UrduPoint:
2025-11-28@18:33:04 GMT

غزہ امن معاہدے پر دستخط ہو گئے، لیکن مستقبل پر سوالیہ نشان

اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT

غزہ امن معاہدے پر دستخط ہو گئے، لیکن مستقبل پر سوالیہ نشان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اکتوبر 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے اسے 'مشرق وسطیٰ کے لیے ایک عظیم دن‘ قرار دیا اور کہا ’’یہ دستاویز قواعد و ضوابط اور کئی دیگر امور کی وضاحت کرے گی‘‘۔ انہوں نے دو بار کہا ’’یہ (دستاویز) برقرار رہے گی۔‘‘

انہوں نے اعلان کیا کہ یہاں جمع ہونے والے رہنماؤں نے ''وہ حاصل کر لیا ہے جسے سب ناممکن سمجھتے تھے۔

‘‘ اور ’’بالآخر، ہمیں مشرقِ وسطیٰ میں امن نصیب ہو گیا ہے۔‘‘

غزہ امن کانفرنس کے دوران انہوں نے مصر، قطر اور ترکی کے رہنماؤں کے ساتھ پیر کے روز اس اعلامیے پر دستخط کیے جو جنگ بندی معاہدے کے ضامن کے طور پر سامنے آئے۔

تقریب میں دنیا کے 20 سے زائد رہنما شریک ہوئے جن میں اردن کے بادشاہ عبداللہ، ترک صدر رجب طیب ایردوآن، قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی، فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں، برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف شامل تھے۔

(جاری ہے)

اعلامیے کے مطابق، دستخط کرنے والے ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ ''امن، سلامتی اور باہمی خوشحالی کے ایک جامع ویژن کو آگے بڑھائیں گے‘‘ اور ’’غزہ کی پٹی میں جامع اور پائیدار امن انتظامات کے قیام میں حاصل ہونے والی پیش رفت‘‘ کا خیرمقدم کیا۔

اجلاس سے قبل مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے ٹرمپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں 'واحد شخصیت‘ قرار دیا جو مشرقِ وسطیٰ میں امن لا سکتے ہیں۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی براہِ راست رابطہ نہیں اور دونوں نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔

اب بھی کئی رکاوٹیں ہیں

پیر کی رات وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں اسرائیل اور اس کے پڑوسیوں بشمول فلسطینیوں کے درمیان امن کے آئندہ کے طریقہ کار کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی، نہ ہی اس میں ایک ریاست یا دو ریاستی حل کا کوئی ذکر تھا۔

ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس واپسی کے دوران صحافیوں سے کہا، ''ہم غزہ کی تعمیرِ نو کی بات کر رہے ہیں۔ میں ایک ریاست یا دو ریاستوں کی بات نہیں کر رہے ہیں۔‘‘

لیکن مصری صدر عبدالفتاح السیسی کا کہنا تھا کہ غزہ معاہدہ انسانی تاریخ کے ایک تکلیف دہ باب کو بند کرتا ہے اور دو ریاستی حل کی راہ ہموار کرتا ہے۔

ممکنہ رکاوٹوں میں سے ایک حماس کا اپنے ہتھیار نہ ڈالنے سے انکار ہے، اور دوسری اسرائیل کی جانب سے غزہ سے مکمل انخلا کی ضمانت نہ دینا ہے۔

پیر کے روز حماس کے ترجمان حازم قاسم نے ٹرمپ اور غزہ معاہدے کے ثالثوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے رویّے کی نگرانی جاری رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ہمارے عوام کے خلاف اپنی جارحیت دوبارہ شروع نہ کرے۔

امن کا نیا باب؟

اسرائیل اور حماس پر امریکہ، عرب ممالک اور ترکی نے دباؤ ڈالا تھا کہ وہ قطر میں ثالثوں کے ذریعے طے پانے والے امن معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کریں، جو جمعے سے نافذ ہو چکا ہے۔

تاہم، اگلے مراحل کے بارے میں اب بھی بڑے سوالات باقی ہیں، جن کے باعث دوبارہ لڑائی چھڑنے کا خدشہ ہے۔

حالانکہ ٹرمپ نے بارہا اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ جنگ بندی برقرار رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے کے اگلے مراحل پر بات چیت شروع ہو چکی ہے۔

امریکی صدر نے ستمبر کے آخر میں غزہ کے لیے 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا، جس نے جنگ بندی کے قیام میں مدد دی۔

مصری صدر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ اجلاس کا مقصد غزہ میں جنگ کا خاتمہ اور 'امن و علاقائی استحکام کے نئے دور‘ کا آغاز کرنا تھا، جو ٹرمپ کے وژن سے مطابقت رکھتا ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین/ کشور مصطفیٰ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے

پڑھیں:

غیر مسلح ہونے کا فیصلہ قومی مذاکرات سے ہوگا، اسرائیل غزہ معاہدے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے، حماس

حماس نے غزہ معاہدے کے حوالے سے اپنے مؤقف کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنظیم نے پہلے مرحلے کی تمام شرائط مکمل طور پر پوری کر دی ہیں، جب کہ اسرائیل معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسرے مرحلے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔

عرب میڈیا سے گفتگو میں حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ رفح میں محصور عسکریت پسندوں کے خلاف اسرائیلی اقدامات معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

حازم قاسم نے بتایا کہ حماس کے وفد کا قاہرہ کا دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک دوسرے مرحلے میں آگے بڑھنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ اسلحہ حوالے کرنے کے معاملے پر حماس کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ صرف فلسطینی قومی مذاکرات اور داخلی مشاورت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

ادھر اسرائیلی میڈیا کے مطابق غزہ معاہدے کے دوسرے مرحلے پر اسرائیلی قیادت میں اختلافات ابھر رہے ہیں۔

اسرائیلی اخبار ’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکا کا صبر اسرائیل کے رویے سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیلی حکام اس بات پر قائم ہیں کہ باقی ماندہ یرغمالیوں کی لاشیں ملنے تک وہ دوسرے مرحلے میں داخل نہیں ہوں گے، جب کہ رفح کی سرنگوں میں موجود حماس کے ارکان کا معاملہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

اسرائیلی چینل 14 کے مطابق امریکا کے طے شدہ شیڈول کے تحت جنوری کے وسط میں بین الاقوامی استحکام فورس کے غزہ کے علاقے رفح پہنچنے کا امکان ہے۔ اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بتایا کہ اسرائیلی فوج رفح میں بھاری مشینری داخل کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے دوسرے مرحلے کا حصہ ہے۔

غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل سے ریڈ کراس کے ذریعے 15 مزید فلسطینیوں کی لاشیں وصول کی گئی ہیں، جس کے بعد مجموعی تعداد 345 ہو گئی ہے۔ وزارت صحت کے مطابق ابھی تک 99 لاشوں کی شناخت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ باقی کی دستاویزی کارروائیاں جاری ہیں۔ حماس نے بھی دو یرغمالیوں کی باقیات کی تلاش جاری رکھنے کی تصدیق کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ؛ فلسطینیوں کی  نسل کشی میں اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب، تجارتی معاہدے سامنے آگئے
  • غیر مسلح ہونے کا فیصلہ قومی مذاکرات سے ہوگا، اسرائیل غزہ معاہدے میں رکاوٹ ڈال رہا ہے، حماس
  • ایران نے 12 روزہ جنگ میں امریکا اور اسرائیل کو شکست دی، آیت اللہ خامنہ ای
  • ایران نے 12 روزہ جنگ میں امریکا اور اسرائیل کو شکست دی، آیت اللہ خامنہ ای
  • غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں اسرائیل اور بھارت گٹھ جوڑ سامنے آگیا
  • بھارت اور اسرائیل کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے کیلئے ٹرمز آف ریفرنس پر دستخط
  • پاکستان اور خلیج تعاون کونسل میں جلد آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط ہوں گے: وزیراعظم
  • حافظ نعیم الرحمٰن: نواز شریف کو وضاحت دینی ہوگی، فارم 47 اور 70 ہزار جعلی ووٹ سوالیہ نشان ہیں
  • روس یوکرین جنگ ختم کرانےکے قریب پہنچ گئے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • معروف اسلامی تنظیم دہشت گرد قرار؛ صدر ٹرمپ نے ایگزیکیٹو آرڈر پر دستخط کردیئے