سیکولر شخص کی سوانح حیات (آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
شبر زیدی نے قیام پاکستان کے محرکات کا غیر جانبداری سے تجزیہ کیا اور انھوں نے یہ تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل میں ان کو پیش آنے والی مشکلات کو اہمیت نہیں دی جو اس ملک میں بہت مشکل کام ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ بہت سی کتابوں کے مطالعہ کے باوجود یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے کبھی چوہدری رحمت علی سے ملاقات کی ہو (چوہدری رحمت علی نے پاکستان کا نام تجویز کیا تھا)۔ شبر زیدی پاکستان کے قیام کے محرکات بیان کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں کہ برصغیر ہندوستان کو آزادی ایسی عوامی تحریک کے ذریعے نہیں ملی جس طرح کی آزادی کی تحریکیں الجزائر اور جنوبی افریقی ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک میں چلی تھیں۔ ہندوستان کی تقسیم اور دونوں ممالک کا قیام برطانوی حکومت کا سیاسی فیصلہ تھا جس کی وجہ دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانوی امپائر میں پیدا ہونے والا سیاسی اور معاشی بحران تھا۔
آزادی کا فیصلہ برطانیہ انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں ہوا تھا۔ گاندھی، پنڈت نہرو اور محمد علی جناح مقبول رہنما تھے مگر بھگت سنگھ، سکھویر، سبھاش چندر بھوش اور اشفاق اللہ خان نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں۔ مصنف نے لکھا کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے ان رہنماؤں کی قربانیوں کو نظرانداز کردیا ۔ زیدی کی آدھی بات درست ہے کہ یہ رہنماء آج بھی بھارت کے ہیروز ہیں مگر پاکستان میں انگریز سامراج کے خلاف لڑنے والا کوئی ہیرو نہیں ہے۔
وہ ایک اور اہم نکتہ بیان کرتے ہیں کہ برطانیہ اور ان کے اتحادی ہندوستان کی فوج سے مکمل تابعداری چاہتے تھے۔ فوج کا احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے کا مطلب برطانوی امپائر کے لیے خودکشی کے مترادف ہوتا۔ برطانیہ کو مسلسل یہ خدشہ تھا کہ جرمنی کا آمر ہٹلر ہندوستان پر حملہ نہ کردے، اس بناء پر ان کا مفروضہ ہے کہ ہندوستان کی تقسیم فوج کا ان کی برطانوی سلطنت سے وفاداری کا امتحان تھا۔ ہندوستان کی فوج میں 50 فیصد کے قریب مسلمان تھے۔ ایک اور فیکٹر یہ تھا کہ رائل انڈین آرمی دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برطانیہ کی ریاست کے لیے بوجھ بن سکتی تھی۔
ان کا خیال ہے کہ برطانیہ کے وزیراعظم چرچل پہلے ہندوستان کی تقسیم کے حق میں نہیں تھا مگر امریکا میں ٹرومین کے صدر بننے کے بعد امریکا کا مسلسل دباؤ تھا کہ ہندوستان کو آزاد کردیا جائے۔ اسی طرح خاص طور پر سوویت یونین کے دنیا کی بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرنے کے بعد برطانیہ کی حکومت کمیونزم کے خلاف ایک قطع اراضی چاہتی تھی۔ برطانوی سرکارکو بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو کے سوشل ازم سے رومانس کا بھی علم تھا۔ جناح اور مسلم لیگ کمیونزم کے شدید مخالف تھے۔ زیدی نے دیگر محرکات کے علاوہ ہندوستان کی تقسیم میں کراچی کی بندرگاہ کی اہمیت کو بھی محرک قرار دیا ہے۔ کراچی خلیج فارس کے جانے والے راستے پر ایک اہم بندرگاہ تھی اور اب بھی ہے۔ برطانیہ نہرو پر مکمل طور پر انحصار نہیں کرسکتا تھا اس بناء پر زیادہ مسلم لیگ کو کراچی کی بندرگاہ سونپ دی گئی۔
مصنف نے 1946میں رائل انڈین میں سپاہیوں اور افسروں کی بغاوت کے بارے میں لکھا ہے کہ برطانوی حکومت کے لیے نیوی کی بغاوت شدید شرمندگی کا باعث تھی۔ مصنف نے ان محرکات کا علاوہ تقسیم کے دیگر محرکات کا ایک جامع تجزیہ کیا ہے۔ انھوں نے بھگت سنگھ، عبدالمجید اور لاہور کے انقلابیوں کی قربانیوں کا ایک باب میں خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لاہور کے حقیقی انقلابیوں کا ذکر کیے بغیر ان کی سوانح عمری مکمل نہیں ہوسکتی۔ ان حریت پسندوں کے ساتھ وہ تاریخی حوالوں سے لکھتے ہیں کہ بھگت سنگھ ان کے ساتھیوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کے لیے کوئی ہندوستانی مجسٹریٹ تیار نہیں تھا۔ لاہور کی انتظامیہ نے اعزازی مجسٹریٹ نواب محمد خان قصوری کو تیار کیا اور قصوری نے بھگت سنگھ کو دی جانے والی پھانسی کی نگرانی کی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ نواب قصوری کو لاہور میں جس جگہ پر گولی ماری گئی تھی، وہاں کبھی لاہور جیل کا پھانسی گھاٹ تھا اور بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو اسی پھانسی گھاٹ میں سزا دی گئی تھی۔
مصنف نے پنجاب کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے انگریز دور میں امرتسر میں جلیانوالا باغ میں انگریز فوج کے ہاتھوں ہندوستانیوں کے قتل عام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے جلیانوالا باغ میں قتل عام کی مذمت میں کوئی نظم نہیں لکھی، مگر آل انڈیا مسلم لیگ کے بیرسٹر محمد علی جناح نے اس سانحے کی شدید مذمت کی تھی۔ انھوں نے 7ستمبر 1930 کو کلکتہ میں اپنی تقریر میں کہا تھا ۔ 1919 میں ہندوستانی شہریوں کے قتل عام کے بعد سے آزادی کا ایک اہم موڑ آگیا تھا۔ شبر زیدی نے 1987 میں بے نظیر بھٹو کی لاہور واپسی پر ان کے فقید المثال استقبال کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بے نظیر بھٹو کا کارواں ہمارے دفتر کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ کراچی آفس کے نعیم لاہور کے دفتر آئے ہوئے تھے۔ بس ایک چھوٹے کلائنٹ کی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لے رہے تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو جلوس میں جانے کا نہیں تھا مگر میں ضبط نہ کرسکا۔ نعیم صاحب ٹوائیلٹ میں تھے تو میں جلوس میں چلا گیا اور میں بھی بے نظیر بھٹو کے کنٹینر میں سوار ہوگیا۔ جب نعیم صاحب واپس آئے تو انھیں پتہ چلا کہ میں بے نظیر بھٹو کے جلوس میں چلا گیا۔ زیدی نے بھارت کے آئین کے مصنف اور دلت رہنماء ڈاکٹر امبیڈ کر کی کتاب کے حوالے سے پاکستان اور فوج کے بارے میں ایک اہم تجزیہ کیا ہے۔
یہ تجزیہ تاریخ کی دیگر کتابوں میں نہیں ملتا۔ شبر زیدی کو 2013 میں سندھ کی نگراں حکومت کا وزیر خزانہ مقررکیا گیا۔ وہ اس تجربے کو دلچسپ انداز میں یوں بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے وزیر کی پاکستانی جھنڈے والی کار نہیں لی اور اپنی کار میں سندھ سیکریٹریٹ پہنچے تو انھیں سیکریٹریٹ میں داخلے کی اجازت نہیں ملی۔ جب انھوں نے سیکریٹری خزانہ سے ملنے کی کوشش کی تو وہ دفتر میں موجود نہیں تھے۔ انھیںچپڑاسی کی نشست پر بیٹھ کر انتظار کرنا پڑا۔ جب شبر زیدی نے اپنے محکمے کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اقدامات کیے تو ایک انتہائی اہم شخصیت سے ان کی ملاقات کرائی گئی اور شبر زیدی کی وزارت تبدیل ہوگئی، وہ ایکسائز کے محکمے کے وزیر بن گئے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے شبر زیدی کو ایف بی آرکا چیئرمین مقرر کیا۔ انھوں نے ٹیکس اصلاحات سختی سے نافذ کرنے کی کوشش کی تو تاجروں نے ہڑتال کردی۔ ان ہڑتالی تاجروں کی دو مذہبی جماعتیں حمایت کررہی تھیں۔ انھوں نے کراچی کے گورنر ہاؤس میں ان کے ساتھ رونما ء ہونے والے شرم ناک واقعے کا بھی ذکر کیا ہے۔ گورنر ہاؤس میں وزیر اعظم اور بانی تحریک انصاف سے تاجروں کے ایک وفد کی ملاقات ہوئی۔ وزیر اعظم نے اس ملاقات کے بعد زیدی سے کہا کہ وہ ان تاجروں سے علیحدہ ملاقات کرلیں۔ یہ ملاقات گورنر ہاؤس کی اینکسی میں ہوئی۔ اس ملاقات میں چار پانچ تاجروں نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی کوشش کی۔
اس کتاب کا ایک باب عظیم ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ان کے ادارے ایس آئی یو ٹی کے بارے میں ہے۔ ایک باب میں ایم کیو ایم کے عروج اور زوال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ شبر زیدی بنیادی طور پر چارٹر اکاؤنٹنٹ ہیں۔ وہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے ڈائریکٹرز میں شامل رہے۔ انھوں نے ایچ بی ایف سی میں اسلامی بینکنگ کے نام پر عام آدمی کے ساتھ ہونے والے برے سلوک کا پردہ چاک کیا ہے اور قرض کی سب شرائط کو ختم کردیا۔ شبر زیدی کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں ان کی بخشش ہوئی تو صرف اسی کارنامے کی بناء پر ہوگی۔
انھوں نے اپنی شرمندگی کا ایک اور واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے پاکستان کو ملنے والے قرض کی شرائط کم کرنے کے لیے مذاکرات کررہے تھے تو شبر نے اس ادارے کی نمایندہ کے سامنے یہ دلیل دی کہ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اس بناء پر اسے رعایت دی جانی چاہیے۔
موصوفہ نے کہا کہ ’’ ہم سے تو کسی ایٹمی طاقت نے آج تک قرض لیا ہی نہیں۔‘‘ انھوں نے اس کتاب میں اپنی زندگی کا ایک دردناک واقعہ لکھا ہے کہ رضویہ سوسائٹی میں ان کے معمر عزیز ڈاکٹر کو فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ شبر زیدی نے اس کتاب میں کئی لوگوں کا ذکر کیا ہے جن سے وہ متاثر ہوئے ۔ ان افراد میں وہ غریب ٹیلی فون آپریٹر خاتون بھی شامل ہیں جو غربت سے لڑتے ہوئے اپنے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔ اس ذکر سے شبر کی انسان دوستی کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔ اس کتاب میں بہت کچھ ہے۔ دراصل یہ کتاب پاکستان کی تاریخ کا آئینہ ہے۔ یہ سوانح عمری ایک حقیقی سیکولر انسان کی داستان ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہندوستان کی تقسیم بے نظیر بھٹو لکھا ہے کہ ان کے ساتھ کرتے ہوئے انھوں نے مسلم لیگ اس کتاب بناء پر کا ایک کے بعد کے لیے ہیں کہ کیا ہے کا ذکر اور ان
پڑھیں:
کراچی کے سفاری پارک میں مختلف جانوروں کے 15 بچوں کی پیدائش
کراچی میں قائم سفاری پارک میں گھوڑے، سندھ آئی بیکس، چیتل، مفلون، بلیک بک اور دیگر جنگلی جانوروں کے 15 بچوں کی پیدائش ہوئی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی نے سفاری پارک میں ایک گھوڑے، سندھ آئی بیکس، چیتل، مفلون، بلیک بَک اور دیگر جنگلی جانوروں کی پیدائش کو ایک نہایت خوش آئند اور اہم پیشرفت قرار دیا ہے، یہ اضافہ پارک میں جنگلی حیات کے لیے زیادہ صحت مند، محفوظ اور پائیدار ماحول فراہم کرنے کی مسلسل کاوشوں کا اہم سنگِ میل ہے۔
نومولود جانوروں کا ویٹرنری ٹیم نے تفصیلی طبی معائنہ کیا اور ڈاکٹروں نے بچوں کو مکمل صحت مند قرار دیا جبکہ ان کی دیکھ بھال کے لیے انتظامیہ کی جانب سے خصوصی اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔
ترجمان کے ایم سی دانیال سیال نے بتایا کہ میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی ہے کہ نومولود جانوروں کے لیے بہتر نگہداشت اور پائیدار رہائشی ماحول کو یقینی بنایا جائے۔
میئر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے اس خوش کن پیشرفت پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ سفاری پارک میں 15 جنگلی جانوروں کی پیدائش ہوئی ہے، ان کی آمد نہ صرف پارک کی خوبصورتی اور حیاتیاتی تنوع میں اضافہ کرتی ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ پارک میں ان کے لیے صحت مند اور سازگار ماحول موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوششیں جنگلی حیات کی افزائش اور مجموعی ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کے ہمارے عزم کی عکاس ہیں، یہ لمحہ سفاری پارک، کراچی کے شہریوں اور تمام جنگلی حیات کے شائقین کے لیے باعثِ خوشی ہے، اس موقع کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے میئر کراچی نے نومولود جانوروں کے لیے نام رکھنے کی تقریب اور باضابطہ جشن کا اہتمام کیا جائے گا۔
میئر کراچی نے کہا کہ ہمیں ان ننھے مہمانوں کی آمد کا جشن منانا چاہیے تاکہ ہم اپنی محبت اور دیکھ بھال کا اظہار کر سکیں، جنگلی حیات بھی انسانوں کی طرح احترام اور تحفظ کی مستحق ہے اور یہ تقریب ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہمارے عزم کا مظہر ہے۔
کے ایم سی ترجمان کے مطابق حالیہ پیدائش میں ایک مفلون، 4 سندھ آئی بیکس، 4 بلیک بَک،2 چیتل (ہُرَن)،ایک گھوڑا،2 فیلو ڈئیر اور ایک سفید فیلو ڈئیرشامل ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ سفاری پارک کی سہولیات میں مزید بہتری، بریڈنگ پروگراموں میں توسیع اور عالمی معیار کے ماحول کی تشکیل جاری رکھی جائے گی تاکہ جنگلی حیات بھرپور طریقے سے پھل پھول سکے۔