سیکیورٹی ذرائع نے نادرا سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ڈیٹا لیک ہونے سے متعلق صحافی اعزاز سید کے دعوے کو مکمل طور پر بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے سختی سے تردید کی ہے۔ یہ دعویٰ اعزاز سید نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک پروگرام میں، اور ایک دوسرے پروگرام میں صحافی عمر چیمہ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا تھا، جس پر سیکیورٹی حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستانی فیلڈ مارشل بہت اہم شخصیت ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی جنرل عاصم منیر کی پھر تعریف

سیکیورٹی ذرائع نے نادرا سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ڈیٹا لیک ہونے سے متعلق صحافی اعزاز سید کے حالیہ دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے اسے گمراہ کن قرار دیا ہے۔

نجی ٹی وی سے وابستہ صحافی اعزاز سید نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک پروگرام میں، اور ایک دوسرے پروگرام میں صحافی عمر چیمہ سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ایک خبر رپورٹ ہوئی تھی جس پر پارلیمنٹ میں انکوائری کا اعلان کیا گیا تھا، جبکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا تھا۔

اعزاز سید کے مطابق نادرا سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا ڈیٹا لیک ہوا تو ابتدا میں اس بات پر یقین نہیں کیا جا رہا تھا کہ آرمی چیف جیسی انتہائی حساس شخصیت کا ڈیٹا کس طرح لیک ہوسکتا ہے، مگر بعد میں یہ بات درست ثابت ہوئی۔

اعزاز سید کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کے ذرائع نے سختی سے منع کیا تھا کہ وہ متعلقہ افراد کے نام ظاہر نہ کریں کیونکہ اس کا تمام بوجھ ایک ہی شخص پر آجائے گا۔ تاہم اب جب کہ وہ متعلقہ عہدیدار اپنے عہدے پر موجود نہیں رہے، اس لیے وہ یہ بات سامنے لا رہے ہیں کہ ڈیٹا لیک معاملے میں جن ناموں کا ذکر آیا، ان میں ایک نام سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا کا بھی شامل تھا۔

یہ بھی پڑھیں:فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر ہی اب کشمیریوں کی آخری امید ہیں، مشعال ملک

انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس انکوائری میں پرانی شخصیات کے نام بھی آئے ہیں۔ ان کے مطابق انکوائری کے دوران 2 سابق اعلیٰ فوجی افسران کے نام بھی سامنے لائے گئے، اور یہ بات ریکارڈ پر ہے۔ ان میں سابق لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس کا نام بھی شامل تھا، جبکہ سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام بھی زیرِ تحقیق معاملات میں سامنے آیا۔

اعزاز سید کے مطابق اب آئندہ چند دنوں میں شواہد کی جانچ پڑتال اور ان کی باہمی مطابقت کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ تحقیقات کا حتمی نتیجہ کیا بنتا ہے۔ تاہم جو تفصیلات اب تک سامنے آئی ہیں، وہ انکوائری ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

وی نیوز نے اس حوالے سے سیکیورٹی ذرائع سے بات کی تو سیکیورٹی ذرائع نے اعزاز سید کے دعوے کو سختی سے مسترد کیا اور اسے پروپیگنڈا قرار دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جنرل اطہر عباس جنرل ساحر شمشاد جنرل عاصم جنرل فیض حمید ڈیٹا لیک نادرا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جنرل فیض حمید ڈیٹا لیک صحافی اعزاز سید سیکیورٹی ذرائع اعزاز سید کے پروگرام میں ڈیٹا لیک آرمی چیف نام بھی کیا تھا کا ڈیٹا تھا کہ

پڑھیں:

بدحال ریلوے نظام اور بلٹ ٹرین کے دعوے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251126-03-4
پاکستان ریلوے ایک زمانے میں ترقی کی پٹڑی پر دوڑنے والی امید تھی مگر آج اس کی حالت دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی نے ادارے کے جسم سے روح کھینچ لی ہو اور افسوس اس بات کا ہے کہ یہ تباہی اْس دور میں ہو رہی ہے جب وزارتِ ریلوے ایک ایسے شخص کے پاس ہے جس نے ظلم، قید اور سیاسی انتقام سہہ کر اقتدار تک دوبارہ رسائی حاصل کی۔ توقع تھی کہ وزیر ریلوے حنیف عباسی جس نے خود تکلیف دیکھی وہ عوام کی تکلیف کا درد زیادہ شدت سے محسوس کرے گا، مگر صورتحال اس کے بالکل برعکس نکلی۔ پھر اسی تباہ حال نظام میں ایک خبر آئی کہ ریلوے حکام 2030 تک کراچی سے لاہور بلٹ ٹرین چلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ یہ خبر پڑھ کر بے اختیار ہنسی آگئی۔ سمجھ میں نہیں آتا یہ منصوبہ ہے، لطیفہ ہے، یا قوم کے ساتھ تازہ مذاق۔ ذرا سوچیے کہ جو لوگ ایک عام ٹرین نہیں چلا سکتے، وہ 350 کلو میٹر فی گھنٹہ کی بلٹ ٹرین چلائیں گے؟ جس ریل کے ٹکٹوں کی آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی آن لائن بْکنگ نہیں ہوسکتی وہ محکمہ بلٹ ٹرین چلائے گا؟

چلیے آپ کو رودادِ سفر سْناتے ہیں۔ ہم جماعت ِ اسلامی پاکستان کے اجتماع عام کی کوریج کے لیے 20 نومبر کو ساٹھ صحافیوں کے ہمراہ کراچی سے تیزگام میں سوار ہوئے۔ ہم نے سوچا شاید ریلوے کی حالت بہتر ہوئی ہو گی، مگر کراچی اسٹیشن پر قدم رکھتے ہی یہ خوش فہمی یوں ٹوٹ گئی جیسے کوئی شیشہ پتھر سے ٹکرا جائے۔ بوگی نمبر آٹھ کی حالت قابل ِ شرم تھی۔ نہ پانی، نہ صفائی، نہ ٹوائلٹ کے دروازے بند ہوتے تھے۔ کموڈ ٹوٹے ہوئے، نالی سے پانی ٹپکتا ہوا، فرش پر جمع پانی گویا کسی نے بوگی کے اندر ایک چھوٹا سا تالاب بنا دیا ہو۔ کپڑوں کا ناپاک ہونے سے بچانا تقریباً ناممکن تھا۔ ہم نے سوچا شاید ایک بوگی خراب ہو، مگر دوسری میں گئے تو وہ بھی اسی حال میں ملی۔ یہاں سمجھ میں آیا کہ یہ صرف بد انتظامی نہیں بلکہ بد نیتی ہے۔ صاف لگ رہا تھا کہ ٹرین کو بغیر صفائی اور بغیر مینٹیننس کے ہی واپس روانہ کر دیا گیا ہے۔ گارڈ صاحب سے درخواست کی کہ شکایتی رجسٹر میں ہماری شکایت درج کریں، مگر موصوف تو ہم سے بھی زیادہ ’’سمجھدار‘‘ نکلے۔ صاف کہہ دیا کہ اس ٹرین میں شکایتی رجسٹر یا لاگ بک نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ یوں لگا جیسے شکایات نہیں، شکایت کرنے والے ہی مسئلہ ہوں۔ پانی کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا ’’روڑھی پہنچ کر بھر دیا جائے گا‘‘۔ گویا کراچی سے روڑھی تک انسان نہیں بلکہ کوئی بیجان مخلوق سفر کر رہی ہو جسے آٹھ گھنٹے تک پانی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ساتھ موجود اے آر وائی کے صحافی فیض اللہ خان سمیت دیگر ساتھیوں نے بھی یہی اذیت بیان کی، مگر ریلوے عملہ اس بدحالی کا اس قدر عادی ہو چکا تھا کہ جیسے یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ نظام کا حصہ ہو۔ ہمارا تکلیف دہ سفر چار گھنٹے کی تاخیر کے ساتھ انجام کو پہنچا۔

لاہور سے واپسی پر دل میں خوش گمانی تھی کہ شاید حالات بدل جائیں چونکہ اجتماع عام کے اختتام پر امیر جماعت حافظ نعیم الرحمن نے دیگر اداروں کے ساتھ ریلوے حکام و عملے کا بھی خصوصی شکریہ ادا کیا تھا۔ مگر ٹرین میں قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے ریلوے کی لغت سے ’’بہتری‘‘ کا لفظ ہمیشہ کے لیے حذف کر دیا گیا ہو۔ بعض شرکا نے بتایا کہ لاہور روانگی کے وقت ان کے لیے مختص پوری ایک بوگی ہی غائب تھی۔ اب سیکڑوں میل کا سفر بغیر سیٹ کے کیسے کیا جاتا؟ بالآخر مسافروں کے شدید احتجاج پر ٹرین کو لانڈھی اسٹیشن پر روک کر مسئلہ حل کیا گیا، مگر اصل سوال وہیں کھڑا رہا کہ اس سنگین غفلت کا ذمے دار کون تھا؟ کون جواب دہ ہوگا؟ مگر افسوس کہ ہمیشہ کی طرح کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر یہاں سوال جنم لیتا ہے کہ پاکستان ریلوے واقعی وزارت ریلوے چلا رہی ہے، یا پھر وہ تاجر لابی جو سرکاری ٹرینوں کو جان بوجھ کر تباہی کی دہلیز تک پہنچا کر انہیں پرائیویٹ سرمایہ داروں کے ہاتھوں بیچنے کی راہ ہموار کر رہی ہے؟

اس شبہے کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی دو ٹرینیں ریاستی ٹرینوں سے کہیں بہتر حالت میں ہیں۔ یہ بات خوشی نہیں، افسوس پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ حکومت ایک قومی ادارہ نہیں چلا سکتی، لیکن ایک تاجر چلا لیتا ہے۔ پھر سوال اٹھتا ہے: کیا وزارت واقعی اتنی نالائق ہے یا پھر جان بوجھ کر نظام کو برباد کیا جا رہا ہے تاکہ آخرکار یہ سب کچھ ٹھیکے پر دے دیا جائے؟ ایسے میں خواجہ سعد رفیق کا دور یاد آتا ہے، جب ریلوے کو دوبارہ پیروں پر کھڑا کیا گیا تھا۔ لیکن اس دیانت اور قابلیت کو جرم بنا کر خفیہ ہاتھوں نے انہیں پارلیمنٹ سے باہر پھینک دیا۔ حالیہ سفر میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ ریلوے کا عملہ غیر حاضر رہتا ہے، مینٹیننس کا نظام مفلوج ہے، نظم و ضبط کا کوئی وجود نہیں، اور وزیر صاحب شاید اپنی ہی وزارت کے زمینی حقائق سے مکمل بے خبر ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان ریلوے جیسے ادارے خود تباہ نہیں ہوتے انہیں تباہ کیا جاتا ہے۔ وزیر ِ ریلوے حنیف عباسی صاحب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جب قوم پہلے سے موجود ریلوے نظام کی بدانتظامی اور اذیت میں جکڑی ہو تو ایسے میں بڑے منصوبے، بلند وعدے اور خوابوں کی پرشکوہ باتیں محض تماشا بن کر رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا گزارش ہے کہ پہلے موجودہ ریل کے نظام کو عزت کے ساتھ چلانا سیکھیں پھر بلٹ ٹرین کے لطیفوں سے قوم کو بہلانے کی کوشش کیجیے گا۔ جس موجود نظام کو صرف سنبھالنا تھا وہ بھی ہاتھوں میں ٹوٹ رہا ہے، وہاں نئی ٹرینوں کے خواب دکھانا ترقی نہیں قوم کے ساتھ مذاق ہے۔

عبید مغل سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • یو اے اِی سے متعلق کمیٹی کا بیان پرانے ڈیٹا پر مبنی ہوسکتا ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • بانی پی ٹی آئی کی صحت کے حوالے سے افواہیں بے بنیاد ہیں، اڈیالہ جیل حکام
  • اداکارہ ایشوریا رائے سے نکاح کے متعلق مفتی عبدالقوی کے دعوے نے سب کو حیران کر دیا
  • جنرل ساحر شمشاد مرزا کے اعزاز میں الوداعی تقریب، تینوں افواج کا گارڈ آف آنر پیش
  • جنرل ساحر شمشاد مرزا کے اعزاز میں الوداعی تقریب، 40سالہ عسکری خدمات کو شاندار خراجِ تحسین
  • چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد کے اعزاز میں الوداعی تقریب
  • راولپنڈی: جنرل ساحر شمشاد مرزا کے اعزاز میں الوداعی تقریب، گارڈ آف آنر پیش کیا گیا
  • جنرل ساحر شمشاد مرزا کے اعزاز میں الوداعی تقریب، 40 سالہ عسکری خدمات کو شاندار خراجِ تحسین
  • بدحال ریلوے نظام اور بلٹ ٹرین کے دعوے