غزہ مذاکرات میں پیشرفت، لیکن جنگ کے مکمل خاتمے پر اختلاف برقرار ہیں؛ اسرائیل
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
غزہ مذاکرات میں پیشرفت، لیکن جنگ کے مکمل خاتمے پر اختلاف برقرار ہیں؛ اسرائیل WhatsAppFacebookTwitter 0 8 July, 2025 سب نیوز
یروشلم (سب نیوز )اسرائیلی حکام نے دعوی کیا ہے کہ غزہ مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے لیکن جنگ کے خاتمے پر اب بھی اختلاف برقرار ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاس میں عشائیہ پر ملاقات ہوئی۔بعد ازاں دونوں رہنماوں نے غزہ جنگ بندی سمیت مشرق وسطی کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
اس ملاقات کے بعد اسرائیلی حکام نے میڈیا کو بتایا کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر 80 سے 90 فیصد شرائط طے پا چکی ہیں۔تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب تک بنیادی مسئلہ یعنی جنگ کا مستقل خاتمہ یا عارضی توقف اب بھی حل طلب ہے۔ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے مشرق وسطی کے ایلچی اسٹیو وٹکوف اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے بھی دو گھنٹے طویل ملاقات کی۔
وزیراعظم نیتن یاہو امریکی نائب صدر جے ڈی وینس، اسپیکر مائیک جانسن، اور متعدد سینیٹرز سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک اور ملاقات بھی متوقع ہے۔اسرائیلی اسٹریٹیجک امور کے وزیر رون ڈرمر نے کہا کہ حماس نے قطری تجاویز کا واضح طور پر انکار کیا لیکن اس کے باوجود مذاکرات جاری ہیں۔
ایک عرب سفارتکار نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی وفد نے غزہ سے جزوی انخلا کا نقشہ پیش کیا ہے جبکہ حماس نے 2 مارچ سے پہلے کی پوزیشن پر واپسی کا مطالبہ کیا تھا تاہم اب کچھ لچک دکھائی گئی ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ اصل تنازع یہ ہے کہ آیا یہ معاہدہ عارضی جنگ بندی کا ہوگا جیسا کہ اسرائیل چاہتا ہے، یا مکمل جنگ کا خاتمہ، جیسا کہ حماس کا مطالبہ ہے۔۔دوسری جانب دوحہ میں بالواسطہ مذاکرات پر قطری وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے بتایا کہ ابھی صرف “فریم ورک” پر بات ہو رہی ہے اور مذاکرات کو وقت درکار ہوگا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچینی فضائیہ کے چیف آف اسٹاف کی ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات اگلی خبرحج 2026: عازمین کی لازمی رجسٹریشن کا کل آخری روز پشاور کی عدالت کا پی ٹی آئی رہنما شوکت یوسفزئی کو اسفند یار ولی کو 10لاکھ ہرجانہ دینے کا حکم قومی ایئر لائن کی نجکاری کیلئے 4 سرمایہ کار کمپنیاں اہل قرار افغان طالبان نے عالمی فوجداری عدالت کے سپریم لیڈر کی گرفتاری وارنٹ کو مسترد کر دیا حج 2026: عازمین کی لازمی رجسٹریشن کا کل آخری روز چینی فضائیہ کے چیف آف اسٹاف کی ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات پی اے سی اجلاس کی کاروائی کو غلط طریقے سے رپورٹ کیا گیا :ترجمان زیڈ ٹی بی ایلCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
جنگ حل ہوتی تو اسرائیل مذاکرات کبھی نہ کرتا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251014-03-4
مظفر اعجاز
ایک زبردست سوال اٹھایا گیا ہے اور اٹھانے والے بھی زبردست ہیں، اس سوال نے دنیا کی تاریخ کی کئی گتھیاں ایک جملے میں سلجھادیں اور وہ جملہ ہے ’’ہر مسئلے کا حل بات چیت نہیں، مذاکرات ہی حل ہوتے تو پھر جنگیں کبھی نہیں ہوتیں‘‘ یہ سن کر امریکا، اسرائیل اور دنیا کے تمام ممالک کی قیادت بے وقوف نظر آنے لگی، اقوام متحدہ کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے، تازہ ترین بے وقوفی تو امریکا اور اسرائیل نے ابھی چند روز قبل کی ہے، یعنی دوسال تک ’’دنیا کی ناقابل شکست‘‘ فوج عملاً مٹھی بھر بے وسیلہ فلسطینیوں سے اپنا سر پھوڑنے کے بعد مذاکرات پر مجبور ہوئی، ان بے وقوفوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ہر مسئلے کا حل بات چیت نہیں، مذاکرات ہی حل ہوتے تو جنگ ہرگز نہیں ہوتی، لیکن امریکا کو کون سمجھائے جس نے ویتنام میں برسوں جنگ کرنے کا تجربہ کیا، عراق اور مشرق وسطیٰ میں طویل جنگ لڑی، اور افغانستان میں بیس سال جنگ لڑ کر دوحا میں طالبان سے مذاکرات کیے اور اپنے فوجیوں کی جان بچا کر نکلا، اسرائیلی وزیر اعظم دوسال تک ایک ہی اعلان کرتا رہا کہ تمام مغوی رہا کرائوں گا، حماس کو ختم کردوں گا، غزہ کو خالی کرائوں گا، لیکن دوسال تک کھربوں ڈالر کا بارود پھونک کر 80 ہزار لوگوں کو شہید کرنے اور اپنے فوجی مرواکر، ناقابل شکست ہونے کا بھرم کھونے کے بعد مذاکرات کرلیے، اس سے قبل بھی بے وقوف اسرائیلی قطر میں مذاکرات اور بات چیت ہی کرتے رہے تھے، کاش کوئی ارسطو، افلاطون اور عقلمند ان کو بتاتا کہ ’’ہر مسئلے کا حل بات چیت نہیں، مذاکرات ہی حل ہوتے تو پھر جنگیں کبھی نہیں ہوتیں‘‘۔
پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے قوم کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل نہ ہونا بھی شامل ہے۔ اور نیشنل ایکشن پلان کا ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ اس حوالے سے ایک بیانیہ بنایا جائے گا لیکن یہ بھی نہیں کیا گیا بلکہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی گئی۔ بات تو بالکل ٹھیک ہے لیکن پاکستان میں حکومت، سیکورٹی، بجٹ، سیاست، خارجہ داخلہ پالیسی، بین الاقوامی تعلقات، معاہدے کرنا توڑنا، کسی کو محب وطن، کسی کو غدار قرار دینا، ان سب کے بیانیے بنانا، یہ سب کس کے ہاتھ میں ہے۔ 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد سیاسی و عسکری لیڈر شپ نے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا لیکن آج تک اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔ کس کو نہیں معلوم کہ یہ نیشنل ایکشن پلان کس نے مرتب کروایا، تمام سیاسی دھڑوں کو ایک جگہ کس نے بٹھایا، اور سب کو متفق کردیا۔ وہی لوگ اعتراض کررہے ہیں کہ مذاکرات کرنے کی بات کی جاتی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے، اگر دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو پھر جنگیں کبھی نہیں ہوتیں۔ معمول کے مطابق اسلامی ٹچ بھی ڈال دیا گیا اور کہا گیا کہ غزوۂ بدر میں سرور کونینؐ کبھی جنگ نہ کرتے۔ اللہ کے بندے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے غزوۂ بدر کو بھی گھسیٹ لیا۔ یہ غزوۂ بدر اپنے ملک کے حکومت مخالفوں کے خلاف نہیں تھا، مسلمانوں پر حملہ آور کفار مکہ کے خلاف مدافعتی جنگ تھی، اسے یوم الفرقان کہا جاتا ہے، اس کا آج کے آپریشنوں سے کیا تعلق۔ البتہ سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھانے والوں نے بہت ساری باتیں سیاست اور ایک سیاسی جماعت کو سامنے رکھ کر کی ہیں کہ دہشت گردی کے پیچھے گٹھ جوڑ کو مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔
ایک رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ امریکا 7.2 ارب ڈالر کا ہتھیار افغانستان میں چھوڑ کر گیا جو دہشت گردوں کے ہاتھ لگا اور یہی اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ یہ زبردست بات ہے، لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیتے کہ امریکا یہ اسلحہ کون سی سڑکوں پر چھوڑگیا تھا جو دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا، ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی اسلحہ غیر محفوظ تھا اس وقت تو حالت یہ تھی امریکیوں کی جان پر بنی ہوئی تھی تو دہشت گردوں کی مجال کیا ہوگی کہ اسلحہ اٹھا کر لے جائیں، ہاں یہ اطلاعات ضرور تھیں کہ امریکیوں نے وارلارڈز اور مختلف طالبان مخالف گروپوں میں اسلحہ تقسیم کیا تھا تاکہ مستقبل میں دہشت گردی میں استعمال کیا جاسکے، یہی کام وہ ویتنام سے فرار ہوتے ہوئے کرکے گئے تھے اور یہی عراق سے نکلتے ہوئے کیا اور افغانستان میں بھی۔ اس میں مذاکرات کے حامیوں کو دوش دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے جنگ لڑنے کی دلیل اور حوالہ دیا گیا کہ 2024 میں خفیہ اطلاعات پر کے پی میں 14ہزار 535 آپریشنز کیے گئے اور 2025 میں اب تک 10 ہزار 115 کارروائیاں کی گئیں، رواں سال مارے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد گزشتہ 10 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ سارے اعدادو شمار بتانے کے بعد کہا گیا کہ اس ملک میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی، جو ان کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا لہٰذا عوام ساتھ دیں۔ سوال یہ ہے کہ اب تک اتنے آپریشنوں کے بعد دہشت گردوں پر زمین تنگ کیوں نہیں ہوگئی، دعوے تو کمر توڑنے کے کئی مرتبہ ہوچکے، ہر مرتبہ ٹوٹی کمر والے دہشت گرد واردات کرجاتے ہیں۔ ترجمان نے یہاں پہنچ کر کہا کہ بنیادی طور پر پولیس کا کرنے والا کام بھی فوج کو کرنا پڑ رہا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ سی ٹی ڈی کی تعداد ہی 3200 رکھی ہوئی ہے تو پھر نتائج کیسے برآمد ہوں گے۔ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کا سبب سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے، اس سیاسی مافیا کے لیے ہزاروں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اہم ہیں اور اگر اسمگلنگ ہوتی رہے گی تو اس کے ساتھ دہشت گردی اور دھماکا خیز مواد بھی آئے گا، یہاں ہونے والی اسمگلنگ کا الزام بھی فوج پر لگا دیا جاتا ہے اب سوال یہ ہے کہ فوج کے ذمے داروں نے کبھی سوچا کہ فوج سارے کام کیوں اپنے سر لے رہی ہے اور سارے کام وہی کرتے ہیں تو اسمگلنگ کا الزام بھی ان ہی پر لگے گا۔