بین الاقوامی تعلقات میں اس وقت پاکستان کاکردارکئی زاویوں سے عالمی توجہ کامرکزبنتاجا رہا ہے، خصوصاًحالیہ علاقائی کشیدگی کے تناظرمیں پاکستان کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی دفاعی شراکت داری، اسٹریٹجک مفادات،دفاعی وابستگی اوربھارتی مہم جوئیوں کے خلاف عملی ردعمل،ایک نیاعالمی منظرنامہ تخلیق کررہاہے۔اس وقت دنیابھرمیں بالعموم اورمغربی میڈیابالخصوص پاکستان کے چینی اسلحہ پرانحصار،حالیہ پاک- بھارت کشیدگی اوراس کے عالمی اثرات کے بارے میں بہت کچھ لکھاجارہاہے۔
پاکستان اورچین کے دفاعی تعلقات محض عسکری لین دین تک محدودنہیں بلکہ یہ ایک اسٹریٹجک اتحادکی شکل اختیارکرچکے ہیں۔ پاکستان نے ماضی میں امریکااورمغرب سے ہتھیار حاصل کئے،لیکن 2000کے بعدسے چین دفاعی شراکت کاسب سے بڑاذریعہ بن چکاہے اورپاکستان کاچینی دفاعی سازوسامان پر انحصار میں کافی اضافہ ہوگیاہے۔ چینی ہتھیار نسبتاًکم لاگت، جدید ٹیکنالوجی اورسیاسی لچک کے ساتھ فراہم کیے جاتے ہیں،جومغربی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج کی جدید کاری میں چین کاکردارروزافزوں ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں8مئی کو پاکستانی فضائیہ نے بھارتی آپریشن سندورکے جواب میں ایک لائیوجنگی مظاہرہ میں6بھارتی طیارے (3ریفال سمیت)مارگرائے۔ان حملوں میں چینی ہتھیاروں کی مؤثریت نے عالمی سطح پرتوجہ حاصل کی۔’’ایوک چنگدوائیر کرافٹ کارپوریشن‘‘ اور’’نورینکو‘‘جیسی کمپنیوں نے عالمی سرمایہ کاروں کوفوری متوجہ بھی کیا ہے۔ چینی دفاعی کمپنیوں کے اسٹاکس میں صرف 48 گھنٹوں میں36%اضافہ ہوا۔یہ ایک طرح کا ’’لائیوڈیفنس ایکسپو‘‘تھا،جس میں چین کے ہتھیاروں نے دنیابھرکے تجزیہ کاروں کو متاثر کیااوردفاعی مارکیٹ میں مغرب کوسنجیدہ مقابلہ ملا۔
یہی وجہ ہے کہ اہم چینی دفاعی مصنوعات میں پاکستانی دفاعی اداروں کااشتراک بھی حیران کن طور پر اب سامنے آرہاہے جس میں کئی مشترکہ منصوبوں میں جے ایف17تھنڈر( اب بلاک 3کی طرف پیش قدمی)، جے 10سی(ہائی اینڈلڑاکا طیارے ) ،پی ایل-15ایئر ٹوایئر میزائل،ڈرونز(مثلاونگ لونگ سیریز)کی کارکردگی نے مغربی ممالک اور امریکا سمیت جدید اسلحہ سازی بنانے والے اداروں کو ورطہ حیرت میں مبتلاکردیاہے۔چینی ہتھیارنسبتاًکم لاگت،جدیدٹیکنالوجی اورسیاسی لچک کے ساتھ فراہم کیے جاتے ہیں،جو مغربی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔
جے ایف-17تھنڈرپاکستان ائیرفورس کابنیادی لڑاکاطیارہ جسے چین کے ساتھ مل کرتیار کیا گیا۔ یہ طیارہ جدید ریڈار،میزائل سسٹم،اور ایویونکس چین سے حاصل کیاگیاجدید ترین4.
جنس،نگرانی اورٹارگٹڈ حملوں کے لئے چین سے ونگ لونگ ٹوڈرون حاصل کئے جبکہ دیگرپاکستانی ساخت کے بھی ڈرون استعمال کئے۔ چینی اسلحہ ساز ادارہ ’’نارینکو‘‘جوٹینک،توپ، اورفضائی دفاعی نظام بھی فراہم کرتاہے،کے ساتھ پاکستانی اسلحہ سازاداروں کااشتراک بھی جاری ہے۔جس کے نتیجہ میں پاکستان،چین کے ساتھ دفاعی شراکت داری کوصرف خریداری تک محدودنہیں رکھ رہا بلکہ مقامی پیداواراورمشترکہ تحقیق کے میدان میں بھی تعاون بڑھارہاہے ۔
یہ تنازع صرف بھارت اورپاکستان کے درمیان نہیں بلکہ ایک غیررسمی جنگ بھی تھی۔اس کشیدگی میں پاکستان-چین اتحادبمقابلہ بھارت، اسرائیل، امریکا اتحادمیں پاک چین اور مغربی ٹیکنالوجی کی براہِ راست جنگ کی جھلک دنیاکو نمایاں نظرآئی۔بھارت نے فرانسیسی رافیل طیارے استعمال کئے، جنہیں ’’گیم چینجر‘‘ قراردیا جاتاتھاجبکہ پاکستان کی جانب سے چینی ساختہ جے10سی،جے ایف 17تھنڈر،پی ایل15 میزائل اورمکمل پاکستانی ساختہ الفتح میزائل کی موثر کارکردگی نے مغربی اسلحہ سازوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ پاکستان کی فضائیہ نے رافیل طیارے کوکامیابی سے نشانہ بناکرمغرب کوحیران کردیا۔یہ جنگ صرف عسکری نہیں تھی بلکہ ٹیکنالوجی کاٹیسٹ کیس بھی بن گئی۔
مغرب کی پریشانی اس بات سے دوگناہوگئی کہ اسرائیلی ہاروپ ڈرونزکے باوجود بھارت کوشکست ہوئی۔ عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں اورسوشل میڈیاپریہ تاثرپختہ ہوا کہ چینی دفاعی ساز و سامان قابلِ بھروسہ،مثراورکم لاگت متبادل ہے۔یہ ایک عسکری کے ساتھ ساتھ مارکیٹنگ جیت بھی تھی جس نے دنیابھرمیں چینی دفاعی صنعت کے لئے نئے دروازے کھول دئیے۔
تاہم یہاں یہ امریکاکی مداخلت کے ساتھ ساتھ چین،امریکاکے درمیان خاموش تجارتی معاہدہ جیسی اہم پیش رفت کوبھی غورسے دیکھناہوگا۔ابتدامیں امریکانے اس تنازع سے خود کوعلیحدہ رکھامگرجیسے ہی پاکستان کی کامیاب کارروائی اورچین کی دفاعی ٹیکنالوجی منظرعام پرآئی،امریکانے فوری سیزفائرکا مطالبہ کردیا۔ پاکستان کے مثرجواب کے فوری بعد ٹرمپ نے سیزفائر کا اعلان کرکے’’ایٹمی جنگ‘‘ کو ٹالنے کادعویٰ کیامگرپسِ پردہ جنیوامیں چین- امریکا تجارتی مذاکرات مکمل ہوچکے تھے۔صدرٹرمپ نے ایک بیان میں ’’ایٹمی جنگ سے بچاؤ‘‘کو جوازبناکرکشیدگی کے خاتمے کااعلان کیا۔
اس کے فورابعدجنیوامیں چین اورامریکاکے درمیان ایک خفیہ تجارتی میٹنگ ہوئی۔چین اور امریکا نے اپنے ٹیرف میں بڑی کمی کا اعلان کیا۔دونوں ممالک نے تجارتی پابندیاں ختم کیں، جس سے عالمی معیشت میں بہتری آئی۔ عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے چین کے لئے ایک لائیوڈیفنس مارکیٹنگ کی،جس کے اثرات نے عالمی معیشت کومتاثرکیاہے۔ پاکستان اورچین کے فوجی اشتراک نے یہ ثابت کیاکہ امریکاکوخدشہ تھاکہ اگر پاکستان اورچین مل کرمیدانِ جنگ میں مغرب کو شکست دیتے رہے،توعالمی اسلحہ مارکیٹ اورسیاسی ساکھ متاثرہوگی۔اس لئے اس جنگ کوہرحالت میں روکنا صرف بھارت اور اسرائیل کے لئے ہی نہیں بلکہ امریکا اورمغرب کے تمام اسلحہ ساز اداروں کے لئے انتہائی اہم ہے اورادھر پاکستان اورچین نے بھی یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے مقاصدمیں کامیاب ہوگئے ہیں۔
دراصل چین کی گزشتہ چالیس سالہ حکمت عملی خاموش فوجی طاقت کی تیاری تھی،اورپاکستان اس قوت کاسب سے بڑامظہراور مستفیداتحادی ہے۔یہ اشتراک دنیاکے لئے ایک پیغام بھی ہے کہ جنگیں صرف میدان میں نہیں جیتی جاتیں،وہ تیاری،سٹریٹجی،اوراتحاد سے جیتی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ہاتھوں رافیل کی تباہی کے بعدبھارت تواب تک خاموش ہے لیکن رافیل کمپنی کے سربراہ کواپنے ان طیاروں کی تباہی کوتسلیم کرتے ہوئے ندامت کے ساتھ اپنی کمپنی کی ساکھ بچانے کے لئے یہ بیان دیناپڑگیاکہ ہم ’’جہازفروخت کرتے ہیں لیکن لڑنے کے لئے حوصلہ نہیں‘‘
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان اورچین میں پاکستان پاکستان کے پاکستان کی چینی دفاعی کے ساتھ میں چین چین کے کے لئے
پڑھیں:
مغربی یورپ سے ہمیں چیلنج درپیش ہے، قطر اور دیگر ممالک نے اسرائیل کو تنہاء کر دیا ہے، نیتن یاہو
اسرائیلی اخبار کو انٹرویو میں صیہونی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بڑا چیلنج انتہاء پسند مسلم اقلیتوں کا یورپ کی اسرائیل پالیسی پر اثر و رسوخ ہے۔ اسرائیل کو نئی اقتصادی حقیقت کیلئے تیار ہونا چاہیئے، اسلحہ سازی کی صنعت کو آزادانہ اور خود مختار طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن ہایو نے کہا ہے کہ قطر اور دیگر ممالک نے اسرائیل کو تنہاء کر دیا ہے، مگر امریکا اور بہت سے ممالک ہمارے ساتھ ہیں۔ اسرائیلی اخبار کو انٹرویو میں صیہونی وزیراعظم نے کہا کہ بڑا چیلنج انتہاء پسند مسلم اقلیتوں کا یورپ کی اسرائیل پالیسی پر اثر و رسوخ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی یورپ سے اسرائیل کو چیلنج درپیش ہے اور اس ناکہ بندی کو بھی توڑ دیں گے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو نئی اقتصادی حقیقت کیلئے تیار ہونا چاہیئے، اسلحہ سازی کی صنعت کو آزادانہ اور خود مختار طور پر مضبوط کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل قطر میں دوبارہ حملہ نہیں کرے گا، قطر ہمارا اتحادی ملک ہے۔