احتجاجی تحریک کا اعلان ہو چکا، چند دن میں لائحہ عمل دیں گے : جیل سے عمران خان کا پیغام
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ احتجاجی تحریک کا اعلان ہو چکا ، جس کا اگلے 5 سے 6 دنوں میں لائحہ عمل دیں گے، وکٹ کے دونوں جانب کسی کو کھیلنے نہیں دیں گے۔
عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان نے کہا ہے ’ میرے دروازے اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے لیے کھلے ہیں، صرف انصاف چاہتا ہوں اور کیسز جلد سنے جائیں، احتجاجی تحریک کا اعلان ہو چکا ہے 5 سے 6 دن میں لائحہ عمل دیں گے۔‘
یہ بھی پڑھیں: عمران خان سے بہنوں کی 40 منٹ تک ملاقات، علیمہ خان نے بیرسٹر گوہر سے اہم سوال پوچھ لیا
عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں اتحاد کی خاطر کسی بھی وقت مذاکرات کے لیے تیار ہوں، بانی پی ٹی آئی نے کہا اپنے لیے رعایت نہیں مانگ رہا، ریاعت مانگنی ہوتی تو بہت پہلے مانگ چکا ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی ارکان بیرسٹر علی ظفر کے عدالتی معاون بننے پر ناراض کیوں؟
????????سینیٹر علی ظفر کی عمران خان سے ملاقات کے بعد گفتگو۔ pic.
— Abbas Shabbir (@Abbasshabbir72) May 29, 2025
بانی پی ٹی آئی نے پارٹی لیڈر شپ کو تحریک کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔ ’پارٹی لیڈرشپ تحریک کے لیے تیار ہو جائے، کوئی سامنے نہ آیا تو برداشت نہیں کروں گا،وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی اجازت کسی کو نہیں،احتجاجی تحریک کا اعلان ہو چکا، 5،6 دن میں لائحہ عمل دیں گے۔‘
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے خلاف کیسز کے فیصلوں کا مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں، بیرسٹر علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عمران خان نے واضح کیا ہے کہ کوئی کچھ لو کچھ دو نہیں ہے۔
دوسری جانب چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹرگوہر کا کہنا ہے کہ عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ کبھی بھی ڈیل کے تحت باہر نہیں آؤں گا، بانی پی ٹی آئی بے گناہ ہیں ہر قیمت میں رہائی ہونی چاہیے،جہاں تک کچھ لو اور کچھ دو کی بات ہے تو لوگوں نے مس گائیڈ کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بیرسٹر علی ظفر بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی عمران خانذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بیرسٹر علی ظفر بیرسٹر گوہر پی ٹی ا ئی میں لائحہ عمل دیں گے بیرسٹر علی ظفر کے لیے نے کہا
پڑھیں:
قطر اعلامیہ ’’بزدلی اور بے حمیتی کا اعلان‘‘
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250919-03-3
عبید مغل
تاریخ کے اوراق پر دو واضح ابواب رقم ہیں۔ ایک باب اْن حکمرانوں کا ہے جو تخت و تاج اور لشکر رکھتے ہوئے بھی بزدلی اور فیصلہ نہ کرنے کی کمزوری کے باعث ذلیل و رسوا ہوئے۔ دوسرا باب اْن شیروں اور بہادروں کا ہے جو کم وسائل، چھوٹے لشکر اور مشکل حالات کے باوجود جرأت اور حوصلے سے کامیاب ہوئے اور ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہو گئے۔ روس کا زار نکولس دوم، برطانیہ کا نیویل چیمبرلین، جرمنی کا کائزر ولیم دوم اور فلپائن کا مارکوس سبھی دولت و لشکر کے مالک تھے، مگر فیصلہ کن وقت پر گھبرا گئے اور ڈگمگا گئے، یوں تاریخ نے انہیں بزدلوں کی فہرست میں ڈال دیا۔
یہ واقعات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ لشکر اور خزانے اگر کردار اور جرأت سے خالی ہوں تو کچھ بھی کام نہیں آتے۔ اس کے برعکس تاریخ کے وہ مردانِ حریت ہیں جن کے نام رہتی دنیا تک عزت و احترام کے ساتھ لیے جاتے رہیں گے: صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، نورالدین زنگی، عمر مختار، امام شامل اور دورِ صحابہ کے جانثار۔ یہ سب اس حقیقت کے روشن ستارے ہیں کہ اصل طاقت ایمان اور حوصلے میں ہے۔ اسی ایمانی طاقت سے طارق بن زیاد نے اندلس فتح کیا، بابر نے پانی پت کی جنگ جیتی، افغان مجاہدین نے سوویت یونین کو بکھیر دیا، اور طالبان نے ناٹو جیسی بڑی فوج کو ہزیمت کے ساتھ نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اور آج اہل ِ غزہ کی استقامت بھی یہی پیغام دے رہی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت، امریکا، اس کے اتحادی یورپی ممالک اور اسرائیل مل کر بھی نہتے فلسطینیوں کو جھکا نہیں سکتے۔ آج بہادری، جرأت اور صبر و استقلال کی نئی تاریخ غزہ میں رقم ہو رہی ہے جہاں معصوم بچے، بزرگ اور خواتین یک زبان ہو کر اعلان کر رہے ہیں کہ وہ ظالم و جابر کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔
یہاں ایک تاریخی واقعہ بھی سبق دیتا ہے۔ بازنطینی سلطنت کا بادشاہ ہرقل مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھا گیا تو حیران رہ گیا۔ اْس نے اپنے جرنیلوں کو بلا کر پوچھا: میری فوج تعداد میں مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہے، میرے پاس وقت کا جدید ترین اسلحہ ہے، پھر بھی شکست کیوں ہوئی؟ ایک جرنیل نے کہا: ہماری شکست کی وجہ یہ ہے کہ ہم دن کو کمزوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں، اخلاقی گراوٹ میں ڈوبے ہیں، راتوں کو شراب نوشی اور بدکاری میں مصروف رہتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمان دن کو روزے رکھتے ہیں، انصاف قائم کرتے ہیں، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرتے ہیں اور رات کو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے ان کے ہر عمل میں عزم و ولولہ ہے جبکہ ہمارے دل بزدلی سے بھر گئے ہیں۔ یہی ہماری ناکامی اور مسلمانوں کی کامیابی کا راز ہے۔ یہ سب واقعات گواہ ہیں کہ جابر سلطنتیں ہمیشہ بہادر اور حق پرست اقوام کے سامنے شکست کھاتی آئی ہیں۔
قطر میں ہونے والی عالمی مسلم سربراہ کانفرنس نے بھی اسی کمزوری کو آشکار کیا۔ امت کو امید تھی کہ یہاں سے کوئی فیصلہ کن پیغام آئے گا، مگر کانفرنس کا اعلامیہ محض الفاظ، مذمتی جملے اور قانونی دہائیوں کا مجموعہ نکلا۔ نہ کوئی عسکری اتحاد، نہ اقتصادی دباؤ، نہ عملی اقدام۔ آج کی مسلم دنیا کے پاس جدید ترین اسلحہ، تربیت یافتہ فوجیں، تیل کے ذخائر اور بے شمار دولت ہے، لیکن فیصلہ کرنے کی جرأت نہیں۔ قیادت کی غیرت مر چکی ہے، ایوانوں میں مال کی ریل پیل ہے مگر دلوں میں ’’وہن‘‘ سرایت کر چکا ہے۔ یہی وہ کمزوری ہے جس کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرمایا: قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے دسترخوان پر کھانے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہؓ نے پوچھا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم بہت زیادہ ہو گے، لیکن تمہاری حیثیت دریا کے تنکوں کے مانند ہوگی کیونکہ تمہارے دل وہن کا شکار ہو جائیں گے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! وہن کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: زندگی سے محبت اور موت سے کراہت۔
آج کے مسلم حکمرانوں کے پاس دولت اور فوجی طاقت ہے مگر وہ فیصلہ کرنے کی جرأت سے محروم ہیں۔ یہی وہن ہے، دنیا کی محبت اور موت سے کراہت۔ اگر یہ کیفیت برقرار رہی تو تاریخ انہیں بھی لوئس شانزدہ سولہ اور رضا پہلوی کی صف میں ڈال دے گی۔ لیکن اگر وہ صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد کی راہ اپنائیں تو ایک نئی تاریخ رقم ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اور مسلم حکمرانوں کی بزدلی کا اپنی عوام پر کیا منفی اثر پڑے گا اور اس کے کیا خوفناک نتائج نکلیں گے؟ یہ الگ مگر نہایت اہم سوال ہے۔ اس کا جواب آنے والا وقت دے گا تاہم فی الوقت مسلم حکمرانوں کی پالیسی واضح ہوچکی اور وہ اسرائیل سے کہہ رہے ہیں ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘۔