تیونس: حزب اختلاف کے متعدد رہنماؤں کو قید کی سزائیں
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 جولائی 2025ء) تیونس کی عدالت نے منگل کے روز حزب اختلاف کے سرکردہ رہنما راشد غنوشی سمیت کئی دیگر اعلیٰ سیاستدانوں اور عہدیداروں کو جیل بھیج دیا۔
ایک عدالت نے اجتماعی مقدمے میں مجموعی طور پر 21 افراد کو 12 سے 35 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں میں سے دس پہلے ہی حراست میں ہیں جبکہ گیارہ ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔
ان رہنماؤں پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، اس میں دہشت گردی سے منسلک تنظیم میں حصہ لینے، تشدد پر اکسانے، حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے سمیت تیونس اور بیرون ملک دہشت گردی کے مقاصد کے لیے افراد کو بھرتی اور تربیت دینے جیسے الزام شامل ہیں۔
تیونس: گرفتاریوں اور 'طاقت کے غلط استعمال' پر بار ایسوسی ایشن کی تنقید
راشد غنوشی کے دفاعی وکلاء نے ایک بیان میں کہا، "تمام الزامات ایک خفیہ، گمنام گواہ کی جھوٹی اور متضاد گواہی پر مبنی تھے، جو اپنے بے بنیاد اور متضاد الزامات کے لیے کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں بھی ناکام رہے، اور بالآخر اس نے ان میں سے بیشتر الزامات کو واپس بھی لے لیا۔
(جاری ہے)
" حزب اختلاف کی کن شخصیات کو جیل میں ڈالا گیا؟راشد غنوشی ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت 'النہضہ' کے رہنما اور پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر ہیں۔ البتہ صدر قیس سعید نے پارلیمان کو تحلیل کر دیا تھا۔ غنوشی کو 14برس کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ وہ 2023 سے جیل میں ہیں اور انہیں اب تک الگ الگ مقدمات میں مجموعی طور پر 27 برس کے لیے تین سزائیں مل چکی ہیں۔
84 سالہ اسلام پسند رہنما نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ عدالتی نظام پر حکومت کا بہت زیادہ کنٹرول ہے۔
سابق انٹیلیجنس چیف کامل غیزانی، سابق وزیر خارجہ رفیق عبدالسلام اور راشد غنوشی کے بیٹے معاذ غنوشی کو 35 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ البتہ یہ لوگ پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں۔
تیونس میں حزب اختلاف کے خلاف کریک ڈاؤن میں مزید سختی
مقامی ریڈیو اسٹیشن موزیک ایف ایم نے بتایا کہ سزا پانے والے دیگر افراد میں صدر قیس سعید کی سابق چیف آف اسٹاف نادیہ اکاشا بھی شامل ہیں۔
صدر کا اپوزیشن کے خلاف سخت کریک ڈاؤنصدر قیس سعید نے چھ سال قبل اقتدار سنبھالا تھا اور پھر 2021 میں منتخب پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ مخالف سیاسی آوازوں کو دبانے کے لیے تیزی سے کارروائی کرتے رہے ہیں۔
رواں برس اپریل میں ملک کے 66 سیاستدانوں، کاروباری شخصیات اور وکلاء کو 66 برس تک قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تیونس میں حزب اختلاف کے رہنما کو ایک برس قید کی سزا
کارکنوں اور حزب اختلاف کی شخصیات کا کہنا ہے کہ تیونس کی جمہوریت، جو سن 2011 کی عرب بہار کی بغاوتوں کے دوران پروان جڑھی تھی، تیزی سے کمزور ہو رہی ہے۔ حزب اختلاف کا الزام ہے کہ صدر سعید عدلیہ اور سکیورٹی فورسز کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
جبکہ سعید کا استدلال ہے کہ اشرافیہ میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔
ادارت: جاوید اختر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے قید کی سزا سنائی حزب اختلاف کے کے لیے
پڑھیں:
عدالت کا ریاست مخالف مواد پر 27 یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کا حکم، متعدد صحافی متاثر
جوڈیشل مجسٹریٹ اسلام آباد عباس شاہ نے یوٹیوب چینلز بلاک کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کے بعد 2 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کردیا، جس کے مطابق تحریک انصاف، صحافی مطیع اللہ جان ، اسد طور ، حبیب اکرم، اوریا مقبول جان اور صدیق جان سمیت 27 یوٹیوب چینل بلاک کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے ریاست مخالف مواد کی اشاعت کے الزام میں صحافی مطیع اللہ جان، اسد طور، صدیق جان سمیت 27 یوٹیوب چینلز کو بلاک کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے، عدالت نے یہ فیصلہ ایف آئی اے کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ اور شواہد کی روشنی میں سنایا۔
یہ بھی پڑھیں:
نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ یہ چینلز ریاستی اداروں اور اعلیٰ حکام کے خلاف جھوٹ، جعلی خبروں، اشتعال انگیز اور توہین آمیز مواد کی تشہیر میں ملوث ہیں، جو عوام میں خوف، بے چینی اور نفرت کو فروغ دے سکتے ہیں۔
عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق، مذکورہ چینلز پر شائع ہونے والا مواد انتہائی اشتعال انگیز، تضحیک آمیز اور نفرت پھیلانے والا ہے، جو فوج، عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف بداعتمادی اور بغاوت پر اکسانے کا سبب بن رہا ہے۔
مزید پڑھیں:
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ان پلیٹ فارمز پر موجود معلومات نہ صرف جھوٹ پر مبنی اور گمراہ کن ہیں بلکہ ان سے سماجی ہم آہنگی، قومی سلامتی اور ریاستی استحکام کو بھی سنجیدہ خطرات لاحق ہیں۔
عدالت کی جانب سے جاری کردہ 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے 2 جون کو ریاست مخالف مواد کی تحقیقات پر مبنی انکوائری کا آغاز کیا، جس کے بعد دستیاب ریکارڈ اور شواہد کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
مزید پڑھیں:
حکم نامے کے مطابق، انکوائری افسر کے دلائل سننے اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ زیرِ بحث مواد پیکا ایکٹ اور تعزیراتِ پاکستان کے تحت قابلِ سزا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے فراہم کردہ شواہد قابلِ اطمینان ہیں اور قانون کے مطابق کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اسی بنیاد پر عدالت نے یوٹیوب کے آفیسر انچارج کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ فوری طور پر مذکورہ 27 یوٹیوب چینلز کو بلاک کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسد طور اسلام اباد اوریا مقبول جان پیکا ایکٹ تحریک انصاف، تعزیرات پاکستان جوڈیشل مجسٹریٹ ریاست مخالف صدیق جان عباس شاہ قابلِ سزا جرم مطیع اللہ جان نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی