حکومت کا بٹ کوائن مائننگ کے لیے بجلی رعایتی نرخوں پر فراہم کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
وفاقی حکومت نے ملک میں بٹ کوائن مائننگ کے لیے بجلی رعایتی نرخوں پر فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ بٹ کوائن مائننگ کے لیے رعایتی نرخ 24 روپے فی یونٹ تک ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق پاور ڈویڑن کے پاس سات ہزار میگاواٹ تک بجلی سرپلس ہے جس میں سے حکومتی اعلان کے مطابق دو ہزار میگاواٹ بٹ کوائن مائننگ کیلئے مختص کی جائے گی۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ حکومت پہلے بھی اس پر کام کررہی تھی کہ اضافی بجلی کو رعایتی نرخوں پر دیا جائے، ونٹر پیکج کے وقت رعایتی نرخ 27 روپے تک فی یونٹ تھا۔
آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کے بعد نرخوں پر اثر پڑا ہے اور رعایتی نرخ اب کم ہو کر 24 روپے تک آ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں 4 کروڑ کے قریب بٹ کوائن صارفین ہیں جن میں سے اڑھائی کروڑ صارفین فعال بھی ہیں۔
مائننگ کے لیے زیادہ بجلی کی بلاتعطل فراہمی ضروری ہوتی ہے، ذرائع کے مطابق اس اقدام سے حکومت کو دو مقاصد پورے ہوں گے۔
اضافی بجلی کی فروخت سے کیپسٹی پیمنٹ میں کمی ہوگی ، بٹ کوائن مائننگ کی مارکیٹ بڑھنے سے پاکستان کے پاس موجود بجلی کی کھپت بھی ہوگی اور ڈیجیٹل جدت آئے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بٹ کوائن مائننگ مائننگ کے لیے کے مطابق
پڑھیں:
حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ
وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے نہ صرف قرضوں کے خطرات کم ہوئے بلکہ 850 ارب روپے سود کی مد میں بچت بھی ہوئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق اس اقدام سے پاکستان کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی (Debt-to-GDP) شرح کم ہو کر 74 فیصد سے 70 فیصد تک آ گئی ہے، جو ملک کی اقتصادی بہتری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ حکام کے مطابق یہ تمام فیصلے ایک منظم اور محتاط قرض حکمت عملی کے تحت کیے گئے۔
وزارت خزانہ کا مؤقف کیا ہے؟
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف قرضوں کی کل رقم دیکھ کر ملکی معیشت کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ افراط زر کے باعث قرضے بڑھے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اصل پیمانہ یہ ہے کہ قرض معیشت کے حجم کے مقابلے میں کتنا ہے، یعنی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی تناسب۔
حکومت کی حکمت عملی کا مقصد:
قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا
قرض کی ری فنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کم کرنا
سود کی ادائیگیوں میں بچت
مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانا
اہم اعداد و شمار اور پیش رفت:
قرضوں میں اضافہ: مالی سال 2025 میں مجموعی قرضوں میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا، جو گزشتہ 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔
سود کی بچت: مالی سال 2025 میں سود کی مد میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
وفاقی خسارہ: گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے کے مقابلے میں رواں سال کا خسارہ 7.1 ٹریلین روپے رہا۔
معیشت کے حجم کے لحاظ سے خسارہ: 7.3 فیصد سے کم ہو کر 6.2 فیصد پر آ گیا۔
پرائمری سرپلس: مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس حاصل کیا گیا۔
قرضوں کی میچورٹی: پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4 سال سے بڑھ کر 4.5 سال جبکہ ملکی قرضوں کی میچورٹی 2.7 سے بڑھ کر 3.8 سال ہو گئی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی مثبت پیش رفت
وزارت خزانہ کے مطابق 14 سال بعد پہلی مرتبہ مالی سال 2025 میں 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا، جس سے بیرونی مالیاتی دباؤ میں بھی کمی آئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں اضافہ کیوں ہوا؟
اعلامیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیرونی قرضوں میں جو جزوی اضافہ ہوا، وہ نئے قرض لینے کی وجہ سے نہیں بلکہ:
روپے کی قدر میں کمی (جس سے تقریباً 800 ارب روپے کا فرق پڑا)
نان کیش سہولیات جیسے کہ آئی ایم ایف پروگرام اور سعودی آئل فنڈ کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے حکومت کو روپے میں ادائیگیاں نہیں کرنی پڑتیں۔