گورنر سندھ کو ہٹانا ناممکن تو نہیں، لیکن اتنا آسان بھی نہیں
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی تقرری کے بعد سے ہی انہیں عہدے سے ہٹائے جانے یا ان کے اختیارات پر تنازعات کی خبریں وقتاً فوقتاً سامنے آتی رہی ہیں۔ کامران ٹیسوری کو اکتوبر 2022 میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (MQM-P) کے کوٹے سے گورنر سندھ مقرر کیا گیا تھا۔ ان کے تقرر اور اس کے بعد کی سرگرمیوں سے متعلق کئی خبریں اور تنازعات سامنے آتے رہے ہیں۔ ایم کیو ایم میں ان کی شمولیت اور فوراً بعد گورنر بننے کے معاملے پر ایم کیو ایم کے اندر بھی شدید اختلافات پائے جاتے تھے، جس کی وجہ سے یہ خبریں زور پکڑتی تھیں کہ پارٹی کے ناراض دھڑے انہیں ہٹانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
2022 سے سال 2025 کے نومبر تک درجنوں بار ایسی خبریں آئیں کہ گورنر سندھ کو ہٹایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اس حوالے سے آنے والی ایک تازہ خبر کے مطابق وزیراعظم پاکستان نے ان سے استعفیٰ مانگ لیا ہے۔
آئینی اختیار کس کے پاس ہے؟پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ کامران خان ٹیسوری اس وقت بھی گورنر سندھ کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کو ہٹانے کے حوالے سے خبریں گردش کرتی رہتی ہیں، لیکن گورنر کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار آئین کے تحت صدرِ مملکت کے پاس ہے، جو وزیراعظم کے مشورے پر یہ فیصلہ کرتے ہیں۔
یہ عہدہ مسلم لیگ ن کے حصے میں آیا ہے اور ن لیگ ہی کی وجہ سے ایم کیو ایم کا گورنر سندھ عہدے پر موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں شامل جماعتوں کا جوائنٹ وینچر چل رہا ہے۔
سیاسی پوائنٹ اسکورنگ الگ بات ہے لیکن ٹیکنیکلی دیکھا جائے تو گورنر سندھ کو ایم کیو ایم کی مرضی کے بنا ہٹانا ناممکن تو نہیں، لیکن جب سب ٹھیک چل رہا ہے تو حکومت کو یہ محاذ کھولنے کی کیا ضرورت ہے۔
ایم کیو ایم کا ردعملمتحدہ قومی موومنٹ کے سینیئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے وی نیوز کو بتایا کہ گورنر سندھ کو ہٹانے سے متعلق خبر کبھی مستند ہوگی تو تب ہی اس پر مؤقف دیا جا سکتا ہے، ورنہ ان فضول باتوں میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کامران خان ٹیسوری ایک اچھا کام کرنے والا گورنر ہے۔ سندھ کے شہری علاقے جو محرومیوں کا شکار ہیں ان کے لیے اپنی جیب سے کروڑوں روپے خرچ کیے، آئی ٹی کورس کی مثال ہے جو کامران خان ٹیسوری کے علاوہ کسی نے نہیں کرایا۔
ایک سوال پر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ان کے علم میں نہیں کہ وزیراعظم پاکستان نے گورنر سندھ کو ہٹائے جانے سے متعلق ایم کیو ایم سے رابطہ کیا ہو۔ اس حوالے سے پارٹی میں کوئی ذکر نہیں ہے، نہ ہی گورنر صاحب سے کسی نے کہا ہے کہ آپ استعفیٰ دے دیں۔
سندھ حکومت کا مؤقفترجمان سندھ حکومت مصطفیٰ عبداللہ نے وی نیوز کو بتایا کہ گورنر سندھ کی سیٹ ن لیگ کے پاس ہے اور انہوں نے یہ ایم کیو ایم کو دی ہے۔
سیاسی طور پر دیکھا جائے تو ایم کیو ایم تنقید برائے تنقید کے راستے پر گامزن ہے، جو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہے۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت گورنر سندھ کے ساتھ تعاون بھی کر رہے ہیں اور کبھی کوئی ایشو بنانے کی کوشش نہیں کی، جبکہ وہاں سے جو مسائل کھڑے ہوتے تھے ان کو حل کیا جاتا تھا۔
مصطفیٰ عبداللہ کا کہنا ہے کہ اگر گورنر سندھ تبدیل ہوتے ہیں تو یہ جمہوریت کا حصہ ہے اور وزیراعظم اس چیز کا اختیار رکھتے ہیں۔ جہاں تک نئے صوبے کی بات ہے، اس پر سندھ حکومت کا موقف واضح ہے، گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری ہوں یا کوئی اور اس سے فرق نہیں پڑتا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کامران خان ٹیسوری گورنر سندھ کو ایم کیو ایم سندھ حکومت حوالے سے کا کہنا ایم کی
پڑھیں:
ہم نے مذاکرات میں بہت کوشش کی لیکن کچھ نہیں ہو سکا: بیرسٹر گوہر
—فائل فوٹوپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ہم نے مذاکرات میں بہت کوشش کی لیکن کچھ نہیں ہو سکا۔
جیو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا اختیار بانی پی ٹی آئی نے محمود اچکزئی اور علامہ ناصر کو دیا ہے، اگر انہوں نے مجھ سے مذاکرات سے متعلق مشورہ مانگا تو میں ضرور دوں گا۔
بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ محمود خان اچکزئی اور علامہ راجہ ناصر کے ساتھ ہمارا الائنس ہے، تحریک تحفظ پاکستان کے ذریعے ہم جدوجہد جاری رکھیں گے۔
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ بانی سے ملاقات کے معاملے پر صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا زیرک سیاستدان ہیں ان کو شامل کرنے کے لیے بہت کوشش کی، مولانا ہمارے پاس نہیں آئے، میرا نہیں خیال کہ اب وہ ہمارے پاس آئیں گے، مولانا اپوزیشن میں ہیں، ہم کوشش کریں گے ان کو آن بورڈ کریں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ 26ویں اور 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ہیں، آزاد عدلیہ چاہتے ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا آخری کنویکشن 16 جنوری کو ہوا تھا، جوڈیشل پالیسی کے مطابق 35 دنوں میں فیصلہ ہونا چاہیے تھا، 10 ماہ سے زیادہ ہوگئے اب تک ان کا کیس نہیں لگ سکا۔