جمہوریت، مستحکم اداروں کیلئے سیاسی مکالمہ وقت کی ضرورت، نوجوان سرمایہ: صدر زرداری
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
لاہور (نامہ نگار) صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل اور اداروں کے استحکام کے لیے باہمی ہم آہنگی اور سیاسی مکالمے کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عوامی مسائل کے دیرپا حل کے لئے تمام طبقات کے ساتھ مشاورت اور تعاون کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ وہ گورنر ہائوس لاہور میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر کی موجودگی میں پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے رہنمائوں چودھری ذکاء اشرف، ممتاز علی چانگ، مخدوم شہاب الدین اور رکن قومی اسمبلی مخدوم طاہر پر مشتمل وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔ ملاقات میں جنوبی پنجاب کو درپیش دیرینہ مسائل اور دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے لاہور میں پنجاب کے وسطی اضلاع فیصل آباد، گجرات اور حافظ اباد سے تعلق رکھنے والے سماجی و سیاسی شخصیات سابق وفاقی وزیر رانا فاروق سعید خان، تنویر اشرف کائرہ، بلال فاروق، عمر فاروق، اسامہ فاروق، علی جعفر، اور حرا تنویر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان نسل ہمارا سرمایہ ہے۔ ان کی تعلیم، تربیت اور شراکت سے ہی ایک خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ وفاق کی سطح پر تمام اکائیوں کو ساتھ لے کر چلنا، صوبوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا اور شہریوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ملکی مفاد کا تقاضا ہے۔ وفد نے صدر مملکت کو فیصل آباد، گجرات اور حافظ آباد سمیت وسطی پنجاب کے دیگر اضلاع کے عوام کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔ دریں اثنا رکن پنجاب اسمبلی انعام لالیکا، چوہدری اویس، پیپلز پارٹی کے رہنما نوازش علی پیرزادہ، میاں عامر، اتحاد ملازمین او جی ڈی سی ایل کے صدر زاہد بھٹو اور مائرہ ہاشمی پر مشتمل وفد نے بھی گورنر ہاس لاہور میں صدر پاکستان سے ملاقات کی جس میں ملک کے مختلف سماجی و سیاسی مسائل، صوبوں کے درمیان تعاون، اور نوجوانوں کے مواقعاور تنخواہ دار و محنت کش طبقے کو درپیش مشکلات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تمام شعبے اور تمام سیاسی و سماجی قوتیں مل کر کام کریں، ہم سب کا مقصد عوام کی خدمت اور ملک کی بہتری ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
عوامی امنگوں اور جمہوریت کیلئے ہی سہی کیا جج آئین ری رائٹ کر سکتے ہیں: جسٹس علی مظہر
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے خلاف نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے کہا ہے اکثریتی فیصلے کے ابتدائی پیراگراف کو پڑھ کر جو بات سمجھ میں آتی ہے کہ بعض ایسی آبزرویشن دی ہیں جو دیتے ہوئے حقائق مدنظر نہیں رکھے گئے۔ جسٹس امین الدین نے کہا کہ کسی بھی فریق نے پی ٹی آئی کیلئے مخصوص نشستیں نہیں مانگیں۔ فیصل صدیقی نے جواب دیا اس کا جواب اکثریتی فیصلے میں موجود ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا جب سب کچھ عدالتی فیصلے میں ہے تو پھر ہم آپ کو کیوں سن رہے ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا ایک امریکی جج نے ایک فیصلے میں کہا جو کیا گیا احمقانہ تھا لیکن غیر آئینی نہیں تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا یہ آپ اقلیتی فیصلے کے بارے میں کہہ رہے ہیں یا اکثریتی فیصلے کے بارے میں کہہ رہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عوامی سطح پر کہا گیا اس فیصلے کے ذریعے آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے جہاں آئین واضح ہو وہاں ہٹ کر بات تحریر کرنا ایسے ہی ہے جیسے آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا ہو۔ جسٹس جمال نے کہا جمہوریت کو پھولنا پھلنا چاہیے، ہر شخص کی مرضی ہے چاہے تو آزاد رہے چاہے تو مرضی کی پارٹی میں جائے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے مخصوص نشستوں کے فیصلے میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے پر بھی ٹھیک ٹھاک بحث کی گئی۔ مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے سے لگتا ہے، اکثریتی ججز پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن فیصلے سے خوش نہیں تھے۔ فیصل صدیقی نے کہا اکثریتی فیصلے میں الیکشن کمیشن کے کردار اور جمہوریت پر بات کی گئی۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 225 کے ہوتے ہوئے کیا سپریم کورٹ کے آٹھ ججز عام انتخابات کے حقائق کا جائزہ لے سکتے تھے، ن لیگ کے امیدواروں کو سینٹ الیکشن میں آزاد قرار دیا گیا، بعد میں دوبارہ انہی امیدواروں نے فوری ن لیگ جوائن کی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ الیکشن کمشن پر الزام لگا رہے ہیں، لیکن اپنی حماقتوں کو نہیں مان رہے، پی ٹی آئی میں اتنے بڑے بڑے وکلا تھے، قانونی ماہر بھی موجود تھے۔ فیصل صدیقی نے کہا ہم تسلیم کرتے ہیں ہم سے غلطیاں ہوئیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ملک کے بڑے بڑے نامور وکلا تو اس وقت الیکشن لڑ رہے تھے۔ جسٹس امین الدین نے کہا آپ کی جماعت کو تو زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کیا جج آئین کے سکوپ سے باہر جا کر فیصلہ دے سکتے ہیں؟۔ عوامی امنگوں اور جمہوریت کیلئے ہی سہی، مگر کیا جج آئین ری رائٹ کرسکتے ہیں؟۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا فیصلے میں تین دن کی مدت کو بڑھا کر 15 دن کرنا آئین دوبارہ تحریر کرنے جیسا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ن لیگ کے وکیل سے استفسار کیا کہ ایک جماعت کے امیدواروں کو آزاد کیسے ڈیکلئیر کر دیا گیا؟۔ کیا آپ نے اپنی تحریری گزارشات میں اس کا جواب دیا ہے؟۔ وکیل نے کہا میں نے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا صاحبزادہ حامد رضا کی 2013 سے سیاسی جماعت موجود ہے، جو جماعت الیکشن لڑے وہی پارلیمانی پارٹی بناتی ہے، حامد رضا اپنی جماعت سے نہیں لڑے پھر پارلیمانی جماعت کیوں بنائی، مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کہا گیا ووٹ بنیادی حق ہے، ووٹ بنیادی حق نہیں ہے، ووٹ ڈالنے کا حق ایک خاص عمر کے بعد ملتا ہے۔ جسٹس جمال نے کہا 39 امیدواروں کی حد تک میں اور قاضی فائز عیسی بھی 8 ججز سے متفق تھے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے بھی پی ٹی آئی کو پارٹی تسلیم کیا۔ جسٹس یحیی آفریدی نے بھی کہا پی ٹی آئی نشستوں کی حقدار ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اقلیتی ججز نے انہی گرائونڈز پر پی ٹی آئی کو مانا جس پر اکثریتی ججز نے مانا تھا۔ جسٹس صلاح الدین نے کہا نظرثانی لانے والوں نے جس فیصلے کو چیلنج کیا اسے ہمارے سامنے پڑھا ہی نہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا اکثریتی ججز نے کہا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو ملنی چاہئیں۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا آپ اپنے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں، وکیل نے جواب دیا ہمیں کوئی مسئلہ نہیں نشستیں پی ٹی آئی کو ملیں یا ہمیں ایک ہی بات ہے۔ جسٹس جمال نے کہا آپ کی فلم تو پھر فلاپ ہوجائے گی۔ وکیل نے جواب دیا جمہوریت میں سب کو برابر کے حقوق ملنے چاہئیں۔ جسٹس جمال نے کہا جمہوریت کی بات کی گئی ہے، کیا امیدواروں کا اپنی مرضی سے فیصلہ کرنا جمہوریت نہیں، کسی کو زبردستی دوسری جماعت میں شمولیت کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا، جو آزاد امیدوار کسی اور پارلیمانی جماعت میں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔ وکیل نے جواب دیا الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کر دیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا فیصل صدیقی آپ بار بار پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا تحریک انصاف انٹرا پارٹی کیس فیصلے کے بعد بھی جماعت تھی، اس معاملے پر پی ٹی آئی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں تھی، اگر غلط فہمی ہوتی وہ پارٹی سرٹیفکیٹ جاری نہ کرتے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت 16 جون تک ملتوی کردی گئی۔