Daily Ausaf:
2025-07-23@16:01:49 GMT

ایمان اور توکل کی پرواز

اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT

بچپن کی وہ راتیں آج بھی یاد آتی ہیں جب دادی اماں ہمیں لالٹین کی مدھم روشنی میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ یہ کہانیاں صرف تفریح کے لیے نہ تھیں بلکہ ان میں اخلاقی تربیت، سچائی، اور بھلائی کی تعلیم چھپی ہوتی تھی۔ ایک کہانی اکثر سنی جاتی تھی۔ تین دوست ایک غار میں پھنس جاتے ہیں، اس کا منہ ایک بڑی چٹان سے بند ہو جاتا ہے۔ وہ تینوں اپنی اپنی نیکیوں کو وسیلہ بنا کر ربِ ذوالجلال سے دعا کرتے ہیں، اور ان کی سچائی اور خلوص کے باعث چٹان ہٹتی ہے اور وہ نجات پاتے ہیں۔ ایسی کہانیاں ہمارے دل و دماغ میں یوں پیوست ہوگئیں کہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خالص نیت اور ایمان پہاڑوں کو بھی ہلا سکتا ہے۔ لیکن حال ہی میں لیبیا میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے گویا ان بچپن کی کہانیوں کو حقیقت میں بدل دیا۔ یہ کوئی قصہ نہیں، کوئی افسانہ نہیں، بلکہ ایک سچائی ہے، ایک معجزہ ہے، جو ہزاروں لوگوں کی نظروں کے سامنے پیش آیا۔
یہ ہے عامر مہدی منصور قذافی نامی ایک نوجوان لیبیا کے حاجی کی حیرت انگیز داستان، جو اب پورے اسلامی دنیا میں ایک معروف نام بن چکا ہے۔ اس کا قصہ محض حج کا نہیں، نہ ہی کسی ایئر لائن کی خرابی کا، بلکہ یہ اللہ سے تعلق، یقینِ کامل اور ایمان کے ایک ناقابلِ یقین سفر کا احوال ہے۔
’’تمہارا اللہ سے تعلق کیسا ہے؟‘‘ یہی سوال ہے جو یہ واقعہ ہم سب سے کرتا ہے۔
عامر مہدی حج کی نیت سے سبہا ایئرپورٹ (جنوبی لیبیا) پہنچا تو اسے پاسپورٹ کے مسئلے کی بنیاد پر پرواز میں سوار ہونے سے روک دیا گیا۔ پرواز اپنے مقررہ وقت پر روانہ ہو گئی، سینکڑوں خوش نصیب مسافروں کو لیے ہوئے، لیکن عامر وہیں رہ گیا۔ کوئی اور ہوتا تو شاید مایوس ہو کر لوٹ جاتا، احتجاج کرتا یا رو کر بیٹھ جاتا۔ لیکن عامر مہدی وہیں کھڑا رہا۔ وہ بار بار دہراتا رہا۔
’’میں نے ارادہ کر لیا ہے، میں حج پر جاؤں گا، اور ضرور جاؤں گا!‘‘
لوگوں نے سمجھایا: ’’بھائی، پرواز چلی گئی ہے، اب اگلے سال سہی، ان شاء اللہ‘‘
لیکن عامر نہ مانا۔ وہ کہتا رہا: ’’یہ جہاز میرے بغیر نہیں جائے گا، یہ واپس آئے گا‘‘
پھر پہلا معجزہ رونما ہوا۔ جہاز جو فضا میں بلند ہو چکا تھا، اچانک تکنیکی خرابی کا شکار ہو کر واپس ایئرپورٹ آ گیا۔ یہ گویا ایک کرشمہ تھا۔ لیکن جب اس موقع پر عامر کے لیے سوار ہونے کی اجازت مانگی گئی، تو عملے نے انکار کر دیا۔ خرابی دور کی گئی اور جہاز ایک بار پھر اُڑان بھر گیا—عامر کے بغیر۔
مگر وہ نہ تھکا، نہ مایوس ہوا، وہیں ڈٹا رہا۔ اُس نے پُرایمان لہجے میں کہا
’’اطاعت میرے بغیر نہیں جائے گی، یہ پھر لوٹے گی‘‘
اور وہی ہوا۔ جہاز نے دوبارہ فضا میں جا کر ایک اور خرابی کے باعث واپس لینڈنگ کی۔ اس بار پائلٹ نے اعلان کیا’’جب تک عامر مہدی سوار نہیں ہوگا، میں جہاز نہیں اُڑاؤں گا!‘‘
یوں وہ شخص، جو نظر انداز کیا گیا تھا، اب پرواز کی کنجی بن چکا تھا۔ جیسے ہی عامر نے احرام میں ملبوس ہو کر جہاز میں قدم رکھا، یہ لمحہ ویڈیو کی صورت میں سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ اُس کا چہرہ ایمان کی روشنی سے دمک رہا تھا۔
قرآن فرماتا ہے:
’’اور جو اللہ پر بھروسا کرے، اللہ اس کے لیے کافی ہے۔‘‘(سورۃ الطلاق: 65:3)
ایک اور جگہ فرمایا۔
”کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟”
(سورۃ الزمر: 39:36)
یہ نوجوان وہی تھا جس نے اپنا پورا بھروسہ اللہ کی رضا پر چھوڑ دیا، اور اللہ نے اسے وہ عطا کیا جو دنیا میں کم ہی کسی کو یوں نظر آتا ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ واقعہ چھا گیا۔ کسی نے کہا ’’جب جہاز دو بار تمہارے لیے لوٹے، تو یہ معمولی بات نہیں۔ تمہارا اللہ سے تعلق خاص ہے‘‘
ایک اور صارف نے لکھا ”’’جب نیت خالص ہو، بھروسا سچا ہو، تو معجزے ظاہر ہوتے ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث اس واقعے کی بہترین تفسیر ہے۔
’’جان لو کہ اگر ساری قوم تمہیں فائدہ پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے، وہ تمہیں صرف وہی دے سکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہو۔ اور اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے، تو وہ تمہیں صرف وہی نقصان دے سکتی ہے جو اللہ نے تمہارے خلاف لکھ دیا ہو۔ قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
واقعی، جو اللہ نے عامر مہدی کے لیے لکھ دیا تھا، اُسے کوئی امیگریشن آفیسر، پرواز کی فہرست یا ضابطہ نہیں روک سکا۔
جب وہ بیت اللہ پہنچا تو ایک ویڈیو میں وہ احرام پہنے، عاجزی سے کہتا ہے۔
’’الحمد للہ! میں اللہ کے گھر پہنچ گیا ہوں۔‘‘
ایک دل شکر سے لبریز، ایک روح ایمان سے سرشار۔
آج عامر مہدی اسلامی دنیا کا سب سے مشہور شخص بن چکا ہے،نہ اس لیے کہ وہ شہرت کا طلبگار تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ اللہ کا طلبگار تھا۔ اور قرآن کہتا ہے
’’تو جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے، سب بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
(سورۃ آلِ عمران: 3:26)
یہ وہی کہانی ہے جو ہماری دادی اماں سنایا کرتی تھیں، مگر آج یہ سچائی بن چکی ہے۔ نہ یہ غار میں پھنسے تین دوستوں کی کہانی ہے، نہ کسی بس کے معجزاتی حادثے کی۔ بلکہ یہ اس حاجی کی داستان ہے جس نے یقین رکھا کہ اس کا رب اسے تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اور وہ صحیح تھا۔ جہاز اس کے بغیر نہیں گیا، کیونکہ آسمانوں کا مالک کچھ اور ہی لکھ چکا تھا۔
جب دل خالص پکارے، اور روح سچے بھروسے سے لبریز ہو، تو آسمان بھی رک جاتے ہیں۔ کیونکہ جو اڑتے جہاز کو روک سکتا ہے، وہی دلوں کے حال جاننے والا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: جو اللہ اللہ نے کے لیے

پڑھیں:

زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!

آفتاب احمد خانزادہ

10اگست 1976کو شمالی آئر لینڈ کے شہر بلفاسٹ کی گلیوں میں ایک عجیب واقعہ رونما ہوا تھا۔ ایک آدمی فرار کی کوشش میں پیچھا کرنے کے والوں کو دھوکہ دینے کی کوشش میں اپنی گاڑی لے کر ایک گلی میں پہنچ گیا تھا ،اچانک گولی چلنے کی آواز آتی ہے، مہلک زخمی ڈرائیور گاڑی کے اسٹیر نگ پر گر جاتاہے، گاڑی چکرا کر ایک باڑ سے ٹکرا جاتی ہے اور ایک ماں اور تین بچوں پر چڑھ جاتی ہے ۔ماں اگر چہ شدید زخمی ہوئی مگر بچ گئی جب کہ اس کے تینوں بچے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے ۔یقینا یہ واقعہ اتنا عجیب نہیں تھا جس زمین پر بھی جنگ اپنے پنجے گاڑتی ہے خو ف اور تشدد پھوٹ پڑتے ہیں۔ بچوں کی ہلاکت کسی طرح بھی قابل ذکر نہیں ہوتی ۔ مگر 1976 کے اگست میں بلفا سٹ کے اس واقعے نے بالکل ہی مختلف نتیجہ پیش کیا ۔اس علاقے میں جہاں تین بچے ہلاک ہوئے تھے ۔ایک گھر یلو خاتون رہتی تھی اس نے کار کے باڑ سے ٹکرانے کی آواز سنی اور جوں ہی وہ موقع کی طرف دوڑ کر پہنچی۔ اس کی آنکھوں میں خوف کا پورا منظر سما گیا ۔اس منظر نے اس کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ مزید یہ ہوا کہ اس پر تشدد اور دہشت انگیز واقعے کے خلاف کچھ کر گزرنے کی پر جو ش خواہش اس پر طاری ہوگئی اوہ خدا ! اب ہمیں کچھ کرنا ہی پڑے گا ۔مشورے کرنے کے یا منصوبے بنانے کے لیے وقت نہیں تھا ۔اس نے اس انداز میں سو چا ہی نہیں۔ بس وجدانی کیفیت میں وہی کچھ کیا جو اس کے دل نے کہا۔ وہ اس سٹر ک پر واقع ہر مکان پر گئی جہاں یہ حادثہ ہوا تھا ۔خوف کا لبریز پیا لہ الٹ چکا تھا ۔وقت آگیا تھا کہ ہر عام مر د اور عورت کو ایسے بے رحم تشدد پر احتجاج کے لیے اٹھ کھڑے ہونا چاہیے ۔ اب یہ سیاسی رویو ں یا مذہبی عقائد کا معاملہ نہیں رہ گیا تھا ۔بس اس کا ایک ہی علاج تھا عوام خود اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ریڈیواور ٹیلی ویژن نے ایک گھریلو عورت کی مہم میں کچھ دلچسپی دکھائی اور اسے دہشت کو جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے آئرش عوام کے نام ایک اپیل نشر کر نے کا موقع فراہم کیا ۔اس کی اپیل کا فوراً جواب ملا زیادہ سے زیادہ لوگوں نے ان کی پکار پر لبیک کہا سب سے پہلے تینوں بچوں کی خالہ آگے بڑھی اور ان دو عورتوں نے مل کر جنگ زدہ علاقے کی طرف اپنے صلح کے سادہ مگر دل کو چھو لینے والے پیغام کے ساتھ دلیر ی سے قدم بڑھائے ، اس مختصر سی ابتداء سے آج ساری دنیا میں وہ کچھ ہوا جس کو شمالی آئر لینڈ کی امن تحریک کے نام سے جانا جاتاہے ۔1976 کا نوبیل انعام گھریلو خاتون بیٹی ولیمز اور تینوں بچوں کی خالہ مریڈ کو ریگن کو دیاگیا ۔ یہ عورتیں اپنی مہم میں کیوں کامیاب ہوئیں اس کی وجہ یہ ہے کہ محاذ جنگ کے دونوں جانب اس کی آرزو نے جڑیں پکڑ لیں تھیں۔ ان دونوں عورتوں نے جو کچھ کہا وہ ہزاروں دلوں کے خیالات کی گونج تھیں، اس لیے وہ عام ذہانت کی ترجمان بن گئیں۔ انہوں نے غلط سمت سے شروعات کی اوپر سے نہیں چالاک ذہنوں کے درمیان سے نہیں جو سیاسی بصیرت کے حامل تھے نہیں ، انہوں نے عام آدمی سے رابطہ کیا ۔ایک کھر ے اور ساد ہ پیغام کے ساتھ ۔ انہوں نے کبھی اپنے کام کی مشکلات کی پرواہ نہیں کی بس وہ اپنے کام میں جتی رہیں اس لیے کہ انہیں پورا یقین تھا کہ یہ کچھ ہے جس کی اشد ضرورت ہے۔ ایک باہمت، بے غر ض ، عمل جو ہزاروں کے لیے روحانی فیضان ثابت ہوا جس نے ظلمت میں ایک شمع روشن کی جس نے ان لوگوں کو نئی امید دلائی جو سمجھتے تھے کہ ساری امیدیں ختم ہوچکی ہیں ۔ آج اگر ہم پاکستان میں امید کو ڈھونڈنے نکلیں تو ہر جگہ ہمارااستقبال مایوسی پہلے سے کررہی ہوگی ۔ ہم امید کو ملک میں کہیں بھی تلاش نہیں کر پائیں گے۔ ہاں نا امیدی ، مایوسی اور بے بسی سے ہماری ملاقات نہ چاہتے ہوئے بھی باربار خود بخو د ہوتی چلی جائے گی۔ آج پاکستان میں سب بے بس ہیں ،سب خوفزدہ ہیں بے بسی اور خوف کا آپس میں کیا تعلق ہے، آئیں اس نتیجے پر پہنچنے کی کو شش کرتے ہیں لیکن اس سے بھی پہلے بے بسی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب آپ کسی ایسی صورتحال سے دو چار ہوجاتے ہیں جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ آپ کو دکھائی اور سجھائی نہیں دے رہی ہو اور آپ کا دل اور ذہن شل ہوکر آپ کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیں ۔ جب آپ کے دل اور ذہن میں ہولوں کاغبا ر گر دش کرنے لگے جب آپ کے اعصاب ، حوصلہ ، جذبہ ، ہمت آپ کے دشمن بن جائیں ۔ تو آپ بے بس ہوجاتے ہیں اور جب آپ بے بس ہوجاتے ہیں تو پھر اسی لمحے آپ کی تاک میں بیٹھے خوف آپ کو دبو چ لیتے ہیں ۔روزگار کا خوف ،بے عزتی کا خوف، بے اختیاری کا خوف ، مہنگائی کا خوف ، پانی ، بجلی ، صحت کا خوف ،بیماریوں کے خو ف پھرآ پ کے اندر ننگا ناچنا شروع کردیتے ہیں اور پھر آپ ناامیدی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں ، آج ہم سب کو اپنی ناامیدی کے علاوہ اور کسی بات کا ہوش نہیں ۔ آج ہم سب اپنی اپنی نظروں میں بے تو قیر ہیں۔ سب سے زیادہ وحشت ناک صورتحال یہ ہے کہ ہم سب اس کو اپنی آخری منزل سمجھے بیٹھے ہیں ۔ یہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں کہ ناامیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی جب امید مرتی ہے تو ناامیدی پیداہوتی ہے، جب ناامیدی مرتی ہے تو ایک بار پھر امید پیداہوتی ہے ۔ اگر یہ بات غلط ہوتی تو بیٹی ولیمز اور مریڈ کوریگن کبھی بھی اس وحشت ، دہشت اور ناامیدی کے حالات میں اپنے گھروں سے نہیں نکلتیںاور کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتیں ۔ کیا ہم ان دونوں گھریلو خواتین سے بھی گئے گزرے ہوگئے ہیں ، جو ناامیدی ،مایوسی کے خلاف اور اپنی بے بسی کے خلاف اپنے گھروں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ان کے خلاف بولنے، اٹھنے اور دوسروں کو آواز دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔یاد رکھیں یہ زندگی آپ کو صرف ایک بار جینے کے لیے ملی ہے۔ اگر آپ ان ہی حالات میں زندہ رہنے پر اضی ہیں تو پھر الگ بات ہے۔ اگر نہیں تو پھر شمالی آئرلینڈ کی ان دونوں گھریلو خواتین کی طرح بس آپ کو عام لوگوں کو آواز دینے کی ضرورت ہے پھرآپ دیکھیں گے کہ کس طرح عام لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں کیونکہ ناامیدی کبھی آخری منزل نہیں ہوتی ۔یاد رکھیں عام لوگ آپ کی آواز کے منتظر ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • جب تم رفال اڑا ہی نہیں سکتے تو نئے جہاز کس لعنت کے لیے خرید رہے ہو؟ڈمی خواجہ آصف
  • میکسیکو سٹی ایئرپورٹ پر 2 طیارے تصادم سے بال بال بچ گئے
  • عاشر وجاہت نے ہانیہ عامر سے دُوری کیوں اختیار کی؟
  • بنوں: ایف سی نے چیک پوسٹ پر دہشتگردوں کا حملہ ناکام بنادیا، 6 اہلکار زخمی
  • عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ 
  • عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت
  • کراچی جانے والا مسافر جب غلطی سے جدہ پہنچا تو وہاں اس کے ساتھ کیا ہوا؟
  • اسرائیل ہماری کارروائیاں روکنے سے قاصر ہے، رہنماء انصار الله
  • زندگی صر ف ایک بار جینے کو ملی ہے!
  • اگر عورتیں بھی غیرت کے نام پر قتل شروع کردیں تو ایک بھی مرد نہ بچے؛ ہانیہ عامر