بین الاقوامی تعلقات میں اس وقت پاکستان کاکردارکئی زاویوں سے عالمی توجہ کامرکزبنتاجا رہا ہے، خصوصاًحالیہ علاقائی کشیدگی کے تناظرمیں پاکستان کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی دفاعی شراکت داری، اسٹریٹجک مفادات،دفاعی وابستگی اوربھارتی مہم جوئیوں کے خلاف عملی ردعمل،ایک نیاعالمی منظرنامہ تخلیق کررہاہے۔اس وقت دنیابھرمیں بالعموم اورمغربی میڈیابالخصوص پاکستان کے چینی اسلحہ پرانحصار،حالیہ پاک- بھارت کشیدگی اوراس کے عالمی اثرات کے بارے میں بہت کچھ لکھاجارہاہے۔
پاکستان اورچین کے دفاعی تعلقات محض عسکری لین دین تک محدودنہیں بلکہ یہ ایک اسٹریٹجک اتحادکی شکل اختیارکرچکے ہیں۔ پاکستان نے ماضی میں امریکااورمغرب سے ہتھیار حاصل کئے،لیکن 2000کے بعدسے چین دفاعی شراکت کاسب سے بڑاذریعہ بن چکاہے اورپاکستان کاچینی دفاعی سازوسامان پر انحصار میں کافی اضافہ ہوگیاہے۔ چینی ہتھیار نسبتاًکم لاگت، جدید ٹیکنالوجی اورسیاسی لچک کے ساتھ فراہم کیے جاتے ہیں،جومغربی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔پاکستان کی مسلح افواج کی جدید کاری میں چین کاکردارروزافزوں ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں8مئی کو پاکستانی فضائیہ نے بھارتی آپریشن سندورکے جواب میں ایک لائیوجنگی مظاہرہ میں6بھارتی طیارے (3ریفال سمیت)مارگرائے۔ان حملوں میں چینی ہتھیاروں کی مؤثریت نے عالمی سطح پرتوجہ حاصل کی۔’’ایوک چنگدوائیر کرافٹ کارپوریشن‘‘ اور’’نورینکو‘‘جیسی کمپنیوں نے عالمی سرمایہ کاروں کوفوری متوجہ بھی کیا ہے۔ چینی دفاعی کمپنیوں کے اسٹاکس میں صرف 48 گھنٹوں میں36%اضافہ ہوا۔یہ ایک طرح کا ’’لائیوڈیفنس ایکسپو‘‘تھا،جس میں چین کے ہتھیاروں نے دنیابھرکے تجزیہ کاروں کو متاثر کیااوردفاعی مارکیٹ میں مغرب کوسنجیدہ مقابلہ ملا۔
یہی وجہ ہے کہ اہم چینی دفاعی مصنوعات میں پاکستانی دفاعی اداروں کااشتراک بھی حیران کن طور پر اب سامنے آرہاہے جس میں کئی مشترکہ منصوبوں میں جے ایف17تھنڈر( اب بلاک 3کی طرف پیش قدمی)، جے 10سی(ہائی اینڈلڑاکا طیارے ) ،پی ایل-15ایئر ٹوایئر میزائل،ڈرونز(مثلاونگ لونگ سیریز)کی کارکردگی نے مغربی ممالک اور امریکا سمیت جدید اسلحہ سازی بنانے والے اداروں کو ورطہ حیرت میں مبتلاکردیاہے۔چینی ہتھیارنسبتاًکم لاگت،جدیدٹیکنالوجی اورسیاسی لچک کے ساتھ فراہم کیے جاتے ہیں،جو مغربی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے لئے زیادہ موزوں ہیں۔
جے ایف-17تھنڈرپاکستان ائیرفورس کابنیادی لڑاکاطیارہ جسے چین کے ساتھ مل کرتیار کیا گیا۔ یہ طیارہ جدید ریڈار،میزائل سسٹم،اور ایویونکس چین سے حاصل کیاگیاجدید ترین4.
جنس،نگرانی اورٹارگٹڈ حملوں کے لئے چین سے ونگ لونگ ٹوڈرون حاصل کئے جبکہ دیگرپاکستانی ساخت کے بھی ڈرون استعمال کئے۔ چینی اسلحہ ساز ادارہ ’’نارینکو‘‘جوٹینک،توپ، اورفضائی دفاعی نظام بھی فراہم کرتاہے،کے ساتھ پاکستانی اسلحہ سازاداروں کااشتراک بھی جاری ہے۔جس کے نتیجہ میں پاکستان،چین کے ساتھ دفاعی شراکت داری کوصرف خریداری تک محدودنہیں رکھ رہا بلکہ مقامی پیداواراورمشترکہ تحقیق کے میدان میں بھی تعاون بڑھارہاہے ۔
یہ تنازع صرف بھارت اورپاکستان کے درمیان نہیں بلکہ ایک غیررسمی جنگ بھی تھی۔اس کشیدگی میں پاکستان-چین اتحادبمقابلہ بھارت، اسرائیل، امریکا اتحادمیں پاک چین اور مغربی ٹیکنالوجی کی براہِ راست جنگ کی جھلک دنیاکو نمایاں نظرآئی۔بھارت نے فرانسیسی رافیل طیارے استعمال کئے، جنہیں ’’گیم چینجر‘‘ قراردیا جاتاتھاجبکہ پاکستان کی جانب سے چینی ساختہ جے10سی،جے ایف 17تھنڈر،پی ایل15 میزائل اورمکمل پاکستانی ساختہ الفتح میزائل کی موثر کارکردگی نے مغربی اسلحہ سازوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی۔ پاکستان کی فضائیہ نے رافیل طیارے کوکامیابی سے نشانہ بناکرمغرب کوحیران کردیا۔یہ جنگ صرف عسکری نہیں تھی بلکہ ٹیکنالوجی کاٹیسٹ کیس بھی بن گئی۔
مغرب کی پریشانی اس بات سے دوگناہوگئی کہ اسرائیلی ہاروپ ڈرونزکے باوجود بھارت کوشکست ہوئی۔ عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں اورسوشل میڈیاپریہ تاثرپختہ ہوا کہ چینی دفاعی ساز و سامان قابلِ بھروسہ،مثراورکم لاگت متبادل ہے۔یہ ایک عسکری کے ساتھ ساتھ مارکیٹنگ جیت بھی تھی جس نے دنیابھرمیں چینی دفاعی صنعت کے لئے نئے دروازے کھول دئیے۔
تاہم یہاں یہ امریکاکی مداخلت کے ساتھ ساتھ چین،امریکاکے درمیان خاموش تجارتی معاہدہ جیسی اہم پیش رفت کوبھی غورسے دیکھناہوگا۔ابتدامیں امریکانے اس تنازع سے خود کوعلیحدہ رکھامگرجیسے ہی پاکستان کی کامیاب کارروائی اورچین کی دفاعی ٹیکنالوجی منظرعام پرآئی،امریکانے فوری سیزفائرکا مطالبہ کردیا۔ پاکستان کے مثرجواب کے فوری بعد ٹرمپ نے سیزفائر کا اعلان کرکے’’ایٹمی جنگ‘‘ کو ٹالنے کادعویٰ کیامگرپسِ پردہ جنیوامیں چین- امریکا تجارتی مذاکرات مکمل ہوچکے تھے۔صدرٹرمپ نے ایک بیان میں ’’ایٹمی جنگ سے بچاؤ‘‘کو جوازبناکرکشیدگی کے خاتمے کااعلان کیا۔
اس کے فورابعدجنیوامیں چین اورامریکاکے درمیان ایک خفیہ تجارتی میٹنگ ہوئی۔چین اور امریکا نے اپنے ٹیرف میں بڑی کمی کا اعلان کیا۔دونوں ممالک نے تجارتی پابندیاں ختم کیں، جس سے عالمی معیشت میں بہتری آئی۔ عالمی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستان نے چین کے لئے ایک لائیوڈیفنس مارکیٹنگ کی،جس کے اثرات نے عالمی معیشت کومتاثرکیاہے۔ پاکستان اورچین کے فوجی اشتراک نے یہ ثابت کیاکہ امریکاکوخدشہ تھاکہ اگر پاکستان اورچین مل کرمیدانِ جنگ میں مغرب کو شکست دیتے رہے،توعالمی اسلحہ مارکیٹ اورسیاسی ساکھ متاثرہوگی۔اس لئے اس جنگ کوہرحالت میں روکنا صرف بھارت اور اسرائیل کے لئے ہی نہیں بلکہ امریکا اورمغرب کے تمام اسلحہ ساز اداروں کے لئے انتہائی اہم ہے اورادھر پاکستان اورچین نے بھی یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے مقاصدمیں کامیاب ہوگئے ہیں۔
دراصل چین کی گزشتہ چالیس سالہ حکمت عملی خاموش فوجی طاقت کی تیاری تھی،اورپاکستان اس قوت کاسب سے بڑامظہراور مستفیداتحادی ہے۔یہ اشتراک دنیاکے لئے ایک پیغام بھی ہے کہ جنگیں صرف میدان میں نہیں جیتی جاتیں،وہ تیاری،سٹریٹجی،اوراتحاد سے جیتی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ہاتھوں رافیل کی تباہی کے بعدبھارت تواب تک خاموش ہے لیکن رافیل کمپنی کے سربراہ کواپنے ان طیاروں کی تباہی کوتسلیم کرتے ہوئے ندامت کے ساتھ اپنی کمپنی کی ساکھ بچانے کے لئے یہ بیان دیناپڑگیاکہ ہم ’’جہازفروخت کرتے ہیں لیکن لڑنے کے لئے حوصلہ نہیں‘‘
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان اورچین میں پاکستان پاکستان کے پاکستان کی چینی دفاعی کے ساتھ میں چین چین کے کے لئے
پڑھیں:
بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!
وفاقی بجٹ 2025-26 کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے یہ بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق تیار کیا گیا یہ بجٹ پاکستان کی کمزور معیشت کو بحال کرنے، مہنگائی کم کرنے اور صنعتی بنیاد کو سہارا دینے کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے دعووں کے برعکس یہ ریلیف اور اصلاحات فراہم کرنے کے بجائے، تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمراں خاص طورپر ہمارے امپورٹیڈ وزیر خزانہ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آج پاکستان کو ایک ایسی معیشت کی ضرورت ہے جو اعتماد اور تعاون سے چلتی ہو، نہ کہ دباؤ اور جبر سے بجٹ کے اعلان کے بعد حکومت کے اقدامات درحقیقت ان لوگوں کو ایک پیغامِ عدم اعتماد دے رہی ہے جو طویل عرصے سے قومی آمدنی کا ستون رہے ہیں۔ یہ بجٹ کاروباری برادری کو قومی ترقی میں شراکت دار کے بجائے مشتبہ افراد کے طور پر دیکھتا ہے، جنہیں نگرانی اور سزا کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل آمدنی کا 70 فیصد سے زائد نجی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر اس شاندار کردار کو سراہنے کے بجائے، حکومت نے مبینہ طورپر ایک جارحانہ اور مخالفانہ لہجہ اختیار کر رکھا ہے، جو سرمایہ کے انخلاء، سرمایہ کاری میں کمی اور مزید کاروباروں کے غیر دستاویزی معیشت میں منتقل ہونے کے خطرات کو جنم دے سکتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں (SMEs) کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہی معیشت میں روزگار اور جدت کے بنیادی انجن ہیں۔ اس شعبے کو نہ کوئی مؤثر ریلیف دیا گیا ہے اور نہ ہی سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے، جو کہ پہلے ہی ایک پیچیدہ اور بوجھل نظام ہے۔ کاروباری برادری کی بار بار اپیلوں کے باوجود صنعتوں اور برآمد کنندگان کے لیے توانائی کی سبسڈی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔درمیانے طبقے اور کم آمدنی والے گروپوں کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کم از کم اجرت میں اضافے کی کوئی تجویز بھی بجٹ میں موجود نہیں، نہ ہی بنیادی اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی گئی ہے، اور نہ ہی بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے نجات دی گئی ہے اس کے برعکس بجٹ کے اعلان کے بعد پے درپے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیاجارہاہے۔ جیسے جیسے مہنگائی گھریلو آمدنی کو کھا رہی ہے، معاشی بدانتظامی کا بوجھ ایک بار پھر سب سے زیادہ کمزور طبقوں پر ڈال دیا گیا ہے۔حکومت اس بجٹ کو شفافیت اور دستاویزی معیشت کی جانب قدم قرار دے رہی ہے، مگر اس کے طریقے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔معاشی بحالی دباؤ سے نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، ترقی پسند قیادت اور منصفانہ اقتصادی حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو ایک ایسا ٹیکس نظام درکار ہے جو دباتا نہیں بلکہ سہارا دیتا ہے، توڑتا نہیں بلکہ تعمیر کرتا ہے۔حقیقی اصلاحات جبر سے حاصل نہیں کی جا سکتیں، بلکہ ان کے لیے احترام، انصاف اور اعتماد ضروری ہے۔اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے ٹیکس نظام کو اس انداز میں دوبارہ ترتیب دینا چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل دستاویزات کے فروغ کے لیے مراعات دے، نہ کہ دھمکیاں۔ توجہ ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے پر ہونی چاہیے، نہ کہ بار بار انہی ٹیکس دہندگان کو نچوڑنے پر۔ ٹیکس تنازعات کا فیصلہ خود ایف بی آر کے بجائے آزاد ٹربیونلز کو کرنا چاہیے۔ اور سب سے اہم بات، کاروباری اداروں کو ایک ایسے ماحول میں کام کرنے دیا جائے جو ان کی رازداری اور مالی وقار کا تحفظ کرے۔جب ہم اپنے خطے پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کی طرف سے زیادہ ترقی پسند اور کاروبار دوست پالیسیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت نے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (GST) کا ایک مؤثر نظام نافذ کیا ہے جو ایک ونڈو پلیٹ فارم کے ذریعے ٹیکس کی تعمیل کو آسان بناتا ہے۔ بنگلہ دیش نے اپنی برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی دے کر ٹیکسٹائل سیکٹر کو عالمی سطح پر نمایاں کیا ہے۔ ویتنام کارپوریٹ ٹیکس کی مراعات اور صنعت و آئی ٹی سیکٹر کے لیے ہدفی امداد کے ذریعے عالمی سرمایہ کاروں کو متوجہ کر رہا ہے۔جب یہ ممالک معاشی ترقی کو فروغ دے رہے ہیں اور سرمایہ کاری کا خیرمقدم کر رہے ہیں، پاکستان کا نیا بجٹ دونوں کو روکنے کا ہتھیار دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کے پاس بہتر آپشنز موجود تھیں۔ وہ SMEs کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کر سکتی تھی، ٹیکس ہالیڈیز اور اسٹارٹ اپ گرانٹس متعارف کروا سکتی تھی، اور مقامی صنعت و پیداوار کو بڑھانے کے لیے GST کم کر سکتی تھی۔ برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی دے کر سہارا دیا جا سکتا تھا۔ ایف بی آر کو شفاف، خدمت گزار ادارہ بنایا جا سکتا تھا، جس میں مؤثر داخلی احتساب ہوتا۔بدعنوانی کے خلاف اندرونی طور پر لڑنے کے لیے ”وسل بلوئر” نظام متعارف کرایا جا سکتا تھا۔ صحت، تعلیم اور صاف پانی جیسے بنیادی شعبوں خاص طور پر دیہی علاقوں میں وسائل مختص کیے جانے چاہیے تھے تاکہ انسانی ترقی کو پائیدار بنایا جا سکے۔بدقسمتی سے، بجٹ 2025-26 اصلاحات کا خاکہ نہیں بلکہ مالیاتی آمریت کی طرف ایک قدم دکھائی دیتا ہے۔اس صورت حال کا اگر بروقت ادراک نہ کیاگیااور اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے، تو ملک کاروباری طبقے کو خود سے دور کرنے، جدت کو کمزور کرنے، اور معاشی زوال کو مزید گہرا کرنے کے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔معاشی بحالی دھونس سے نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، ترقی پسند قیادت اور منصفانہ حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو ایسے ٹیکس نظام کی ضرورت ہے جو سہارا دے، نہ کہ دباؤ ڈالے ،تعمیر کرے، نہ کہ توڑے۔ ہمیں ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھنا چاہیے جہاں کاروبار کو سراہا جائے، نہ کہ مجرم ٹھہرایا جائے اور جہاں پالیسی شراکت داری کا عکس ہو، نہ کہ سزا کا۔
پاکستان نے اس ماہ ایک اور مالی سال کا آغاز کرتے ہی بجٹ کے حوالے سے پائے جانے والے وسیع پیمانے پر شکوک و شبہات کے باوجود، حکمرانوں نے عوامی جذبات کونظرانداز کرتے ہوئے اپنی خود ساختہ کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا۔یہ صحیحہے کہ آج پاکستان2سال قبل کے مقابلے مجیں جب ملک کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا تھا اور روپے کو شدید اتار چڑھاؤ درپیش تھا کافی فاصلے پر کھڑا ہے، ۔اس کامیابی کا سبب حکمرانوں کی پالیسیوں کی کامیابی نہیں ہے بلکہ اس کا سبب ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں واپسی ہے جس نے پاکستان کو وقتی طور پر مالی استحکام دلا دیا۔مگر، عوام کے جذبات اور اقتدار کے ایوانوں کے بیانیے کے درمیان یہ خلیج ایک اہم مسئلہ کو اجاگر کرتی ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں، لیکن ایسے نقادوں کی کمی نہیں جو ان دعووں کے خلاف ٹھوس دلائل پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے حکمرانوں نے بارہا انتباہی اشاروں کو مسلسل نظر انداز کیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں تقریباً 40 فیصد آبادی، یعنی تقریباً 10 کروڑ افراد، خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ”سب اچھا ہے” کے نعرے پر ملک کی قیادت کرنا مستقبل سے متعلق سنگین غلط فہمیوں کو جنم دے
سکتا ہے۔اس تلخ حقیقت کے ساتھ ساتھ، موسمیاتی تبدیلی کا گہرا چیلنج بھی ہے، جس کی عکاسی پاکستان بھر میں جاری بارش سے جڑے تباہ کن واقعات سے ہو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بمشکل ہی کوئی علاقہ ایسا ہوگا جہاں مون سون کی بارشوں نے غیر متوقع اثرات نہ ڈالے ہوں۔ بدلتے موسم کے رجحانات اس بات کا واضح پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان کی غذائی سلامتی اب خطرے میں ہے۔گزشتہ مالی سالجولائی 2024 تا جون 2025کے دوران زرعی پیداوار میں محض 0.6 فیصد کی معمولی شرح نمو اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔زراعت میں جاری نقصانات نے پاکستان کے صدیوں پرانے فصلاتی نظام کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اگر غذائی تحفظ سے جڑے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو ان کے بھیانک نتائج یقینی طور پر سامنے آئیں گے۔زراعت سے منسلک روزگار اور آمدنی کے بے شمار مواقع اس شعبے کو ملکی معیشت کے لیے نہایت اہم بناتے ہیں۔ جب تک غریب کسانوں کی آمدنی میں بہتری نہیں آتی اور انہیں مؤثر تحفظ نہیں ملتا، پاکستان کو آنے والے برسوں میں ایک وسیع تر سماجی و معاشی بحران کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ سادہ الفاظ میں، پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ ان افراد کی حفاظت کی جا سکے جو انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور جن کے لیے مستقبل کی کوئی امید نہیں۔ پاکستان کا صنعتی شعبہ بھی گہرے سوالات کی زد میں ہے، خاص طور پر اس لیے کہ گزشتہ مالی سال میں بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار میں 1.6 فیصد کمی آئی۔ فی الحال، پاکستان کے جاری کھاتے میں بہتری بنیادی طور پر دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے ملک کو اب تک بچا کر رکھا ہوا ہے۔ تاہم، پاکستان کی غیر ملکی زرمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کی ضمانت بالآخر برآمدات میں مضبوط اور متنوع اضافے سے ہی مشروط ہونی چاہیے۔ اس راستے پر چلنے کے لیے زراعت سے لے کر صنعت تک برآمدات میں تنوع پیدا کرنا ناگزیر ہے۔آخر میں، اس ہفتے تنخواہ دار طبقے کے لیے نئے سادہ ٹیکس فائلنگ نظام کی رونمائی پر کی گئی سرکاری تشہیر پر بھی نظرثانی ضروری ہے۔ ٹیکس محصولات میں سب سے بڑی کمی پاکستان کے پہلے سے ہی بوجھ تلے دبے تنخواہ دار طبقے میں نہیں بلکہ ان اہم شعبوں میں ہے جو یا تو انکم ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے یا اپنی حیثیت سے کہیں کم ادا کرتے ہیں۔بارہا پاکستان کو ایسے خلا کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جو ریاستی رٹ نافذ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ لیکن اب جب کہ پاکستان کو اقتصادی میدان میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، ماضی کی غلطیوں کو درست کر کے ایک بہتر مستقبل کی طرف بڑھنا ناگزیر ہے۔بالآخر، پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت کا انحصار ان اصلاحات پر ہے جو طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔ یہ اصلاحات اسی وقت کامیاب ہوں گی جب پاکستان کے رہنما واضح رہنمائی فراہم کریں گے اور خود اس پر عمل کر کے مثال قائم کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔