پنجاب میں ورلڈ بینک کے تعاون سے 2.4 ارب ڈالر کے 12 منصوبے جاری ہیں، مریم نواز
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
مریم نواز—فائل فوٹو
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازکا کہنا ہے کہ پنجاب میں ورلڈ بینک کے تعاون سے 2.4 ارب ڈالر کے 12 منصوبے جاری ہیں۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز سے ورلڈ بینک کے سبکدوش ہونے والے کنٹری ڈائریکٹر ناجے بن حسین کی ملاقات ہوئی۔
وزیر اعلیٰ نے ناجے بن حسین کی 2020 سے پاکستان میں نمایاں خدمات پر خراجِ تحسین پیش کیا۔
ملاقات میں ورلڈ بینک اور حکومت پنجاب کی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا گیا۔
وزارت اقتصادی امورنے عالمی بینک کے کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک پر جامع عملدرآمد کے لیے کام شروع کردیا ہے
اس موقع پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کے ساتھ مضبوط، مؤثر اور دیرینہ شراکت داری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ورلڈ بینک تعلیم اور صحت سمیت دیگر ترقیاتی شعبوں میں قابلِ قدر معاونت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک سے اشتراک کار کو مزید مستحکم اور پائیدار بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دیہات میں صاف پانی اور سینی ٹیشن پراجیکٹ کےلیے انتھک کوششیں جاری ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ورلڈ بینک کے مریم نواز
پڑھیں:
سندھ میں پیپلز پارٹی کے 17 سالہ دور میں 17 منصوبے گنوا کر دکھائیں‘ عظمیٰ بخاری کا چیلنج
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمٰی بخاری نے شرمیلا فاروقی کے بیانات پر سخت ردعمل میں کہا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں 17 سالہ دور حکومت کے باوجود 17 عوامی فلاحی منصوبے بھی نہیں گنوا سکتی، جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صرف ڈیڑھ سال میں 90 منصوبے شروع کیے جن میں سے 50 مکمل ہو چکے ہیں۔ مریم نواز نے عوامی خدمت کے کئی انقلابی منصوبے متعارف کرائے ہیں جن میں اپنی چھت اپنا گھر سکیم کے تحت 90 ہزار گھر، 80 ہزار سکالرشپس، کسانوں میں ساڑھے 9 ہزار ٹریکٹرز کی تقسیم، طلبہ کو 27 ہزار الیکٹرک بائیکس اور جدید ترین لیپ ٹاپس کی فراہمی شامل ہیں۔ مریم نواز کی حکومت کو ابھی دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے مگر کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ "آجائیں، کارکردگی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ مناظرے کے لیے میں تیار ہوں، سندھ میں ترقی ہو رہی ہے تو نظر کیوں نہیں آتی؟ شرمیلا فاروقی آئیں اور قوم کو دکھائیں۔" عظمٰی بخاری نے کہا کہ کراچی کے عوام بھی لاہور کی سڑکوں اور صفائی کی تعریف کرتے ہیں جس پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو پریشانی ہوتی ہے۔