Jasarat News:
2025-11-27@01:29:29 GMT

آئی ایم ایف رپورٹ یا چوروں کی چارج شیٹ

اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251127-03-5
(1)
جس طرح مچھروں کو پتا چل جاتا ہے کہ ہمیں کب نیند آرہی ہے اسی طرح آئی ایم ایف کو پتا چل جاتا ہے دنیا میں کہاں چوری ہورہی ہے اور کتنی ہورہی ہے کیونکہ وہ اس نظام کی خالق ہے جو خود چوری کو فروغ دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کا کام ہے مسائل کو برقرار رکھنے کے لیے مسائل کی نشاندہی کرنا۔ چوری ڈھونڈ کر اس کو چور نظروں سے دیکھنا اور پھر چوروں جیسے حل پیش کرنے کے فن کار آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر کہلاتے ہیں۔ چوری کو پہلے دیانت داری سے چوری کہا جاتا تھا پھر چوری کرنے والے زور آور ہوئے تو رشوت کہی جانے لگی۔ رشوت میں سیاست آئی تو بدعنوانی اور جب آئی ایم ایف آئی تو چوری کو رکھنے اور چلانے کے لیے دھیمے سے کرپشن کہا جانے لگا تاکہ ضمیر باضمیر رہے اور اسے چوری کی گراں باری زیادہ اذیت نہ دے۔

دنیا کو پتا ہے کہ کمینوں کو منہ نہیں لگانا چاہیے پھر بھی 19 نومبر 2025 کو آئی ایم ایف نے چوروں اور راشیوں کے بارے میں تحقیق اور تفتیش کرنے کے بعد پاکستان کے معاشی اور حکومتی ڈھانچے کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے IMF Governance & Corruption Diagnostic Assessment-Pakistan کے نام سے ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی قومی پیداوار کا 5 سے 6 فی صد کرپشن کی نذر ہوجاتا ہے جس کی روک تھام نہ کی گئی تو اس میں اضافہ یقینی ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ نے معیشت اور سوسائٹی کو یرغمال بنارکھا ہے۔ رپورٹ پانچ بڑے شعبوں میں کرپشن، خراب حکمرانی، سیاسی مداخلت اور اشرافیہ کے قبضے کے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے۔ پانچ بڑے شعبے ہیں: پہلا: مالیاتی نظم ونسق Fiscal Governance، دوسرا: مارکیٹ ریگو لیشن، تیسرا: مالیاتی سیکٹر (بینکنگ، نگرانی)، چوتھا: منی لانڈرنگ ؍ٹیررفنانسنگ، پانچواں: قانون کی حکمرانی، عدلیہ، احتساب کے ادارے۔

رپورٹ قرار دیتی ہے کہ پاکستان میں معیشت کا بہت بڑا حصہ حکومت اور ریاست کے ہاتھ میں ہے جہاں پیچیدہ قوانین، کمزور ادارے، تقسیم شدہ نگرانی، غیر موثر احتساب اور قانون کی محدودیت کی وجہ سے کرپشن بہت گہرے اور وسیع طور پر سرایت کرچکی ہے جس کی وجہ سے معاشی کارکردگی کمزور اور اصلاحات غیر موثر ثابت ہورہی ہیں۔ کرپشن پاکستان کی گورننس کا ایک مستقل اور کھا جانے والا روگ ہے جہاں سیاسی اور معاشی اشرافیہ اپنے فائدے کے لیے پالیسیاں بناتی ہے۔ ٹیکس سسٹم پیچیدہ اور غیر شفاف ہے جس کی وجہ سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب کم ہورہا ہے۔

ٹیکس آفیسر رشوت لیتے ہیں۔ سرکاری خریداری میں بڑے پیمانے پر مالی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں۔ سیاستدان وزراء اور سیکرٹری اپنے لوگوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ اربوں روپے ضائع ہوتے ہیں۔ طاقتور لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا کیونکہ بیوروکریسی خوفزدہ ہے۔ نکاح نامہ، ڈومیسائل، زمین کا ٹرانسفر، پو لیس، بلڈنگ پلان جیسے روزمرہ کے کاموں کے لیے بھی شہریوں کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ عام آدمی جب بھی ریاست کے کسی ادارے کے دروازے پر جاتا ہے تو اسے ایک پوشیدہ رقم کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے جسے قانون نہیں مانتا لیکن نظام لازماً تقاضا کرتا ہے جو سفارش، رشوت، چائے پانی یا کام کرنے کی وہ قیمت ہے جسے شہریوں کو لازماً ادا کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ کا یہ حصہ سب سے دلچسپ اور ہمک ہمک کر پڑھنے والا ہے جس میں آئی ایم ایف کے مطابق جنوری 2023 سے دسمبر 2024 کے دوران نیب نے تقریباً 5.

3 ٹریلین روپے کے اثاثوں کی بازیابی کی ہے۔ اس عظیم بازیابی کو آئی ایم ایف کرپشن کا ایک معمولی سا حصہ قراردے رہی ہے۔ پاکستان میں کتنی کرپشن ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ یہ بازیابی محض ایک جھلک ہے۔ کوئی معتبر پیمانہ نہیں جو ناپ کر بتاسکے پاکستان میں کتنی کرپشن ہے۔ پاکستانی اداروں میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ مکمل کرپشن کو پکڑ سکیں۔ اگر یہ حقیقت ہے اور یقینا ہے تو یہ بہت سنگین معاملہ ہے جس کا مطلب ہے ریاستی وسائل بڑے پیمانے پر غیر موثر استعمال یا غیرشفاف طور پر تقسیم ہورہے ہیں۔ اب آئیے ’’ہمک ہمک‘‘ پر وہ یہ ہے کہ جب نیب سے سوال کیا جاتا ہے کہ یہ بازیاب شدہ رقم کہاں ہے؟ تو وہ کہتی ہے ’’ہمارے پاس تو نہیں ہے‘‘ حکومت اور اس کے دیگر ادارے بھی ایسا ہی ارشاد فرمارہے ہیں۔ پھر کس سے فریاد کریں؟ کس سے منصفی چاہیں؟ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ نیب کا دعویٰ ہی غلط ہے۔ نیب نے یہ رقم بازیاب نہیں کرائی ہے۔ زیادہ تر رقم ’’ریکوری آن پیپر‘‘ ہے۔ ریکوری کاغذی ہے یا تکنیکی۔ اصل میں کچھ نہیں۔ غالب نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا

نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا

آئی ایم ایف کو بھی مزہ آگیا ہوگا کہ کن سے واسطہ پڑاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چوروں کا چوروں سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ چور، چوروں کو چارج شیٹ کررہے ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کہتی ہے ٹیکس کا نظام درست نہیں ہے۔ دوسری طرف ہر سال کہتی ہے ٹیکس میں اضافہ کرو۔ سال تو کجا ہر تین چار مہینے بعد نیا بجٹ آجاتا ہے۔ دولت مند کار ٹیلز، جاگیردار، بیوروکریسی، ریئل اسٹیٹ، شوگر مافیا، بڑے بڑے تاجر سب کے لیے ٹیکس چھوٹ، خصوصی زون، ایمنسٹی اسکیمیں لیکن غریبوں اور تنخواہ دار طبقے پر نئے نئے ٹیکس۔ اصول یہ ہے کہ ایک مرتبہ سوچ سمجھ کرٹیکس لگا دیا جائے پھر اسے چھیڑا نہ جائے۔ روز روز ٹیکس میں اضافے کو ظلم باور کیا جاتا ہے۔ اسلامی مالیات کو دیکھیے! آدمی عش عش کر اٹھتا ہے۔ 1500 سال سے زکواۃ کی شرح 2.5 فی صد ہے عشر 10 فی صد یا 5 فی صد اسے دنیا کی کوئی حکومت کم وبیش کرسکتی ہے اور نہ نجی طور پر ٹیمپرنگ کی جاسکتی ہے۔ اسلام ٹیکس کے نظام کو بے یقینی سے پاک رکھتا ہے۔ ہر سال یا پانچ چھے مہینے بعد کوئی نئی فائل، نئی لیوی نہ نیا بجٹ۔ ثمرات دیکھ لیجیے۔ لوگ کس طرح خوشی خوشی ادا کرتے ہیں۔

حالیہ رپورٹ میں توانائی کے بحران کا کہیں ذکر نہیں کیونکہ اس سے عالمی مالیاتی اداروں کے نسخوں اور فارمولوں کی ناکامی عیاں ہوجاتی ہے۔ 1994 کی توانائی پالیسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کو تیار کرکے دی تھی جس میں نجی بجلی گھر (IPP,s) بنانے کو نسخہ کیمیا ثابت کیا گیا تھا جس میں کمپنی بجلی بنائے یا نہ بنائے حکومت کو ڈالروں میں کیپیسٹی پیمنٹ اداکرنا لازم تھا۔ یہ بھی ان اداروں کی ڈکٹیٹڈ شرط تھی کہ گردشی قرضہ عوام پر منتقل کرو یعنی بجلی مہنگی کرو تاکہ پرائیوٹ کمپنیاں منافع کما سکیں۔ جس سے ایک ایسا نظام وجود میں آیا جس سے ریاست خسارے میں عوام برباد اور نجی کمپنیوں کی کمائی ڈالروں میں۔ کیپیسٹی پیمنٹ ختم کرنا کبھی آئی ایم ایف کی ترجیح کیوں نہیں رہی؟

یہ بھی حقیقت ہے، بڑی اور بنیادی حقیقت ہے کہ کرپشن صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے سرمایہ دارانہ جمہوری نظام جہاں جہاں بھی جاتا ہے وہاں کرپشن صرف پیدا نہیں ہوئی بلکہ نظام کا حصہ بن جاتی ہے۔ مغربی مفکرین خود اسے Crony Capitalism یعنی اقرپا پرور سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں جس میں حکمران طبقہ، بیوروکریسی اور چند طاقتور سرمایہ دار مل کر منڈی، قوانین اور ریاستی وسائل کا رُخ اپنے مفاد میں موڑ لیتے ہیں۔ یہ نظام عام شہریوں کے لیے نہیں بلکہ دولت مندوں اور سرمایہ داروں کے لیے کام کرتا ہے۔ اس نظام میں کرپشن حادثاتی نہیں بلکہ نظام کے اندراس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ مخصوص افراد یا گروہ با آسانی فائدہ اٹھا سکیں۔ قانون، پالیسی اور اختیارات اس طرح تشکیل دیے گئے ہیں کہ کچھ لوگ لوٹ مار کرسکیں اور پکڑ میں بھی نہ آسکیں۔
(جاری ہے)

بابا الف سیف اللہ

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف یہ ہے کہ جاتا ہے ہے اور ا جاتا

پڑھیں:

برآمدات  پر ایکسپورٹ  ڈویلپمنٹ  سر چارج  فوری  ختم  کیا  جائے  وزیراعظم  کی ہدایت  : ساحر  شمشاد  کی الوداعی  ملاقات 

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف نے ملکی برآمد کنندگان پر ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج ختم کرنے اور ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کا پچھلے پانچ سال کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے صنعت کاروں کو ہر ممکن سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کا غیر متعلقہ اور غیر منطقی استعمال کسی صورت قابل قبول نہیں۔ پیر کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے قائم ذیلی ورکنگ گروپ کی سفارشات سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے ورکنگ گروپ کے کام کو سراہا اور سفارشات پر مثبت انداز میں غور کرتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو فوری اقدامات کرنے کے موثر احکامات جاری کیے۔ وزیراعظم نے ملکی برآمد کنندگان پر نافذ کردہ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج کو فوری طور پر ختم نے اور ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کا پچھلے پانچ سال کا عالمی معیار کے مطابق تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ میں موجودہ رقم کے بہترین استعمال کے لیے پرائیویٹ سیکٹر سے موزوں چیئرمین کو منتخب کیا جائے۔ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ میں موجود رقم کو صرف ملکی برآمدات میں اضافے، متعلقہ ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ، برآمدی سیکٹر کی افرادی قوت کی ہنر مندی، ٹریننگ اور عالمی معیار کی جدید سہولتوں کے لیے استعمال کیا جائے، ملکی برآمدات میں اضافے کے لیے ٹی ڈی اے پی کے کردار کا اصلاحاتی جائزہ اور تشکیل نو کی جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کے تحت جاری پروگرام اور تمام سکیمز کی بھی تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جائے، ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ کا غیر متعلقہ اور غیر منطقی استعمال کسی صورت قابل قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں پاکستان کی برآمدی اشیاء کی تشہیر وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم سے سبکدوش ہونے والے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے الوداعی ملاقات کی۔ پیر کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق ملاقات میں وزیر اعظم نے جنرل ساحر شمشاد مرزا کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور ملک و قوم کیلئے خدمات کی تعریف کی۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ جناح میڈیکل کمپلیکس منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں صحت کے شعبے کا ایک مثالی منصوبہ ہو گا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جناح میڈیکل کمپلیکس (جے ایم سی) کے بورڈ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں بورڈ کے ارکان اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جناح میڈیکل کمپلیکس ہم سب کی مشترکہ کوششوں سے عنقریب مکمل ہو گا۔ وزیراعظم نے جناح میڈیکل کمپلیکس کی تعمیر کے مختلف مراحل میں تکنیکی تعاون فراہم کرنے پر آغا خان فائونڈیشن سے اظہار تشکر کیا۔ وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ جناح میڈیکل کمپلیکس کے علاج معالجے کے تمام مجوزہ مراکز پر کام تیز کیا جائے۔ جبکہ وزیراعظم نے خواتین پر تشدد اور   انہیں ہراساں کیے جانے کے واقعات کے مکمل انسداد کیلئے کثیر الجہتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انہیں با اختیار بنانے کیلئے    پیکج سمیت متعدد اہم اقدامات کر رہی ہے۔ خواتین پر تشدد کے خلاف سب کو متحد ہونا ہوگا۔ پیر کو وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں نے خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کیا۔ پاکستان تمام دنیا کے ساتھ اس اہم مقصد کو اجاگر کرنے کے لیے  اپنی آواز کو بلند کر رہا ہے۔ اس سال یہ دن "خواتین کے خلاف ڈیجیٹل تشدد کے خاتمے کے لیے متحد" ہونے کے عنوان کے تحت منایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا یہ عنوان جدید دور میں خواتین کو مختلف سطحوں اور پلیٹ فارمز پر تشدد اور ہراساں کیے جانے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہ دن ہمیں اس بات کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم سوچیں اور  اس عہد کی تجدید کرتے ہوئے متحد ہو کر اس کے خلاف جدوجہد کریں۔ وزیر اعظم نے خواتین پر تشدد اور ہراساں کیے جانے کے واقعات کے مکمل انسداد کے لیے کثیرالجہتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جامع حکمت عملی میں نہ صرف اس طرح کے واقعات کے سدباب کے اقدامات شامل ہونے چاہئیں بلکہ متاثرہ خواتین سے ہمدردی اور معاشرے کے استحصالی نظام کی اصلاح بھی اس میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان عالمی سطح پر خواتین پر تشدد کے خاتمے کے عالمی معاہدہ کو تسلیم کرتی ہے اور حکومتی سطح پر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے  پالیسی، قانون سازی، انتظامی، ادارہ جاتی اور دیگر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان اقدامات میں وزیراعظم کا خواتین کو بااختیار بنانے کا وزیراعظم کا پیکج بھی شامل ہے۔ حکومت پاکستان خواتین کے قانونی تحفظ، ان کی انصاف تک رسائی کے لیے بھی کوشاں ہے۔ حکومت پاکستان تمام متعلقہ اداروں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ بھی تعاون جاری رکھے گی تاکہ خواتین کے تحفظ، خود مختاری اور ان کی خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکے  تاہم محض کوئی قانون یا حکومتی پالیسی خواتین پر تشدد کے مکمل خاتمے کو یقینی نہیں بنا سکتی جب تک معاشرے میں خواتین کے تحفظ کو مجموعی ترجیح نہ بنایا جائے اور معاشرے میں اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست
  • ٹیکس دہندگان کے پیسوں کا غلط استعمال، آئی ایم ایف کا شفافیت بہتر بنانے کا مطالبہ
  • پاکستان ریلوے، نظام الاوقات
  • بدحال ریلوے نظام اور بلٹ ٹرین کے دعوے
  • برآمدات  پر ایکسپورٹ  ڈویلپمنٹ  سر چارج  فوری  ختم  کیا  جائے  وزیراعظم  کی ہدایت  : ساحر  شمشاد  کی الوداعی  ملاقات 
  • سہ روزہ بستی
  • آئی ایم ایف کی رپورٹ موجودہ نظام کیخلاف کھلی چارج شیٹ ہے
  • ترقیاتی بجٹ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے، نواز خان ناجی
  • کرپٹ اور رشوت خور مودی کے دور میں بھارت میں کرپشن کی نئی تاریخ رقم