’مذکورہ رپورٹ میں کئی تضادات ہیں۔این سی ایچ آر کی رپورٹ کے مطابق ملزمان نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے کسی کے کہنے پر گستاخانہ مواد شیئر کیا جبکہ ان کے ورثا نے کہا ہے کہ ملزمان کے موبائل اور ڈیوائسز کو ہیک کیا گیا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ این سی ایچ آر کی رپورٹ اسپیشل برانچ کی سورس انفارمیشن رپورٹ اور صحافی احمد نورانی کی تحقیقاتی رپورٹ پر مبنی ہے۔اسپیشل برانچ کئی فورمز پر یہ تسلیم کر چکی ہے کہ اس کی رپورٹ سورس انفارمیشن پر مبنی ہے،جس کے حق میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ایف آئی اے نے بھی اسپیشل برانچ کی اس رپورٹ کی ہر پہلو سے تحقیقات کی ہے۔جس کے نتیجے میں مذکورہ رپورٹ بے بنیاد اور من گھڑت ثابت ہوئی ہے۔دوسری جس رپورٹ پر این سی ایچ آر نے انحصار کیا ہے،وہ فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ کی تحقیقاتی رپورٹ ہے۔مذکورہ ویب سائٹ کو وقاص گورایہ اور احمد نورانی چلا رہے ہیں۔
مذکورہ ویب سائٹ کو پی ٹی اے نے پاکستان میں بلاک کیا ہوا ہے۔مذکورہ ویب سائٹ پر ایف آئی اے کے خلاف پبلش کی گئی مذکورہ رپورٹ جانبدارانہ ہے۔اس لئے کہ ایف آئی اے نے مذکورہ دونوں اشخاص کے خلاف مقدمات درج کئے ہوئے ہیں۔‘‘ ایف آئی اے کی خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ ’’این سی ایچ آر کی رپورٹ کے حق میں کوئی ایک آزادانہ ثبوت بھی ریکارڈ پر موجود نہیں ہے۔اگر این سی ایچ آر کی رپورٹ کے حق میں کوئی ثبوت موجود ہے تو اسے کسی بھی وقت قانون کے مطابق کارروائی کے لئے ایف آئی اے کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔اگر کسی ملزم کے پاس اپنے خلاف درج مقدمے کے متعلق کوئی ثبوت موجود ہے تو وہ اسے ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔‘‘ ایف آئی اے کی خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ گستاخانہ مواد کی تشہیر کے خلاف مقدمات میں ایف آئی اے کی جانب سے گرفتار کئے جانے تمام ملزمان نہ صرف گستاخانہ مواد پھیلانے، بنانے،شیئر کرنے،اپلوڈ کرنے اور گستاخانہ مواد کی اشاعت میں ملوث ہیں بلکہ وہ گستاخانہ مواد کے خالق ہونے کے ساتھ ساتھ گستاخانہ وائس چیٹ کے خالق، سوشل میڈیا گروپ کے بنانے والے یا سوشل میڈیا گروپ ایڈمن اور کمیونٹی کریٹر یا گستاخانہ نظریات کے پرچار کرنے والے بھی ہیں جو ہمسایہ ملک کے انتہا پسندی پر مبنی ملحدانہ،فری میسن اور الیومیناٹی گروپ کے تخلیق شدہ ہیں۔
دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان ملزمان سے برآمد ہونے والی ڈیوائسز میں محرم رشتوں کے ساتھ جنسی عمل کرنے پر مبنی ویڈیوز بھی تھیں،جو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جاتی تھیں۔ایف آئی اے کی مذکورہ خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ سنگین انکشاف بھی کیا ہے کہ یہ سازش ملک کے امن و ترقی کو سبوتاژ کرنے کے لئے رچائی گئی ہے۔این سی ایچ ار کی رپورٹ گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ملزمان کو قانونی نتائج سے بچانے کی کوشش ہے۔این سی ایچ آر کی رپورٹ صرف گرفتار ملزمان کے انٹرویوز،ملزمان کے ورثا کے دعوے،اسپیشل برانچ کی سورس انفارمیشن رپورٹ اور احمد نورانی کے ویب آرٹیکل پر مبنی ہے۔ مذکورہ تمام رپورٹس سنگین جرائم میں ملوث مذکورہ گرفتار ملزمان کے صرف بے بنیاد الزامات پر انحصار کرتے ہوئے مرتب کی گئی۔مذکورہ رپورٹس کا مقصد مقدس ہستیوں کے گستاخوں کو قانون کی گرفت سے بچانا ہے۔
ایف آئی اے کی مذکورہ کمیٹی کی رپورٹ میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذکورہ ملزمان کے خلاف ایف آئی اے کی تحقیقات مضبوط دستاویزی شواہد پر مبنی ہے۔ جیسا کہ ملزمان کی گرفتاری کے وقت ملزمان سے ان ڈیوائسز اور سوشل میڈیا اکائونٹس کی برآمدگی کہ جن کے ذریعے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کی گئی۔اس کی تصدیق ٹیکنیکل اور فرانزک رپورٹس یہاں تک کہ ڈی این اے رپورٹس سے بھی ہوئیں۔یہی وجہ ہے کہ اب تک ٹرائل کورٹس نے 31سے زائد ملزمان کے ٹرائل مکمل کرتے ہوئے انہیں بغیر کسی شک و شبہ کے سزائیں سنائی ہیں اور اب تک کوئی ایک ملزم بھی ٹرائل کورٹ سے بری نہیں ہو سکا۔دیگر زیر حراست ملزمان کے ٹرائل ملزمان کی جانب سے تاخیری حربے استعمال کرنے کی وجہ سے اب تک ٹرائل کورٹس میں زیر التوا ہیں۔ملزمان ان حربوں کو اس لئے استعمال کررہے ہیں کہ وہ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ انہوں نے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ایف آئی اے کی خصوصی کمیٹی نے سی ایچ آر کی رپورٹ اسپیشل برانچ کی کوئی ثبوت موجود سورس انفارمیشن رپورٹ میں مزید ایف آئی اے کے مذکورہ رپورٹ کی رپورٹ کے سوشل میڈیا پر مبنی ہے کی مذکورہ ملزمان کے کے حق میں کہا ہے کہ بے بنیاد کے متعلق ویب سائٹ مزید کہا کہا گیا کے خلاف کی گئی کیا ہے
پڑھیں:
کے پی میں بارش اور آندھی سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری
خیبر پختونخوا میں بارش اور آندھی سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کردی گئی۔
پی ڈی ایم اے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق کے پی میں بارش و آندھی کے باعث حادثات میں 3 افراد جاں بحق، 7 زخمی ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جاں بحق افراد میں ایک مرد، 2 خواتین شامل ہیں، جبکہ زخمیوں میں 3 مرد، ایک خاتون اور 3 بچے شامل ہیں۔
بارش اور آندھی سے 9 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے، یہ حادثات صوابی، پشاور، شانگلہ، سوات اور ہری پور میں ہوئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ متعلقہ ضلعی انتظامیہ کو متاثرہ خاندان کو فوری امداد دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بند شاہراہوں کو کھولنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بارشوں کا سلسلہ 31 مئی تک جاری رہنے کا امکان ہے۔