افغان بستی میں آپریشن، 300 سے زائد غیر قانونی تعمیرات مسمار
اشاعت کی تاریخ: 15th, October 2025 GMT
کراچی کے علاقے ناردرن بائی پاس پر قائم افغان بستی میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف بڑا آپریشن کیا گیا، جس کے دوران 300 سے زائد مکانات اور دکانیں مسمار کر دی گئیں۔ ڈی آئی جی ویسٹ عرفان بلوچ کے مطابق آپریشن مکمل طور پر پولیس کی نگرانی میں انجام دیا گیا اور اس دوران مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا، تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا ٹاسک پورا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کل صبح دوبارہ شروع کیا جائے گا اور یہ چند روز تک جاری رہے گا۔
ڈی آئی جی کے مطابق کارروائی کے دوران متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے، جبکہ افغان بستی میں 24 گھنٹے کے لیے پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے تاکہ دوبارہ کسی کو سرکاری زمین پر قبضے کا موقع نہ مل سکے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی جاری رہے گی اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سندھ بلڈنگ،وسطی کے رہائشی علاقوں کی تنگ گلیوں میں غیر قانونی تعمیرات
ڈپٹی ڈائریکٹر عمران رضوی کی ملی بھگت نے شہری مسائل کو سنگین بنادیا،متعلقہ محکمے خاموش
لیاقت آباد کی رہائشی گلیوں میں ، 8/539، ،9/183، پر خلاف ضابطہ کمرشل تعمیرات
وسطی کے رہائشی علاقوں کی تنگ گلیوں میں رہائشی پلاٹوں کو غیرقانونی طور پر کمرشل پورشن یونٹس میں تبدیل کرنے کا غیرقانونی سلسلہ تواتر سے جاری ہے ۔اس خلاف ضابطہ عمل نے نہ صرف علاقے کے رہائشی ماحول کو تباہ کر دیا ہے بلکہ ٹریفک جام، آلودگی اور بنیادی سہولیات کی کمی جیسے سنگین مسائل میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے ۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس سب کے پیچھے محکمانہ غفلت نہیں بلکہ انتظامیہ کی ملی بھگت کے گہرے شبہات ہیں ۔مقامی رہائشی اور کاروباری افراد اس بات پر متفق ہیں کہ یہ غیرقانونی کام بغیر ’’سرپرستی‘‘ کے ممکن نہیں۔جرأت سروے ٹیم سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی رہائشی، ثناء اللہ کا کہنا ہے ، ’’ہم نے کئی بار سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں شکایتیں درج کروائیں۔ ایک دو بار تو ٹیمیں آئیں بھی، انہوں نے کچھ توڑ پھوڑ بھی کی، مگر اگلے ہی دن سب کچھ دوبارہ ویسے کا ویسا ہو چکا ہوتا ہے ۔یہ محض شوٹنگ ہے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے ‘‘۔مقامی ذرائع کے مطابق، مختلف بلاکس کے لیے مخصوص اہلکاروں اور ایجنٹوں کا ایک نیٹ ورک موجود ہے جو ان غیرقانونی سرگرمیوں کو ’’کنٹرول‘‘ کرتا ہے ۔ نئے کمرشل یونٹس کے لیے ’’ایک ساتھ بیٹھ کر حل‘‘ نکالا جاتا ان حالات میں عام شہری بے بس اور مجبور ہیں۔لیاقت آباد نمبر 9کے ایک رہائشی عمران شیخ کا کہنا ہے ۔ ’’اب ان ڈیزائنر بوٹیک، کپڑوں کی فیکٹریوں اور چھوٹے شو رومز کی وجہ سے تو پیدل چلنا بھی مشکل ہو گیا ہے‘‘ ۔پانی کی لائنیں دب گئی ہیں، سیوریج کا نظام ان اضافی دباؤ کو برداشت نہیں کر پا رہا، گلیوں میں کوڑے کے ڈھیر لگے رہتے ہیں کیونکہ کمرشل کوڑا کرکٹ رہائشی کوڑے سے کہیں زیادہ ہوتا ہے ۔رات گئے تک چلنے والے جنریٹرز نے علاقے کے پرامن رہائشی ماحول کو تجارتی بازار میں بدل دیا ہے ۔زمینی حقائق کے مطابق اسوقت بھی ڈپٹی ڈائریکٹر عمران رضوی کی ملی بھگت سے لیاقت آباد پلاٹ 8/539 اور 9/183 پر دھڑلے سے ہو رہی ہیں ۔رہائشی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ترجمان نے باقاعدہ طور پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’خلاف ورزیوں کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے اور ہم عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں‘‘۔تاہم، زمینی حقائق بیانات کی نفی کرتے ہیں۔مقامی باشندے اب ایک جامع اور شفاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محض معمولی توڑ پھوڑ سے کام نہیں چلے گا۔ ان کا مطالبہ ہے ۔1۔سب سے پہلے ان اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کی جائیں جو ان غیرقانونی کاموں میں ملوث ہیں۔2 ۔تمام نئی اور پرانی غیرقانونی کمرشل تعمیرات کو بلا امتیاز مسمار کیا جائے ۔3 ۔رہائشی علاقوں میں کمرشل سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے ۔