خوارجی دہشتگردوں کے 31 حملے ناکام ، 43 جہنم واصل کیا،ترجمان پنجاب پولیس
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
علی ساہی:پنجاب پولیس ملک کی اندرونی سرحدوں کی حفاظت، دہشگردوں کے عزائم خاک میں ملانے کے لئے پرعزم، پنجاب پولیس نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران خوارجی دہشتگردوں کے 31 حملے ناکام بنائے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ ڈی جی خان میں 22، میانوالی میں 09 خوارجی حملے ناکام بنائے گئے، پنجاب پولیس کی جوابی کارروائی میں 43 خوارجی دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔
خوارجیوں کے خلاف کارروائی کے دوران 15 پولیس افسران و اہلکار شدید زخمی ہوئے، پنجاب پولیس نے خوارجی دہشتگردوں کے خلاف فقیدالمثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
سوراب میں دہشت گردوں کا بینک اوررہائش گاہوں پر حملے؛ اے ڈی سی ریونیو شہید
بارڈر ایریاز کی پولیس چیک پوسٹوں کو مزید مضبوط اور سہولیات سے آراستہ کیا گیا ہےسرحدی پولیس چوکیوں کو جدید تھرمل امیجنگ کیمروں، گنز، سرویلنس آلات، سامان اور ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا ہے۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ ٹرائی بارڈر سرحدی تھانوں اور چوکیوں پر تعینات پنجاب پولیس کے جوان الرٹ، دہشت گردوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہیں،پنجاب پولیس کے جوانوں کا مورال بلند، دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے ہمیں کمزور نہیں کر سکتے۔
دوسرا ٹی 20 ؛ پاکستان کا جیت کے لیے 202 رنز کا ہدف
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: خوارجی دہشتگردوں پنجاب پولیس
پڑھیں:
طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی و استحکام کی ذمہ داری اور ضمانت مسلح افواج ہیں اور یہ ضمانت کسی بیرونی دارالحکومت یا کابل کو نہیں دی جا سکتی، دہشت گردی، منشیات کی کشتکاری اور غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر کام کرنے والے گروپس کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل احمد شریف نے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا اور واضح کیا کہ ریاستی اداروں کا رویہ واضح ہے، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف آپریشنز جاری ہیں، ملک کی سکیورٹی کا نظم و نسق فوج کے کنٹرول اور ذمہ داری میں ہے اور اس ضمانت کا تقاضا کابل سے نہیں کیا جا سکتا۔
ڈرونز کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا امریکا کے ساتھ کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے جس کے تحت ڈرونز پاکستان سے افغانستان جا رہے ہوں، اور وزارت اطلاعات نے بھی اس بارے میں وضاحتیں جاری کی ہیں، طالبان رجیم کی جانب سے ڈرون آپریشن کے حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت موصول نہیں ہوئی۔
جنرل نے استنبول میں طالبان کو واضح ہدایات دینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کو قابو میں رکھنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا افغان فریق کی ذمہ داری ہے،جو عناصر ہمارے خلاف آپریشنوں کے دوران بھاگ کر افغانستان چلے گئے، انہیں واپس کر کے آئین و قانون کے مطابق نمٹایا جائے تو بہتر ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے علاقائی مسائل پر بھی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی اور جرائم پیشہ عناصر کا مشترکہ گٹھ جوڑ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منشیات کی کاشت اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی جنگجوؤں، وار لارڈز اور بعض افغان گروہوں کو منتقل ہوتی ہے، جس نے خطے میں بدامنی کو تقویت دی ہے۔
سرحدی امور پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان سرحد تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل ہے اور ہر 25 تا 40 کلو میٹر پر چوکیوں کی موجودگی کے باوجود پہاڑی اور دریا ئی علاقوں کی وجہ سے ہر جگہ چوکی قائم کرنا ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سرحدی گارڈز بعض اوقات دہشت گردوں کو سرحد پار کروانے کے لیے فائرنگ میں معاونت کرتے ہیں، جس کا پاکستان جواب دیتا ہے۔
فوجی عہدوں کے قیام یا دیگر انتظامی امور کے بارے میں انہوں نے واضح کیا کہ اس نوعیت کے فیصلے حکومت کا اختیار ہیں، فوج نے وادی تیرہ میں براہِ راست آپریشن کا دعویٰ نہیں کیا اور اگر کوئی آپریشن ہوا تو اسے شفاف انداز میں بتایا جائے گا؛ تاہم انٹلی جنس بیسڈ کارروائیوں میں کافی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔