ابیہہ بتول: بچوں کی آواز جو قومی و عالمی سطح پر گونجی
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
لاہور:پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق پالیسی سازی میں عموماً بچوں کی آواز شامل نہیں کی جاتی۔ پالیسی ساز ادارے، ماہرین اور سماجی کارکنان ہی ان کی نمائندگی کرتے ہیں. جس کے باعث بچوں کے اصل مسائل اور تجربات پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق جب پالیسی بالغ افراد کے نقطۂ نظر پر مبنی ہو، تو وہ بچوں کی عمر، دلچسپی اور ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہوتی، جس سے ان کی شمولیت اور عمل درآمد کا جذبہ بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔تاہم پاکستان میں بچوں کی شراکت داری اب محض ایک خواب نہیں رہی، اس کی ایک متاثر کن مثال 16 سالہ ابیہہ بتول کی ہے، جو لاہور کے ایک اسکول میں بچوں کے فورم کی رکن ہیں۔ انہوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی سالانہ تقریب برائے چائلڈ رائٹس میں شرکت کی اور بچوں کے لیے سماجی تحفظ کے ایک جامع پروگرام کا مطالبہ کیا۔اسی طرح ابیہہ پنجاب کے وزیر برائے انسانی حقوق، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن، اور نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے ممبر سے ملاقات کر کے بچوں کے مطالبات کا چارٹر پیش کر چکی ہیں۔ابیہہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسکول کی سطح سے لے کر قومی مشاورتوں اور عالمی سطح پر، بچوں نے ثابت کیا ہے کہ انہیں اگر موقع دیا جائے تو وہ بصیرت، خلوص اور اخلاقی جرات کے ساتھ رائے دے سکتے ہیں۔ تاہم، ابھی کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ نقصان دہ سماجی رویے، کمزور ادارہ جاتی ڈھانچے اور نمائشی شمولیت کے رجحانات بچوں کی حقیقی شراکت داری کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف دی چائلڈ (این سی آرسی) کی چیئرپرسن عائشہ رضا خان کہتی ہیں یہ باعث فخر ہے کہ سارک ریجن میں این سی آر سی ایسا فورم ہے جس میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے کمیشن نے ایک چائلڈ ایڈوائزری پینل تشکیل دیا گیا ہے جس میں ملک بھر سے بچوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔عائشہ رضا خان کے مطابق یہ بہت اہم ہے کہ جب ہم بچوں کے پروٹیکشن، بچوں کے حقوق کے بارے میں بات کریں تو سب سے پہلے ہم بچوں سے سنیں ان کی آواز شامل کرنا.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بچوں کے حقوق بچوں کی
پڑھیں:
پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
اسلام آباد:ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شائستہ خان کا کہنا ہے کہ تعلیم پر سرکاری سرمایہ کاری کی کمی کے باعث لاکھوں بچے، خصوصاً لڑکیاں، اپنے تعلیم کے حق سے محروم ہیں، جبکہ موسمی رکاوٹیں اور ماحولیاتی تبدیلیاں اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔
چیئرپرسن، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن گلمینہ بلال کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے، فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا شعبہ آگاہی کی کمی اور روایتی معاشرتی رویوں سے متاثر ہے، جو صنفی امتیاز اور تکنیکی شعبوں میں صنفی فرق کم کرنے میں حائل ہیں۔
ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں حقیقی تبدیلی کے لیے سیاسی عزم اور مساوی مالی معاونت ضروری ہے، اگر صنفی مساوات اور سماجی شمولیت کو ترجیح نہ دی گئی تو پاکستان ایک اور نسل کو محرومی اور عدم مساوات کے اندھیروں میں کھو دے گا۔
گزشتہ روز سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن (ایس اے کیو ای) کے پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (پی سی ای) کے سالانہ کنونشن سے خطاب کے دوران سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر زہرہ ارشد نے کہا کہ تعلیم میں حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے اور صنفی مساوات و سماجی شمولیت کو پالیسی اور عمل کے ہر درجے میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کا بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ منصفانہ استعمال کو یقینی بنائے بغیر جامع تعلیم کے وعدے محض کاغذی رہ جائیں گے۔ تعلیمی فنڈنگ میں حکومتوں کا احتساب صرف اعداد و شمار تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ احتساب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونا چاہیے کہ بجٹ کا ہر روپیہ ہر لڑکی کی تعلیم کے حق کی تکمیل میں خرچ ہو۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شاہد سرویا نے کہا کہ پاکستان کو اپنی تعلیم کی ایمرجنسی سے نکلنے کے لیے کم از کم جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ وسائل ہر سال اسکول جانے والی عمر کے بچوں میں 1.7 فیصد اضافے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
پنجاب کے وزیر تعلیم کے مشیر ڈاکٹر شکیل احمد نے وضاحت کی کہ اسکولوں کی آؤٹ سورسنگ سے نہ صرف اسکول سے باہر بچوں بلکہ کم فیس والے نجی اسکولوں کے طلبہ کا اندراج بھی بڑھا ہے، تاہم مالی مشکلات اور سیاسی تبدیلیوں کے باعث اس پالیسی کی پائیداری ایک چیلنج بن سکتی ہے۔
بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے اسپیشل سیکریٹری عبدالسلام اچکزئی نے اعلان کیا کہ صوبے میں 12 ہزار اساتذہ کی خالی آسامیوں پر بھرتیاں مکمل کی گئی ہیں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی بڑھائی جا سکے، جبکہ لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ پروگرامز بھی شروع کیے جا رہے ہیں تاکہ اسکول واپسی اور حاضری کو یقینی بنایا جا سکے۔
خیبر پختونخوا محکمہ تعلیم کے مشیر محمد اعجاز خلیل نے بتایا کہ ترقیاتی تعلیمی بجٹ کا 70 فیصد حصہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے مختص کیا جا رہا ہے، جس میں 10 ہزار کلاس رومز اور 350 واش رومز کی تعمیر شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کارکردگی میں کمزور اسکولوں کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے اور 1,000 مقامی گاڑیاں لڑکیوں کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کریں گی۔
اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عاطف شیخ نے کہا کہ 90 فیصد معذور بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں 50 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ اُنہوں نے نشاندہی کی کہ معذور بچوں کے لیے مخصوص بجٹ لائنز اور اساتذہ کی شمولیتی تربیت کی عدم موجودگی لاکھوں بچوں کو نظام سے باہر رکھتی ہے۔
جینڈر اور گورننس ماہر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ صنفی مساوات اور شمولیت کو فروغ دینے کا آغاز ابتدائی عمر سے ہونا چاہیے، جہاں آئینی حقوق مقامی زبانوں میں پڑھائے جائیں اور والدین، اساتذہ، اور کمیونٹی اس عمل کو مضبوط کریں۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں 18 فیصد لڑکیوں کی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، جبکہ ملک میں جنوبی ایشیا کی بلند ترین ماں اور بچے کی اموات اور 40 فیصد بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں رکاوٹ جیسے مسائل موجود ہیں۔
خواجہ سرا سوسائٹی کی ڈائریکٹر مہنور چوہدری نے کہا کہ ٹرانس جینڈر طلبہ کی شمولیت کے لیے جامع نصاب، اساتذہ کی حساسیت، ٹراما سے آگاہی، کونسلنگ اور زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم ضروری ہے۔